کیا غیر اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟ - جواب !!

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

بحوالہ :
کیا غیر اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟

تمہید

"ظاہر پرستی کی بیماری" کے عنوان سے پچھلے کئی سالوں سے ایک مخصوص اردو آرٹیکل نیٹ پر گردش میں ہے۔
اس آرٹیکل اور اس سے ملتے جلتے مزید کئی مضامین اردو محفل پر ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں ، جس میں قرآن کے ظاہری اور مجازی معانی کی طرف کھل کر اشارہ کیا گیا ہے۔
جیسا کہ اس مضمون "کیا غیر اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟" میں یہ بات واضح ہے اور اسی مضمون کو یہاں بھی دہرایا گیا ہے۔

فہم قرآن کے حصول کے سلسلے میں بنیادی بات تو یہ ہوتی اگر درج ذیل سوالات کا تشفی بخش جواب پہلی فرصت میں عنایت کر دیا جاتا جو کہ یہاں پر محترم بھائی عادل ۔ سہیل نے عرض فرمائے تھے :
- کِسی بھی کلام کے ظاہری اور باطنی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اورظاہر کو ترک کر کے باطنی معنیٰ کی طرف رُخ کرنے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
- اِسی طرح کِسی بھی کلام کے حقیقی اور مجازی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اور حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو اپنانے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
- کِسی بھی کلام کے صریح اور مبہم سے کیا مُراد ہے ؟ اور صریح کو چھوڑ کے مبہم کے پیچھے دوڑ لگانے کی ضرورت کیون اور کب پیش آتی ہے ؟
- کِسی بھی کلام کے منطوق اور مفہوم سے کیا مُراد ہے ؟
- کیا ظاہری اور حقیقی ، باطنی اور مجازی میں کوئی فرق ہے ؟
- اِن سوالات کے جوابات میں اگر کوئی قاعدہ قانون پایا جاتا ہے تو کیا اُس کا اطلاق قُران ، یعنی اللہ کے کلام پر کیا جائے گا ؟
- ہاں تو کیوں ؟ نہیں تو کیوں ؟
- قُران میں محکمات اور مشتبھات ہیں ؟
- قُران کو سمجھنے کے لیے ، یعنی قُران کی تفسیر کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں ؟ اور کیوں ؟ یا جو کوئی بھی اپنی سوچ و رائے کے مطابق جو معنی و مفہوم سمجھنا چاہے سمجھ لے ؟

یہ ایسے بنیادی سوالات ہیں کہ ۔۔۔۔
جب تک ان کے متعلق تفصیل سے وضاحت نہیں کی جاتی ۔۔۔ تب تک محض اپنی عقل ، سوچ و رائے کے سہارے اسلام کے بنیادی عقائد پر حکم لگانا ۔۔۔۔ قابلِ اعتراض معاملہ ہی کہلائے گا۔
اور یہ سوالات ان محترم خواتین و حضرات سے بطور خاص کیے جا رہے ہیں جو آیاتِ ربانی کے "مجازی معنوں" پر زور دیتے ہوئے فریقِ مخالف پر مفروضہ "ظاہر پرستی" کا الزام لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔

مزید یہ کہ ۔۔۔۔۔ محض یکطرفہ تحقیق کے سہارے "ظاہر پرستی یا قرآن کے مجازی معانی" کی آڑ میں کچھ مفسرین پر الزام دھر دینا ، دیانت دار محقق کا شیوہ نہیں ہوتا۔
جیسا کہ اس قسم کے ایک الزام کے توڑ میں یہاں پر اہل سنت و اہل تشیع کی تفاسیر کے حوالوں سے خود ساختہ نظریات کا ردّ کیا گیا ہے۔
اور اس ردّ کے بعد گذشتہ کئی ماہ سے اس موضوع پر خاموشی چھائی ہوئی ہے!

خیر ۔۔۔۔۔۔
اس تمہید کا اختتام اس دعا پر کرتا ہوں جو ہمارے ایک بھائی اکثر کیا کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ دِین جو اُس نے تمام مخلوق سے بُلندی پر رہتے ہوئے اپنے سب سے مُقرب اور محبوب ترین بندے مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ، سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی طرح سمجھائے جِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو سمجھایا ، اور اُسی طرح اِیمان و عمل کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر کلمہ گو کا خاتمہ اِیمان پر فرمائے ۔ آمین !

السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔
 

باذوق

محفلین
اس موضوع کی دوسری اور آخری پوسٹ

غیر اللہ کے بارے میں "مولا" کا لفظ استعمال کرنے کے جواز میں اس پورے مضمون میں صرف چار آیتیں پیش کی گئی ہیں جو کہ زیر بحث موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔
باقی سب صرف خلط مبحث کرنے کی کوششیں ہیں۔ آئندہ سطور میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ "مولا" کا لفظ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (جس پر کہ اصل گفتگو کی جانی چاہئے تھی)۔
اور ضمناً ان دلائل کا رد بھی پیش کیا جائے گا (بہ توفیق اللہ) جن سے اس مضمون میں مغالطہ آمیزی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

سب سے پہلے تو یہی دیکھ لیا جائے کہ اس پورے مضمون میں کہیں بھی "مولا" کے معنی ہی بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ جبکہ اس لفظ کے مختلف معانی کی وضاحت نہایت ضروری تھی۔
غالباً مقصد یہ تھا کہ دلائل کے طور پر پیش کی گئی آیات میں جو مختلف معانی مذکور ہوئے ہیں ، ان پر کسی کی نظر نہ جانے پائے۔ اور اس کو صرف "ظاہر پرستی" اور "مجاز" کی ب۔حث تک محدود رکھ کر اپنے مزعومہ مقصد کو حاصل کر لیا جائے۔

لفظ مولیٰ کا قرآن و صحیح احادیث میں استعمال:
مولیٰ کے عربی زبان میں وہی مطالب ہیں جو اردو میں
آقا، کارساز، حامی، مددگار اور رب کے ہیں۔
آزاد کردہ غلام اور دوست کیے لیے بھی مولیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
جیسے سالم(رضی اللہ عنہ) مولیٰ ابی حذیفہ(رضی اللہ عنہ)۔
اور اسی معنی میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
[ARABIC]انت اخونا ومولانا[/ARABIC]
تم ہمارے بھائی اور مولیٰ ہو۔
صحيح بخاري ، كتاب المغازی ، باب : عمرة القضاء ، حدیث : 4296

حامی، دوست اور غلام کے معنوں کو چھوڑ کر اس لفظ کے باقی سارے معنی و مفہوم صرف اللہ ہی کے لائق ہیں۔
اور اس کے بندوں کو ان معنوں میں اس نام سے پکارنا حقیقی شرک ہے۔
قرآن میں بھی مولیٰ انہی معنوں میں اللہ نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ اور حامی اور دوست کے معنوں میں یا "ماتحت الاسباب مددگار" کے معنوں میں غیر اللہ کے لیے بھی "مولیٰ" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
درحقیقت یہ صرف معنی کی بحث ہے ، ظاہر و مجاز کی نہیں۔

آئیے۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کتنی جگہوں پر صرف اللہ ہی کو مولیٰ قرار دیتا ہے؟
یہ ایک دو آیات نہیں۔ میرے ناقص علم کے مطابق ایسی دس (10) آیات موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :


[ARABIC]أَنتَ مَوْلاَنَا[/ARABIC]
(اے اللہ!) تو ہی ہمارا مولیٰ (رب) ہے۔
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 286 )

[ARABIC]بَلِ اللّهُ مَوْلاَكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِين[/ARABIC]
اللہ تمہارا مولیٰ (مددگار) ہے اور وہ سب سے اچھا مدد کرنے والا ہے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 150 )

[ARABIC]هُوَ مَوْلاَنَا [/ARABIC]
وہ (اللہ) ہی ہمارا مولیٰ (کارساز) ہے
( سورة التوبة : 9 ، آیت : 51 )

[ARABIC]فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَوْلاَكُمْ [/ARABIC]
پس جان لو کہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے
( سورة الانفال : 8 ، آیت : 40 )

[ARABIC]َنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِير[/ARABIC]
وہ (اللہ) بہترین مولیٰ (مالک) اور بہترین مددگار ہے
( سورة الحج : 22 ، آیت : 78 )

[ARABIC]هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ وَرُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ [/ARABIC]
وہاں (آخرت میں) ہر شخص اپنے اعمال کی آزمائش کر لے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے اور وہ اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مولیٰ ہے
( سورة يون۔س : 10 ، آیت : 30 )

[ARABIC]رُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ[/ARABIC]
وہ سب اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ا ن کا حقیقی مولیٰ ہے
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 62 )

[ARABIC]ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لاَ مَوْلَى لَهُم[/ARABIC]
اور یہ اس لئے کہ بے شک مومنین کا مولیٰ اللہ ہے ۔ اور کافروں کا کوئی مولیٰ (مددگار) نہیں
( سورة محمد : 47 ، آیت : 11 )

[ARABIC]وَاللَّهُ مَوْلاَكُمْ [/ARABIC]
اور اللہ ہی تمہارا مولیٰ (مالک) ہے
( سورة التحريم : 66 ، آیت : 2 )
10۔
[ARABIC]إِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ[/ARABIC]
بے شک اللہ ہی اس کا مولیٰ ( کارساز) ہے
( سورة التحريم : 66 ، آیت : 4 )

مندرجہ بالا دس (10) آیات اپنے مطلب و مفہوم میں بالکل واضح ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی مولیٰ، مالک، کارساز، رب، مددگار نہیں ہے۔

ان واضح و صریح نصوص کے برعکس یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ:
غیر اللہ بھی مولیٰ ہو سکتے ہیں
یعنی وہ مالک، کارساز، رب، مددگار ہو سکتے ہیں۔

