کتب احادیث کی (credibility) معتبریت

یہاں پر ماشاءاللہ کافی علم والےاشخاص موجود ہیں،اس لیے ایسے سوال کی جسارت کر رہاہوں، کہ کیا کوئی بھائی اس بات پر روشنی ڈالے گا کہ کتب احادیث کن ذریعوں سے ہمارے پاس پہنچیں؟
 

باسم

محفلین
محدثین عظام نے ہر حدیث کو خود راوی سے سننے کا اہتمام کیااس کیلیے اپنی عمروں کا بڑا حصہ دور دراز کے مختلف علاقوں کے سفروں میں گزارا پھر آنے والوں کو اس تکلیف سے بچانے کیلیے اپنی خودسنی ہوئی احادیث کو کتابی شکل میں محفوظ کر لیا
اب آنے والے ان سے احادیث خود سنتے اور سن کر لکھتے پھر لکھنے کے بعد استاذ کی کتاب سے موازنہ کرلیتے اور اغلاط کو درست کرتے اس طرح کتاب کی پہلی اشاعت ہوتی بعض شاگرد یہ عمل ایک سے زائد بار دہراتے جس سے ان کےنسخے کو دوسروں پر صحت کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہوجاتی
مگر اب بھی اس نسخے سے شاگرد کو حدیث بیان کرنے کی اجازت نہ ہوتی جب تک کہ استاذ کی طرف سے اجازت نہ مل جائے
اجازت کے بعد یہ سلسلہ بھی اسی طرح آگے بڑھتا رہا
اور کتابت کے بعد یہ نسخے تعداد میں تواتر کی حد کو پہنچ گئےاور ان کی صاحب کتاب کی طرف نسبت کو یقینی مانا گیا
یہانتکہ چھاپہ خانے وجود میں آئے تب بھی ہر کوئی انہیں چھاپ نہیں سکتا تھا اور اس کا چھپا ہوا معتبر نہیں جانا جاتا تھا جب تک کہ قابل اعتماد اورمعروف ماہر حدیث اس کی توثیق نہ کرلیتا اورموجود نسخوں میں قدیم ترین نسخوں کے ساتھ اس کا موازنہ نہ کرلیا جاتا
اس کے ساتھ ساتھ ان کتب کی شروحات بھی ہر زمانے میں لکھی جاتی رہیں جن میں یہ احادیث بھی لکھی جاتی تھیں
مگر اس سب کے باوجود آج تک امت کا اہتمام ہے کہ احادیث کتاب سے پڑھ لینے کے بجائےمحدث سے سنیں اور ایسے محدث سے سنیں جس نے خود سنا ہو، اسے استاذ کی اجازت ہو،اس کا مصنف تک واسطہ کم ہو اور یہ تسلسل موجودہ دور کے محدثین سے ان کتب کے مصنفین تک اور مصنفین سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک براہ راست بہت سے طرق کے ساتھ محفوظ ہے۔
 

سویدا

محفلین
اس کے لیے محفل پر پوچھنے کے بجائے حدیث اور اصول حدیث سے متعلق مستند کتابوں‌کا مطالعہ کیجیے
یا اس فن کے ماہر حضرات کے پاس جاکر زانوئے تلمذطے کری‫‫ں
اسلامی علوم کے ساتھ سب سے بڑی بد قسمتی یہی رہی کہ مجھ جیسے ہرجاہل نے اس کو تختہ مشق بنایا اور آج اپنے تئیں‌ہر کوئی مجتہد بنا بیٹھا ہے
ہمارے بچے کو اللہ نہ کرے کینسر ہوتو ماہر ڈاکٹر کے پاس جاکر پوچھتے ہیں‌جو اس فن کا ماہر اور اسپیشلسٹ ہو کسی عطائی ڈاکٹر یا راہ چلتے عامل سے مشورہ نہیں‌لیتے
لیکن اسلامی علوم پر جس کا جو جی چاہے وہ بول دے اس پر کوئی پائریسی نہیں‌ہے کوئی پابندی نہیں‌ہے ۔
آپ حدیث اصول حدیث کے ماہرین سے اس کا سوال کریں‌تو وہ زیادہ تسلی اور تشفی بخش جواب دیں‌گے
 
