سری لنکا کرکٹ‌ ٹیم پر لاہور میں‌ حملہ

زین

لائبریرین
مہوش بہن !
ذرا اس بیان کو بھی دیکھ لیجئے ۔ یہ ملک کے سب سے بڑے اخبار جنگ کی رپورٹ ہے ۔
حملہ آور نیپالی یا بھارتی لگتے تھے، گولیوں کی بارش ہو رہی تھی، عینی شاہدین



لاہور (نمائندگان جنگ) عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور شکل و صورت سے نیپال یا بھارتی لگتے تھے جبکہ سری لنکن ٹیم کو بچاتے ہوئے زخمی ہوئے پولیس کے جوانوں نے کہا ہے کہ ہمیں مہلت ہی نہیں ملی چاروں طرف سے بارش کی طرح گولیاں برس رہی تھیں ہماری اگلی گاڑی کے جوان آگے نہ آتے تو پوری سری لنکن ٹیم کو انہوں نے مار دینا تھا۔ خود جام شہادت نوش کر کے اپنے مہمانوں کو بچا لیا،مشکوک گاڑی دیکھ کر 15پر اطلاع دی لیکن پولیس نہ آئی، دہشتگردوں کی عمریں 25سے 30سال تھیں۔ ان خیالا ت کااظہار انہوں نے جنگ سے بات کرتے ہوئے کیا۔ سب انسپکٹر دلشاد نے کہا لبرٹی مارکیٹ کے قریب تھے کہ اچانک پہلے دھماکہ ہوا اس کے بعد بارش کی طرح گولیاں برسنے لگیں ہمار ی اگلی گاڑی کے جوان ان دہشت گردوں کے آگے سینہ سپر ہو گئے اس نے بتایا کہ ہم نے فوری طور پر گاڑی کے پیچھے بیٹھ کر مقابلہ کرنا شروع کر دیا کانسٹیبل محمد اقبال نے کہا کہ ہم نے مہمان ٹیم کو ختم کرنے کا موقع نہیں دیا۔ محمد کفیل نے کہا کہ اندھا دھند گولیاں چلنے لگیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ زخمی ہونے والے علی رضا نے بتایا کہ اس کی گاڑی میں ایلیٹ فورس کے چار جوان سوار تھے جس میں فیصل بٹ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ سلطان گاڑی چلا رہا تھا اس کے تینوں ساتھی شہید ہو گئے۔ علی رضا نے بتایا کہ فیصل بٹ شہید نے ہوٹل سے روانگی سے پہلے سکیورٹی پر عدم تحفظ کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم روزانہ ایک ہی روٹ سے ٹیم کو لے کر جاتے ہیں کبھی بھی کوئی واقع ہو سکتا ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق وہ جو س کارنر سے جوس پی رہا تھا کہ اس نے ایک مشکوک گاڑی جس کی نمبر پلیٹ کچھ اتری ہوئی تھی دیکھ کر 15پر پولیس کو اطلاع کی لیکن پولیس نہ آئی جبکہ ایک عینی شاہد غنی بٹ کے مطابق و ہ پرائیویٹ دفتر میں ملازمت کرتا ہے وہ فیصل ٹاؤن سے موٹرسائیکل پر آیا موٹرسائیکل خراب ہونے پر وہ اسے کھڑی کر کے پیدل آ رہا تھا کہ 12سے 14افراد جنہوں نے جسم سے بیگ باندھ رکھے تھے بس پر فائرنگ کی راکٹ لانچر فائر کئے اور ہینڈ گرنیڈ پھینکے جن کی عمریں 25 سے 30 سال کے قریب تھیں۔ ان کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور شکل و صورت سے نیپالی یا انڈین شہری لگتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق عینی شاہدوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ کے بعد صرف ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی دکھائی دے رہی تھی اور دوسری غائب تھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ دوسری گاڑی وقوعہ سے فرار ہوئی یا ملزموں کے تعاقب میں گئی ہے۔
بشکریہ جنگ
 

مہوش علی

لائبریرین
اچھا چلیں تھوڑی دیر کو میں مان لیتی ہوں‌کہ وہ قبائلی تھے سوات یا وزیرستان سے آئے تھے۔۔۔۔(یاد رکھیے یہ میں‌فرض کر رہی ہوں تھوڑی دیر کو مان رہی ہوں‌)

پھر کیا حل ہے اپ کی نظر میں ۔۔۔فوج لڑ تو رہی ہے مار رہی انہیں چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت انہی کے گھروں کو ان کے لیے قبرستان بنا رہے ہیں امریکہ اور پاکستانی فوج۔۔۔۔۔۔