اس دعویٰ کے لیے جو دلائل دئے گئے ہیں، آئیے کچھ ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے ؟

غیر اللہ کے لیے لفظ مولیٰ استعمال کرنے کے دلائل کا جائزہ:

اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:
اگرچہ یہ بات سو فیصد درست ہے ، تاہم اس کا مطلب وہ نہیں جو یہاں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثلا ً طلاق دینے والے کی نیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہ بھی ہو، صرف ہنسی مذاق کے طور پر ہی وہ طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔
ثابت ہوا کہ "انما الاعمال بالنیات" طلاق کے مسئلے میں لاگو نہیں ہے۔

لہٰذا اگر تو لفظ مولیٰ کو دوست، غلام، یا حامی و مددگار (ماتحت الاسباب) کے طور پر غیر اللہ کے لیے استعمال کیا جائے تو قطعاً جائز ہے۔ جیسا کہ قرآن ہی کی کچھ آیات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اور اگر مافو ق الاسباب مددگار مانا جائے، اس کو مالک، مشکل کشا، دستگیر، مانا جائے۔ تو یہی اصل شرک ہے۔

یہ ہے لفظ مولیٰ کے استعمال کی بحث کا خلاصہ۔

ولی کی بحث:
خود دیکھ لیجئے کہ مولیٰ کے بارے میں دلائل کو خلط مبحث کرنے کے لیے اور کئی طرح کی بحثیں چھیڑ دی گئی ہیں۔ اسی ولی کی بحث کے دوران کچھ آیات پیش کی گئی ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی صرف اللہ ہی ہے۔
اور پھر دوسری آیات پیش کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول، صالح مومنین، ایمان رکھنے والے ، زکوٰ ۃ دینے والے بھی ولی ہیں۔ اور پھر نتیجہ کے طور پر یوں ایک (خودساختہ) اصول اخذ فرمایا جاتا ہے:
اصول :
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔

یہ بہت عجیب بات ہے کہ اللہ تو فرما رہا ہے کہ صرف وہی ولی ہے۔ اور یہاں ہم کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اس جملے میں مجازی طور پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنین بھی شامل ہیں۔

ایسے تو کوئی بت پرست یا قبر پرست دعویٰ کر سکتا ہے کہ ۔۔۔۔
اللہ تو فرما رہا ہے کہ وہی معبود ہے ، لیکن اس میں مجازی طور پر دوسرے انبیاء اور بت وغیرہ بھی شریک ہیں۔

جس طرح سے "بت وغیرہ" کی شرکت والا جملہ صریحاً شرک ہوگا، اسی طرح سے "رسول(ص) اور مومنین" کی شرکت والا جملہ بھی صریحاً شرک ہے، کیونکہ "شامل" کا مطلب "شریک ہونا" ہی ہوتا ہے۔
اللہ کی صفت "ولایت" میں جب دوسروں کو شریک ٹھہرا دیا جائے گے تو یہ دراصل اللہ کے ساتھ شرک کرنا ثابت ہوگا۔

جبکہ ان آیات کا صحیح مطلب صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔۔
مافوق الاسباب اور حقیقی ولی (بمعنی مددگار) تو صرف اللہ ہی ہے۔
لیکن ۔۔۔
ماتحت الاسباب اور عارضی ولی (بمعنی دوست) دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔

جبکہ اسلام کی بعض عظیم شخصیات کو دوست سمجھ کر یا ماتحت الاسباب سمجھ کر پکارنے کے بجائے مافوق الفطرت طور پر بغیر اسباب کے ان کو مددگار مانا جائے تو ۔۔۔۔۔
تو یہی وہ غلطی ہے جس سے قرآن ہمیں بچانا چاہتا ہے۔

اس کی مثال بہت آسان ہے ۔۔۔۔۔

کسی شخص کا ہاتھ کٹ جائے اور وہ ڈاکٹر کے پاس جائے تو ایسا شخص شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ اسی طرح ۔۔۔۔
ایک ڈوبتا ہوا شخص جب کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ بھی شرک نہیں کر رہا ہوتا۔
کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔

جیسے درج ذیل آیات ‫:
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 52 )
تمہارے پاس جو رسول آئے ۔۔۔ تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 81 )
۔۔۔ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔۔۔
( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 2 )

کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔

اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ ماتحت الاسباب معنوں میں نہیں کہتا۔ بلکہ مافوق الاسباب معنوں میں قرار دیتا ہے۔

مثلاً ۔۔۔۔۔
یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو، تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے ، تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔

یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔
کیونکہ ۔۔۔۔۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔

اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف "ماتحت الاسباب" اور "مافوق الاسباب" کی بحث میں۔
یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔۔

[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِين
أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا .....[/ARABIC]
(مشرکو!) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔۔۔۔
( سورة الاعراف : 7 ، آیت : 194-195 )