اس کے لیے محفل پر پوچھنے کے بجائے حدیث اور اصول حدیث سے متعلق مستند کتابوں‌کا مطالعہ کیجیے
یا اس فن کے ماہر حضرات کے پاس جاکر زانوئے تلمذطے کری‫‫ں
اسلامی علوم کے ساتھ سب سے بڑی بد قسمتی یہی رہی کہ مجھ جیسے ہرجاہل نے اس کو تختہ مشق بنایا اور آج اپنے تئیں‌ہر کوئی مجتہد بنا بیٹھا ہے
ہمارے بچے کو اللہ نہ کرے کینسر ہوتو ماہر ڈاکٹر کے پاس جاکر پوچھتے ہیں‌جو اس فن کا ماہر اور اسپیشلسٹ ہو کسی عطائی ڈاکٹر یا راہ چلتے عامل سے مشورہ نہیں‌لیتے
لیکن اسلامی علوم پر جس کا جو جی چاہے وہ بول دے اس پر کوئی پائریسی نہیں‌ہے کوئی پابندی نہیں‌ہے ۔
آپ حدیث اصول حدیث کے ماہرین سے اس کا سوال کریں‌تو وہ زیادہ تسلی اور تشفی بخش جواب دیں‌گے

کیا آپ کے خیال میں‌یہاں‌جو ساتھی دین کے بارے بات کرتے ہیں‌وہ کم علم ہیں‌جو کسی بات کا تسلی بخش جواب نہیں‌دے سکیں گے (میرے خیال میں‌تو ہرگز ایسا نہیں ہے)
دورسرا میرا مقصد یہ ہے سوال پوچھنے کا کہ ایک گروہ ایسا ہے جو کہ احادیث کو ماننے سے مکمل یا جزوی طور پر انکاری ہے،تو یہ بھی واضح ہوجائے کہ کتب احادیث کو محفوظ کرنے کیلئے کون کون سے طریقے اختیار کیے گئے اور اگر پرانی کتب محفوظ ہیں‌تو کہاں کہاں موجود ہیں۔‌اور اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں جو لوگ عام طور پر انٹرنیٹ پر دینی مباحث پڑھتے ہیں‌ان کےلیے صیح اور غلط کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔
اور غم روزگار کے بعد بندہ کسی استاد سے علم حاصل کرنے کے بارے میں سوچ ہی سکتا ہے اس پر عمل تقریبا ناممکن ہی ہوجاتا ہے۔
 
ان کتب روایات کی معتبریت کے لئے درج ذیل تواریخ بھی اچھی روشنی ڈالتی ہیں۔ ان میں‌سے تمام حوالے لنکس کو کلک کرکے چیک کئے جاسکتے ہیں۔ یہ وضح کردینا چاہتا ہوں کہ کمزور دل حضرات اس کو نہ پڑھیں ۔

اسلام کی مشہور شخصیتوں کے ادوار

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 570-632
حضرت ابوبکر صدیق 573-634
حضرت عمر فاروق 583-644
حضرت عثمان 583-656
حضرت علی ابن طالب 600-661

شیعہ امام:
1۔ علی ابن طالب 600-661
2۔ حسن بن علی 625-670
3۔ حسین بن علی 626-680
4۔ زین العابدین بن حسین 659-712
5۔ محمد باقر بن زین 676-731
6۔ جعفر صادق بن باقر 702-765
7۔ موسی کاظم بن جعفر 746-799
8۔ علی رضا بن موسی کاظم 765-818
9۔ محمد جواد تقی بن رضا 811-835
10۔ علی ھادی نقی بن تقی 846-868
11۔ حسن عسکری بن نقی 846-870
12- ابو القاسم محمد المنتظر امام الزماں المہدی (اثناء العشری حضرات یقین رکھتے ہیں کی و 254 یا 255 ہجری میں پیدا ہوکر4 یا 5 سال کی عمر میں غائب ہوگئے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونگے )

حضرت معاویہ 604-680
یزید بن معاویہ 645-683

ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری - اولین مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع

ایرانی النسل شیعہ مؤرخین اور محدثین کی تارخ‌وفات:
شیخ محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی 329ھ 941ع
شیخ صدوق ابو جعفر بن علی طبرسی 381ھ 993ع
شیخ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی 460ھ 1071ع

فقہہ کے امام(Jurists)، تاریخ وفات:
امام مالک ابن انس 179ھ
امام ابو حنیفہ 150ھ
امام احمد بن حنبل 241ھ
امام شافی 204ھ

ان تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ابن طبری نے پہلی پہل تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی مشہور تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی مستند ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ روایت بھی سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی مشہور کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ ان دونوں فرقوں‌کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔

یہ حقیقت کافی نویلی ہے نو کے نو مشہور محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ اتفاق سے ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔

مسلمانوں نے فارس 633-651 کے درمیان فتح کیا اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ سعد ابی وقاص کی قیادت میں‌لڑی جانے والی جنگ قادسیہ سے ہوا۔ لیکن زورستانی مذہب ختم نہ ہوا بلکہ اس ریفرنس سے لگتا ہے کہ ' ایک نمبر دو اسلام ' میں،تبدیل ہو گیا۔ لگ بھگ 200 سال بعد سامنے آنے والے اس نمبر دو اسلام پر ۔۔۔۔ زورستانی مذہب اور اس کی کتاب "پاژند " کے گہرے اثرات کے علاوہ اسرائیلی اور عیسائی روایات کے اثرات ان کتب روایات میں بہت واضح ہیں۔

اس آرٹیکل کے تمام تواریخ‌ اور بیانات حوالہ جات کے ساتھ فراہم کئے گئے ہیں۔ مناسب جگہ پر کلک کرکے ان حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی فرمائیں، بخوشی درست کروں گا۔

والسلام
 

باسم

محفلین
پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی مشہور کتب احادیث جو اب بھی مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں۔
1۔ الموطا (امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ ) 93۔179 ہجری
2۔ المسند(امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) 241 ہجری
3۔ مصنف عبدالرزاق 11 جلد (عبدالرزاق بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ) 136۔221 ہجری
4۔ مصنف (ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ ) 150 ہجری
5۔ جامع (معمر بن راشد رحمۃ اللہ علیہ ) 95۔153 ہجری
6۔ کتاب الآثار(امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ) 150 ہجری
7۔ السہدہ(محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ) 151 ہجری
8۔ کتاب الزہد(عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ) 118۔181 ہجری
9۔ کتاب الزہد 3 جلد (وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ ) 196 ہجری
10۔ المسند(زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ ) 76۔122 ہجری
11۔ المسند(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
12۔ السیر(عبدالرحمٰن اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ) 88۔157 ہجری
13۔ المسند(عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ) 118۔181 ہجری
14۔ المسند(ابوداؤد طیالسی رحمۃ اللہ علیہ ) 204 ہجری
15۔ کتاب الام(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
16۔ السنن(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
واضح رہے یہ فہرست اس سنہرے دور کی مطبوعہ کتب کا ایک معروضی جائزہ ہے حتمی اور مکمل فہرست نہیں ہے بلکہ تحقیق پر مزید کتب کے اضافے کا امکان غالب ہے اور ان کتب کا اسلوب پختہ اور ترقی یافتہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اپنے موضوع کی اولین کتب نہیں ہیں اور چند ایک کتب دس سے زائد ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں اور ان کی ترتیب بتاتی ہے کہ ان دنوں میں تدوین حدیث مستحکم اور ترقی یافتہ مرحلہ میں پہنچ چکی تھی۔
ان کتب سے اس دور کے اعلٰی ترین علمی اور تحقیقی کاموں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کتبِ تاریخ اورمؤرخین موضوع سے تعلق نہیں رکھتے
 
پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی مشہور کتب احادیث جو اب بھی مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں۔
1۔ الموطا (امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ ) 93۔179 ہجری
2۔ المسند(امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) 241 ہجری
3۔ مصنف عبدالرزاق 11 جلد (عبدالرزاق بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ) 136۔221 ہجری
4۔ مصنف (ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ ) 150 ہجری
5۔ جامع (معمر بن راشد رحمۃ اللہ علیہ ) 95۔153 ہجری
6۔ کتاب الآثار(امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ) 150 ہجری
7۔ السہدہ(محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ) 151 ہجری
8۔ کتاب الزہد(عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ) 118۔181 ہجری
9۔ کتاب الزہد 3 جلد (وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ ) 196 ہجری
10۔ المسند(زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ ) 76۔122 ہجری
11۔ المسند(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
12۔ السیر(عبدالرحمٰن اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ) 88۔157 ہجری
13۔ المسند(عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ) 118۔181 ہجری
14۔ المسند(ابوداؤد طیالسی رحمۃ اللہ علیہ ) 204 ہجری
15۔ کتاب الام(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
16۔ السنن(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
واضح رہے یہ فہرست اس سنہرے دور کی مطبوعہ کتب کا ایک معروضی جائزہ ہے حتمی اور مکمل فہرست نہیں ہے بلکہ تحقیق پر مزید کتب کے اضافے کا امکان غالب ہے اور ان کتب کا اسلوب پختہ اور ترقی یافتہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اپنے موضوع کی اولین کتب نہیں ہیں اور چند ایک کتب دس سے زائد ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں اور ان کی ترتیب بتاتی ہے کہ ان دنوں میں تدوین حدیث مستحکم اور ترقی یافتہ مرحلہ میں پہنچ چکی تھی۔
ان کتب سے اس دور کے اعلٰی ترین علمی اور تحقیقی کاموں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کتبِ تاریخ اورمؤرخین موضوع سے تعلق نہیں رکھتے
کیا یہ کتب اصلی حالت میں موجود ہیں؟ اگر ہیں‌تو کون کون سی لائبریریوں میں‌ہیں۔ اگر اس بارے میں بھی آپ کے پاس کچھ معلومات ہوں‌تو انہیں‌بھی شئیر کریں۔
 
یہ حقیقت کافی نویلی ہے نو کے نو مشہور محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ اتفاق سے ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔
ہر کسی کا کام بولتاہے،اگر وہ ایرانی نسل تھے تو بھی ان احادیث کی کتابوں‌کو اولیت اس وجہ سے نہیں دی جاتی کہ یہ ایرانیوں نے لکھی تھیں،بلکہ ان لوگوں نے احادیث کو جمع کرنے کا معیار اتنا اعلیٰ رکھا تھا کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکا ،اور یہ تو نہیں‌تھا کہ اس وقت کوئی اور محدث نہ ہو اور انہوں نے یا بعد میں آنے والوں نے ان کتابوں کی خامیوں کو نظر اندازکر دیا ہو۔بلکہ معیار ہی اتنا اونچا رکھا گیا کہ باقیوں کو ان کو ایک معیار بنانا پڑھا ،اور انہوں نے جومعیار بنایا وہ آج بھی کوئی چھپا ہوا نہیں ہے کہ انہوں نے کونسی کسوٹی رکھی جس پر پرکھ کر وہ احادیث کو صیح‌مانتے تھے۔
 