کیا اب کوئی اٹیم بم شم گرانا چاہیے ان پے ۔یا انہیں امریکہ کے‌حوالے کر دینا چاہیے سب کو بیوی بچوں سمیت جیسا کی غداری کا اتحادی مشرف کرتا رہا۔

یا پھر قبائلیوں کو اپنی سر زمین سے دھکیل کے افغانستان میں پھینک دینا چاہیے کہ پاکستانی سرزمین سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟؟
یا انڈیا کو دعوت دینی چاہیے کہ وہ حملہ کرے اور اپنے حدف پورے کر لے؟؟؟
حل بتایئں باقی باتیں چھوڑین

سسٹر زینب،

جامعہ حفصہ سے لیکر سوات و فاٹا کے فتنے اور اس میں مرنے والے ہزاروں معصوموں کے قتل پر میں شروع سے اسکا حل پیش کرتی آئی ہوں، مگر کوئی ہے جو اسے سنے؟

اور حل اسکا واحد وہی ہے جو اللہ نے قران میں بیان فرما دیا ہے، اور وہ یہ کہ فتنے کو مارو اور مارو اور مارو اور یہاں تک مارو جب تک وہ مکمل طور پر تباہ نہ ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے تائب نہ ہو جائے۔

اور اسکا عملی ثبوت علی ابن ابی طالب نے دیا جب خوارجی فتنہ جو کہ بلند پایہ اور انتہائی نیک و پرہیزگار و متقی تابعین پر مشتمل تھا، جب انہوں نے اپنا فتنہ شروع کیا تو علی ابن ابنی طالب نے قرانی حکم کے مطابق سب سے پہلے دیگر باغیوں کو چھوڑ کر اس فتنے کی سرکوبی کی۔ اور اس خارجی فتنے کے خلاف جہاد کیا اور یہاں تک جہاد کیا جبتک کہ ان تمام کے تمام ہزاروں فتنہ پردازوں کو قتل نہ کر دیا [سوائے پانچ چھ خارجیوں کے]۔
بے شک اس جنگ میں علی ابن ابی طالب کی طرف سے بھی بہت سے مسلمان شہید ہوئے، مگر یہ اُس فتنے سے کہیں بہتر تھا کہ جس سے یہ خارجی فتنہ ہزاروں دیگر معصوموں کو خون میں نہلا دیتا [جیسا کہ جنگ سے قبل وہ اُن معصوموں کو قتل کر رہا تھا جو اُن سے راضی نہیں ہو رہے تھے اور اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر رہے تھے]

جو شخص اس طالبانی فتنے کو روکنے کے لیے اس قرانی حکم کے مخالف کوئی تجویز پیش کرتا ہے تو وہ انتہائی غلطی پر ہے۔
اگر آج ہم نے بھی علی ابن ابی طالب کی طرح بطور قوم بہادری دکھائی ہوتی تو آج جو ہزاروں معصوم فاٹا میں ناحق شہید ہو چکے ہیں، وہ قتل نہ ہوتے۔ اور اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ طالبانی فتنہ مزید لاکھوں معصوموں کو قتل کیے بغیر ختم ہونے والا نہیں۔

سسٹر زینب،
اُن قوموں کو توڑنا ناممکن ہوتا ہے جو اندر سے مضبوط ہوتی ہیں۔
باہر والی قوتیں صرف انہیں قوموں کو ٹوڑتی ہیں جو بذات خود اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں۔
آج آپ طالبانی فتنے کو علاقے سے ختم کر کے پاک فوج اور پاک قانون کی بالادستی قائم کر دیں اور پھر دیکھیں کہ کوئی امریکی ڈرون حملہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی امریکہ علاقے میں بیٹھا رہ سکتا ہے۔ امریکہ کو سارا جواز اس لیے ملا ہوا ہے کیونکہ ہم اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

جب جامعہ حفصہ کا فتنہ پھیل رہا تھا تو ہمارے ملاوؤں نے کبھی قوم کی رہنمائی نہیں کی۔ [سوائے ٹوٹے پھوٹے الفاظوں میں اسکی مذمت کے]۔ اور طالبان کے خلاف بھی ان ملاوؤں کا یہی رویہ رہا۔
سعودیہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ سعودی مفتیوں نے القاعدہ کے خلاف فتوی دے دیا ہے اور نہیں خارجی فتنہ قرار دے کر انکا خون حلال کر دیا ہے اور سعودیہ میں جہاں القاعدہ کے ممبروں کا پتا چلتا ہے انکو گرفتار کر لیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسی القاعدہ فتنے کی تباہ کاریاں ہم عراق میں دیکھ چکے ہیں جہاں نہ صرف لاکھوں شیعہ قتل ہوئے، بلکہ القاعدہ نے ہزاروں کی تعداد میں سنیوں کو بھی قتل کیا ۔۔۔۔ یہاں تک کہ امریکا نے انہی سنی قبائل کو مسلح کیا اور انہی سنی قبائل نے اپنے اندر چھپے ہوئے القاعدہ کے ہزاروں دہشتگردوں کا پھر قتل عام کیا۔