دیکھ لیجئے کہ ۔۔۔۔ مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔
لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔

پس ثابت ہوا کہ کسی کو ولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست و جائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ
ہمارے معاشرے میں برپا ہونے والے بعض نعرے ۔۔۔
یا فلاں مدد
یا فلاں فلاں مدد
۔۔۔۔ تو یہ ناجائز ہے۔

دوسری اہم بات ۔۔۔۔۔
یہ بات بھی ازحد قابل غور ہے کہ دلائل میں جو آیات پیش کی گئی ہیں ، ان سے تو ہرایمان رکھنے والا، ہر نماز پڑھنے والا "ولی" ثابت ہوتا ہے۔

مگر بڑی حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی فرقۂ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا مسلمان ہر مومن نماز پڑھنے والے کو ہرگز ولی نہیں کہتا۔
بہت سوں کے نزدیک تو "ولایت" ایک بہت اونچا معیار ہے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ ایسوں کا خود بھی ان آیات پر ایمان نہیں ہے۔

یا تو قرآن کی آیات سے صرف انبیاء شہداء صالحین وغیرہ کو "ولی" ثابت کریں کہ جن کو مافوق الفطرت ولی و مددگار اور آقا و مولیٰ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔
یا پھر ان آیات کے عموم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مومن مسلمان اور نمازی کو ولی اور مشکل کشا اور حاجت روا اور آقا و مولیٰ اور دستگیر سمجھ کر پکارنا شروع کر دیں۔

یقیناً ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار نہیں کی جا سکتی۔

شفاعت کی بحث:

شفاعت کی بحث میں بھی ہر حق بات کی گواہی دینے والے کی شفاعت کا آیت سے ثبوت ملتا ہے۔
جیسا کہ خود اصل مضمون میں یہ آیت پیش کی گئی ہے :
[ARABIC]وَلاَ يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُون[/ARABIC]
اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔
( سورة الزخرف : 43 ، آیت : 86 )

تو کیا وجہ ہے کہ اولیاء کرام اور انبیاء کرام کو تو شفیع مانا جاتا ہے اور ان سے شفاعت مانگی جاتی ہے۔
لیکن حق بات کی گواہی دینے والے کسی عام آدمی سے نہ تو کوئی اس کی زندگی میں اور نہ ہی اس کے مرنے کے بعد شفاعت مانگتا ہے۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟
نہیں! یہ شرک نہیں ہے۔
لیکن اس شفاعت کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اولیاء سے اس طرح مانگنا کہ

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت میں میری شفاعت کیجئے گا۔
یا شفاعت کو براہ راست ان سے ہی مانگنا شروع کر دیا جائے۔

تو یہی شرک ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کا حق ضرور دیا ہے ۔ لیکن یہ حق نہیں دیا کہ اللہ کے اذن کے بغیر شفاعت کر سکیں۔

دلائل ملاحظہ فرمائیں :

[ARABIC]مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ[/ARABIC]
کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے گا؟
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 255 )

[ARABIC]مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ[/ARABIC]
کوئی سفارش کرنے والا نہیں الا یہ کہ اس کی اجازت سے سفارش کرے۔
( سورة يون۔س : 10 ، آیت : 3 )

جب اذنِ شفاعت ملے گا تب آپ شفاعت کریں گے۔
(بخاری و مسلم)

شفاعت اللہ سے اس طرح مانگی جائے گی کہ ۔۔۔۔
یا اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حق میں سفارشی بنا۔
یہ جائز و مسنون عمل ہے۔

اسی طرح مددگار، اور صفات والی ابحاث کو بھی مندرجہ بالا دلائل پر قیاس کر لیجئے۔

آقا و مولیٰ کے لفظ کا استعمال احادیث کی روشنی میں:

اس سب خلط مبحث کے دوران ہی آقا و مولیٰ کی ایک دلیل حدیث سے بھی دی گئی ہے۔
یعنی حدیث غدیر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
[ARABIC]من كنت مولاه فعلي مولاه[/ARABIC] [جس کا میں مولیٰ ، علی (رضی اللہ عنہ) اس کا مولیٰ]
ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب علي بن ابي طالب رضى الله عنه ، حدیث : 4078
[اس کی سند ثابت ہے ، علامہ البانی اور شیخ زبیر علی زئی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔]

یہاں پر بھی مولیٰ کا مطلب نہ رب ہے، نہ آقا، نہ مالک، نہ مافوق الفطرت مدد کرنے والا، نہ دستگیر۔
یہاں پر بھی مولیٰ کا لفظ صرف مخلص دوست کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھے گا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ضرور محبت رکھے گا۔

کوئی یہ نہ سمجھے کہ "مولیٰ " کا مطلب "مخلص دوست" میں نے اپنی طرف سے کر دیا ہے۔
یہ مطلب لغت کی مشہور زمانہ کتاب "القاموس الوحید" صفحہ:900 میں موجود ہے۔

