40 چہل احدیث

1۔ بقول باذوق
برادرم محمد عویدص ، شائد آپ کو بھی علم ہوگا کہ "مشکوٰۃ المصابیح" حدیث کی کوئی اصل کتاب نہیں ہے بلکہ مختلف کتبِ احادیث سے لی گئیں احادیث کا ایک منفرد انتخاب ہے۔

کچھ کتب پر ایمان اور کچھ کتب کوضعیف کہہ کر "رد" کر دیا جاتا ہے۔ جو محمد عویدص پیش کریں وہ ضعیف ہے۔ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور جوبازوق پیش کرتے ہیں وہ اصل کتاب ہوتی ہے۔ یہ ہے وہ پولیٹیکل طریقہ اپنے قوانین کو درست ثابت کرنے کا اور کسی دوسرے فرقہ کے مرتب کئے ہوئے قوانین کو غلط ثابت کرنے کا۔ آپ ایسا کیجئے کے مشکواۃ‌ کے اگلے ایڈیشن میں بخاری و مسلم سے کچھ روایات لے کر ڈال دیجئے ، یا تو یہ کتاب باذوق کے نزدیک "شدھ" ہوجائے گی یا پھر بخاری و مسلم کی وہ احادیث "ضعیف "‌ ہو جائیں گی جو آپ چنیں گے۔

یہ طریقہ ہے اصل "منکر الحدیث" اور "منکر الرسول" مولویں کا روایات سے انکار کرنے کا۔ جو شخص بھی دوسرے فرقہ کی طرف سے پیش کردہ روایات کو "رد "‌کرتا ہے، ان کو ضعیف قرآر دے کر قول و عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید کرتا ہے ۔ منکر الحدیث ہے، منکر الرسول ہے۔

کیا مزا ہے کہ جو روایات آپ پیش کریں گے "وہ ضعیف ہے" اور جو یہ پیش کرتے ہیں وہ "مستند ہے، اسناد کے ساتھ ہے"‌ چاہے قران کے خلاف ہی کیوں‌ نا ہو۔ شرط یہ ہے کہ ان کی طرف سے ہو۔ "منکر الحدیث "‌ اور "منکر الرسول" کا یہ ڈھکوسلہ اس قسم کے ملاؤں کی اختراع ہے تاکہ ایک شخص کو مرتد قرار دے کر اس کو ڈرا دھمکا کر دوڑایا جاسکے۔ جب اپنی باری آتی ہے تو اچھل اچھل کر منبر سے فرش پر آجاتے ہیں کہ صاحب یہ روایت "ضعیف:" ہے اس "رد"‌ کرنے کے عمل کو یہ لوگ ارتداد نہیں کہتے۔ بلکہ علم الحدیث‌کہتے ہیں ۔ اسناد الحدیث کہتے ہیں۔ کیا عالمانہ طفولیت اور جہالت ہے کہ اپنے اعتراضات کو "‌علم الاسناد "‌کہا جائے اور دوسرے کے اعتراضات کو "منکر الحدیث" اور "منکر الرسول "‌ کہا جائے۔ یہ ٹیکنالوجی آپ بھی سیکھ لیجئے۔ تاکہ وقت ضرورت کام آئے۔ مقصد اس ساری تیکنالوجہ کا یہ ہے کہ خیرات، صدقات اور زکواۃ ان کی طرف بہتی رہے۔ یہ آپسی مخالفت پیسے کے لئے رہی۔


بقول رسول اکرم (‌مفہوم )‌ کہ ان سے منسوب جو روایت قرآن کے مطابق نہ ہو ضائع کردی جائے۔ یہ روایت بذات خود قران کی آیات 5:48 اور 5:49 کی تشریح ہے۔ یہ آیت پیشتر دی جاچکی ہے۔

2۔ بقول باذوق:
یہ ایک پرانا الزام دوبارہ آپ کی طرف سے آیا ہے۔ کیا آپ اس کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں کہ کہاں میں نے ایسا کہا ہے کہ :
جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے


آپ کو ثبوت میں آپ کی ہی تحریر سے پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اور آپ کی جدید ترین تحریر میں خوب زور شور سے اس خط کو جعلی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں "روایت کو قرآں کی روشنی میں‌ثابت ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے"

اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کا اعتراض‌کس بات پر ہے؟ کبھی آپ کہتے ہیں یہ چار کتب پوری کی پوری مانو، اس میں ہر روایت قابل قبول ہے کبھی آپ کہتے ہیں‌نہیں سب کچھ قابل قبول نہیں۔ کبھی آپ کو "قران کی روشنی" میں پرکھنے والا اصول قابل قبول نہیں ہوتا" اس پر لمبے لمبے اعتراضات کرتے ہیں اور اس ضمن میں‌ فراہم کئے ہوئے خط کو جعلی کہتے ہیں۔ اور کبھی آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے۔

جس پیغام کے جواب میں آپ نے یہ تمام اعتراضات کئے اس میں‌، تین روایات کو پرکھا گیا تھا۔ پہلی ، قرآن سے ثابت تھی، دوسری پر قرآن خاموش تھا۔ اور تیسری قرآن کے مخالف تھی۔ آپ کا اعتراض ، ان میں‌سے کسی بات پر نہیں بلکہ 'مجھ ' پر ہے۔ بندے کو اتنی اہمیت دینے کا شکریہ۔

بقول باذوق:
3- تو اس بات کا مشورہ دینا بھی لازمی امر ہے کہ :
کسی بھی کتاب میں درج قول کی صداقت کو جب تک تحقیق کر کے معلوم نہ کر لیا جائے ، اسے آگے بڑھا دینا اچھی بات نہیں۔

یہ اعتراض ہے ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القرآن صاحب کی جس کتاب سے یہ اقتباس ہے اس میں درست حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ مع صفحہ نمبر ۔ جب میں نے یہ حوالہ دیا تھا تو درست حوالہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ میں بنا حوالہ کبھی بھی کچھ فراہم نہیں کرتا۔

پہلے مترجمین نے "ایک برتن سے نہانے" کے بجائے -- ایک برتن میں نہاتے تھے" کا ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ کوئی بھی لیں مفہوم وہی نکتا ہے جو آپ نے نکالا ہے۔ یہ توہین رسول ہے اور ایسی اہانت سے بھرپور روایات کو آپ مستند مانتے ہیں‌۔ یہ ہی اصل اعتراض تھا کہ ان کتب میں جو توہین رسول سے بھرپور روایات ہیں ان کو نکال باہر کیا جائے۔

ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب کا حوالہ اس لئے فراہم کیا گیا تھا کہ ان کی طرف سے کئے ہوئے اعتراضات جو "اسلام کے مجرم" نامی کتاب میں شائع کئے گئے ہیں، (اس کتاب) پر "علماء‌" نے پنجاب ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ۔ جس کو پنجاب ہائی کورٹ نے سنا اور فیصلہ دیا کہ ان کتب کی تطہیر کی جائے، جن کی طرف ڈاکٹر شبیر احمد نے اشارہ کیا ہے۔ اگر آپ اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو آپ پنجاب یا کسی بھی کورٹ‌میں یہ مقدمہ دوبارہ چلا سکتے ہیں۔

پنجاب ہائی کورٹ کے اس فیصلے (جس کی کاپی آپ کو فراہم کی جاچکی ہے) کے باعث میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ توہین رسول ہے۔ اور آپ کی کسی بھی تاویل کے باوجود رہے گی۔ چاہے آپ اس کی تاویل میں اپنے بزرگوں کا ایک ہی برتن سے نہانے کے بارے میں کتنی ہی کہانیاں لکھ ڈالئے یہ توہین ہی رہے گی۔ میں اس میں توہین آمیز بحث میں آپ کا یا کسی کا مزید فریق بننے کے لئے تیار نہیں ۔

باذوق سے وضاحت۔
اگر آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے تو پھر اعتراض‌کس بات پر ہے صاحب ؟ یہ ساری بحث کیوں شروع کی ہے جناب نے؟
 

باذوق

محفلین
کچھ کتب پر ایمان اور کچھ کتب کوضعیف کہہ کر "رد" کر دیا جاتا ہے۔ جو محمد عویدص پیش کریں وہ ضعیف ہے۔ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور جوبازوق پیش کرتے ہیں وہ اصل کتاب ہوتی ہے۔
محترم فاروق صاحب !
بہتر ہے کہ ٹو دی پوائینٹ بات کرنے کا رویہ اپنائیں ۔۔۔ جیسا کہ ایک جگہ آپ کو یہی مشورہ برادرم ہمت علی نے دیا تھا۔
میں نے آپ سے یوں سوال کیا تھا کہ :
کیا آپ اس کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں کہ کہاں میں نے ایسا کہا ہے کہ :
جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے
آپ نے ثبوت نہیں دیا بلکہ لمبی چوڑی تقریر عرض فرما دی۔

پہلے پوائینٹ (1) کے ذیل میں آپ نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں ، اس کا جواب میں یہاں اور یہاں دے چکا ہوں۔
ہو سکتا ہے آپ علمِ حدیث کو نہ مانتے ہوں لہذا اس فن کی باریکیوں سے آپ کا ناواقف ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اور ظاہر ہے میں ناواقف افراد کے پیچھے لٹھ لے کر نہیں پڑ سکتا۔ معذرت قبول فرمائیں۔

کبھی آپ کہتے ہیں یہ چار کتب پوری کی پوری مانو، اس میں ہر روایت قابل قبول ہے
اس کے ثبوت میں ، میری اُس پوسٹ کا لنک فراہم کیجئے جہاں میں نے ایسا کچھ لکھا ہو۔ ورنہ بہتان طرازی کے متعلق جو آیت ہے وہ یاد کرلیں تو مہربانی۔

کبھی آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے۔
اس کا بھی لنک دیں ثبوت میں۔ (اور میرے فقرے کو ہائی لائٹ کر کے بتائیں تو مزید مہربانی ہوگی)
جب یہاں تقریباً ہر فرد مانتا ہے کہ قرآن میں نماز کا سارا طریقہ بیان نہیں ہوا ہے تو بتائیے کہ نماز کے طریقہ سے متعلق صحیح احادیث کو کس طرح قرآن سے پرکھا جا سکے گا؟؟

یہ اعتراض ہے ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القرآن صاحب کی جس کتاب سے یہ اقتباس ہے اس میں درست حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ مع صفحہ نمبر ۔ جب میں نے یہ حوالہ دیا تھا تو درست حوالہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ میں بنا حوالہ کبھی بھی کچھ فراہم نہیں کرتا۔
ظاہر ہے شبیر احمد صاحب فاضل مترجم القرآن کے ہر ہر قول پر آپ آنکھ بند کر کے تو ایمان نہیں رکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود میں نے حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے کہ ممکن ہے آپ سے کوئی بھول ہو گئی ہو ، آپ کو "کاپی/پیسٹ" کے معاملے میں معذور باور کرایا ہے۔
لیکن اگر آپ کو دعویٰ ہے کہ آپ تحقیق کئے بغیر کسی بھی مصنف کا کوئی قول قبول نہیں کرتے تو چلئے صحیح بخاری کی کسی حدیث سے عربی کا وہ لفظ بتا دیں جس کا اردو ترجمہ :
ایک ٹب(برتن) میں نہاتے تھے
نکلتا ہو۔

کیا واقعی آپ کو
ایک ٹب میں نہانے
اور
ایک مشترکہ برتن سے پانی لے کر اندھیرے میں نہانے
میں فرق کرنا نہیں آتا ؟؟
کمال حیرت کی بات ہے یہ تو !!
پنجاب ہائی کورٹ کے اس فیصلے (جس کی کاپی آپ کو فراہم کی جاچکی ہے) کے باعث میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ توہین رسول ہے۔ اور آپ کی کسی بھی تاویل کے باوجود رہے گی۔ چاہے آپ اس کی تاویل میں اپنے بزرگوں کا ایک ہی برتن سے نہانے کے بارے میں کتنی ہی کہانیاں لکھ ڈالئے یہ توہین ہی رہے گی۔ میں اس میں توہین آمیز بحث میں آپ کا یا کسی کا مزید فریق بننے کے لئے تیار نہیں ۔
اطلاعاً عرض ہے کہ ہر وہ حدیث ، جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہو (اور چاہے وہ کسی بھی کتابِ حدیث میں درج ہو) ، میرے نزدیک ہی نہیں بلکہ ہر اس مسلمان کے نزدیک حجت ہے جو مولانا مودودی ، پیر کرم شاہ الاظہری ، جسٹس تقی عثمانی ، مولانا صفی الرحمٰن مبارکفوری کی طرح "حجیتِ حدیث" پر ایمان رکھتا ہو۔
حجیتِ حدیث کے ایمان کے آگے ، کسی ہائی کورٹ کے متنازعہ فیصلے کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی !
میں بھی اس "توہین آمیز بحث (کہ آپ اپنی 'عقل' کے بوتے پر صحیح حدیث کو جھٹلاتے ہیں)" میں فریق بننے تیار نہیں ہوں۔ معذرت قبول فرمائیں۔