یہودیوں کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہ ماننے کی وجہ بھی ایسی ہی ضد ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ نبی بنی اسمعیل سے کیسے پیدا ہو گئے انھیں تو بنی اسحق یعنی بنی اسرائیل سے پیدا ہونا چاہیے تھا۔
 

dxbgraphics

محفلین
ان کتب روایات کی معتبریت کے لئے درج ذیل تواریخ بھی اچھی روشنی ڈالتی ہیں۔ ان میں‌سے تمام حوالے لنکس کو کلک کرکے چیک کئے جاسکتے ہیں۔ یہ وضح کردینا چاہتا ہوں کہ کمزور دل حضرات اس کو نہ پڑھیں ۔

اسلام کی مشہور شخصیتوں کے ادوار

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 570-632
حضرت ابوبکر صدیق 573-634
حضرت عمر فاروق 583-644
حضرت عثمان 583-656
حضرت علی ابن طالب 600-661

شیعہ امام:
1۔ علی ابن طالب 600-661
2۔ حسن بن علی 625-670
3۔ حسین بن علی 626-680
4۔ زین العابدین بن حسین 659-712
5۔ محمد باقر بن زین 676-731
6۔ جعفر صادق بن باقر 702-765
7۔ موسی کاظم بن جعفر 746-799
8۔ علی رضا بن موسی کاظم 765-818
9۔ محمد جواد تقی بن رضا 811-835
10۔ علی ھادی نقی بن تقی 846-868
11۔ حسن عسکری بن نقی 846-870
12- ابو القاسم محمد المنتظر امام الزماں المہدی (اثناء العشری حضرات یقین رکھتے ہیں کی و 254 یا 255 ہجری میں پیدا ہوکر4 یا 5 سال کی عمر میں غائب ہوگئے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونگے )

حضرت معاویہ 604-680
یزید بن معاویہ 645-683

ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری - اولین مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع

ایرانی النسل شیعہ مؤرخین اور محدثین کی تارخ‌وفات:
شیخ محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی 329ھ 941ع
شیخ صدوق ابو جعفر بن علی طبرسی 381ھ 993ع
شیخ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی 460ھ 1071ع

فقہہ کے امام(Jurists)، تاریخ وفات:
امام مالک ابن انس 179ھ
امام ابو حنیفہ 150ھ
امام احمد بن حنبل 241ھ
امام شافی 204ھ

ان تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ابن طبری نے پہلی پہل تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی مشہور تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی مستند ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ روایت بھی سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی مشہور کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ ان دونوں فرقوں‌کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔

یہ حقیقت کافی نویلی ہے نو کے نو مشہور محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ اتفاق سے ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔

مسلمانوں نے فارس 633-651 کے درمیان فتح کیا اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ سعد ابی وقاص کی قیادت میں‌لڑی جانے والی جنگ قادسیہ سے ہوا۔ لیکن زورستانی مذہب ختم نہ ہوا بلکہ اس ریفرنس سے لگتا ہے کہ ' ایک نمبر دو اسلام ' میں،تبدیل ہو گیا۔ لگ بھگ 200 سال بعد سامنے آنے والے اس نمبر دو اسلام پر ۔۔۔۔ زورستانی مذہب اور اس کی کتاب "پاژند " کے گہرے اثرات کے علاوہ اسرائیلی اور عیسائی روایات کے اثرات ان کتب روایات میں بہت واضح ہیں۔

اس آرٹیکل کے تمام تواریخ‌ اور بیانات حوالہ جات کے ساتھ فراہم کئے گئے ہیں۔ مناسب جگہ پر کلک کرکے ان حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی فرمائیں، بخوشی درست کروں گا۔

والسلام

فاروق بھائی کیا پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ اکثر خود آپ حدیث کی credibilityکے حوالے سے نفی بیانات دیتے ہیں لیکن خود ویکی پیڈیا اور ڈاکومنٹری پر زیادہ یقین رکھتے ہیں
 
