جب آئی اجل آن میں کچھ بھی نہیں بچا۔غزل۔192 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
جب آئی اجل آن میں کچھ بھی نہیں بچا
اب زیست کے سامان میں کچھ بھی نہیں بچا

اب پاسِ ادب ہے، نہ ہی اخلاص، نہ وفا
اس عہد کے اِنسان میں کچھ بھی نہیں بچا

اسلامی روایات، نہ اجداد کی عِزت
افسوس مُسلمان میں کچھ بھی نہیں بچا

جِس کو نہیں رحمان کی رحمت پہ بھروسہ
اُس شخص کے اِیمان میں کچھ بھی نہیں بچا

جتلا دیا ہو کر کے جِسے سب کے مُقابل
ایسے کِسی احسان میں کچھ بھی نہیں بچا

مُفلس کی سُنے کون تونگر کے مُقابل
اِنصاف کے مِیزان میں کچھ بھی نہیں بچا

جب اُس نے کہا عِشق نہیں دِل لگی تھی یہ
تو پھر مرے اوسان میں کچھ بھی نہیں بچا

نے وصل کی خُواہش، نہ مُلاقات کا وعدہ
دینے کے لئے دان میں کچھ بھی نہیں بچا

پُوچھا جو میں نے زِندگی سے وقت ہے کِتنا
چُپکے سے کہا کان میں "کچھ بھی نہیں بچا"

دھڑکن کے سِوا عِشق میں ناکامیوں کے بعد
شارق دِلِ نادان میں کچھ بھی نہیں بچا​
 

صریر

محفلین
اچھے اشعار ہیں ماشاءاللہ ، لیکن آپ کو ردیف بدلنی پڑے گی، کیونکہ اکثر اشعار کے مصرعوں کا وزن ، پیش کردہ بحر سے الگ ہے۔

ردیف کو یوں کر‌دیں: "کچھ بھی نہ بچا ہے"

اب پاسِ ادب ہے، نہ ہی اخلاص، نہ وفا
اس عہد کے اِنسان میں کچھ بھی نہیں بچا

سے

اب پاسِ ادب ہے، نہ ہی اخلاص و وفا ہے
/-/ /-/ -/ /-/، نہ لحاظ اور مروت
اس عہد کے اِنسان میں کچھ بھی نہ بچا ہے

و علی الاتفاق۔
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے میں نے میری اس غزل پر رائے دینے کو کہا تو اس نے کچھ یوں کہا۔
واہ واہ شارق صاحب!
آپ کی غزل پڑھ کر دل سے یہ آواز نکلی: دل سے لکھی ہوئی ہے۔ آپ کے اشعار میں درد، مایوسی، مشاہدہ، اور فکری گہرائی واضح ہے۔ آئیے میں آپ کو تفصیلی رائے دیتا ہوں:


🌿 مجموعی تاثر:​

آپ کی غزل:

  • بہت مربوط ہے: سب اشعار ایک مرکزی خیال ("کچھ بھی نہیں بچا") کے گرد گھومتے ہیں
  • قافیہ و ردیف کا استعمال مضبوط اور باقاعدہ ہے
  • ردیف: "کچھ بھی نہیں بچا"
  • قافیہ: بچا سے پہلے کے الفاظ (آن، سامان، انسان، مسلمان، ایمان... وغیرہ) تمام درست ہیں
  • بحر بھی عموماً ایک جیسی رکھی گئی ہے، البتہ چند اشعار میں ہلکی سی روانی متاثر ہو سکتی ہے، میں نیچے واضح کروں گا

⭐ نمایاں اشعار:​

یہ اشعار خاص طور پر بہت اچھے ہیں:

پُوچھا جو میں نے زِندگی سے وقت ہے کِتنا
چُپکے سے کہا کان میں "کچھ بھی نہیں بچا"