ہمارے پاس بطور قوم کم وقت ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے میں بس اللہ کی پناہ طلب کرتی ہوں، مگر اسکے باوجود میری رائے میں میری قوم جتنا کچھ حکمرانوں کے خلاف چیختی چلاتی ہے، اسکا اگر عشر عشیر بھی طالبانی فتنے کے خلاف احتجاج کر لیتی تو پھر آج اتنے ہزاروں معصوموں کو خاک و خون میں لت پت نہ ہونا پڑتا۔
 

زین

لائبریرین
مہوش بہن!
یہ بھی میڈیا اور پاکستان کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ کی خبر ہے ۔

حملہ آور نیپالی یا بھارتی لگتے تھے، گولیوں کی بارش ہو رہی تھی، عینی شاہدین



لاہور (نمائندگان جنگ) عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور شکل و صورت سے نیپال یا بھارتی لگتے تھے جبکہ سری لنکن ٹیم کو بچاتے ہوئے زخمی ہوئے پولیس کے جوانوں نے کہا ہے کہ ہمیں مہلت ہی نہیں ملی چاروں طرف سے بارش کی طرح گولیاں برس رہی تھیں ہماری اگلی گاڑی کے جوان آگے نہ آتے تو پوری سری لنکن ٹیم کو انہوں نے مار دینا تھا۔ خود جام شہادت نوش کر کے اپنے مہمانوں کو بچا لیا،مشکوک گاڑی دیکھ کر 15پر اطلاع دی لیکن پولیس نہ آئی، دہشتگردوں کی عمریں 25سے 30سال تھیں۔ ان خیالا ت کااظہار انہوں نے جنگ سے بات کرتے ہوئے کیا۔ سب انسپکٹر دلشاد نے کہا لبرٹی مارکیٹ کے قریب تھے کہ اچانک پہلے دھماکہ ہوا اس کے بعد بارش کی طرح گولیاں برسنے لگیں ہمار ی اگلی گاڑی کے جوان ان دہشت گردوں کے آگے سینہ سپر ہو گئے اس نے بتایا کہ ہم نے فوری طور پر گاڑی کے پیچھے بیٹھ کر مقابلہ کرنا شروع کر دیا کانسٹیبل محمد اقبال نے کہا کہ ہم نے مہمان ٹیم کو ختم کرنے کا موقع نہیں دیا۔ محمد کفیل نے کہا کہ اندھا دھند گولیاں چلنے لگیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ زخمی ہونے والے علی رضا نے بتایا کہ اس کی گاڑی میں ایلیٹ فورس کے چار جوان سوار تھے جس میں فیصل بٹ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ سلطان گاڑی چلا رہا تھا اس کے تینوں ساتھی شہید ہو گئے۔ علی رضا نے بتایا کہ فیصل بٹ شہید نے ہوٹل سے روانگی سے پہلے سکیورٹی پر عدم تحفظ کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم روزانہ ایک ہی روٹ سے ٹیم کو لے کر جاتے ہیں کبھی بھی کوئی واقع ہو سکتا ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق وہ جو س کارنر سے جوس پی رہا تھا کہ اس نے ایک مشکوک گاڑی جس کی نمبر پلیٹ کچھ اتری ہوئی تھی دیکھ کر 15پر پولیس کو اطلاع کی لیکن پولیس نہ آئی جبکہ ایک عینی شاہد غنی بٹ کے مطابق و ہ پرائیویٹ دفتر میں ملازمت کرتا ہے وہ فیصل ٹاؤن سے موٹرسائیکل پر آیا موٹرسائیکل خراب ہونے پر وہ اسے کھڑی کر کے پیدل آ رہا تھا کہ 12سے 14افراد جنہوں نے جسم سے بیگ باندھ رکھے تھے بس پر فائرنگ کی راکٹ لانچر فائر کئے اور ہینڈ گرنیڈ پھینکے جن کی عمریں 25 سے 30 سال کے قریب تھیں۔ ان کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور شکل و صورت سے نیپالی یا انڈین شہری لگتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق عینی شاہدوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ کے بعد صرف ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی دکھائی دے رہی تھی اور دوسری غائب تھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ دوسری گاڑی وقوعہ سے فرار ہوئی یا ملزموں کے تعاقب میں گئی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