آج ایک عجیب مخمصے میں پڑھ گیا ہوں،مہوش علی کے متعہ والے مراسلے میں جس حدیث کا لنک دیا گیا تھا ، اس کو سوچا کہ اپنے پاس دیکھوں(میرے پاس ایزی قرآن حدیث ہے ) ، پہلے تو مل ہی نہیں‌رہا تھا حدیث نمبر 4156 تھا لیکن جب وہ چیک کیا تو کوئی اور حدیث تھی خیر تھوڑا آگے گیا تو 4182 نمبر پر وہ حدیث مل گئی۔پھر میں نے دیکھا تو ایزی قرآن حدیث میں ٹوٹل احادیث کی تعداد 7071 ہے اور اس سائٹ پر یہ تعداد 7006 ہے۔ میرے پاس پی ڈی ایف میں بھی مولانا محمد داؤد دراز صاحب کی صیح‌بخاری موجود ہے اس کو چیک کیا تو اس میں یہ تعداد 7563 ہے۔
میرے پاس علامہ وحید الزمان صاحب کی چھ جلدوں‌میں " تیسیرالباری ترجمہ تشریح‌ بخاری شریف" کتابی شکل میں‌بھی موجود ہے، اس کو دیکھا تو اس میں‌سے ایک جلد کم تھی کوئی بھائی پڑھنے کیلیے مانگ کر لے گیا ہے اس لیے اس کی مکمل تعداد نہیں‌دیکھ سکا لیکن تجسس پڑگیا ہے تو چیک تو ضرور کروں گا۔
لیکن اس سے فرق نہیں‌پڑتا میرے ذہن میں جو سوال اٹھ رہا ہے کہ اب میں کیسے فیصلہ کروں کہ کونسی بخاری شریف صیح ہے ، کس میں‌حدیث کم ہیں‌اور کس میں زیادہ ،کیا ہمارے پاس کوئی ایسی کتاب ہے جو ہم یقین سے کہ سکیں‌کہ یہ وہی کتاب ہے جو امام بخاری رحمتہ علیہ نے لکھی تھی ، تاکہ باقیوں‌کو ان سے پرکھا جا سکے۔
 

سویدا

محفلین
حدیث سوفٹ وئیر پر کامل اعتماد کے بجائے کتابوں‌کے نسخوں‌پر اعتماد کیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا

صحیح البخاری بیروت کا جو کتابی نسخہ ہے اس کو بھی دیکھیں
 

شاکر

محفلین
دراصل بعض ناشرین مکرر احادیث‌کو نکال دیتے ہیں۔ نیز ایک مسئلہ ترقیم کا بھی ہے۔ دارالسلام کی ترقیم الگ ہے اور دیگر ادارہ جات اپنی الگ ترقیم استعمال کرتے ہیں۔
 
بخاری شریف کا صحیح ترین کتابی نسخہ ترکی سے شائع ہوا ہے
بڑے سائز میں‌پاکستان میں‌بہت اکا دکا ہی ملتا ہے
بڑے سائز میں مطلب اس میں ان سے زیادہ احادیث ہیں ؟ لیکن ہمارے پاس وہ کیا معیار ہے کہ ترکی کا نسخہ صیح‌ہے۔میرا مطلب یہ ہے کہ ہم کس نسخے کو صیح کہ سکتے ہیں‌اور کیوں ؟
حدیث سوفٹ وئیر پر کامل اعتماد کے بجائے کتابوں‌کے نسخوں‌پر اعتماد کیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا
صحیح البخاری بیروت کا جو کتابی نسخہ ہے اس کو بھی دیکھیں
:confused::confused::confused::confused::confused:
مطلب برصغیر میں‌جو احادیث کی کتابیں‌ملتی ہیں‌وہ ہر کسی کی اپنی پسند کی حدیثیں‌ہیں‌؟
اور بیروت کے نسخے کیلیے بھی وہ سوال برقرار رہتا ہے کہ اسے کس نے جانچ کر سرٹیفکیٹ دیا ہے کہ وہ وہی کتاب ہے جو امام بخاری نے تحریر کی ؟
 

