میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
پانی کی کرامات

* پانی آسمان کی طرف اٹھے تو بھاپ
* آسمان سے نیچے آئے تو بارش
*جم کر گرے تو اولے
* گر کر جمے تو برف
* پھول کی پتی پر ہو تو شبنم
* پتی سے نکلے تو عرق
* جمع ہو جائے تو جھیل
* بہہ پڑے تو ندی
* آنکھوں سے نکلے تو آنسو
* جسم سے نکلے تو پسینہ
* حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے نکلے تو آب زم زم
* ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے پئیں تو آب کوثر
 

سارا

محفلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مردوں میں سے تو بہت سے مرد کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کامل ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بزرگی تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی بزرگی تمام کھانوں پر (شوربہ میں بھگی ہوئی روٹی کو ثرید کہتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
ماں کون ہے؟

کسی نے پوچھا، “ماں کیا ہے اور کون ہے؟“

اولاد نے کہا : ممتا کی داستان ہے، جس کا کوئی بدل نہیں۔
شاعر نے کہا : ایسی غزل ہے جو سنتے ہی دل میں اتر جاتی ہے۔
مالی نے کہا : باغ کا ایسا پھول ہے، جس کی خوشبو سے دنیا مہکتی ہے۔
بادل نے کہا : ایسی دھنک ہے، جس میں ہر رنگ نمایاں ہے۔
سمندر نے کہا : ایسی ہستی ہے جو اولاد کے لاکھوں راز اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔
چاند نے کہا : وہ روشنی ہے جسے ٹھنڈک کہتے ہیں۔
مصنف نے کہا : وہ لفظ ہے جسے لکھتے ہوئے سرور آ جاتا ہے۔
ہواؤں نے کہا : ایسا رشتہ ہے جس کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔
درخت نے کہا : وہ چھاؤں ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر سکون ملتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آنسو

ایک دن موم بتی کے اندر جلتے ہوئے دھاگے نے اس سے کہا “جلتا تو میں ہوں پر تیرے آنسو کیوں نکل آتے ہیں؟“

موم بتی نے کہا “جس کو دل میں جگہ دی ہو، اگر وہ تکلیف میں ہو، تو آنسو نکل ہی آتے ہیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
رزق

ایک شخص نے حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ سے کہا، “میری عیال زیادہ اور معاش کم ہے۔“

آپ نے فرمایا “اپنے گھر میں جس کو تو دیکھے کہ اس کا رزق مجھ پر ہے، اس کو نکال دے اور جس کو دیکھے کہ اس کا رزق اللہ پر ہے، اس کو گھر میں رہنے دے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
عقل اور خواہش

جانوروں میں خواہش پائی جاتی ہے لیکن عقل نہیں ہوتی۔
فرشتوں میں عقل ہوتی ہے لیکن خواہش نہیں ہوتی۔

انسان میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں۔ اس میں عقل بھی ہے اور خواہش بھی۔ اگر انسان خواہش سے عقل کو دبا لیتا ہے تو جانوروں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اور اگر عقل سے خواہش کو دبا لیتا ہے تو اس کا شمار فرشتوں کی صف میں کیا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بار

کسی نے کہا کہ بچپن ایک بار ملتا ہے، خوب کھیل کود کر لو، کہیں سے آواز آئی جوانی دیوانی ہے، سارے مزے کر لو، کوئی بولا کالج اور یونیورسٹی کی لائف ایک بار ملتی ہے، خوب مستی کر لو۔

لیکن افسوس کوئی یہ نہیں کہتا کہ زندگی بھی ایک بار ملتی ہے اپنے اللہ کو راضی کر لو۔
 

شمشاد

لائبریرین
زبان کی لغزش

پاؤں کی لغزش سے سنبھلنا تو ممکن ہے لیکن زبان کی لغزش کا کوئی مداوا نہیں۔ ترش روئی عمر کے ساتھ کبھی دھیمی نہیں پڑتی اور تلخ کلامی ایک ایسا تیز دھار اوزار ہے، جو مسلسل استعمال سے اور زیادہ تیز ہوتا ہے۔