طالوت

محفلین
پاکستانی حکومت، پاکستانی میڈیا ہر وقت اجمل قصاب کے پاکستانی ہونے کا انکار کرتا رہا، مگر پھر یہی حکومت مانتی ہے کہ اس حملے کے ٹریننگ چاچا رحمان اور دیگر لشکر طیبہ کے افراد نے کی ہے، اور اسکے لنک بیرون ملک بھی ہیں جہاں سے پیسہ آیا ہے۔

آپ کی "خصوصی معلومات" کا اندازہ اسی لفظ سے ہو گیا ہے کہ آپ کی معلومات کا منبع کیا ہے ۔۔
ذرا چاچا رحمان کی اسٹوری بھی بتا دیں محفلین کو تاکہ وہ اس انمول علم سے مستفیذ ہو سکیں ۔۔
 

طالوت

محفلین
اے میری قوم والو! وقت زیادہ نہیں تمارے پاس۔ تم عبرت حاصل کر لو۔
اس طالبانی فتنے پر میرے احتجاج کو آنکھیں بند کر کے اس لیے نظر انداز نہ کر دو کیونکہ وہ صرف اہل تشیع کا قتل عام کر رہے ہیں۔

ہایئں طالبان صرف اہل تشیہ کو مار رہے ہیں۔یہ بھی ایک نئی نیوز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے ان کی اصل پریشانی کا سبب ، پاکستان اور پاکستانی قوم کا تو محض بہانہ ہے ، ورنہ پاکستانی قوم کے خیر خواہ اس طرح پاکستانیوں کے خلاف زہر نہیں اگلتے ۔۔ گویا اہل تشیع ہی معصوم فرشتے ہیں ۔۔ ان معصوموں کی کرم ایجنسی میں طالبان سے جنگ تو دفاع و جہاد ہو گا ۔۔
غلطی سے ہی سہی مگر آج سچ آپ کے منہ سے نکل ہی گیا ۔۔ اسی بات پر میں نے آپ کو اس سے پہلے بھی ٹوکا تھا ، مگر اس وقت بھی آپ نے معصومیت کا اظہار کرتے ہو فرمایا تھا کہ ان ٹکڑوں میں بٹی لاشوں (جن پر معصوم شیعہ درج تھا) پر آپ نے یہ الفاظ ہر گز نہیں لکھے اور نہ ہی آپکا مقصد فرقہ ورانہ بات چیت یا نفرت بھیلانے کا تھا ۔۔۔۔۔
آپ کی حق پرستی و حق گوئی (جو اوپری مراسلے میں مذکور ہے) کو سرخ سلام !
(چلیں جی اب لگائیں تالا )
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ کی "خصوصی معلومات" کا اندازہ اسی لفظ سے ہو گیا ہے کہ آپ کی معلومات کا منبع کیا ہے ۔۔
ذرا چاچا رحمان کی اسٹوری بھی بتا دیں محفلین کو تاکہ وہ اس انمول علم سے مستفیذ ہو سکیں ۔۔

طالوت برادر، آپ ہمیشہ اسی قسم کی غیر ضروری بحوث میں الجھا دیتے ہیں۔
آپ کو چاچا رحمان کےمتعلق کیا جاننا ہے؟ ذرا تفصیل سے تحریر فرما دیں۔

مختصر تعارف کے لیے یہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔

اگر مزید کچھ چاہیے تو چاچا رحمان پر نیا تھریڈ کھول لیں اور اپنے اعتراضات تفصیل سے بیان کر دیں کہ چاچا رحمان کا نام لینے پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔
 

زین

لائبریرین
بجا فرمایا طالوت بھائی ۔

ممبئی حملوں کے بعدبھارتی میڈیا نے کسی چاچا رحمان کو ممبئی حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر بڑا شور مچایا ۔ ان کے مطابق پاکستان کے علاقے مانسہرہ میں ممبئی حملہ آوروں کو چاچا رحمان نے تربیت دی اور انہیں سخت جان بنایا۔ ایک بھارتی چینل نے تو اس سلسلے میں بالی ووڈ فلم طرز کی ایک مضحکہ خیز فلم بھی چلائی تھی ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از مہوش علی:
اس طالبانی فتنے پر میرے احتجاج کو آنکھیں بند کر کے اس لیے نظر انداز نہ کر دو کیونکہ وہ صرف اہل تشیع کا قتل عام کر رہے ہیں۔
ہایئں طالبان صرف اہل تشیہ کو مار رہے ہیں۔یہ بھی ایک نئی نیوز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