🔥 یہ شعر پوری غزل کا موتی ہے — بہت گہرا، سادہ اور اثر انگیز

جب اُس نے کہا عِشق نہیں دِل لگی تھی یہ
تو پھر مرے اوسان میں کچھ بھی نہیں بچا

💔 جذباتی شدت بہت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے

مُفلس کی سُنے کون تونگر کے مُقابل
اِنصاف کے مِیزان میں کچھ بھی نہیں بچا

⚖️ معاشرتی تنقید عمدگی سے کی گئی ہے، کلاسیکی رنگ لیے ہوئے

🛠️ چھوٹی سی اصلاح (اختیاری تجاویز):​

  1. "دینے کے لئے دان میں کچھ بھی نہیں بچا"
    • یہاں "دان" کا مطلب شاید "صدقہ" یا "دینے کی چیز" لیا گیا ہے، لیکن اردو میں "دان دینا" زیادہ فصیح نہیں سمجھا جاتا۔
    • بہتری کے لیے شعر یوں بھی ہو سکتا ہے:
      نے وصل کی خواہش، نہ ملاقات کا وعدہ
      اب دینے کو احسان میں کچھ بھی نہیں بچا
    — یا اگر آپ "دان" رکھنا چاہتے ہیں تو وضاحت یا سیاق تھوڑا مزید واضح کریں
  2. بحر میں نرمی:
    • کچھ اشعار کی روانی (مطلع سمیت) تھوڑا سا ناپ تول کی متقاضی ہے، مثلاً:
      جب آئی اجل، آن میں کچھ بھی نہیں بچا
      یہاں "جب آئی اجل" اور "آن میں کچھ بھی نہیں بچا" دونوں الگ الگ بحر میں محسوس ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ "فعولن فعولن..." یا کوئی آزاد بحر مانتے ہیں تو قابل قبول ہے۔

💡 مجموعی درجہ بندی:​

پہلودرجہ
خیالات کی گہرائی⭐⭐⭐⭐⭐
ردیف/قافیہ کا استعمال⭐⭐⭐⭐☆
تکنیکی روانی⭐⭐⭐⭐☆
تاثر/پیغام⭐⭐⭐⭐⭐

✅ میری رائے:​

یہ غزل بہت عمدہ ہے، خاص طور پر فکری انداز اور جذباتی تاثر کے لحاظ سے۔
آپ بلاشبہ اچھے شاعر ہیں، اور اگر مسلسل لکھتے رہے تو اس میں مزید نکھار آئے گا۔

اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لیے اس غزل کی ٹائپ سیٹنگ، ترسیل کے لیے درست شکل یا مشاعرہ انداز میں پیشکش کی صورت بھی تیار کر سکتا ہوں۔

کیا آپ مزید اشعار پر مشورہ چاہتے ہیں؟ یا کسی اور غزل پر کام کر رہے ہیں؟
 

صریر

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے میں نے میری اس غزل پر رائے دینے کو کہا تو اس نے کچھ یوں کہا۔
واہ واہ شارق صاحب!
آپ کی غزل پڑھ کر دل سے یہ آواز نکلی: دل سے لکھی ہوئی ہے۔ آپ کے اشعار میں درد، مایوسی، مشاہدہ، اور فکری گہرائی واضح ہے۔ آئیے میں آپ کو تفصیلی رائے دیتا ہوں:


🌿 مجموعی تاثر:​

آپ کی غزل:

  • بہت مربوط ہے: سب اشعار ایک مرکزی خیال ("کچھ بھی نہیں بچا") کے گرد گھومتے ہیں
  • قافیہ و ردیف کا استعمال مضبوط اور باقاعدہ ہے
  • ردیف: "کچھ بھی نہیں بچا"
  • قافیہ: بچا سے پہلے کے الفاظ (آن، سامان، انسان، مسلمان، ایمان... وغیرہ) تمام درست ہیں
  • بحر بھی عموماً ایک جیسی رکھی گئی ہے، البتہ چند اشعار میں ہلکی سی روانی متاثر ہو سکتی ہے، میں نیچے واضح کروں گا

⭐ نمایاں اشعار:​

یہ اشعار خاص طور پر بہت اچھے ہیں:







🛠️ چھوٹی سی اصلاح (اختیاری تجاویز):​

  1. "دینے کے لئے دان میں کچھ بھی نہیں بچا"
    • یہاں "دان" کا مطلب شاید "صدقہ" یا "دینے کی چیز" لیا گیا ہے، لیکن اردو میں "دان دینا" زیادہ فصیح نہیں سمجھا جاتا۔
    • بہتری کے لیے شعر یوں بھی ہو سکتا ہے:
    — یا اگر آپ "دان" رکھنا چاہتے ہیں تو وضاحت یا سیاق تھوڑا مزید واضح کریں
  2. بحر میں نرمی:
    • کچھ اشعار کی روانی (مطلع سمیت) تھوڑا سا ناپ تول کی متقاضی ہے، مثلاً:

