غزل برائے اصلاح -راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا ۔ از محمد اظہر نذیر

راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا

میں پیاسا نہیں ہوں ادا کا مگر
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے کیوں
ہاں مگر جیسے دوست نما سا لگا

میں بھی تو خفا تھا دوستوں سے کئی
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا

مشترک بات کچھ تو گماں میں آئی
مجھکو وہ بھی اگر دِل جلا سا لگا

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پیا سا لگا​

اساتزہ کرام،
صریر خامہء وارث میں ایک بحر دیکھی " بحر متدارک" اسی کی مشق کرتے ہوے یہ کچھ وارد ہو گیا، فرصت میں دیکھیے تو صحیع بھی ہے یا نہیں
ممنون
اظہر
 

مغزل

محفلین
اچھی کوشش ہے دوست، کئی مصرعے گربڑ پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں ان پر نظر رکھنی پڑے گی ، وگرنہ اوزان خطا ہونے پر غزل کے اوسان بھی خطا ہوسکتے ہیں ۔تخلیق پر مبارکباد ، بابا جانی اور وارث صاحب کاانتظار کرتے ہیں ، ارے ہاں اپنے سخنور ( فرخ منظور صاحب) بھائی خاصے دنوں سے گریز برت رہے ہیں انہیں زحمت دیں ( ذپ کرکے ) فاتح بھائی تو آتے ہی کم کم ہیں اور فاتحانہ چال سے ،۔ بابا جانی اور وارث صاحب کی غیر موجودگی ( موجودگی میں بھی مگر جناب خاصے کم گو واقع ہوئے ہیں ) میں سخنور صاحب ہمارے لیے بہترین اثاثہ ہیں ۔والسلام
 

فاتح

لائبریرین
مطلع عمدہ ہے۔ باقی اشعار کے مفاہیم و معانی پر کچھ نہیں کہوں گا کہ پہلے وزن درست ہونا چاہیے۔

میں پیاسا نہیں ہوں ادا کا مگر
"پیاس" یا "پیاسا" کی ی تقطیع میں شمار نہیں ہوتی یوں "پیاسا" کو بر وزن فعلن "پاسا" باندھا جاتا ہے۔

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے کیوں
"کیوں" کی ی کا حال بھی وہی ہے کہ وزن میں شمار نہیں ہوتی۔

ہاں مگر جیسے دوست نما سا لگا
آپ نے شاید "دوست" کو "دوسَت" باندھا ہے جو غلط ہے، دوست اور گوشت وغیرہ بر وزن فعل دوس اور گوش باندھے جاتے ہیں۔

میں بھی تو خفا تھا دوستوں سے کئی
"خفا تھا" کو "تھا خفا" کر دیا جائے تو مصرع وزن میں آ جاتا ہے۔

مشترک بات کچھ تو گماں میں آئی
"آئی" کو "اَئی" باندھنا غلط ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اچھی کوشش ہے دوست، کئی مصرعے گربڑ پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں ان پر نظر رکھنی پڑے گی ، وگرنہ اوزان خطا ہونے پر غزل کے اوسان بھی خطا ہوسکتے ہیں ۔تخلیق پر مبارکباد ، بابا جانی اور وارث صاحب کاانتظار کرتے ہیں ، ارے ہاں اپنے سخنور ( فرخ منظور صاحب) بھائی خاصے دنوں سے گریز برت رہے ہیں انہیں زحمت دیں ( ذپ کرکے ) فاتح بھائی تو آتے ہی کم کم ہیں اور فاتحانہ چال سے ،۔ بابا جانی اور وارث صاحب کی غیر موجودگی ( موجودگی میں بھی مگر جناب خاصے کم گو واقع ہوئے ہیں ) میں سخنور صاحب ہمارے لیے بہترین اثاثہ ہیں ۔والسلام
مغل صاحب! آپ کی نظریں نیچے دیکھنے سے احتراز برتتی ہیں شاید ورنہ ہم تو اکثر یہاں موجود ہوتے ہیں۔:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ مغل صاحب خاکسار کو یاد کرنے کے لئے (خاکسار کہتے ہوئے ڈر ہی لگتا ہے کہ وارث صاحب کہیں یہ نہ کہیں کہ میرا نام کیوں برت رہے ہو) بہرحال، مغل صاحب میں اس قابل کہاں کہ کسی کے سخن کی اصلاح کر سکوں میں تو خود اصلاح لینے والوں میں سے ہوں۔ صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ کچھ اشعار میں وزن کی گڑ بڑ لگ رہی ہے۔ اصلاح وارث صاحب، فاتح صاحب اور اعجاز صاحب کا ہی کام ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ :)
 
راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا

میں تو شیدا نہیں ہوں ادا کا مگر
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے مگر
بس مجھے جیسے اپنا بنا سا لگا

میں بھی توتھا خفا دوستوں سے کئی
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا

مشترک بات کچھ تو گماں میں ہو گی
مجھکو وہ بھی اگر دِل جلا سا لگا

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پیا سا لگا
محترم فاتح صاحب،
خوش نصیبی ہے کہ اتنے اساتزہ کی رہ نمائی حاصل ہو رہی ہے- جزاک اللہ خیر
ایک کوشش اور کی ہے دیکھیے تو؟
والسلام
اظہر
 

فاتح

لائبریرین
مشترک بات کچھ تو گماں میں ہو گی
"ہو گی" میں ہو کا واؤ گرانا درست نہیں۔ باقی غزل کے اشعار کم از کم عروضی طور پر درست ہیں۔ گو کہ معنوی اعتبار سے ابھی بے شمار سقم ہیں۔
 
راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا

میں تو شیدا نہیں ہوں ادا کا مگر
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے مگر
بس مجھے جیسے اپنا بنا سا لگا

میں بھی توتھا خفا دوستوں سے کئی
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا

مشترک بات کچھ تو گماں میں رکھی
مجھکو وہ بھی اگر دِل جلا سا لگا

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پیا سا لگا​

محترم اُستاد،
کیا "رکھی" مناسب رہے گا؟
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
عروض کے حساب سے اب درست ہے غزل لیکن معنی کے اعتبار سے ک چھ کمی ہے۔
میں تو شیدا نہیں ہوں ادا کا مگر
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا
لفظ ادا کا دونوں مصرعوں میں اچھا نہیں لگ رہا۔

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے مگر
بس مجھے جیسے اپنا بنا سا لگا
دوسرا مصرع؟ بیان کے اعتبار سے غلط ہے۔

میں بھی توتھا خفا دوستوں سے کئی
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا
پہلا مصرع یوں کیا جا سکتا ہے
میں‌تو ناراض تھا صرف احباب سے

مشترک بات کچھ تو گماں میں رکھی
مجھکو وہ بھی اگر دِل جلا سا لگا
بے معنی ہے یا کم از کم مجھ کو سمجھ میں نہیں آیا۔

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پیا سا لگا
اس کا مطلب بھی واضح نہیں؟ اس کے علاوہ ’پیاسا‘ کے وزن پر بات ہو چکی ہے۔
 
راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا

میں تو شیدا نہیں ہوں بلا کا مگر
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے مگر
بس مجھے جیسے اپنا ہوا سا لگا

میں‌تو ناراض تھا صرف احباب سے
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا

مشترک بات دونوں ہی میں تھی آخر
مجھکو وہ بھی اگر دِل جلا سا لگا

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے کھرا سا لگا​

اُستادِ گرامی،
شاید کچھ بہتر ہوی ہو اب؟
ممنون
اظہر
 

مغزل

محفلین
شکریہ فاتح بھیا، دراصل یہ بھی طریقہ ِ واردات ہے آپ کو چھیڑنے کا۔ دیکھیے کیسے سرپٹ گھوڑے دوڑاتے آگئے ، بہت شکریہ
فاتح بھیا، سخنور بھائی اور بابا جانی بہت شکریہ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سلامتی عطا فرمائے آمین ۔والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اراہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا
اب اچھا شعر ہو گیا ہے۔

میں تو شیدا نہیں ہوں بلا کا مگر
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا
یہ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا، یہاں ’بلا‘ سے کیا مراد لی جائے؟

وہ مرا کچھ نہیں تھا، نہ جانے مگر
بس مجھے جیسے اپنا ہوا سا لگا
اپنا ہوا سا‘ بھی اچھا اظہار نہیں ہے، اس کے علاوہ پہلے یا تو اس کا احساس نہیں تھا، یا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا، کہ ’پہلے مصرع میں "مگر" بمعنی ’نہ‘ ستعمال کیا گیا ہے۔ یہ استعمال بھی غلط ہے۔

میں‌تو ناراض تھا صرف احباب سے
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا
درست۔۔

مشترک بات دونوں ہی میں تھی آخر
مجھکو وہ بھی اگر دِل جلا سا لگا
یہ اب بھی نہیں آیا میری ناقص سمجھ میں۔ اظہار کی خرابی ہی وجہ ہو سکتی ہے۔

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے کھرا سا لگا
یہ اب بھی سمجھ سے باہر ہے، صرف پیاسا کی جگہ ’کھرا سا‘ کر دیا گیا ہے، لیکن کیا ‘پیاسا ‘ اور ’کھرا‘ ہم معنی ہیں۔ یعنی ان بھی اس شعر کا وہی مطلب ہے جو پہلے تھا، یا بالکل الٹا ہو گیا ہے۔ کیا کہنا چاہتے ہو؟
 

فاتح

لائبریرین
جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پیا سا لگا
اس کا مطلب بھی واضح نہیں؟ اس کے علاوہ ’پیاسا‘ کے وزن پر بات ہو چکی ہے۔
میں نے مقطع میں "پیا" اور "سا" میں سپیس پڑھ کر اسے "پیا یعنی محبوب جیسا" خیال کیا تھا جو باعتبارِ وزن درست تھا۔ ہاں معانی پر کچھ نہیں کہا میں نے فی الحال۔
 
راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا

میں تو شیدا نہیں تھا کبھی حسن کا
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا

وہ مرا کچھ نہیں تھا، تو تم ہی کہو
کِس لئے مجھ کو اپنا ذرا سا لگا

میں‌تو ناراض تھا صرف احباب سے
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا

میں تو اپنے دکھوں سے پریشان تھا
مجھکو وہ بھی مگر دِل جلا سا لگا

جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پِیا سا لگا​


گرامی قدر اساتذہ،
مقطع میں اجازت ہو تو پِیا استعمال کر لوں، نہیں تو راہ نمائی کیجیے کیا مناسب رہے گا
مشکور
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
فاتح کی بات درست ہے۔ اب اکثر اشعار سمجھ میں آ رہے ہیں۔ لیکن
وہ مرا کچھ نہیں تھا، تو تم ہی کہو
کِس لئے مجھ کو اپنا ذرا سا لگا
میں اب بھی وہ بات مکمل نہیں ہو رہی ہے جو اظہر کہنا چاہ رہے ہیں۔ ’ذرا اپنا سا لگا‘ کہنا چاہ رہے ہو، لیکن مطلب یہ نکل رہا ہے کہ بہت کم، تھوڑا سا ہی اپنا لگا، باقی غیر ہی لگا!!!
 
Top