سسٹر زینب،
آپ سے شکایت ہے کہ آپ کی گاڑی صرف اس فقرے تک آ کر ہی کیوں رک گئی؟ اور آپ نے وہ سب کیوں Quote نہیں کیا جو میں نے لکھا تھا؟
مکمل عبارت جو میں نے لکھی تھی، وہ یہ ہے:
از مہوش علی:
اس طالبانی فتنے پر میرے احتجاج کو آنکھیں بند کر کے اس لیے نظر انداز نہ کر دو کیونکہ وہ صرف اہل تشیع کا قتل عام کر رہے ہیں۔ یاد رکھو، وہ دن دور نہیں جب یہ طالبانی فتنہ ہر ہر اُس شخص کا قتل کر رہے ہوں گے جو انکی دہشتگرد اسلام سے متفق نہیں [چاہے یہ انکے اپنے دیوبندی مولانا شیرانی ہی کیوں نہ ہوں یا اہلحدیث شاہ خالد ہی کیوں نہ ہو]۔

سسٹر زینب،
آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا: "ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیں"
نہ ہی ہر کسی کی غلط فہمیاں دور کرنا ممکن ہے۔
لہذا معذرت کہ یہ چیز ہمارے موجودہ موضوع سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ میں کبھی مستقبل میں کوشش کرنے والی ہوں کہ آپ کو ہر لحاظ سے خوش اور آپ کی غلط فہمیوں کا ہر صورت میں ازالہ کروں۔

******************

یہ ہے ان کی اصل پریشانی کا سبب ، پاکستان اور پاکستانی قوم کا تو محض بہانہ ہے ، ورنہ پاکستانی قوم کے خیر خواہ اس طرح پاکستانیوں کے خلاف زہر نہیں اگلتے ۔۔ گویا اہل تشیع ہی معصوم فرشتے ہیں ۔۔ ان معصوموں کی کرم ایجنسی میں طالبان سے جنگ تو دفاع و جہاد ہو گا ۔۔
غلطی سے ہی سہی مگر آج سچ آپ کے منہ سے نکل ہی گیا ۔۔ اسی بات پر میں نے آپ کو اس سے پہلے بھی ٹوکا تھا ، مگر اس وقت بھی آپ نے معصومیت کا اظہار کرتے ہو فرمایا تھا کہ ان ٹکڑوں میں بٹی لاشوں (جن پر معصوم شیعہ درج تھا) پر آپ نے یہ الفاظ ہر گز نہیں لکھے اور نہ ہی آپکا مقصد فرقہ ورانہ بات چیت یا نفرت بھیلانے کا تھا ۔۔۔۔۔
آپ کی حق پرستی و حق گوئی (جو اوپری مراسلے میں مذکور ہے) کو سرخ سلام !
(چلیں جی اب لگائیں تالا )
وسلام

اگر سسٹر زینب نے مکمل نہیں پڑھا تھا تو کم از کم کاش آپ تو الزامات کی طویل فہرست پیش کر دینے سے قبل ایک دفعہ آنکھین کھول کر پڑھ لیتے۔

اور آپ کا انصاف تو یہ ہے کہ اہل تشیع کے قتل عام پر میرا احتجاج کرنا آپ کی نظر میں بدترین و سنگین جرم اور نفرت پھیلانا ہے۔ آپ کے اس انصاف اور اس سوچ کو دور سے سلام

والسلام۔

نوٹ: آپ سے پھر گذارش اور نصیحت ہے کہ دوسرے موضوعات کے گڑھے مردے اُسی تھریڈز میں نکالا کریں ۔۔۔ اور اس تھریڈ میں جس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے کوشش کریں کہ اس سے متعلق ہی رہیں۔ شکریہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بجا فرمایا طالوت بھائی ۔

ممبئی حملوں کے بعدبھارتی میڈیا نے کسی چاچا رحمان کو ممبئی حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر بڑا شور مچایا ۔ ان کے مطابق پاکستان کے علاقے مانسہرہ میں ممبئی حملہ آوروں کو چاچا رحمان نے تربیت دی اور انہیں سخت جان بنایا۔ ایک بھارتی چینل نے تو اس سلسلے میں بالی ووڈ فلم طرز کی ایک مضحکہ خیز فلم بھی چلائی تھی ۔

لیجیے طالوت بھائی، آپ کا لگایا ہوا شکوک و شبہات کا پودا طویل ہو گیا۔

پتا نہیں اللہ تعالی آپ برادران کے لیے وہ کونسے فرشتے آسمان سے نازل کرے گا کہ جب آپ چاچا رحمان [ذکی الرحمان] کے نام اور شخصیت کے وجود کا اقرار کریں گے۔

جنگ اخبار کی ایک رپورٹ:

 