باذوق سے وضاحت۔
اگر آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے تو پھر اعتراض‌کس بات پر ہے صاحب ؟ یہ ساری بحث کیوں شروع کی ہے جناب نے؟ِ
ذرا اُس پوسٹ کا لنک دیں جہاں میں نے کچھ ایسا کہا ہو کہ ۔۔۔
روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے

قرآن کہتا ہے:
[ARABIC]لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة[/ARABIC]
اب سوال یہ ہے کہ کیا پورا کا پورا اسوہ حسنۃ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن میں بیان ہو گیا ہے؟؟ اس کا آسان سا جواب ہے : " نہیں "
تو جو چیز قرآن میں بیان نہیں ہوئی ، وہ کہاں ملے گی ؟؟

آپ نے ختنہ والے معاملے میں تو بڑے آرام سے کہہ دیا کہ : اپنی مرضی پر ہے کہ کرائیں یا نہ کرائیں۔
اب ذرا اس سوال کا بھی جواب دیتے جائیں کہ :
قرآن میں یہ جو بیان ہوا ہے :
[ARABIC]نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ[/ARABIC]
اس کا کیا اردو مفہوم نکالتے ہیں آپ ؟؟
براہ مہربانی اپنی محققانہ عقل سے تشریح مت کیجئے ، صرف اردو مفہوم بتا دیجئے ۔
 
ذرا اُس پوسٹ کا لنک دیں جہاں میں نے کچھ ایسا کہا ہو کہ ۔۔۔
روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے


کیا درست ہے کہ آپ کا نکتہ نظر ، بلکہ ایمان یہ ہے کہ کسی روایت کو قرآن سے پرکھا نہیں جاسکتا، وہ من و عن درست ہے اگر وہ ان مخصوص کتب سے ہو جن کا آپ تذکرہ کرچکے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
توبہ! توبہ! توبہ!
میرے چہل حدیث والے دھاگا کا تو چند دنوں میں حشر نشر ہو گیا!
دیکھئے حضرات، ہر اک کا ایمان اپنا اپنا ہے! جسکو جو حدیث پسند آئے اس پر عمل کریں، اگر نہ آئے تو نہ کریں، ہر اک نے اپنی قبر میں‌ جانا ہے، کسی کی نہیں!
اسلئے خدارا یہ اختلالفی بحث ختم کر دیں اور اپنی زندگیوں میں، اپنے عمال کے ذریعے اسلام ظاہر کریں نا کہ اعتقاد کی بنیاد پر!
 

شمشاد

لائبریرین
دیکھئے حضرات، ہر اک کا ایمان اپنا اپنا ہے! جسکو جو حدیث پسند آئے اس پر عمل کریں، اگر نہ آئے تو نہ کریں، ہر اک نے اپنی قبر میں‌ جانا ہے، کسی کی نہیں!

عارف بھائی حدیث میں پسند اور ناپسند نہیں ہوتی کہ جو پسند ہو اس پر عمل کر لیں اور جو ناپسند ہو تو نہ کریں۔
 
باذوق صاحب:

السلام علیکم
حدیث و سنت کے موضوع پر یہاں کچھ اقباسات لگائے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرما لیا جائے۔

محترم فاروق سرور خان صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جس پر امت صدیوں سے قائم ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گی کہ بخاری و مسلم دو ایسی مستند کتابیں ہیں جن میں کوئی حدیث، کوئی ایک حدیث بھی ضعیف نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔

اس پر زیک کا تعجب
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=170218&postcount=28

باذوق کا دفاع
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=170651&postcount=38

نماز کی حدیث کی بابت سوال بہت ہی پرانا ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=170725&postcount=43

بقول باذوق
‬کتاب اللہ‘ سے مراد ، صرف قرآن نہیں بلکہ ’ قرآن و سنت ‘ دونوں ہیں ‫!
’حسبنا کتاب اللہ‘ کا کیا مطلب ۔۔۔؟

ایک اور لنک۔ جہاں یہ بھول گئے کہ انہوں نے کیا لکھا تھا :)
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=176800&postcount=115


قران کریم طریقہء نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے؟
لنک یہ ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7952

مزید یہ کہ یہ رسول اکرم کی سنت جاریہ ہے، ایک اعجاز ہے اور ایک معجزہ کہ 1400 سال سے زائد سے جاری ہے۔ رسول اکرم کی تعلیم سے تمام امۃ نماز اس طرح ادا کرتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی حدیث میں پسند اور ناپسند نہیں ہوتی کہ جو پسند ہو اس پر عمل کر لیں اور جو ناپسند ہو تو نہ کریں۔

بھائی جان جب سیدھی سادھی حدیثوں پر ہم مسلمان اتنا جھگڑ رہے ہوں، تو کیا یہ بہتر نہیں کہ جسکے دل کو جو بہتر لگے، اس پر عمل کر لے؟
 
عارف بھائی۔ سلام۔ بات یہ ہے کہ یہ بحث عرصہ ایک سال سے جاری ہے۔ جہاں‌بھی میں قران کا حوالہ دیتا ہوں ۔ چند اشخاص کو ناگوار گزرتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے۔

"کیا درست ہے کہ ان حضرات کا کا نکتہ نظر ، بلکہ ایمان یہ ہے کہ کسی روایت کو قرآن سے پرکھا نہیں جاسکتا، وہ من و عن درست ہے اگر وہ ان مخصوص کتب سے ہو جن کا یہ تذکرہ کرچکے ہیں؟"

والسلام۔

اگر اس سوال کا جواب ہاں یا نہ میں مل جائے تو بات بہت ہی آسان ہوجائے گی۔ جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں وہ رکھتے رہیں اور اس طرح کی بحث نہ چھیڑیں اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں۔

کیوں کہ میرے ایمان کے مطابق اگر کوئی بھی امر خلاف قران ہے تو وہ اسلام کا حصہ نہیں چاہے کسی بھی کتاب میں ہو۔

انشاء اللہ تعالی باذوق کا جواب آنے پر یہ بات واضح ہو جائے گی اور ہم یا ایک بات پر متفق ہوجائیں گے یا پھر نہیں ہونگے۔ تھوڑا سا صبر کرلیجئے جب یہاں‌تک بات پہنچی ہے تو ایک سوال کا جواب اور کرلیتے ہیں۔ مجھے باذوق کی بے عزتی مقصود نہیں۔ نظریاتی اختلافات ہو سکتے ہیں، جو قابل قبول ہیں جب کہ یہ پتہ ہو کہ کس کے کیا نظریات ہیں۔
 

