ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ۔ غالب (مختلف گلوکار)

فاتح

لائبریرین
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ۔ مختلف گلوکار


جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ، جب کہ آغاز کے اشعار بغیر موسیقی ونود سہگل نے گائے ہیں

عابدہ پروین

لتا منگیشکر

غلام علی

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہُوا ہے شہ کا مصاحب، پھِرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)
 

Saraah

محفلین
میں تو صرف لتا کی آواز میں شیئر کرنے والی تھی آپ نے تو کمال کر دیا

بہت شکریہ
 
Top