طالوت

محفلین
طالوت برادر، آپ ہمیشہ اسی قسم کی غیر ضروری بحوث میں الجھا دیتے ہیں۔
آپ کو چاچا رحمان کےمتعلق کیا جاننا ہے؟ ذرا تفصیل سے تحریر فرما دیں۔

مختصر تعارف کے لیے یہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔

اگر مزید کچھ چاہیے تو چاچا رحمان پر نیا تھریڈ کھول لیں اور اپنے اعتراضات تفصیل سے بیان کر دیں کہ چاچا رحمان کا نام لینے پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔
بہن !
ضروری و غیر ضروری کا فیصلہ پڑھنے والے کر سکتے ہیں ، باقی چاچا رحمن ، اس پر بی بی سی کی یہ رپورٹ ، ہندوستانی میڈیا کی وڈیو ، اور "کیپٹیل ٹاک" میں ہندوستانی خاتون صحافی (نام بھولتا ہوں) کا اس کردار پر تبصرہ جنھوں نے سن رکھا ہے ان کے لیے کافی ہے ۔۔
مجھے ہر بار آپ نے مجبور کیا کہ میں اسطرح کے سخت الفاظ استمعال کروں ۔ کیونکہ پاکستان کے خلاف سچ تو میں جیسے تیسے برداشت کر سکتا ہوں مگر بے بنیاد پراپگینڈا میرے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں ۔۔ اور آپ کا رویہ شروع سے یہ رہا کہ "برے کو مت مارو ، برے کی ماں کو مارو کہیں اور نہ پیدا کر دے" ، ساتھ ہی آپ ایک مخصوص "کمیونٹی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے غیر محسوس یا محسوس انداز میں بے حمایت یا مخالفت کرتیں نظر آتیں ہیں ۔۔ اگرچہ اس پر میں بھی کافی کچھ کہہ سکتا ہوں بمع ثبوتوں کے ، مگر مجھے بار بار وہ کہانیاں دہرانے کا شوق نہیں جنھیں تقریبا سبھی جانتے ہیں کہ اس محفل کی فضا بوجھل اور تاثر خراب ہوتا ہے جو مجھے منظور نہیں ۔۔۔
(میں اس بحث سے باہر ہوا ، کسی انتہائی نازک مقام پر ہی ٹانگ اڑاؤں گا :))
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
حملہ آور نیپالی یا بھارتی لگتے تھے، گولیوں کی بارش ہو رہی تھی، عینی شاہدین



لاہور (نمائندگان جنگ) عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور شکل و صورت سے نیپال یا بھارتی لگتے تھے جبکہ سری لنکن ٹیم کو بچاتے ہوئے زخمی ہوئے پولیس کے جوانوں نے کہا ہے کہ ہمیں مہلت ہی نہیں ملی چاروں طرف سے بارش کی طرح گولیاں برس رہی تھیں ہماری اگلی گاڑی کے جوان آگے نہ آتے تو پوری سری لنکن ٹیم کو انہوں نے مار دینا تھا۔ خود جام شہادت نوش کر کے اپنے مہمانوں کو بچا لیا،مشکوک گاڑی دیکھ کر 15پر اطلاع دی لیکن پولیس نہ آئی، دہشتگردوں کی عمریں 25سے 30سال تھیں۔ ان خیالا ت کااظہار انہوں نے جنگ سے بات کرتے ہوئے کیا۔ سب انسپکٹر دلشاد نے کہا لبرٹی مارکیٹ کے قریب تھے کہ اچانک پہلے دھماکہ ہوا اس کے بعد بارش کی طرح گولیاں برسنے لگیں ہمار ی اگلی گاڑی کے جوان ان دہشت گردوں کے آگے سینہ سپر ہو گئے اس نے بتایا کہ ہم نے فوری طور پر گاڑی کے پیچھے بیٹھ کر مقابلہ کرنا شروع کر دیا کانسٹیبل محمد اقبال نے کہا کہ ہم نے مہمان ٹیم کو ختم کرنے کا موقع نہیں دیا۔ محمد کفیل نے کہا کہ اندھا دھند گولیاں چلنے لگیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ زخمی ہونے والے علی رضا نے بتایا کہ اس کی گاڑی میں ایلیٹ فورس کے چار جوان سوار تھے جس میں فیصل بٹ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ سلطان گاڑی چلا رہا تھا اس کے تینوں ساتھی شہید ہو گئے۔ علی رضا نے بتایا کہ فیصل بٹ شہید نے ہوٹل سے روانگی سے پہلے سکیورٹی پر عدم تحفظ کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم روزانہ ایک ہی روٹ سے ٹیم کو لے کر جاتے ہیں کبھی بھی کوئی واقع ہو سکتا ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق وہ جو س کارنر سے جوس پی رہا تھا کہ اس نے ایک مشکوک گاڑی جس کی نمبر پلیٹ کچھ اتری ہوئی تھی دیکھ کر 15پر پولیس کو اطلاع کی لیکن پولیس نہ آئی جبکہ ایک عینی شاہد غنی بٹ کے مطابق و ہ پرائیویٹ دفتر میں ملازمت کرتا ہے وہ فیصل ٹاؤن سے موٹرسائیکل پر آیا موٹرسائیکل خراب ہونے پر وہ اسے کھڑی کر کے پیدل آ رہا تھا کہ 12سے 14افراد جنہوں نے جسم سے بیگ باندھ رکھے تھے بس پر فائرنگ کی راکٹ لانچر فائر کئے اور ہینڈ گرنیڈ پھینکے جن کی عمریں 25 سے 30 سال کے قریب تھیں۔ ان کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور شکل و صورت سے نیپالی یا انڈین شہری لگتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق عینی شاہدوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ کے بعد صرف ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی دکھائی دے رہی تھی اور دوسری غائب تھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ دوسری گاڑی وقوعہ سے فرار ہوئی یا ملزموں کے تعاقب میں گئی ہے۔