بنتِ حوا

محفلین
میرا نہیں خیال کہ یہاں کوئی بھی اپنی بات کسی سے منوا سکتا ہے۔۔جیسے باذوق بھائی ہیں ان کے پاس بھی دلیلیں موجود ہیں یہ اور بات کہ وہ فاروق بھائی کی نظر میں قابل قبول نہیں اور فاروق بھائی صرف قرآن کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔۔دونوں کے ذہن بنے ہوئے ہیں جیسے اب اگر فاروق بھائی مجھ سے کوئی بات منوانا چاہیں گے تو وہ قرآن کی ایت پیش کریں گے قرآن کو تو سب ہی مانتے ہیں لیکن اگر یہ مجھے کہیں کہ میں احادیث کو ماننے سے انکار کر دوں تو میں کبھی بھی ان کی یہ بات نہیں مانوں گی اس کے لیے بھی انہیں مجھے قرآن کی آیت ہی دینی ہو گی جس میں یہ کہا گیا ہو کہ صرف قرآن ہی ہمارے لیے کافی ہے اور اس کے علاوہ ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات پر عمل نہیں کرنا۔۔اگر صرف قرآن ہی پہنچانا مقصد ہوتا تو وہ اللہ کسی بھی طریقے سے پہنچا سکتے تھے لیکن اللہ نے قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا اور ان کے کیے گئے ہر عمل کو بھی ساتھ ہمارے لیے محفوظ کیا۔۔۔اب جو لوگ احادیث نہیں مانتے وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود منع کیا ہے کہ مجھ سے قرآن کے علاوہ اور کچھ نہ لکھو۔۔اب ان سے یہ سوال ہے کہ یہ قرآن کی کس آیت میں کہا گیا ہے۔۔؟؟ جب آپ حدیث کو ہی نہیں مانتے تو اس حدیث کو کیوں مان رہے ہیں؟ علماء کرام نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کر دی صحیح' ضعیف 'حسن ' موضوع روایت کو الگ کرنے میں۔۔اور کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کی کسی آیت کے خلاف نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہر صحیح حدیث کا ذکر قران سے پرکھا جا سکتا ہے جیسے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اذکار بتائیں ہے مختلف موقعوں کی دعائیں ہیں کہ کسی کی بیمار پرسی وقت کیا کہنا ہے مشکل وقت میں' مرنے پر'نماز کے بعد'سوتے وقت 'اٹھتے وقت 'جو بھی پڑھنا ہے اس سب کی تفصیل ظاہر ہے احادیث کی کتب میں ہی ملیں گی۔۔اب اگر ان میں سے کسی مسلمان کو چند ایک احادیث صحیح نہ لگیں تو ان کے ساتھ اس پر بحث کر سکتے ہیں لیکن ایک بندہ سب احادیث کو نہ مانتا ہو بے شک زبان سے ماننے کا کہے لیکن عمل اس کی نفی کرے تو میرا نہیں خیال کہ اس بندے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جانا چاہیے ہمارے اوپر بات کو پہنچا دینا فرض ہے ان سے منوانا فرض نہیں ہے۔۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے 73 فرقے ہو جائیں گے کہا تھا اور ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا۔۔۔ہمیں چاہیے کہ ہم کسی ایک فرقے کو پکڑ کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ جو بھی بات صحیح کرتا ہو اس کی وہ بات لے لیں اور جو غلط کرتا ہو اس کی بات کو چھوڑ دیا جائے۔۔اور اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ ہمیں اس ایک فرقے میں شامل کرے کو جنت میں جائے ساتھ اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے۔۔
جاتے جاتے ایک آخری بات ایک جگہ سنی تھی۔۔کچھ لوگوں کا آپس میں مناظرہ تھا ایک بندے نے محفل میں کہا کہ اگر میں ہار گیا تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا۔۔اب اس کی بیوی نے یہ خبر سنی تو بہت رونے لگی اور اسے کہا کہ آخر اپ نے ایسی بات کہی کیوں۔۔تو وہ شخص بولا۔۔ او پاگل وہ تو میں نے کہہ دیا ہے لیکن میں ہار مانوں گا تب ہی تم کو طلاق ہو گی نا میں نے تو ہار ماننی ہی نہیں ہے۔۔
آپ بھائیوں سے گزارش ہے کہ آپ ایک دوسرے سے اپنی بات منوائیں نہیں۔۔ایک جانتا ہے کہ دوسرا صرف قرآن مانتا ہے اور دوسرا بھی جانتا ہے کہ چاہے کچھ بھی جائے دوسرے کے نزدیک احادیث کا وہی مقام رہے گا ان کے کہنے سے بدلے گا نہیں تو جتنی اب تک محفل میں آپ کے درمیان بحث ہو چکی ہے وہ ہی کافی ہے۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کی وجہ سےقرآن یا احادیث کی بے ادبی ہو جائے۔۔اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور ہدایت دے آمین
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے اوپر بات کو پہنچا دینا فرض ہے ان سے منوانا فرض نہیں ہے۔۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے 73 فرقے ہو جائیں گے کہا تھا اور ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا۔۔۔ہمیں چاہیے کہ ہم کسی ایک فرقے کو پکڑ کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ جو بھی بات صحیح کرتا ہو اس کی وہ بات لے لیں اور جو غلط کرتا ہو اس کی بات کو چھوڑ دیا جائے۔۔اور اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ ہمیں اس ایک فرقے میں شامل کرے کو جنت میں جائے ساتھ اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔

جزاک اللہ بنتِ حوا۔

یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ " ہمارے اوپر بات کو پہنچا دینا فرض ہے، اس کو منوانا فرض نہیں ہے " لیکن بعض لوگ لٹھ لیکر پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں کہ ہماری ہی مانو۔ اور پھر تُو تکار اور ذاتیات پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔
 
بنت حوا سلام، اجازت دیجئے کہ میں‌کہہ سکوں کہ آپ کامیرے بارے میں مفروضہ تھوڑی سی ترمیم چاہتا ہے۔ میں آیات اور روایات (اقوال و اعمال )‌نبوی دونوں پیش کرتا ہوں اور ان کا قائل ہون۔ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کوئی روایت قران مجید کے مخالف نہ ہو۔ یہ نکتہ نظر میں کسی سے زبردستی نہیں منواتا۔ لیکن میرے تمام آرٹیکلز اسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔

آپ نے بہت ہی اچھا فرمایا :
۔۔اور کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کی کسی آیت کے خلاف نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہر صحیح حدیث کا ذکر قران سے پرکھا جا سکتا ہے
لال حصہ: یہاں‌میں آپ سے اور آپ مجھ سے بالکل متفق ہیں۔

لیکن باذوق صاحب نہیں ہیں۔ ۔۔۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر ان کی فراہم کی ہوئی کتب میں کوئی روایت (اعمال یا اقوال رسول صلعم )‌کے بارے میں ہے تو بالکل درست ہے، چاہے وہ قرآن کے مخالف ہی کیوں‌ نہ ہو۔ یہی سوال ہے ان سے۔