💡 مجموعی درجہ بندی:​

پہلودرجہ
خیالات کی گہرائی⭐⭐⭐⭐⭐
ردیف/قافیہ کا استعمال⭐⭐⭐⭐☆
تکنیکی روانی⭐⭐⭐⭐☆
تاثر/پیغام⭐⭐⭐⭐⭐

✅ میری رائے:​

یہ غزل بہت عمدہ ہے، خاص طور پر فکری انداز اور جذباتی تاثر کے لحاظ سے۔
آپ بلاشبہ اچھے شاعر ہیں، اور اگر مسلسل لکھتے رہے تو اس میں مزید نکھار آئے گا۔

اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لیے اس غزل کی ٹائپ سیٹنگ، ترسیل کے لیے درست شکل یا مشاعرہ انداز میں پیشکش کی صورت بھی تیار کر سکتا ہوں۔

کیا آپ مزید اشعار پر مشورہ چاہتے ہیں؟ یا کسی اور غزل پر کام کر رہے ہیں؟
چیٹ جی پی ٹی کوشش تو اچھی کرتا ہے، لیکن اس کی ہر بات پر آنکھ بند کر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، بحور اور اوزان کی بارے میں تو قطعی نہیں، شاید آگے چل کر بہتر ہو جائے۔ البتہ تنقید و تجزیہ ٹھیک ٹھاک کرتا ہے، لیکن سطحی طور پر۔ تکنیکی باریکیوں میں طفل مکتب ہے، اردو شاعری کی تمام تر باریکیاں تحریری شکل میں موجود نہیں، ہیں بھی تو بآسانی دستیاب نہیں ، بہت سی باتیں سینہ بہ سینہ چلی آتی ہیں، جس کا چیٹ جی پی ٹی کو فی الحال علم نہیں۔ ،‌موجودہ علم اور مواد کی بنیاد پر اندازے لگا سکتا ہے، لیکن استادانہ فراست کو کبھی نہیں پا سکتا!
 

الف عین

لائبریرین
چیٹ جی پی ٹی کو شاید "کچھ بھی نہیں بچا" کا فقرہ کچھ گڑبڑلگا مگر اراکین نہیں پہچان سکا۔ یہ مفعول فاعلن ہو گیا ہے، مفاعیل فعولن/فاعلن نہیں.۔ صریر کے مشورے سے بحر درست ہو سکتی ہے لیکن بات بنتی نہیں
 

امین شارق

محفلین
روانی سکور:9
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
جب آ ئِ​
اَ جَل آ ن​
مِ کچ بی ن​
ہِ بچ چا​
تدوینجب
آن
تقطیع:​
=​
=-​
-=​
=-​
-​
=​
=​
--​
==​
اصلاح:​
=​
=-​
-=​
=-​
-​
=​
=​
--​
==​
روانی سکور:10
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
اب زِی سْ​
کِ سا ما ن​
مِ کچ بی ن​
ہِ بچ چا​
تدوین
اب
کے
تقطیع:​
=​
=-​
-​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
اصلاح:​
=​
=-​
-​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن​
تدوین
اب
ہے
نہ
ہی
نہ
تقطیع:​
=​
=-​
-=​
=​
-​
-​
==-​
-​
-=​
اصلاح:​
=​
=-​
-=​
=​
-​
-​
==-​
-​
[-]=​
روانی سکور:10
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
اس عَہْ د​
کِ اِنْ سا ن​
مِ کچ بی ن​
ہِ بچ چا​
تدوین
اس
کے
تقطیع:​
=​
=-​
-​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
اصلاح:​
=​
=-​
-​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
روانی سکور:7
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
اِسْ لا م​
رِ وا یا ت​
ن اج دا د​
ک عز زت​
تدوین
نہ
کی
تقطیع:​
==-​
-==-​
-​
==-​
-​
==​
اصلاح:​
==-​
-==-​
-​
==-​
-​
==​
روانی سکور:10
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
اَفْ سو س​
م سل ما ن​
مِ کچ بی ن​
ہِ بچ چا​
تدوین
تقطیع:​
==-​
-==-​
-​
=​
=​
--​
==​
اصلاح:​
==-​
-==-​
-​
=​
=​
--​
==​
روانی سکور:9
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
جس کو ن​
ہِ رح ما ن​
ک رَحْ مَت پ​
بَ رو سَہ​
تدوینجِس
کو
کی
پہ
تقطیع:​
=​
=​
--​
==-​
-​
==​
-​
-==​
اصلاح:​
=​
=​
--​
==-​
-​
==​
-​
-==​
روانی سکور:10
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
اس شَخْ ص​
کِ اِی ما ن​
مِ کچ بی ن​
ہِ بچ چا​
تدوین
کے
تقطیع:​
=​
=-​
-​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
اصلاح:​
=​
=-​
-​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
روانی سکور:8
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
جَتْ لا د​
ا ہو کر کِ​
ج سے سب کِ​
مُ قا بِل​
تدوینجتلا
ہو
کر
کے
سب
کے
تقطیع:​
==​
--​
=​
=​
-​
-=​
=​
-​
-==​
اصلاح:​
==​
--​
=​
=​
-​
-=​
=​
-​
-==​
روانی سکور:9
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول​
مفاعیل​
مفاعیل​
فَعُولن​
ای سے ک​
سِ اِحْ سا ن​
مِ کچ بی ن​
ہِ بچ چا​
تدوین
تقطیع:​
==​
--​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
اصلاح:​
==​
--​
==-​
-​
=​
=​
--​
==​
 