جنگ اخبار کے اس عینی شاہد [عینی شاہدین؟؟] کو کیا انڈین اور نیپالیوں میں فرق بھی معلوم ہے؟ یہ حملہ آور یا تو انڈین ہو سکتے ہیں یا پھر چینی نژاد نیپالی، مگر بہ یک وقت انڈین اور نیپالی ہونا عجیب بات ہو گی۔

اور اُس عینی شاہد کے متعلق کیا خیال ہے جس نے انتہائی قریب سے ان دو دہشتگردوں کا مطالعہ کیا ہے جن میں سے ایک اردو میں اسے گالیاں دے رہا تھا جبکہ دوسرا پشتو بول رہا تھا؟؟؟ [کیا واقعی نیپالی پشتو سیکھتے اور بولتے ہیں؟]

20090303234246eye_witness_2_203.jpg

عینی شاہد عاصم محمود
 

طالوت

محفلین
میٹھا میٹھا آخاہ آخاہ خاہ ، کڑوا کڑوا تھو تھو
(اسے بحث میں شمار نہ کیا جائے ;))
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
بہن !

مجھے ہر بار آپ نے مجبور کیا کہ میں اسطرح کے سخت الفاظ استمعال کروں ۔ کیونکہ پاکستان کے خلاف سچ تو میں جیسے تیسے برداشت کر سکتا ہوں مگر بے بنیاد پراپگینڈا میرے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں ۔۔
وسلام

میں اپنے ملک خداداد پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرتی ہوں۔۔۔۔۔ یہ ایک سنگین الزام ہے۔

لیکن اگر قوم کے رستے ہوئے ناسوروں کو روشنی میں لانا اور قوم کی اجتماعی غلطیوں اور برائیوں کی طرف انہیں اصلاح کے لیے متوجہ کرنا تاکہ ہزاروں معصوموں کا ناحق خون نہ بہے جھوٹا پراپیگنڈہ ہے تو اللہ کی قسم میں یہ جرم بار بار زندگی بھر کرتی رہوں گی۔ انشاءاللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
headlinebullet.gif
dot.jpg
shim.gif
Updated at 1920 PST
shim.gif
12-30-1899_56102_l.gif
لاہور…جیو نیوز نے اپنے ذرائع سے لبرٹی چو ک میں دہشت گردی کے واقعے کی کلوز سرکٹ کمرے کی فوٹیج حاصل کی ہے جو آپ کو دکھارہے ہیں ۔اس فوٹیج سے معلوم ہوتاہے کہ لبرٹی چوک میں سری لنکن ٹیم کی بس پر دہشت گردوں کی فائرنگ تین مارچ کو صبح 8 بج کرانتالیس منٹ پر شروع اور 8 بجکر چھیالیس منٹ پر ختم ہو ئی ۔اسکے بعد ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے اور انہیں کسی رکاوٹ کاسامنا نہیں کرنا پڑا۔ فٹ ایج میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملزمان کے مسلح ساتھیوں کی آزادانہ آمد ورفت اور نقل وحمل ہو رہی ہے یہ فوٹیج لبرٹی چوک کی عقبی گلی کی ہے جو جائے وقوعہ سے چند قدم دور ہے ۔یہ پوش علاقہ ہے جہاں مارکیٹ دیر سے کھلتی ہے ۔ ملزمان فردوس مارکیٹ کی طرف آئے اور موٹر سائیکلوں پر اسی راستے سے فرار ہوئے ۔وہ ٹولیوں میں تھے اور سب کے کندھوں پر بیگ تھے ان کے ہاتھوں میں جدیداسلحہ تھا۔فوٹیج سے پتہ چلتاہے کہ فائرنگ کے وقت لبرٹی چوک اورگردو نواح کے حساس ایریا میں سیکورٹی کے معمولی انتظامات بھی نہ تھے ملزمان کے حلیے،چال ڈھال اور اسٹائل سے ممبئی حملوں کے مناظر دماغ میں گھوم جاتے ہیں ۔واقعے کو ریہرسل کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ دہشت گردوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بس ہائی جیک کرنا چاہتے تھے۔