میرا نکتہ نظر آپ کے اس نکتہ نظر سے صد فی صد ملتا ہے کہ
۔۔اور کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کی کسی آیت کے خلاف نہیں ہو سکتی

نیلا حصہ: نہ ہی ہر صحیح حدیث کا ذکر قران سے پرکھا جا سکتا ہے
بہت سی درست احادیث قرآن سے نہیں‌ پرکھی جاتی ہیں، وہ اس لئے کہ وہ قرآن کی کسی آیت سے نہیں ٹکراتی ہیں اور قرآن اس معاملہ پر خاموش ہے۔ لہذا رسول اکرم کی سنت یعنی اعمال و اقوال سے مدد لی جاتی ہے۔ بس یہ ہے کہ بنیادی عقائد قرآن کے ہی ہوتے ہیں۔ تفصیل و تشریح رسول اکرم کی۔ اگر کلام اللہ یعنی قرآن مرکز و محور نہیں اسلامی عقائد کا تو پھر تو کوئی حد ہی نہ ہوئی ہمارے دین کی۔

میرا خیال ہے کہ اس بارے میں آپ کے ، دیگر حضرات کے ، اور میرے خیالات میں کوئی نمایاں فرق نہیں۔

بہت شکریہ۔ آپ کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ ایسی پوسٹس ہی اپنا نکتہ نظر واضح‌کرنے کا موقعہ دیتی ہیں۔
والسلام
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے برعکس باذوق صاحب کا واضح‌نکتہ نظر یہ ہے کہ "جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے، اس کی مزید کوئی چھان پھٹک کی ضرورت نہیں" ۔
شائد اپنے اس جملے کی تائید میں فاروق صاحب نے میری اس پوسٹ کا لنک دیا جس میں ، میں نے بخاری اور مسلم میں موجود تمام احادیث کے صحیح ہونے کی بات کی ہے۔
میں نے صرف ان 2 کتب میں موجود تمام احادیث کے صحیح ہونے کی بات کی تھی۔ ہر ایک کو بطور ایمان انہیں قبول کرنے کی بات کہاں کی ہے؟؟

یہ بھی میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ان 2 کتب حدیث میں ۔۔۔ صحابہ کے اپنے ذاتی اقوال ہیں ، جنگوں کا ذکر ہے ، صحابہ کی سیرت و فضیلت کا بیان ہے ، اُس وقت کے معاشرے کا حال احوال ہے ۔۔۔ ظاہر ہے ان تمام پر ایمان لانے کا مطالبہ کسی نے آج تک نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں ، میں یہ بار بار دہراؤں گا کہ فن میں فن والے ہی کی بات مانی جا سکتی ہے۔
حدیث کے فن میں محدثین کی تحقیق کو ہی اہمیت دی جائے گی۔ لہذا کسی حدیث کی صحت پر محدثین کا اجماع ہو جائے تو وہ عرفِ عام میں صحیح حدیث کہلائے گی۔
کینسر کی کوئی دوا ایجاد ہو جائے تو اس کے معیار اور اثرات کی تصدیق کون کرے گا؟ کینسر کی تحقیق میں لگے اسپشلسٹ یا کسی تعلیمی ادارے کا اکاؤنٹنٹ؟
نماز کی حدیث کی بابت سوال بہت ہی پرانا ہے۔
میں کہہ چکا ہوں کہ اس کا جواب یہاں دیا جا چکا ہے۔
اگر مجھے حق کو جاننے کی حقیقی جستجو ہوگی تو مجھے دس بارہ چھوڑئیے ، 100 ضخیم کتابیں بھی پڑھنے کہا جائے تو یقیناً پڑھوں گا۔
کبھی آپ کہتے ہیں یہ چار کتب پوری کی پوری مانو، اس میں ہر روایت قابل قبول ہے
اس کا جواب بھی اب تک عدم وصول ہے۔ میں نے کب کہاں اور کون سی چار کتب کو پوری کی پوری ماننے کا تقاضا کیا ہے؟؟
کبھی آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے۔
اس کا بھی حوالہ اب تک نہیں دیا گیا کہ میں نے کس جگہ ایسا لکھا تھا؟
جہاں‌بھی میں قران کا حوالہ دیتا ہوں ۔ چند اشخاص کو ناگوار گزرتا ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر رکھ لی جائے کہ باذوق کو قطعاً ناگوار نہیں گزرتا اگر قرآن کا حوالہ دیا جائے۔
ناگوار تو صرف اس وقت گزرتا ہے جب آیت یا آیاتِ ربانی کی من مانی تشریح یا معنوی تحریف کی جاتی ہے۔
"کیا درست ہے کہ ان ھضرات کا کا نکتہ نظر ، بلکہ ایمان یہ ہے کہ کسی روایت کو قرآن سے پرکھا نہیں جاسکتا، وہ من و عن درست ہے اگر وہ ان مخصوص کتب سے ہو جن کا یہ تذکرہ کرچکے ہیں؟"
میرے نزدیک ذیل کے دو جملوں میں کافی فرق ہے :
1۔ کسی روایت کو قرآن سے پرکھا نہیں جاسکتا
ہر روایت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا

ہر روایت کو قرآن سے قطعاً نہیں پرکھا جا سکتا۔
میں اس کی دلیل میں تفصیل سے یہاں لکھ چکا ہوں۔
 

باذوق

محفلین
قران کریم طریقہء نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے؟
لنک یہ ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7952
اس ربط پر وہ ساری آیات ہیں جو ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ان آیات میں نماز کا مکمل طریقہ بیان کیا گیا ہے؟؟
اگر ہاں تو پھر ذیل کے سوالات کے جواب میں صرف آیتِ قرآن کا حوالہ دیجئے بس :

1۔ نماز میں کیسے کھڑا ہوا جائے ؟ ہاتھ لٹکا کر یا ہاتھ باندھ کر؟ ایک پاؤں پر کھڑے ہوں یا دونوں پر؟
2۔ لغت میں رکوع کے معنی ہیں جھکنا۔ کیسے جھکا جائے ؟ آگے یا دائیں بائیں؟ اور جھک کر ہاتھ ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں یا رانوں پر رکھیں یا رانوں میں گھسا لیں ؟
3۔ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں، کیسے رکھیں ، صرف ہتھیلی زمین پر رکھیں یا پوری کہنی؟ یا پیٹ بھی زمین سے لگا دیں؟
4۔ سجدہ ایک کریں یا دو ؟
5۔ تشہد میں کیا پڑھیں؟ درود شریف کے دوران انگلی اٹھائیں یا پوری ہتھیلی ؟
6۔ نماز ختم کیسے کریں؟ گردن گھمائیں یا سیدھے سیدھے اٹھ کر چل دیں؟
لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ ۔۔۔۔۔
7۔ یہ بھی واضح کریں کہ ہر نماز میں کیا صرف ایک رکعت پڑھیں یا دو دو یا ہر نماز میں مختلف تعدادِ رکعات ہو؟

براہ مہربانی یاد رکھئے کہ ، جواب صرف اور صرف قرآنی آیات کے حوالے کی شکل میں چاہئے یعنی صرف سورہ اور آیت نمبر ، نہ عربی متن درکار ہے اور نہ کسی زبان کا ترجمہ !
 

