میری ڈائری کا ایک ورق

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شام
مجھے شام اچھی نہیں‌لگتی جب کوئی مجھے ایسا کہتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے ایک دفعہ میرے دوست نے مجھے ایسا ہی کہا کہ مجھے شام اچھی نہیں لگتی میں نے اس کو کہا شام کے بارے میں اگر کچھ جانتا ہے تو ان پرندو سے جا کر پوچھو کے وہ شام کا کس بے صبر سے انتظار کرتے ہیں جب وہ اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دیوانِ غالب
آج ہی میں‌دیوانِ‌غالب لایا ہوں ایک اولڈ بک شاپ سے جلد تو بہت خوب تھی اور قیمت میں بھی کم صرف 280 روپے کی بدقسمتی سے میرے اس وقت صرف 250 روپے تھے۔اور یہ بھی غنیمت تھی آخری تاریخوں میں اتنے پیسے میرے پاس ہونا بہت حیران کن تھا اب بات یہ تھی اگر میں‌ دیوانِ غالب لے کر جاؤں تو پھر مجھے گھر پیدل جانا پڑھے گا لیکن دیوانِ غالب لوں کیسے اس کے لیے بھی 30 روپے کم تھے پہلے میں‌نے سوچا قیمت میں کچھ کمی کی بات کرتا ہوں پھر خیال آیا پہلے ہی اتنی کم قیمت ہے اور وہ بھی آدھی قیمت پر دے رہے تھے کبھی دیوانِ غالب اٹھاتا اور پڑھتا اور کبھی قیمت دیکھ کر پھر رکھ دیتا کوئی 15 منٹ ایسے ہی گزر گے لیکن میں‌کچھ فیصلہ نا کر سکا دیوانِ غالب میرے لیے بہت ضروری تھا کیوں‌کے جب سے میں‌نے شاعری شورع کی تھے مجھے بہت سارے دوستوں‌اور اچھے لکھنے والوں نے کہا تھا تم ایک بار دیوانِ غالب ضرور پڑھنا اس لے میں اس کو ہر قیمت پر لے کر جانا ہی تھا دوکاندار بھی مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا پھر کیا ہوا میں‌دیوانِ غالب کو وہی پر رکھ کر تھوڑا سا فاصلہ پر کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے ۔اسی دوران بہت سارے لوگ آئے اور گے لیکن کوئی ایک بھی دیوانِ غالب کے پاس نہیں‌آیا دور سے ہی دیکھ کر گزر گیا شام پڑ رہی تھی بہت پرشانی کے عالم میں‌تھا اتنے میں‌ دوکاندار میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا بیٹھا کیا پرشانی ہے کون سی کتاب لینی ہے ۔پہلے تو میں‌خاموش رہا کہ اگر میں نے ان کو بتایا کہ میں‌نے دیوانِ غالب لینا ہے اور میرے پاس 30 روپے کم ہیں تو وہ پتہ نہیں‌کیا سوچے گے ہو سکتا ہے مجھے ڈانٹ بھی دے لیکن بعد میں میں نے کہا سر مجھے دیوانِ غالب چاہے لیکن میرے پاس صرف 250 روپے ہیں اگر آپ چاہے تو 30 روپے ادھار کر لے میں‌کل آپ کو آ کر دیے جاؤں گا ۔ اس پر اس آدمی نے میرے طرف غور سے دیکھا ۔میں‌ڈر گیا کیوں‌کے وہ مجھے جانتا ہی نہیں‌تھا اور میں رہتا بھی دور تھا اس طرف میرا پتہ نہیں‌کب دوبارا چکر لگتا لیکن میں نے سوچ رکھا تھا اگر مجھے یہ دیوان مل گیا تو میں‌کل ضرور یہاں آؤ گا اور پورے پیسے دے کر جاؤں گا ۔ میں‌ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس آدمی نے دیوانِ غالب میرے ہاتھ میں‌دیااور کہا اس کے لیے اتنی دیر سے پرشان ہو یہ لو اور جاؤ ۔میں نے 250 روپے نکال کر دے لیکن وہ کہنے لگے ارے اس کتاب کو ہمارے پاس پڑھے ہوئے بہت دن ہو گے ہیں آپ پہلے لڑکے ہو جس نے اس کتاب کو اٹھا کر پڑھا ہے اور اس کو خریدنے کے لے پرشان تھے اتنے دنوں میں‌صرف میرے ملازم ہی اس کو صبح‌باہر لگاتے تھے اور رات کو اند لے جاتے تھے آپ اس کو لے جاؤ اگر اس سے تمہیں‌کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میری قیمت پوری ہو جائے گی اس کے بعد وہ دوکان کے اندر چلا گیا اور میں‌کتاب پکڑے وہی پر کھڑا رہا اندر جاتے ہوئے ایک دفع میری طرف دیکھا اور مسکرا کر چلا گیا

خرم شہزاد خرم



اتنا اچھا لگا یہ پڑھ کر ۔ بہت اچھا !


۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ ایک آرٹیکٹ ہیں ۔ آپ نے سوچا کہ ایک عمارت بنائی جائے ۔ یہ احساس ہے ۔ آپ نے پوری تندہی سے اس منصوبے " احساس " پر کام کیا کہ کہاں کیسے چوکھٹیں لگائی جائیں ۔ کہاں کیسا در ہوگا ۔ عمارت کا رنگ کیسا ہوگا ۔ غرض یہ کہ آپ نے اس کی بھرپور ڈیزائنگ کی ۔ یہ خلوص ہے ۔ جب عمارت بن کے سامنے آگئی تو یہ محبت ہے ۔ یعنی محبت ایک آؤٹ پٹ ہے ۔ خلوص ایک پروسیجیر ہے ۔ اور احساس ایک پروگرام ہے ۔
(ظفری)
 
آپ ایک آرٹیکٹ ہیں ۔ آپ نے سوچا کہ ایک عمارت بنائی جائے ۔ یہ احساس ہے ۔ آپ نے پوری تندہی سے اس منصوبے " احساس " پر کام کیا کہ کہاں کیسے چوکھٹیں لگائی جائیں ۔ کہاں کیسا در ہوگا ۔ عمارت کا رنگ کیسا ہوگا ۔ غرض یہ کہ آپ نے اس کی بھرپور ڈیزائنگ کی ۔ یہ خلوص ہے ۔ جب عمارت بن کے سامنے آگئی تو یہ محبت ہے ۔ یعنی محبت ایک آؤٹ پٹ ہے ۔ خلوص ایک پروسیجیر ہے ۔ اور احساس ایک پروگرام ہے ۔
(ظفری)
کچھ ترتیب غلط سی لگتی ہے
محبت احساس ہے اور یہ قوت محرکہ ہے۔ قربانی عمل ہے اور اوٹ پٹ زندگی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ڈپٹی نذیر احمد کی توبۃ النصوح سے ایک اقتباس (باپ بیٹے کا مکالمہ)

باپ : اور بڑے امتحان کے واسطے بھی کچھ تیاری کر رہے ہو؟
بیٹا : ابھی اس کے بہت دن پڑے ہیں۔ اس سے فارغ ہو کر دیکھا جائے گا۔
باپ : کیا اس کا کوئی وقت مقرر ہے؟
بیٹا : جناب، ہاں۔ بڑے دن کی تعطیل کے قریب ہوا کرتا ہے۔
باپ : نہیں نہیں، تم نے میری مراد کو نہیں سمجھا۔ میں حسابِ آخرت کو بڑا امتحان کہتا ہوں۔ کیا وہ بڑا امتحان نہیں ہے؟
بیٹا : کیوں نہیں۔ سچ پوچھیئے تو سب سے بڑا امتحان وہی ہے۔
باپ : تو میں جب تمہارے ان دنیاوی چھوٹے چھوٹے امتحانوں کی خبر رکھتا ہوں، تو کیا اس بڑے سخت امتحان کی نسبت میں نے تم سے پوچھا تو کچھ بے جا کیا؟
بیٹا : جناب میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ نے بے جا کیا۔ ایسا کہنا میرے نزدیک گستاخی اور گناہ دونوں ہے۔
باپ : اچھا تو میں سننا چاہتا ہوں کہ تم اس بڑے سخت امتحان کے واسطے کیا تیاری کر رہے ہو؟
بیٹا : جناب، سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس امتحان کے واسطے مطلق تیاری نہیں کی۔
باپ : کیا یہ غفلت نہیں ہے؟
بیٹا : جناب، غفلت بھی پرلے درجے کی غفلت ہے۔
باپ : لیکن جب تم ایسے دانش مند ہو کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے امتحانوں کے لیے مہینوں اور برسوں پہلے سے تیاری کرتے ہو تو اس سخت امتحان سے غافل رہنا بڑے تعجب کی بات ہے۔
 

تعبیر

محفلین
شمشاد جی بہت ہی عمدہ تھریڈ ہے۔ میں نے شروع کے بیس صفحات پڑھ لیے ہیں۔
اپنی ڈائری میں بھی لکھ لیے ہیں
باقی بھی پڑھ کر میں بھی کچھ لکھونگی :)
 