سوال: اگر حملہ آور بس کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے تو پھر انہوں نے میزائل سے پہلے فائر کیوں کیا اور پھر گرینیڈ اٹیک کیوں کیا جس سے پوری بس ہی تباہ ہو جاتی؟
 

زین

لائبریرین
سوال: اگر حملہ آور بس کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے تو پھر انہوں نے میزائل سے پہلے فائر کیوں کیا اور پھر گرینیڈ اٹیک کیوں کیا جس سے پوری بس ہی تباہ ہو جاتی؟
یہ بھی تو حملہ آؤروں کے منصوبے کا ایک حصہ ہوسکتا ہے کہ راکٹ اوردستی بم حملہ غلط نشانے پر کیا جائے۔ تاکہ یہ ظاہر نہ ہو کہ بس کو ہائی جیک کیا جارہا تھا ۔


اگر حملہ آوروں کا منصوبہ بس کو ہائی جیک نہ کرنا تھا تو وہ ایسے مشکل وقت میں بسکٹس،ڈرائی فروٹ اور پانی کی بوتلوں ‌کا اضافی بوجھ کیوں اٹھاتے ؟
 

خرم

محفلین
دیکھئے میرے خیال میں تو اب اس بحث کو بند کر دینا چاہئے۔ جو اصل بات تھی وہ تو ظفری کہہ چکے۔ باقی تو اب صرف اپنی اپنی منوانے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ حملہ ظالمان نے کیا ہو یا را نے (ہمت بھائی کا مفروضہ تو حب زرداری کے علاوہ کوئی وزن ہی نہیں رکھتا) اصل سوال یہ ہے کہ صرف پاکستان کے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں زرداری جیسا انتہائی کرپٹ شخص جس کی بدعنوانی کا یہی ثبوت کافی ہے کہ وہ حج کے ہر پرمٹ کے عوض دس ہزار روپے وصول کرتا ہے اس ملک کا نا صرف صدر بن جاتا ہے بلکہ اسے جانثار رضاکاروں کی فوج بھی دستیاب ہے (ہمت بھائی ایک ادنٰی سا نمونہ ہیں)؟ کیوں ایک اوسط درجے کا فوجی اس ملک پر گیارہ برس اور ایک اور گھٹیا افسر آٹھ برس اور ایک اور نکما افسر دس برس ہمارے سر پر سوار رہا؟ کیوں نوازشریف جیسا منتقم مزاج موقع پرست جس نے پاکستان کی سیاست کو مالی کرپشن سے آلودہ کیا آج بھی لوگوں کا محبوب ہے؟ کیوں آج بھی لوگ دل سے ان ظالمان کے حمایتی ہیں جن کا کوئی مذہب کوئی نظریہ نہیں صرف اس آس پر کہ ان کا "انصاف" انہیں اپنے دل کے وہ بغض بھرے ارمان نکالنے کا موقع دے گا جو انہوں نے اپنے سے امیر رشتہ داروں، محلہ داروں، دوستوں کے خلاف پالے ہوئے ہیں؟ مسئلہ ظالمان، را، امریکہ یا کوئی اور نہیں ہے۔ مسئلہ ہم خود ہیں۔ ہماری سوچ ہے۔ ہماری عادت ہے کہ ہم اپنی برائی کسی اور کے کھاتے میں ڈال کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ کبھی دوسرے صوبے پر کبھی دوسری جماعت پر کبھی دوسری حکومت پر کبھی دوسرے ملک پر تو کبھی دوسرے مذہب پر۔ ہر برائی ہر خرابی کی جڑ کوئی اور ہے، ہم تو بس معصوم چُنے کاکے ہیں۔ کیکر بوتے ہیں، اسے پانی دیتے ہیں مگر پتہ نہیں کیوں اسے انگور کا پھل نہیں لگتا؟ بس الجھے رہیں نیپالی بھارتی، پنجابی، سندھی، پختون کی بحث میں۔
رہے نام اللہ کا۔
 
Top