باذوق

محفلین
لیکن ایک بندہ سب احادیث کو نہ مانتا ہو بے شک زبان سے ماننے کا کہے لیکن عمل اس کی نفی کرے تو میرا نہیں خیال کہ اس بندے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جانا چاہیے ہمارے اوپر بات کو پہنچا دینا فرض ہے ان سے منوانا فرض نہیں ہے۔
السلام علیکم ! آپ کی ساری پوسٹ میں سے صرف اس فقرے کا میں جواب دینا چاہوں گا۔
دیکھئے دوسروں کی بات مجھے نہیں معلوم ، میں اپنی بات بتاتا ہوں۔ صرف محفل ایک فورم نہیں ، میرے جاننے والے جانتے ہیں کہ جہاں جہاں اور جس جس فورم پر "صرف قرآن (only Quran)" کے نعرے کے تحت ڈھکے چھپے یا واضح انداز میں انکارِ حدیث کا پروپگنڈا کیا گیا وہاں میں ضرور گیا ہوں اور بحث کی ہے۔ اور فورمز کے مباحث میں اکثر و بیشتر تلخی ترشی آ ہی جاتی ہے۔ یہ عام سی بات اس لئے بھی ہے کہ برصغیر کے بڑے بڑے اداروں میں حتیٰ کہ حکومتی ایوانوں میں تک گرما گرم مباحث کے دوران اٹھا پٹخ ہو جاتی ہے تو یہ فورمز کی دنیا کی زبانی کلامی تلخی کیا اہمیت رکھتی ہے؟

میں افراتفری یا ہنگامہ مچانے کے لئے بحث نہیں کرتا۔ حالانکہ دوست احباب کہتے ہیں کہ تم جواب دیتے ہی کیوں ہو؟ حقیقت سب جانتے ہیں۔ جواب نہ دو تو ہر متنازعہ تھریڈ نیچے ہوتا چلا جائے گا۔
لیکن ۔۔۔۔ میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کسی جگہ ایک ہی نقطۂ نظر کی پیشکشی ہو اور دوسرا نقطۂ نظر سامنے ہی نہ آئے؟ کیا اس طرح گمراہی نہیں پھیلے گی؟ کوئی ایک بھی بندہ اگر اس سلو پوائزن کا شکار ہو جائے تو کیا آخرت میں میری پوچھ نہیں ہوگی کہ "حجیتِ حدیث" سے تُو واقف تھا پھر بھی تو نے کتمانِ علم سے کام لیا ، کیوں؟؟
میں ایک بار آپ تمام کے سامنے پھر سے اپنا نقطۂ نظر دہرانا پسند کروں گا کہ :
شریعتِ اسلامیہ صرف قرآن سے نہیں بنتی بلکہ قرآن اور حدیث دونوں کو ملا کر بنتی ہے !!
 

باذوق

محفلین
آپ نے بہت ہی اچھا فرمایا :
۔۔اور کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کی کسی آیت کے خلاف نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہر صحیح حدیث کا ذکر قران سے پرکھا جا سکتا ہے
لال حصہ: یہاں‌میں آپ سے اور آپ مجھ سے بالکل متفق ہیں۔

لیکن باذوق صاحب نہیں ہیں۔ ۔۔۔
حالانکہ یہ بات غلط ہے !
کیونکہ یہ بات میں بھی مانتا ہوں اور یوں کہتا ہوں
کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی !

اب فاروق صاحب کو یہ غلط فہمی کیوں کر ہوئی ؟
اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ براہ مہربانی ذرا غور سے پڑھئے۔

فاروق صاحب نے لکھا ہے :
بہت سی درست احادیث قرآن سے نہیں‌ پرکھی جاتی ہیں، وہ اس لئے کہ وہ قرآن کی کسی آیت سے نہیں ٹکراتی ہیں اور قرآن اس معاملہ پر خاموش ہے۔
حالانکہ یہ بات غلط ہے۔

اگر آپ صرف "قرآن" پر ایمان رکھیں اور "حدیث" کو حجت نہ مانیں تو یقیناً آپ کو کچھ صحیح احادیث قرآن سے ٹکراتی محسوس ہوں گی۔ بطور مثال ذیل کی آیت دیکھئے :
اردو ترجمہ : طاہر القادری
آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 145 )

آیت میں سرخ رنگ کے الفاظ پر غور فرمائیں ۔۔۔ اس آیت میں صاف صاف درج ہے کہ
(الف) کوئی بھی (کھانے والی چیز ) حرام نہیں
(ب) حرام یہ ہیں
1۔ مردار
2۔ بہتا خون
3۔ سور کا گوشت
4۔ نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو

اب غور فرمائیے کہ صحیح احادیث میں کتے کو ، گھریلو گدھے کو ، کوے کو اور دیگر نوچنے والے پرندوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ کتا ، گھریلو گدھا ، کوا وغیرہ کے معاملے میں قرآن خاموش ہے لہذا یہ احادیث قرآن سے نہیں پرکھی جا سکتیں تو ہم کہنا چاہیں گے کہ :
آیت بالا کے سرخ رنگ کے الفاظ کے حصہ (ب) کے تحت بےشک کہا جا سکتا ہے کہ قرآن خاموش ہے ۔۔۔ لیکن حصہ (الف) کے تحت تو کتا ، گھریلو گدھا ، کوا وغیرہ قطعاً حرام نہیں ہونا چاہئے ، جبکہ احادیث تو انہیں حرام بتاتی ہیں۔
ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم آیت کے حصہ (ب) کو لے لیں اور حصہ (الف) کو چھوڑ دیں۔

اگر کوئی کہے کہ صرف قرآن حجت ہے تو ایسا کہنے والے کے نزدیک یقیناً کتا ، گھریلو گدھا ، کوا وغیرہ حلال ہونا چاہئے اور وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اگر کتا ، گھریلو گدھا ، کوا وغیرہ حرام قرار دینے والی احادیث صحیح ہیں تو ایسی احادیث یقیناً قرآن کے خلاف ہیں۔

