الوداعی تقریب ناقابلِ اصلاح غزل

تسلیم فاضلی کا خوبصورت گیت مہدی حسن خان نے اس سے بھی زیادہ خوبصورت انداز میں گایا ہے۔ اتنے خوبصورت گیت کو نظر نہ لگ جائے اس لیے نظر وٹو کے طور پر یہ غزل لکھی ہے بھائی عبدالرووف صاحب کے خضاب اور شباب سے متاثر ہو کر:
محترم استاد ظہیر احمد ظہیر کے شگفتہ ٹرینڈ کو فالو کرتے ہوئے

محترم اساتذہ کرام سے گذارش ہے کہ یہ غزل ناقابلِ اصلاح ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ


بال کالے ہیں ترے یا ان پہ ہے تازہ خضاب
سرخیاں چہرے کی ہیں یا یہ بھی غازہ ہے جناب

اُن کی زلفوں کو جو چھیڑا پیار سے میں نے تھا کل
آگئی تھی وگ نکل کر ہاتھ میں خانہ خراب

نیلگوں آنکھیں نہیں اصلی لگیں اس کی مجھے
پلکیں نقلی، دانت نقلی، دھوکہ تھا اس کا شباب

کیوں نہ جانے بذلہ سنجی پر میں اس کی مر مٹا
عمر بھر پڑھنی پڑی پھر وہ لطیفوں کی کتاب

میں سمجھتا تھا کہ میں بے چین ہوں اس کے بنا
مل گئی وہ تو میں سمجھا اصل میں کیا ہے عذاب

دیکھ کر خورشید جس کو تو نے لکھ دی ہے غزل
کاغذی سا پھول ہے وہ تو نہیں اصلی گلاب
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت خوب ہے خورشید بھائی۔
بال کالے ہیں ترے یا ان پہ ہے تازہ خضاب
سرخیاں چہرے کی ہیں یا یہ بھی غازہ ہے جناب

اُن کی زلفوں کو جو چھیڑا پیار سے میں نے تھا کل
آگئی تھی وگ نکل کر ہاتھ میں خانہ خراب
مفت اور بے مایہ اور بے ضرر سے مشورے۔۔۔ اگر اچھے نہ بھی لگیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں
بال کالے ہیں ترے یا ان پہ ہے تازہ خضاب
اور چہرے پر ہے سرخی یا کہ غازہ ہے جناب

ان کی زلفوں کو تھا چھیڑا پیار سے میں نے جو کل
آ گئی تھی وگ نکل کر ہاتھ میں خانہ خراب
 
واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت خوب ہے خورشید بھائی۔

مفت اور بے مایہ اور بے ضرر سے مشورے۔۔۔ اگر اچھے نہ بھی لگیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں
بال کالے ہیں ترے یا ان پہ ہے تازہ خضاب
اور چہرے پر ہے سرخی یا کہ غازہ ہے جناب

ان کی زلفوں کو تھا چھیڑا پیار سے میں نے جو کل
آ گئی تھی وگ نکل کر ہاتھ میں خانہ خراب
شکریہ بھائی !
سرگوشی میں بھی ناقابلِ اصلاح
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بھائی عبد الروف صاحب خضاب نہیں لگاتے ۔
وہ خضاب پر نظم لکھتے ہیں ۔
خضاب پر کیسے لکھتے ہیں بھلا؟
خضاب سے لکھتے ہوں گے روفی بھیا سر کی سرزمیں پر۔
اوئے ہوئے ہوئے اسی تے ہس وی نئیں سکدے روفی بھائی ساڈے ویر جی جے ہوئے :rollingonthefloor: :rollingonthefloor:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بس اب شکوہ مت کیجئیے گا کہ لڑی کا کیا حشر ہوا۔
اربش علی خضاب نے ہر طرف عذاب ڈالا ہوا۔۔ ذرا غور فرمائیے۔
اگر مرد حضرات سے پوچھا جائے کہ کون کون خضاب لگاتا ہے تو فورا جواب مل جائے گا اور اگر خواتین سے یہی سوال ہو تو وہاں سے تو کورا جواب ملے گا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اگر مرد حضرات سے پوچھا جائے کہ کون کون خضاب لگاتا ہے تو فورا جواب مل جائے گا اور اگر خواتین سے یہی سوال ہو تو وہاں سے تو کورا جواب ملے گا۔
ہاں یہ تو ہے۔
اس لیے پوچھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ فیشن کے طور پر بھی خواتین ہئیر کلر لگاتی ہیں لیکن بتا دیتی ہیں ۔ کورا جواب تھوڑی دیتی ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہاں یہ تو ہے۔
اس لیے پوچھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ فیشن کے طور پر بھی خواتین ہئیر کلر لگاتی ہیں لیکن بتا دیتی ہیں ۔ کورا جواب تھوڑی دیتی ہیں۔
فیشن ہیئر کلر اور خضاب کا فرق تو خوب جانتی ہوں گی نا آپ؟
 
