بیچیں نہیں‌تو ’پھر اور کیا کریں‘

فخرنوید

محفلین
اللہ جڑیو عمرانی پچاس سال کا ایک معزور محنت کش ہے۔ ان کے ہمراہ بابو خاصخیلی ، حنیف اور فیض محمد اپنے نو عدد کمسن بچے لے کر بدین پریس کلب پر پہنچ گئے اور بچے برائے فروخت کا بینر لگا کر بیٹھ گئے۔ برائے فروخت بچوں میں تین کمسن بھولی بھالی لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
090412234937_hungerstrike_death226.jpg

اللہ جڑیو کا کہنا ہے کہ وہ معذور ہے اور اس کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کوئی ذر یعہ نہیں ہے اس لیے وہ انہیں فروخت کرنے کے لیے آیا ہے۔

اللہ جڑیو کا کہنا ہے کہ چینی کے ایک کارخانے میں ملازمت کے دوران اس کی ٹانگ کچلی گئی تھی۔ مل انتظامیہ نے اسے بیس سال کی ملازمت کے باوجود ملازمت پر بحال رکھنے کی بجائے فارغ کردیا۔ چار سال اس نے جیسے تیسے گزاے۔ اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ ان بچوں کو فروخت کردے تاکہ انہیں خریدنے والا کم از کم دو وقت کا کھانا توکھلائے گا۔

اللہ جڑیو نے ان بچوں کی قیمت ایک لاکھ روپیہءفی بچہ لگائی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کوئی خریدار اتنی رقم کیوں دے گا تو ان کا کہنا تھا کہ انصاف کرے گا۔

ایک بچے کے والد نے وہاں موجود ایک رپوٹر سے کہا کہ وہ تو اپنا بچہ صرف اسی یقین دہانی پر بلاقیمت دینے پر آمادہ ہے کہ بچے کی صحیح پرورش کریں گے۔ دیگر والدین کا بھی یہ ہی کہنا تھا۔ یہ معصوم بچے حیران و پریشان لوگوں کو تک رہے تھے اور ان کے والدین لوگوں کو اپنی مشکل سے آگاہ کر رہے تھے۔

یہ کوئی ڈرامہ نہیں ہے۔ ہم بھوک اور فاقوں سے تنگ آگئے ہیں ۔ ’آپ تین روز بعد سنیں گے کہ دو محنت کشوں نے خود سوزی کرلی ہے ۔ کیا کریں، کہاں جائیں ، شوگر ملز کی ا نتظامیہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ ہمیں روزگار دینے کے لیے تیار نہیں، کوئی سنتا نہیں ہے، پھرہم کیا کریں، بچے فروخت کرنے اور خود کو جلا کر مار لینے کے علاوہ کو ئی راستہ ہے تو آپ ہی ہمیں دکھا ئیں۔

مزدور اقبال

بدین ساحلی شہر ہے۔ یہاں شکر بنانے کے چھ کارخانے موجود ہیں۔ اس ضلع میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔

شوگر ملز انتظامیہ نے محنت کشوں کی یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے کئی سال قبل عہدیداروں کو بھی فارغ کر دیا تھا ۔ یونین سپریم کورٹ سے بحالی کا فیصلہ لے آئی لیکن انتظامیہ فیصلہ پر عمل درآمد پر آمادہ نہیں ہے ۔

لوگوں کے اس ہجوم میں بحال نہ ہونے والی یونین کے صدر محمد اقبال بھی موجود تھے۔ انہوں نے فون پر بتایا کہ ’۔‘

اقبال خود بھی طویل عرصے سے بےروزگار ہیں۔‘ محنت کشوں کے حقوق کی بات کرنے اور یونین چلانے کے الزام میں انہیں ملازمت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔

اللہ جڑیو عمرانی ، بابو خاصخیلی ، حنیف اور فیض محمد نے تین روزہ پروگرام کے تحت بچے برائے فروخت کے بینر کے نیچے بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعدوہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ اور کریں گے۔


بشکریہ بی بی سی نیوز
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج کل بچوں کو بیچنا فیشن بن گیا ہے۔ اسطرح کی حرکتیں کر کے لوگ کافی پیسہ اکھٹا کر لیتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
آج کل بچوں کو بیچنا فیشن بن گیا ہے۔ اسطرح کی حرکتیں کر کے لوگ کافی پیسہ اکھٹا کر لیتے ہیں۔


فرخ بھائی کہنے کو تو یہ جملہ بڑا خوبصور ت اور آسان ہے ، مگر جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے ، کہ لختِ جگر کو کیسے اور کس منھ سے بیچا جاسکتا ہے۔:(
 

فرخ منظور

لائبریرین
بیچتا کون ہے یہ تو صرف پیسے اکھٹے کرنے لئے ڈرامہ کیا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ ایسے کسی شخص نے واقعی اپنے بچے بیچ دئیے ہوں۔ اور جو بیچتے ہیں وہ ایسے واویلا نہیں کرتے چپکے سے بیچ دیتے ہیں کہ پکڑے نہ جائیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ اپنے بچے کو بیچتے ہوئے پکڑا گیا اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔
 