سویدا

محفلین
مجھے پہلے نام یاد نہیں‌آرہا تھا اب یاد آگیا
صحاح ستہ کے وہ نسخے جو مصطفی دیب البغا کی تحقیق اور تحشیے کے ساتھ ہیں‌وہ سب سے بہترین اور مستند ہیں‌
لیکن اس کو نیٹ پر تلاش کے بجائے اصل کتاب کودیکھا جائے
 
السلام علیکم، اصل میں حدیث کی کتابوں میں گنتی کے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف نسخوں‌میں دیے گئے نمبر میں فرق آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ایک متن والی حدیث کو ایک ہی گنا ہے چاہے وہ ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ لکھی گئی ہو اور کسی دوسرے نے ہر سند کو الگ الگ نمبر دے دیا ہے۔ کچھ علماء نے حدیث کے ساتھ بیان ہونے والے صحابہ کے اقوال وغیرہ پر بھی نمبر لگا دیے ہیں۔ چنانچہ اصل فرق صرف گنتی کے طریقے کا ہے جس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ احادیث میں کمی بیشی ہے۔
حدیث کا ریفرنس دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نمبر کی بجائے کتاب اور باب کا نام درج کر دیا جائے۔ لیکن اگر نمبر ہی لکھنا چاہیں تو ساتھ وضاحت کر دینی چاہیے کہ کونسا ترقیمی نظام اختیار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کے دو مشہور ترقیمی نظام یعنی گنتی کے طریقے ہیں، ایک ترقیم العالمیۃ ہے اور دوسری فواد عبدالباقی رحمہ اللہ کی ترقیم۔
والسلام علیکم
 
بہت زمانے سے یہی بات میں یہاں لکھ رہا ہوں کہ حدیث کی کتب کی ترقیم، ترتیب، تعداد اور متن لوگوں کی منشاء کا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ ذاتی خواہشات کی پیروی میں اس قدر آگے نکل گئے کہ بعض کتب روایات میں کبوتری سے شادی، غیر محرم خواتین کوچوس کر محرم بنانے کا طریقہ، اسرئیلی رجم، عیسی علیہ السلام کا عیسائیوں کا واپسی کا نظریہ ، فرد واحد کی حکومت ، موروثی حکومت کی توثیق، ٹیکسز (زکواۃ و خیرات و صدقات) صرف اور صرف مولویوں کا‌ حق۔ قرآن سے دوری۔ قرآن کی تنسیخ بذریعہ ناسخ و منسوخ ، من پسند سزائیں، باہمی مشورہ کی حکومت کی ممانعت، اختلاف کی سزا موت۔ لونڈیوں بابندیوں سے بناء نکاح جنسی فائیدہ، مہر کی ادائگی سے بہانوں بہانوں سے بچنا، غلامی کو جاری رکھنا ، عام آدمی کو حکومت سے دور کھنا، تعلیم کو محدود رکھنا ، ذاتی نظریات کا فروغ اور اجتماعی ذمہ داریوں کے قوانین کو چھپانا۔


ایسی روایات کیا ان مشہور صحاح ستہ کے اصل لکھنے والوں نے لکھیں اور جمع کی تھیں؟ اگر یہ قرآن خواں مسلمان تھے تو یقین نہیں آتا کہ قرآن حکیم سے اتنی دور واقع نظریات کو ان محترم لوگوں نے لکھا طبع اور شائع کیا ہوگا۔ یہ جرائم سوائے -- دشمنان اسلام ---- کے کوئی نہیں‌کرسکتا۔