اسی طرح مچھلی کا معاملہ لیں۔
قرآن کی اسی آیتِ بالا کے حصہ (ب) کے تحت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ "مردار حرام ہے"
جبکہ صحیح حدیث میں ہے کہ سمندر کا مردار (مچھلی) حلال ہے۔
صرف قرآن کو حرفِ آخر ماننے والوں کے نزدیک تو یہ صحیح حدیث قرآن کے خلاف مانی جانی چاہئے کیونکہ قرآن تو مطلقاً ہر مردار کو حرام قرار دیتا ہے۔ جبکہ حدیث ایک استثنٰی دے رہی ہے۔
اگر صرف قرآن کی بات مانی جائے تو آج سے ہر مسلمان کو مچھلی کھانا بند کر دینا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہے؟؟ اور کیا پچھلے 1400 سالوں میں ایسی کوئی مثال ملی ہے کہ مسلمانوں نے مچھلی کو حرام سمجھا ہو؟؟

کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی !
درج بالا جملے کو صرف اسی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے جب ہم یہ مان لیں کہ قرآن کی طرح صحیح حدیث بھی حجت ہے اور شریعت پر عمل صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم قرآن اور حدیث دونوں کو لے کر چلیں۔
جس اللہ نے قرآن نازل کیا اور اس کلام پاک میں بار بار دہرایا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو ۔۔۔۔ تو وہ (نعوذباللہ) کیسے دو متضاد باتیں کہہ سکتا ہے؟
ہاں اگر ہم یہ بات سمجھ لیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت سے مراد ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت شدہ ہر فرمانِ نبوی کو ماننا ہے تو پھر ہم کو قرآن اور حدیث میں کوئی ٹکراؤ نظر نہیں آئے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں کہا ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ ان پر وحی نازل کی جاتی ہے۔
ظاہر ہے جو وحی قرآن میں درج نہیں وہ صحیح حدیث میں ضرور ملے گی۔
اگر ہم اس دوسری وحی کے قائل نہیں ہیں تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ بقول قرآن :
ہمیں آج سے مردار مچھلی کو حرام سمجھ کر کھانا بند کر دینا چاہئے اور کتا ، گھریلو گدھا ، کوا وغیرہ کو حلال جان کر انہیں کھانا شروع کر دینا چاہئے ۔
کیا کوئی ہوشمند مسلمان ایسا فتویٰ دے سکتا ہے؟؟

نوٹ :
صرف ایک قرآنی آیت کے حوالے سے حجیت حدیث کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا ہے ، ورنہ زیادہ مواد یہاں موجود ہے۔
 

باذوق

محفلین
اس تھریڈ میں محترم فاروق صاحب نے غالباً دو سے زائد جگہ "قرآن کے خاموش" ہونے کی بات لکھی ہے۔ پھر آپ نے اپنی پوسٹ نمبر:20 میں یوں بھی لکھا تھا :
قرآن ایک مکمل کتاب اور ایک کسوٹی ہے تمام احکامات کے لئے۔
کوئی کتاب اگر "مکمل کتاب" ہو تو وہ کس طرح بہت سے معاملات میں خاموش ہو سکتی ہے؟
حالانکہ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے
[arabic]الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ
تَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ[/arabic]

ہمارا ایمان تو یہ ہونا چاہئے کہ قرآن میں مہد تا لحد تک کی تفصیل آ چکی ہے۔ اب یہ ہے کہ جو بات قرآن میں نہ ملے وہ صحیح حدیث میں ضرور ملے گی۔ اور اسی (حدیث) کی طرف جانے خود قرآن "اطیعوالرسول" کہہ کر تاکید کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک اعمال و افعال ، اقوال اور تقریر ، اگر صحیح حدیث سے نہ ملیں تو پھر اور کہاں ملیں گے ؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
جزاک اللہ - بہت ہی نیک دلی سے لکھ رہا ہوں۔ جہ جب بھی کوئی روایت یا حدیث پیش کی جاتی ہے تو ہم ہر طرح کا ریفرنس تو دیکھتے ہیں لیکن قرآن کا ریفرنس دیکھنے کی کوشش بہت کم کرتے ہیں ۔ اگر کوئی بات قران کی آیت و احکام سے بھی ثابت ہو تو یقیناً اس بات یا روایت کے مستند ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔

کیا ہی اچھا ہو اگر کوئی بھائی یا بہن ان حدیثوں کو قرآن حکیم کی روشنی میں بھی پرکھیں اور قرآن کے حوالہ بھی فراہم کردیں تاکہ ہم سب کی معلومات میں اضافہ ہو اور مزید یہ کہ ان احادیث کے مستند ہونے میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے گا۔ بہت ہی بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک بھائی یا بہن صرف ایک حدیث لے لیں اور اس کو قرآن کی روشنی میں‌پرکھ کر دوسروں تک پہنچائے کہ کونسی آیت اس حدیث یا روایت کی تائید کرتی ہے؟ اس طرح بانٹ لینے سے کام بھی آسان ہو جائے گا اور ایمان بھی تازہ ہوگا۔ اور کسی کو شکایت کا موقع بھی نہیں ملے گا۔

والسلام
السلام علیکم جناب فاروق سرور خان صاحب معذرت کے ساتھ مجھے آپکی بات سمجھنے میں کچھ دشواری ہورہی ہے امید ہے‌آپ وضاحت کردیں گے آپ نے فرمایا کہ ۔ ۔ ۔ جب بھی کوئی روایت یا حدیث پیش کی جاتی ہے تو ہم ہر طرح کا ریفرنس تو دیکھتے ہیں لیکن قرآن کا ریفرینس دیکھنے کی کوشش بہت کم کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ اس سے آپکی کیا مراد ہے ؟جہاں تک میں آپ کی بات سمجھ پایا ہوں تو میرے خیال میں آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ حدیث چاہے کسی بھی موضوع ( یعنی اس کا تعلق عبادات ، معاملات ، حدود ،تعزیرات ،حقوق العباد ، حقوق اللہ ، یا پھر روزمرہ کے عام مسائل یا افعال ) سے متعلق ہو اس کا مذکور قرآن میں ہونا ضروری ہے اور شاید اسی کو آپ حدیث کا قرآن پر پرکھنا سمجھتے ہیں ؟برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں اور نیز یہ بھی کہ اصول قرآن کی کس آیت سے وضع ہے کہ جو بھی حدیث لی جائے گی اسے پہلے قرآن پر پیش کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ امید کرتا ہوں آپ قرآن کی بہت سی تو نہیں کم از کم ایک آیت اس اصول پر مبنی ضرور پیش کریں گے ۔ ۔ شکریہ ۔ ۔ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
جب آپ نے اتنی مشہور و معروف حدیث کا ریفرنس دے دیا ہے تو میرا خیال ہے آپ کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ ان الفاظ کے ساتھ جتنی بھی احادیث ہیں ان کی سند ضعیف ہے۔۔۔
اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے جو صحیح سند کے ساتھ ہے اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو میری بات یاد کرتا ہے اور اسے ایسے ہی آگے پہنچاتا ہے جیسے اس نے سنی ہو۔۔''اس میں 40 احادیث کی قید کہیں بھی نہیں ہے۔۔
جہاں تک بات میری حدیث کے بارے مین فکر مندی کی ہے تو حدیث کے بارے میں فکر مند نہ ہوں تو اور کس کے بارے میں ہوں؟موضوع اور ضعیف روایات کی وجہ سے جتنی بدعات لوگ کر رہے ہیں ان کی تحقیق کرنا ہمارا فرض ہے اور دوسرے لوگوں کو بتانا۔۔جہاں تک آپ نے نبی ص کے نام کو پورا لکھنے کی بات کی ہے تو بھائی وہ میرا ذاتی عمل ہے اور اس حدیث کی بابت دریافت کرنا دین کا معاملہ ہے۔۔اور شاید آپ نے کبھی اسلامیات کی کتابوں میں نبی ص کے نام کے ساتھ ایسا لکھا ہوا دیکھا نہیں ہے اس لیے ایسا کہہ رہے ہیں میرا مقصد نبی صلہ کا نام کہتے اور لکھتے وقت زبان سے پورا ادا کرنا ہے اب اسے میں پورا یہاں ٹائپ کرتی ہوں یا نہیں اس بارے میں آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے جزاک اللہ خیرا