شکاری

محفلین
ایک شخص ہمارے سیٹھوں سے مہینے کے پانچ سو روپے لیتا ہے زکوۃ کھاتے میں آج اس کو ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا وہ پیسے لینے آگیا تھا کافی رو رہا تھا اس نے بتایا قریباً ایک ہفتہ سے میری بیوی، میں اور دو بچے رات کو بھوکے سوتے ہیں مجھے لازمی پیسے دو اور ان پانچ سو سے میرا کچھ نہیں بنے گا۔ جب ہم نے اسے بتایا کہ ہمارے سیٹھ پانچ سو بھی مہینہ پورا ہونے سے پہلے بہت مشکل ہے دیں تو اس نے ایک اور بات بتائی کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے جب گھر کا خرچہ نہیں چلا سکتے تو خود کشی کرلو میں‌بہت پریشان ہوں۔ آپ اپنے سیٹھوں‌سے بات کر لو اگر وہ میری کچھ مدد کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں نے بھی اپنے آپ کو کچھ کر لینا ہے۔ جب اس کو پانچ سو روپے ملے اور وہ روتا ہوا چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔
 

مغزل

محفلین
اگر کام کرنے دے تو وہ سیٹھ کیسے کہلائے گا، فی زمانہ سیٹھ کی نشانی یہ ہے کہ وہ ’’ کام ‘‘ نہیں کرنے دیتا ، (بلکہ غلامی کرواتا ہے)
 

راشد احمد

محفلین
خرابی حکومت میں بھی ہے اور لوگوں میں بھی

میں اپنے دفتر کے باہر بچوں کو مانگتے دیکھتا ہوں کبھی وہ کہتے ہیں کہ ان کا باپ مرگیا ہے، حالانکہ باپ زندہ ہوتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ ان کی پانچ بہنیں ہیں گھر میں کمانیوالا کوئی نہیں۔

جبکہ آج کل غربت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ لوگ واقعی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی کوئی توجہ نہیں بس عیش کرلیں بیرونی ممالک کے دورے کرلیں ان کو دل کے دورے کیوں نہیں پڑتے۔
 

زینب

محفلین
جب پتا تھا وسائل کم ہیں تو پیدا کیوں‌کیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چادر دیکھ کر پاوں پھیلانے تھے نا۔۔۔۔۔بچوں کو بیچ کر اپنا پیٹ بھریں‌گے تو خود کو بیچ کر بچوں کا پیٹ کیوں‌نہیں‌بھرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں باپ کی ہی زمہ داری ہے بچوں کی پرورش کی نا کہ بچوں کی کہ وہ پیدا ہوتے ہی ماں‌باپ کو پالیں۔حد ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
جب پتا تھا وسائل کم ہیں تو پیدا کیوں‌کیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چادر دیکھ کر پاوں پھیلانے تھے نا۔۔۔۔۔بچوں کو بیچ کر اپنا پیٹ بھریں‌گے تو خود کو بیچ کر بچوں کا پیٹ کیوں‌نہیں‌بھرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں باپ کی ہی زمہ داری ہے بچوں کی پرورش کی نا کہ بچوں کی کہ وہ پیدا ہوتے ہی ماں‌باپ کو پالیں۔حد ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامی لوگ ہیں۔ کیا کریں۔ خدا پر بھروسہ کرکے پیدا کرتے جاتے ہیں کہ اللہ کی دین ہے۔ وہی پالے گا!
 

شمشاد

لائبریرین
اور ویسے بھی کہ آنے والا کھانے کے لیے ایک منہ اور کمانے کے لیے دو ہاتھ لاتا ہے اور وسائل کے متعلق تو امیر آدمی سوچتا ہے غریب تھوڑا ہی سوچتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
میں نے پہلے بھی کہیں ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں غربت کی اہم وجہ بے انتہا بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ وسائل وہی ہیں جبکہ آبادی روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ جب ہم 1950 کی دہائی میں تمام عوام تک روٹی کپڑا اور مکان فراہم نہیں کر پائے تھے تو اب ، اپنی آبادی ڈبل کرنے کے بعد کیا اس قابل ہو جائیں گے؟:rollingonthefloor:
پاکستانی آبادی کا بڑھتا ہوا گراف (بمع مسائل):
Pakistan-demography.png
 

ابو کاشان

محفلین
اسلامی لوگ ہیں۔ کیا کریں۔ خدا پر بھروسہ کرکے پیدا کرتے جاتے ہیں کہ اللہ کی دین ہے۔ وہی پالے گا!

قطعہ نظر اس کے کہ واقعی مسائل بہت ہیں۔ لیکن ان مسائل کا سبب بھی اللہ پر اعتقاد کا فقدان ہے۔
آپکی بات بالکل صحیح ہے کہ اللہ پر بھروسہ کر کے پیدا تو کر لیتے ہیں لیکن رزق کے لیئے اللہ کے بجائے اپنے قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے ہیں پھر بعد میں روتے ہیں۔
انسان اگر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پر خالص بھروسہ کرنا سیکھ جائے کہ جو دینا ہے اس نے ہی دینا ہے تو کوئی وجہ نہیں ضروریاتِ زندگی پوری نہ ہوں۔
 
Top