تعداد، متن، ترتیب کا فرق سرف اس وقت معلوم ہوسکتا ہے جب کہ اصل کتب دستیاب ہوں۔ کیا اصٌ کتب کسی جگہ موجود ہیں ؟ مسلمان جس اثاثۃ کو اتنی اہمیت دیتے ہیں اس کی حفاظت نہ کرسکے؟ پھر یہ عظیم اسلامی حکومتیں، مسلمان کا سیاسی عروج، فوجی طاقت، اور ترکی خلافت کیا کرتی رہی کہ ایک اصل کتاب کی حفاظت بھی نہ کرسکی۔

کیا وجہ ہے کہ خلاف قرآن روایات ان کتب میں داخل ہوئیں اور سب علامہ و علماء، مولوی ، ملا اور آیت اللہ مل کر بھی اصل کتب کی حفاظت نہ کرسکے۔ ؟؟؟؟

والسلام
 
بہت زمانے سے یہی بات میں یہاں لکھ رہا ہوں کہ حدیث کی کتب کی ترقیم، ترتیب، تعداد اور متن لوگوں کی منشاء کا ہے۔
اس کی بجائے آپ یہ بیان کر دیتے کہ فلاں حدیث فلاں فلاں نسخے میں موجود ہے اور دوسرے میں نہیں تو بھی کوئی بات تھی۔ آپ کی باقی باتوں کا جواب بار بار دیا جا چکا ہے۔
 
مجھے پہلے نام یاد نہیں‌آرہا تھا اب یاد آگیا
صحاح ستہ کے وہ نسخے جو مصطفی دیب البغا کی تحقیق اور تحشیے کے ساتھ ہیں‌وہ سب سے بہترین اور مستند ہیں‌
لیکن اس کو نیٹ پر تلاش کے بجائے اصل کتاب کودیکھا جائے

السلام علیکم، اصل میں حدیث کی کتابوں میں گنتی کے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف نسخوں‌میں دیے گئے نمبر میں فرق آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ایک متن والی حدیث کو ایک ہی گنا ہے چاہے وہ ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ لکھی گئی ہو اور کسی دوسرے نے ہر سند کو الگ الگ نمبر دے دیا ہے۔ کچھ علماء نے حدیث کے ساتھ بیان ہونے والے صحابہ کے اقوال وغیرہ پر بھی نمبر لگا دیے ہیں۔ چنانچہ اصل فرق صرف گنتی کے طریقے کا ہے جس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ احادیث میں کمی بیشی ہے۔
حدیث کا ریفرنس دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نمبر کی بجائے کتاب اور باب کا نام درج کر دیا جائے۔ لیکن اگر نمبر ہی لکھنا چاہیں تو ساتھ وضاحت کر دینی چاہیے کہ کونسا ترقیمی نظام اختیار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کے دو مشہور ترقیمی نظام یعنی گنتی کے طریقے ہیں، ایک ترقیم العالمیۃ ہے اور دوسری فواد عبدالباقی رحمہ اللہ کی ترقیم۔
والسلام علیکم
میرے خیال میں آپ بات سمجھے نہیں ، میں‌یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی لکھی ہوئی کتا ب اب موجود نہیں‌ہے؟اگر نہیں‌ہےتو ان سے جن لوگوں‌نے سنی یا سن کر یاد کی مطلب ان سے جس نے روایت کی ہے کیا وہ راوی بھی اسی طریقے سے محدیثین کے اعلیٰ معیار پر پورے اترتے ہیں‌؟ اور ان کا ریکارڈ بھی اسی طریقے سے محفوظ ہے جس طرح سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے راویوں کو اپنی کتاب میں‌محفوظ کیا ۔ کیونکہ اگر اصل کتاب موجود نہیں‌تو پھر تو جس نے بھی آگے روایت کی وہ بھی بس ایک راوی ہے اور اس کو بھی اسی چھلنی سے گذرنا چاہیے جس چھلنی سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے راویوں‌کو گذارا تھا۔ورنہ ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں‌کہ وہ معیار برقرار رہا جو امام بخاری نے مقرر کیا تھا۔
 
Top