رہی یہ بات کہ اس لفظ کا مطلب آقا وغیرہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحیح مسلم کی ایک روایت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو مولیٰ (بمعنی آقا) کہنے سے منع فرمایا ہے۔

[ARABIC]ولا يقل العبد لسيده مولاى ... فإن مولاكم الله عز وجل[/ARABIC]
غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ عز وجل ہے ۔
صحیح مسلم ، كتاب الالفاظ من الادب ، باب : حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمولى والسيد ، حدیث : 6013

لہٰذا مندرجہ بالا قرآن و حدیث کے دلائل سے صراحتاً ثابت ہوا کہ لفظ مولیٰ کا استعمال رب، آقا، مالک، مددگار (مافوق الاسباب) کے معنوں میں صرف اور صرف [ARABIC]الله وحده لا شريک له[/ARABIC] کے لیے لائق و زیبا ہے۔ اور ان معنوں میں مخلوق کے لیے اس لفظ کا استعمال شرک ہے۔

لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اولیاء اللہ یا صالحین کے لیے آقا و مولیٰ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا
کیونکہ ۔۔۔
مخلوق کے لیے مولیٰ کا استعمال صرف دوست، غلام یا ماتحت الاسباب مددگار کے معنوں میں ہی کرنا درست ہے۔

وما علینا الا البلاغ
 

فخرنوید

محفلین
بھائی صاحب یہ مضمون آپ نے جو لکھا ہے صرف مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کر سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

بات اس چیز کی کرو یا اس چیز کی تبلیغ کرو جس سے سب کا اتحاد رہے اور سب اسلام کے راہنما اصولوں پر چل سکیں۔

آئندہ محتاط رہیں۔ اس پر میں بھی ایک لمبا سا جوابی مضمون لکھ سکتا ہوں۔
انشاللہ میں کچھ احادیث اور کچھ آیات سے پہلی فُرصت میں آپ کو زاتی پیغام بھیج دوں گا تا کہ آپ کا عقیدہ صاف ہو جائے۔

وسلام
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم !
دو سال پہلے یہ مضمون یہاں اردو محفل پر پوسٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔ اور اس سے کافی سال پہلے بھی میں نے یہ مضمون چند اور فورمز / ویب سائٹس پر پڑھا تھا۔ اور بالکل یہی مضمون اب کچھ دن پہلے یہاں بھی کاپی کیا گیا ہے۔
آپ سے معذرت چاہتا ہوں ۔۔۔ مگر مجھے یہ دریافت کرنے کا حق تو دیجئے کہ ایک مخصوص نظریے والا کوئی مضمون جب سالوں سے گردش میں رہے تو اس کو "تفرقہ بازی پیدا کرنے والا مضمون" کا عنوان آپ کیوں نہیں دیتے؟؟
مگر جب اسی مضمون کے ردّ میں ایک مختلف نظریہ پیش کیا جائے تو وہ آپ کو کیوں "تفرقہ بازی پیدا کرنے والا مضمون" نظر آ جاتا ہے؟؟

کیا محتاط رہنے کا مشورہ صرف اسی کو دیا جانا چاہئے جس کے نظریات سے ہمیں اختلاف ہو اور اس کو بخش دیا جانا چاہئے جس کے نظریات ہمیں‌ مرغوب لگتے ہوں ؟؟
انصاف "غیر جانبداری" کا نام ہے یا اپنی خود کی "پسند" کو نوازنے کا؟؟

ایک بار پھر معذرت ۔۔۔ اگر میرے کچھ الفاظ ناگوار گزریں۔
 

مغزل

محفلین
باذوق صاحب۔
اچھی بحث ہے ۔ خوش رہیں ۔
اگر یہ آپ کا عقیدہ ہے خوب ہے۔
میرا عقیدہ مختلف ہے ۔
فورم پر کوشش کر کے وہ مراسلات پیش کریں
جس سے ہم ایک ہو ں فروعی و عقیدتی معاملات کو
چھیڑ کر آپ اور ہم ( جو بھی ہو) ۔۔ محض فرقہ پرستی کرسکتے ہیں
کوئی اچھا کام کیجئے یہ کام علماء کے نام پر بہت سے لوگوں نے کیا ۔
نتیجہ ڈھاک کے تین پات والا رہا ۔۔
میں ایسے بیسوں مناظرے بھی دیکھ چکا جس میں ہارنے والا آج بھی
توبہ نہیں کرتا ۔۔ بلکہ اسی طرح اپنے علم کو شر کیلیے استعمال کرتا ہے
جیسے وہ کرتا چلا آیا ہے ۔۔

والسلام
 

طالوت

محفلین
فورم پر کوشش کر کے وہ مراسلات پیش کریں
جس سے ہم ایک ہو ں
والسلام
سچ پوچھیں تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں جس سے ہم ایک ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
دو چار ادھر ادھر کی باتیں تو لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔۔۔
ورنہ اتفاق کی کوئی صورت ہو تو ہمیں بھی بتائیے۔۔۔
وسلام
 