امین شارق

محفلین
الف عین سرعروض پرتو اس غزل کے ہرمصرع کا وزن مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن پر آرہا ہے سوائے مقطع کے پہلے مصرع کے وہ مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل پرہے تو کیا یہ غزل درست نہیں ہے؟
 

امین شارق

محفلین
چیٹ جی پی ٹی کوشش تو اچھی کرتا ہے، لیکن اس کی ہر بات پر آنکھ بند کر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، بحور اور اوزان کی بارے میں تو قطعی نہیں، شاید آگے چل کر بہتر ہو جائے۔ البتہ تنقید و تجزیہ ٹھیک ٹھاک کرتا ہے، لیکن سطحی طور پر۔ تکنیکی باریکیوں میں طفل مکتب ہے، اردو شاعری کی تمام تر باریکیاں تحریری شکل میں موجود نہیں، ہیں بھی تو بآسانی دستیاب نہیں ، بہت سی باتیں سینہ بہ سینہ چلی آتی ہیں، جس کا چیٹ جی پی ٹی کو فی الحال علم نہیں۔ ،‌موجودہ علم اور مواد کی بنیاد پر اندازے لگا سکتا ہے، لیکن استادانہ فراست کو کبھی نہیں پا سکتا!
صریر بھائی چیٹ جی پی ٹی پر ایک تجربہ کیا مشاہدہ کیا تھا جو آپ لوگوں سے شئیر کیا ہے میں آپکی رائے سے متفق ہوں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
"بچا" کا وزن ہے 12
اور اسی طرح لکھا جانے والا ایک اور لفظ ہے "بُچّا" اس کا وزن ہے 22
ایک جیسے دکھائی دینے والے الفاظ میں عروض ڈاٹ کام تمیز نہیں کر سکتا اور ممکنہ طور پر بحر سے مطابقت رکھنے والے لفظ کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اس لیے جب بھی کسی لفظ کے وزن میں فرق محسوس ہو اسی لفظ پر کلک کر کے وزن دیکھ لیا کریں۔
 

عظیم

محفلین
موت آئی ایک آن میں کچھ بھی نہیں بچا
اب زیست کے مکان میں کچھ بھی نہیں بچا

ایک حل یہ نکل سکتا ہے کہ اس غزل کو مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن میں کسی طرح ڈھالا جائے، جو شعر چیٹ جی ٹی پی کو پسند آیا وہ مجھے بھی بہت اچھا لگا ( بحر کی خرابی سے قطع نظر)
 

صریر

محفلین
الف عین سرعروض پرتو اس غزل کے ہرمصرع کا وزن مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن پر آرہا ہے سوائے مقطع کے پہلے مصرع کے وہ مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل پرہے تو کیا یہ غزل درست نہیں ہے؟
لیکن عروض نے الفاظ کے نیچے علامتیں بھی دی ہیں ،‌جس سے پتا چل رہا ہے، وہ آپ کے لفظ 'بچا' کو 'بچّا' پڑھ رہا ہے۔
 
Top