السلام علیکم محترمہ بنت حوا صاحبہ! قطع نظر اس کے مذکورہ حدیث کی تمام کی تمام اسناد ضعیف ہیں ۔ عرض یہ ہے کہ جہاں آپ مذکروہ حدیث کی تمام کی تمام اسناد کے ضعف پر مطلع ہوگی تھیں تو وہاں آپ سے یہ خبر کیسے اوجھل رہ گئی کہ مذکورہ بالا پیش کردہ حدیث فضائل کے باب میں سے ہے اور اگر روایت صحیح نہ ہو بلکہ ضعیف ہو تو فضائل اعمال اور ترغیب (یعنی کسی کام کی طرف رغبت دلانا ) اور ترہیب (یعنی کسی کام کے کرنے سے ڈرانا یعنی منع کرنا ) کے معاملات میں قابل عمل ہوتی ہے جیسا کہ جمہور محدثین کا اس باب میں فیصلہ ہے اور محدثین کی اکثریت کی اس باب میں تصریحات ہیں ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہذا محدثین کےجمہور کے اس فیصلہ کے پیش نظر کہ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہوتی ہیں اس قسم کی احادیث پر عمل کرلینا جائز ہے اور باعث برکت ہے ۔کیونکہ ضعیف حدیث عقائد و احکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے ، عقائد و احکام کے باب میں تشدد (یعنی سختی یعنی صرف صحیح حدیث کا قابل حجت ہونا) جب کے ترہیب و ترغیب کے باب میں تساہل (یعنی سستی و نرمی یعنی ضعیف احادیث کا بھی قابل عمل ہونا) مشھور محدث حافظ سخاوی علیہ رحمہ نے امام احمد، ابن معین ،،ابن المبارک،سفیان ثوری اور ابن عینیہ سے نقل کی ہے ۔ اور امام نووی نے تو اس پر اجماع کا دعوٰی نقل کیا ہے ۔
امام نووی کی الاربعین کی شرح میں ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل پر علماء کا اتفاق ہے کیونکہ اگر وہ واقعی صحیح تھی تو اس کو اسکا حق مل گیا
(یعنی اس پر عمل ہوجانے کی صورت میں) وگرنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حلال کو حرام کرنا لازم آیا اور نہ ہی اس کے برعکس اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا ۔ ۔۔
لہزا اوپر پیش کی گئی حدیث کا فضائل کے باب میں سے ہونا بداہتا ثابت ہے کہ اس حدیث سے کوئی فرض یا واجب حکم ثابت نہیں ہورہا بلکہ دینی مسائل پر مشتمل 40 احادیث نبوی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت تک پہنچانے کے باب کی ترغیب دی جارہی ہے اس عمل کی فضیلت کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
باذوق صاحب۔
آپ کافی کنفیوژ ہیں ، اور بھول بھی جاتے ہیں‌کہ کیا کہا، کیا پوچھا


بقول باذوق:
میں نے کب کہا کہ :
کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی !
(‌ باذوق ‌نہیں مانتے ہیں)

اصل پيغام ارسال کردہ از: فاروق سرور خان
آپ نے بہت ہی اچھا فرمایا : ۔۔اور کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کی کسی آیت کے خلاف نہیں ہو سکتی


بقول باذوق:
حالانکہ یہ بات غلط ہے !
کیونکہ یہ بات میں بھی مانتا ہوں اور یوں کہتا ہوں
کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی !
(باذوق مانتے ہیں)


پھر فرماتے ہیں بقول باذوق:
فاروق صاحب نے لکھا ہے


بہت سی درست احادیث قرآن سے نہیں‌ پرکھی جاتی ہیں، وہ اس لئے کہ وہ قرآن کی کسی آیت سے نہیں ٹکراتی ہیں اور قرآن اس معاملہ پر خاموش ہے۔

حالانکہ یہ بات غلط ہے۔

اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: فاروق سرور خان
کبھی آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے۔


بقول باذوق:
اس کا بھی حوالہ اب تک نہیں دیا گیا کہ میں نے کس جگہ ایسا لکھا تھا؟


میرا خیال ہے کہ ہم کو یہ تسلیم کرلینا چاہئیے کہ
1۔ یہ بحث الفاظ کا ہر پھیر ہے۔
2۔ ذاتی عناد پر مشتمل ہے اور
3۔ جان بوجھ کر ایک کنفیوژن طاری کرنے کے لئے ہے۔
4۔ جو مثالیں دی گئی ہیں وہ صرف اور صرف ان معاملات کو طول دینے کے لئے ہیں۔

لہذا، میں اس بحث کوہمیشہ کے لئے بند کرتا ہوں، اسلئے کہ باذوق صاحب طرح طرح کے الفاظ کے ہیر پھیر سے خواہ مخواہ کی ابحاث کو شروع کرتے ہیں۔

اگر وہ موضوع پر رہ کر اپنا کام کرنا چاہیں تو بہت ہی اچھا ہو لیکن اگر مجھ کو موضوع بنانا چاہتے ہیں تو ایک الگ دھاگہ میرے نام کا کھول لیں اور دل بھر کر اپنی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
 
Top