مغزل

محفلین
جو جناب خیال کیجئے ۔۔ ہم نےتو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا ۔۔ جی چاہے تو روشنی سے فیض اٹھائیے ۔ وگرنہ ۔۔ فبھا۔
 

مغزل

محفلین
سچ پوچھیں تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں جس سے ہم ایک ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
دو چار ادھر ادھر کی باتیں تو لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔۔۔
ورنہ اتفاق کی کوئی صورت ہو تو ہمیں بھی بتائیے۔۔۔
وسلام

آسان سی بات ہے ۔۔ اپنا اپنا عقیدہ و مسلک اپنی اپنی جیب میں رکھ لیا جائے ۔۔
دوم یہ کہ ۔۔ انسان کی فلاح کی بات کی جائے ۔۔ نہ کہ صرف مسلمان کی ۔
فلاحِ انسانی کا پرچار کیا جائے نہ کہ ۔۔ مسالکی و فروعی معاملات کا ۔
ایک دوسرے کی مدد کیجئے نہ کہ گلہ کاٹیئے ۔۔ کفر و شرک و بدعت کی پٹاری بند کردیجائے۔
 

باذوق

محفلین
باذوق صاحب۔
اچھی بحث ہے ۔ خوش رہیں ۔
اگر یہ آپ کا عقیدہ ہے خوب ہے۔
میرا عقیدہ مختلف ہے ۔
فورم پر کوشش کر کے وہ مراسلات پیش کریں
جس سے ہم ایک ہو ں فروعی و عقیدتی معاملات کو
چھیڑ کر آپ اور ہم ( جو بھی ہو) ۔۔ محض فرقہ پرستی کرسکتے ہیں
کوئی اچھا کام کیجئے یہ کام علماء کے نام پر بہت سے لوگوں نے کیا ۔
نتیجہ ڈھاک کے تین پات والا رہا ۔۔
میں ایسے بیسوں مناظرے بھی دیکھ چکا جس میں ہارنے والا آج بھی
توبہ نہیں کرتا ۔۔ بلکہ اسی طرح اپنے علم کو شر کیلیے استعمال کرتا ہے
جیسے وہ کرتا چلا آیا ہے ۔۔

والسلام
السلام علیکم ، محترم م۔م۔مغل صاحب
اردو شعر و ادب کے حوالے سے آپ ایک بہت عمدہ شخصیت ہیں ، میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔

میری گذارش صرف اتنی ہے کہ ۔۔۔۔۔

آپ دو سال قبل پوسٹ کیا گیا یہ مضمون دیکھیں اور اس پر یہاں میرا جواب دیکھیں۔ پھر اس کے بعد میرے جواب کا جواب بھی دیکھیں ۔۔۔۔
آپ کو سمجھ میں آ جائے گا کہ ۔۔۔۔۔
میں نے غیر ضروری تنازعہ میں الجھنے سے گریز کی کوشش کی تھی یعنی ۔۔۔ بالکل آپ کی سوچ کی طرح کہ ۔۔۔ ایک دوسرے کے فروعی و عقیدتی معاملات کو نہ چھیڑا جائے !
اس کے باوجود مجھے یہ کہہ کر حوصلہ دلایا گیا تھا کہ :
اگر علماء کے لیے "مولانا" کے استعمال کے متعلق آپ کو گفتگو کرنی ہے تو اس وقت بہترین وقت ہو سکتا ہے کیونکہ آجکل مجھے کچھ فراغت ہے۔

اس کے جواب میں ۔۔۔۔ میں نے پھر بھی خاموشی اختیار کی ۔۔۔ حالانکہ "جواب" اُس وقت بھی میرے پاس تیار تھا۔
کیا آپ میری "خاموشی" کی داد دے سکتے ہیں؟؟ (اگر خود کو غیر جانبدار اور انصاف پسند سمجھنا چاہیں تو ۔۔۔۔)

کچھ عرصہ بعد وہی نظریات (عقائد) دوبارہ یہاں کاپی/پیسٹ کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ (اور آپ اس کی اس لیے تعریف کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان نظریات سے آپ کا بھی اتفاق ہوتا ہے)
بتائیے کیا اس صورت میں مجھے پھر بھی خاموش رہنا چاہئے؟؟
یقین مانئے ۔۔۔۔ اگر آپ کسی طرح انتظامیہ سے مجھے یہ تیقن دلا دیں کہ یہاں اردو محفل پر صرف "یکطرفہ" نظریات کی پیشکشی کو ہی برداشت کیا جاتا ہے ۔۔۔۔
تو میں مخالف نظریات پر مبنی تھریڈز لگانا بالکل ہی چھوڑ دوں گا !!
اس کو ایک مسلمان کا وعدہ سمجھئے !