پرندہ اپنے پروں سے اور انسان اپنی زبان سے پکڑا جاتا ہے۔ جب زبان بے لگام ہو جائے تو اس کو سدھارنا آدمی کے بس میں نہیں رہتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہاتھ کی لکیریں

ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا، “میں تمہارے خیال میں کہاں ہوں؟“

میں نے کہا، “میرے دل میں، میری جان میں تم ہو۔ میری سانسوں اور میرے دل کی دھڑکنوں میں صرف تم ہی تم ہو۔“

پھر اس نے پوچھا، “کہاں نہیں ہوں میں؟“

میں رو دیا اور بولا، “میرے ہاتھ کی لکیروں میں نہیں ہو تم۔“
 

شمشاد

لائبریرین
تقدیر

وقت بہت ظالم ہے، انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ جب صرف ایک ٹھوکر سے اس کے تمام سنہرے خواب بکھر جاتے ہیں۔ وقت ایسا زخم چھوڑ جاتا ہے، جس کا کوئی علاج نہیں کر سکتا۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ کاش ہم کوئی بے جان تصویر ہوتے، جذبات و احساسات سے عاری، ہماری نہ کوئی خواہش ہوتی، نہ آرزو۔

یہ تقدیر بھی عجیب چیز ہے، کسی کو مانگے بغیر سب کچھ دے دیتی ہے اور کسی کے قریب سے مسکرا کر گزر جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
دو طرح کے لوگ

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جن سے ہم پیار کرتے ہیں، دوسرے وہ جو ہم سے پیار کرتے ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔۔ جو لوگ آپ کو خوشی کے لمحات میں یاد آئیں، سمجھ لیں کہ آپ ان سے پیار کرتے ہیں اور وہ لوگ جو دکھ کے وقت یاد آئیں، یقین کر لیں کہ وہ آپ کو پیار کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
انسان کے دشمن

دشمن ایک ایسا لفظ ہے جس میں انسان کے چار دشمن چھپے ہوئے ہیں۔

1) د سے دنیا
2) ش سے شیطان
3) م سے مال
4) ن سے نفس
 

شمشاد

لائبریرین
آزادی کا جوہر

عدالت کے کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مقدمے کا فیصلہ سننے والے چند سیاسی قیدی عدالت میں موجود تھے۔ سیاسی قیدی بلا وجہ پکڑے گئے تھے۔ سب لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک شور بلند ہوا اور انگریز جج کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ سب لوگ جج کو تعظیم دینے کے لیے کھڑے ہو گئے مگر ایک بارعب و پروقار شخص اپنی کرسی پر بیٹھا رہا۔ وہ انگریز جج کی تعظیم میں کھڑا نہ ہوا۔

یہ دیکھ کر انگریز جج سر سے پاؤں تک غصے سے کانپ گیا اور کڑک کر بولا۔ “اس سیاسی سے کرسی چھین لی جائے۔“ اس سے پہلے کہ کوئی سیاسی قیدی سے کرسی چھینتا، وہ خود اٹھا، اس نے کرسی اٹھا کر دور پھینک دی اور زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور انگریز جج سے بولا، “کرسی چھیننے والے ظالم! کیا اللہ کی زمین بھی چھین لو گے؟“

یہ سن کر انگریز جج سناٹے میں آ گیا۔

یہ عظیم شخص مولانا محمد علی جوہر تھے۔
 
ایک بار

کسی نے کہا کہ بچپن ایک بار ملتا ہے، خوب کھیل کود کر لو، کہیں سے آواز آئی جوانی دیوانی ہے، سارے مزے کر لو، کوئی بولا کالج اور یونیورسٹی کی لائف ایک بار ملتی ہے، خوب مستی کر لو۔

لیکن افسوس کوئی یہ نہیں کہتا کہ زندگی بھی ایک بار ملتی ہے اپنے اللہ کو راضی کر لو۔

اللہ اللہ كيا خوب صورت بات ہے ۔
 
Top