حالی غزل - ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں - مولانا حالی

محمد وارث

لائبریرین
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں

یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں


(مولانا الطاف حسین حالی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب! دیوانِ حالی سے دیکھ کر اس غزل میں تین مزید اشعار شامل کئے ہیں۔

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں

یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربطامگر اس قدر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں

بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
 

غ۔ن۔غ

محفلین
یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

بہت خوب انتخاب ہے جناب وارث صاحب
ہم سے شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ
 
Top