لیکن آپ ایسا تیقن نہیں دلا سکتے تو میں‌ ادب سے درخواست کروں گا کہ جو نصیحت آپ مجھے کر رہے ہیں ۔۔۔۔ انصاف پسندی کے تقاضوں کے تحت فریقِ مخالف کو بھی یہی نصیحت سے ضرور نوازیں !!
بہت شکریہ۔

والسلام علیکم

پ۔ت :
ویسے میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ جس طرح ایک نظریہ پر مبنی تھریڈ بند کیا گیا اسی طرح اس دوسرے نظریے پر مبنی تھریڈ بھی بند کیا جانا چاہئے تاکہ غیر ضروری بحث سے گریز ہو ۔۔۔ اور ایسے موضوعات ہلکی پھلکی گفتگو میں صرف حوالہ دینے کے کام آئیں‌ !!
 

مغزل

محفلین
شکریہ ۔۔ طالوت
میری مراد سب ہی فریقوں سے ہے ۔۔
آپ سے تخاطب کی فضا ہموار تھی تو آپ نے خیال کیا
کہ میں‌صرف آپ کو کہا ہے ۔۔ ویسے میں پھر اعادہ کرتا ہوں
کہ یہ تمام تر مکاتیب ِ فکر سے متعلق ہے ۔
والسلام
(ایک گزارش کہ شعر و ادب کا لفظ حذف کردیں ، ا س معاملے کا یہا ں کیا دخل)
 

فخرنوید

محفلین
کچھ دن پہلے میں نے ایک مضمون یہاں ارسال کیا جس میں ویڈیو تھی اور سب صاف ظاہر تھا کس طرح عامر لیاقت نے گستاخی صحابہ کی اسے فوری ہٹا دیا گیا۔ میرا نہیں خیال ہے کہ یہاں پر ہمیں کسی غیر ضروری مسئلہ مسائل کو چھیڑیں

اگر مسئلہ مسائل پر بحث کرنا ہے تو اصلاحی بیان لیں

جھوٹ
فراڈ
چوری ، ڈاکہ زنی
غیبت
اس طرح کے موضوعات پر بحث کرو

محترم ایڈمن حضرات سے گزارش ہے کہ اس سلسلہ کو بند ہی نہیں بلکہ ختم کر دیا جائے


وسلام

شکریہ
 

طالوت

محفلین
حضور صرف اسکو ہی کیوں ؟؟؟ یہ سارا سلسلہ ہی بند کر دیں یا پھر اسے بھی جاری رکھیں۔ کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی کسی کو گستاخی کا موقع نہ ملے ۔۔۔
کہ یہاں چند ممبران "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں" کے مصداق لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔۔ اور جب اس پر بات کریں تو چراغ پا ہو جاتے ہیں ۔۔۔ جبکہ جو صاف صاف کہتا ہے اس پر سب چڑھائی کر دیتے ہیں ۔۔۔ اگر احترام مقصود ہے تو سب کا کیجیے ۔۔۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
باذوق بھائی،
یہ آپکی اور سلفی صاحب وغیرہ کی بہت پرانی بیماری ہے کہ جب ایک موضوع شروع ہے اور اس میں دال نہیں گل رہی تو جھٹ نئے نئے زاویوں سے اعتراضات شروع کر دو تاکہ توجہات تقسیم ہو جائیں اور افراتفری میں کوئی سیدھی راہ نہ پا سکے۔
تو تبرکات نبوی والے اس تھریڈ میں تو آپکے پاس جواب دینے کے لیے وقت نہیں بلکہ کچھ عرصہ درکار ہے، لیکن اسی حالت میں یہاں نئے تھریڈ کھولے جا رہے ہیں۔

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ "کیا اولیاء اللہ کو مولا کہنا شرک ہے" والا تھریڈ ناظمین نے مقفل کر دیا ہے۔
اس تھریڈ کا بھی یہی حشر ہونا ہے۔

تو جب آپ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ میرے یہ مضامین دوسرے فورم کی زینت بنے ہوئے ہیں تو پھر ان کھلے ہوئے تھریڈز [جہاں پر کھل کر موضوع پر گفتگو ہوئی ہوئی ہے] میں جا کر بحث کو کیوں آگے نہیں بڑھاتے۔
بقیہ کسی اور فورم کا تو مجھے پتا نہیں کہ کہاں کہاں میرے مضامین زینت بنے ہوئے ہیں [اگر آپ کو پتا ہے تو بتا دیں] مگر مجھے صرف محترم شاکر القادری برادر کے القلم فورم کا علم ہے کہ وہاں پر میں نے اس موضوع پر [مکمل نصوص و دلائل کے ساتھ] پوسٹ کیا تھا [جبکہ اس محفل میں یہ مکمل حالت میں نہیں]
تو کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ ان پہلے سے شائع شدہ اور کھلے ہوئے تھریڈز میں آزادی کے ساتھ اپنی گفتگو بڑھائیں بجائے پھر یہاں پر ایک مقفل تھریڈ پر تبصرہ کرنے کے؟
کیا آپکو محترم شاکر القادری صاحب سے ڈر ہے کہ وہ آپکے ساتھ انصاف نہیں کریں گے اور وہی سلوک کریں گے جو اردو پیجز پر آپ حضرات کی طرف سے میرے ساتھ کیا گیا تھا؟ تو میرا نہیں خیال کہ آپ کو ایسے کسی خوف میں مبتلا ہونا چاہیے۔