شمشاد

لائبریرین
فی البدیہہ مصرع

اردو کے مشہور شاعر انشاء اللہ خان انشاء، نواب سعادت علی خان، والئی اودھ کے دربار سے وابستہ تھے۔ ایک دن سعادت علی خان نے تمام درباری شاعروں کو اس مصرع پر فی البدیہہ مصرع لگانے کا حکم دیا :

اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے ترے ہاتھ​

اور کہا اگر اس مصرعے پر مصرع نہ لگا سکا تو کسی کی خیر نہیں۔ تمام شعراء پریشان ہو گئے کہ اس بے تکے مصرعے پر کیا مصرع لگایا جائے۔ لیکن انشاء اللہ خان انشاء کا دماغ حاضر تھا۔ انہوں نے تھوڑی دیر سوچا اور مصرع لگا کر شعر مکمل کر دیا۔ اب پورا شعر یوں ہو گیا تھا :

اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے ترے ہاتھ
لیلٰی اتنا تو نہ تھا پردہ مخمل بھاری​
 

شمشاد

لائبریرین
اندھے کو اندھیرے میں ۔۔۔۔

قلندر بخش جراءت اندھے شاعر بھے۔ ایک روز بیٹھے ہوئے فکر سخن کر رہے تھے کہ انشاء چلے آئے۔ انہیں محو پایا تو پوچھا : "حضرت، کس سوچ میں ہیں؟"

جراءت نے کہا " کچھ نہیں بس ایک مصرعہ ہوا ہے، شعر مکمل کرنے کی سوچ رہا ہوں۔"

انشاء نے کہا، " کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔"

جراءت نے کہا " نہیں، تم گرہ لگا کر اسے مجھ سے چھین لو گے۔"

آخر بڑے اصرار کے بعد بتایا۔ مصرع یہ تھا :

اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی​

انشاء نے فوراً گرہ لگائی :

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی​

جراءت لاٹھی اٹھا کر انشاء کی طرف لپکے۔ دیر تک انشاء آگے آگے اور جراءت پیچھے پیچھے لٹھ لئے بھاگتے رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
لائی حیات، آئے

ایک دن معمول کا دربار تھا۔ استاد شاہ محمد ابراہیم ذوق موجود تھے۔ ایک شہزادہ آیا اور بادشاہ کے کان میں آہستہ سے کچھ کہہ کر چلا گیا۔

حکیم احسن اللہ نے عرض کیا : " یہ آنا کیا تھا اور جانا کیا تھا۔"

بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے منہ سے نکلا " اپنی خوشی نہ ائے نہ اپنی خوشی چلے" اور پھر استاد کی طرف دیکھنے لگے۔ استاد ذوق نے فوراً شعر مکمل کر دیا :

لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے​
 

شمشاد

لائبریرین
دریں چہ شک؟

انشاء اللہ خان نے اپنے عالم جوانی میں ایک مشاعرے میں اپنی غزل پڑھی۔

جھڑکی سہی، ادا سہی، چیں بچیں سہی
سب کچھ سہی، پر ایک نہیں کی نہیں سہی​

پھر انشاء نے جب یہ شعر پڑھا :

گر نازنیں کہے سے برا مانتے ہو تم
میری طرف تو دیکھیئے میں نازنیں سہی​

سودا ضعیف العمر تھے اور مشاعرے میں موجود تھے، مسکرا کر بولے " دریں چہ شک۔۔۔؟"
 

شمشاد

لائبریرین
سوغات کیا کیا

کسی مشاعرے میں نوح ناروی غزل پڑھ رہے تھے، جس کی زمین تھی " حالات کیا کیا، آفات کیا کیا۔

جب وہ اپنے مخصوص انداز میں اپنے ایک شعر کا یہ مصرعہ اولٰی ارشاد فرما رہے تھے :

یہ دل ہے، یہ جگر ہے، یہ کلیجہ​

تو پنڈت ہری چند اختر جھٹ بول اٹھے :

قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا​
 

شمشاد

لائبریرین
بڑھ کے دوں جوتا

کانگریس سے الگ ہونے کے بعد ایک روز مولانا ظفر علی خان بازار میں جوتوں کی ایک دوکان پر کھڑے تھے کہ سامنے سے کانگریس کا جلوس آتا دکھائی دیا۔ جس کے شرکاء ننگے پاؤں تھے۔ مولانا نے اسی وقت یہ شعر کہا :

کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا​
 

شمشاد

لائبریرین
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں

ایک دفعہ علی گڑھ میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ اہل ذوق دور دور سے مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ علامہ اقبال بھی موجود تھے۔ مشاعرے کے اختتام پر علی گڑھ کے چند مقامی شعراء نے ایک مصرع منتخب کر کے علامہ صاحب کو اس پر گرہ لگانے کے لئے کہا :

مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں، ہرن پانی میں​

علامہ اقبال ایسے بکھیڑوں سے پرہیز کرتے تھے۔ تاہم لوگوں کے بے حد اصرار پر یہ مصرع لگا کر شعر مکمل کر دیا :

اشک سے دشت بھریں، آہ سے سوکھیں دریا
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں، ہرن پانی میں​
 

شمشاد

لائبریرین
خون کھولانا

حضرت جوش ملیح آبادی مولانا ابو الکلام آزاد سے ملنے گئے، اتفاق سے وہاں پنڈت جواہر لال نہرو تشریف لائے ہوئے تھے۔ اور کسی سیاسی گفتگو میں مشغول تھے۔ جوش صاحب نے کوئی دس منٹ انتظار کیا اور اس کے بعد یہ شعر لکھ کر مولانا کے پاس اندر بھیجا :

نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا​
 

شمشاد

لائبریرین
اپنا کلام نہ دیجئے

دہلی کے ایک مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سنا رہے تھے کہ فراق گورکھپوری نے دفعتاً بلند آواز میں کہنا شروع کیا " واہ حفیظ پیارے، کیا گلا پایا ہے، یار میرا سارا کلام لے لو، مگر اپنی آواز مجھے دے دو۔"

"فراق صاحب، میں آپ کا نیاز مند ہوں۔ میری آواز تو کیا آپ مجھے بھی لے لیجیئے لیکن خدا کے لئے مجھے اپنا کلام نہ دیجئے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مصرع پر مصرع

سید انور حسین آرزو لکھنوی کے شاگرد چوہدری جلیل احمد نے ایک بار یہ مصرع پڑھا :

چشم ساقی میں خمار آتے ہی پیمانہ بنا​

اور کہا کہ اس مصرع پر دوسرا مصرع لگ ہی نہیں سکتا، کیونکہ جو کہنا تھا وہ ایک ہی مصرع میں مکمل ہو گیا۔ آرزو صاحب نے قدرے تامل کے بعد یہ کہہ کر ان کے دعوے کی تردید کر دی :

چشم ساقی میں خمار آتے ہی پیمانہ بنا
ہاتھ انگڑائی کو اٹھے اور میخانہ بنا​
 

شمشاد

لائبریرین
رائتہ

ایک مشاعرے میں دعوت خورد و نوش کا اہتمام تھا ۔ دیگر شعراء تو کھانے سے فارغ ہو کر پنڈال میں پہنچ رہے تھے لیکن اسرار الحق مجاز اور معین احسن جذبی ابھی مصروف تھے۔ منتطمین میں سے ایک نے آ کر جذبی سے چلنے کی درخواست کی۔

جذبی نے کہا : " بھیا، ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھا لوں۔"

اور مجاز اتنی سے بات سنتے ہی ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگے " جذبی، اس رائتہ کے مضمون کو اقبال اپنے ہاں یوں نظم کرتا :

حیف شاہیں رائتہ پینے لگا​

اور اختر شیرانی کا مصرع ہوتا :

رائتہ جو رخ سلمٰی پہ بکھر جاتا ہے​

اور جوش یوں کہتے :

رائتہ کھا کر وہ شاہ کج کلاہاں آ گیا​

اور فراق یہ انداز اختیار کرتے :

ٹپک رہا ہے دھندلکوں سے رائتہ کم کم​

اور فیض احمد فیض کہتے :

تیری انگشت حنائی میں اگر رائتہ آئے
ان گنت ذائقے یلغار کریں مثل رقیب​

اور میں خود یوں نظم کرتا :

بنت شب دیک جنوں رائتہ کی جائی ہو
میری مغموم جوانی کی توانائی ہو​

اور تمہیں تو واقعی یہی کہنا چاہیے تھا :

ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھا لوں تو چلوں​
 

شمشاد

لائبریرین
ہجو

ایک مرتبہ منشی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار نے علامہ اقبال کی کوئی نظم چھاپنے سے انکار کر دیا۔ اس پر ان کی ہجو میں آپ نے کہا :

آج کل لوگوں میں ہے انکار کی عادت بہت
نام محبوبانِ عالم کا یونہی بدنام ہے​
 
Top