اور منتظمین حضرات سے گذارش ہے کہ آپ نے تو مولا کہنے والے تھریڈ کو مقفل کر کے جواب دینے کی پابندی لگا دی تھی، مگر پھر بھی یہ اُس مقفل تھریڈ کا جواب آ گیا ہے۔ تو آپ سے گذارش ہے کہ اس جوابی تھریڈ کے مراسلوں کو اصل تھریڈ کے نیچے ہی منتقل کر دیا جائے۔ شکریہ۔
اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ اس تھریڈ کو پھر مستقبل قریب میں پھر مقفل کر دیا جائے گا یا نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہونا ہے تو آپ پہلے ہی بتا دیں اور ہم پھر اس گفتگو کے لیے القلم کا رخ کر لیتے ہیں۔
والسلام۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

بحوالہ :
کیا غیر اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟

تمہید

۔
السلام علیکم محترم جناب باذوق صاحب !
جناب من کیا اردو مجلس کافی نہیں آپکے خود ساختہ توحیدانہ ذوق کی تسکین کہ لیے ؟ تو پھر کیوں آپ ناسازی طبع کہ کسی دورے کی طرح اپنی اس خود ساختہ توحید کے پرچم کو اُٹھائے اُٹھائے گردش لیل و نھار کی مانند کشاں کُشاں ہر فورم پر لہرانے کی سعی لاحاصل فرماتے ہیں ۔ ۔ اوراس ضمن میں مختلف موضوعات پر آپ سے دلائل کہ ساتھ جواب طلبی کی جاتی ہے تو آپ غم روزگار کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں اور جب کوئی آپ کا پیچھا کرتے ہوئے آپ کی من پسند مجلس میں جا پہنچے تو اسے گھس بیٹھیا سمجھ کر جواب دینے سے روک دیا جاتا ہے اور اگر کبھی آپ کی مجلس کی انتظامیہ کمال فیاضی سے کامظاہر ہ فرما بھی لے تو مراسلے کو جُوں کے تُوں کی بجائے قطع و بُرید کی مشینری سے گزار کر مزید تخفیف کی صورت میں چسپاں کیا جاتا ہے ۔ ۔ خدارا اب بس بھی کیجیئے بہت ہوگئی سب اچھے سے جانتے ہیں آپکو ۔۔ ۔آپکی علمبرداری توحید کو ۔ ۔ ۔
 

فخرنوید

محفلین
اب کیا یہاں کے منتظمین اور ناظم حضرات سو گئے ہیں۔ جو اس کو حذف نہیں کر رہے ہیں۔ اگر آج اسے حذف نہ کیا گیا تو کل کو میرا جوابی مضمون یہاں شائع ہو گا جسے مقفل و حذف کرنا پھر آپ کی نا انصافی ہو گی۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
وسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
اب کیا یہاں کے منتظمین اور ناظم حضرات سو گئے ہیں۔ جو اس کو حذف نہیں کر رہے ہیں۔ اگر آج اسے حذف نہ کیا گیا تو کل کو میرا جوابی مضمون یہاں شائع ہو گا جسے مقفل و حذف کرنا پھر آپ کی نا انصافی ہو گی۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
وسلام
مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ مذہبی تعلیمات کے زمرہ میں کچھ پوسٹ‌ ہوتا ہے تو اس کا نزلہ منتظمین پر گرنا شروع ہو جاتا ہے، گویا وہ ہی اس کے ذمہ دار ہوں۔ میں یہاں وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کسی مخصوص‌ مکتبہ فکر کے عقائد کے پرچار سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہر ایک کو اخلاقی حدود کے اندر رہ کر اپنے عقائد کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ جہاں تک موضوعات کو مقفل یا حذف کرنے کا تعلق ہے تو ضرورت پڑنے پر ہم انتظامی اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔

جس طرح کا واویلا یہاں مچایا جا رہا ہے، خود باذوق بھی اپنی مرتبہ یہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے ان کے بلاگ پر پوسٹ‌ بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی صرف اپنے لیے مخصوص‌ نظر آتی ہے اور دوسروں کی مرتبہ یہی اظہار رائے کی آزادی فرقہ پرستی بن جاتی ہے۔

دوسرے تھریڈز کی طرح اس تھریڈ‌ کو بھی پانچ، چھ صفحے بعد مقفل کر دیا جائے گا، اور اگر کسی صاحب نے شرپسند مواد پوسٹ کرنے کی کوشش کی تو نہ صرف یہ مواد حذف کر دیا جائے گا بلکہ ان صاحب کو بین بھی کر دیا جائے گا۔
 
Top