بال کالے ہیں ترے یا ان پہ ہے تازہ خضاب
سرخیاں چہرے کی ہیں یا یہ بھی غازہ ہے جناب

اُن کی زلفوں کو جو چھیڑا پیار سے میں نے تھا کل
آگئی تھی وگ نکل کر ہاتھ میں خانہ خراب

نیلگوں آنکھیں نہیں اصلی لگیں اس کی مجھے
پلکیں نقلی، دانت نقلی، دھوکہ تھا اس کا شباب

کیوں نہ جانے بذلہ سنجی پر میں اس کی مر مٹا
عمر بھر پڑھنی پڑی پھر وہ لطیفوں کی کتاب

میں سمجھتا تھا کہ میں بے چین ہوں اس کے بنا
مل گئی وہ تو میں سمجھا اصل میں کیا ہے عذاب

دیکھ کر خورشید جس کو تو نے لکھ دی ہے غزل
کاغذی سا پھول ہے وہ تو نہیں اصلی گلاب
اگر یہ ایک مسلسل غزل ہے تو شوہریات اور بیویات کو اکٹھے چھیڑ بیٹھی ہے۔ مطلع کے پہلے مصرع میں بیگم صاحبہ اپنے میاں کے بالوں کی رنگت پر بات کرتی پائی جا رہی ہیں، حالانکہ ان کو غنیمت جاننا چاہیے کہ ان کے میاں کے سر پر بال موجود ہیں، ورنہ بہتوں کو تو وہ بھی نصیب نہیں ہوتے۔اگلے ہی مصرع میں میاں کیوں پیچھے رہتے؟کہنے لگے کہ میرے بالوں کی رنگت مصنوعی سہی، آپ بھی تو Maybelline اور Revolution کی میک اپ کِٹس کی" منیاری" لگائے بیٹھی ہیں، ورنہ میں ان میک اپ کی تہوں کے پیچھے کےانسان کو جانتا نہیں؟ (بیک گراؤنڈ میں گانا چل رہا ہے، لے کے چہرۂ پر نور، ایسے بیٹھے ہیں حضور، جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔۔۔کر کے (پارلر کے) "بِل کا شیشہ چُور، ایسے بیٹھے ہیں حضور جیسے۔۔۔)

اگلے ہی شعر میں بیگم گویا ہوتی ہیں کہ آپ کی زلفوں کی فقط رنگت پہ بات کی تھی، آپ نے غنیمت نہ جانا۔ اب ان کی ہئیت پر بھی بات کر لیتے ہیں: نِری مصنوعی ہیں اور آپ سونے سے پہلے یہ زلفیں اتار کر سوتے ہیں۔ ہم میک اپ دھو بھی لیں تو نیچے کچھ نین نقش موجود ہیں، مگر آپ کے اس گھنے جنگل کے نیچے چٹیل میدان ہے!!!

اگلے ہی شعر میں میاں صاحب فرماتے ہیں کہ پہلے تو یہ عالم تھا کہ "آنکھیں دیکھیں تو میں دیکھتا رہ گیا۔۔۔جام دو ہیں اور دونوں ہی دو آتشہ" اور اب یہ حال ہے کہ کیا کہوں، قدرت کی صناعی دیکھتے دیکھتے انسان کی مصنوعی کوزہ گری کے چنگل میں پھنس گیا اور اب ان آنکھوں پر وہی ایک شعر صادق آتا ہے( کہ پچھلا ہر کلام تو کاذب ٹھہرا): "میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی۔۔۔آنکھ میں موتیا اتر آیا!"

(بیگم صاحبہ اس معاملے کی گمھبیرتا کی گہرائی و گیرائی جانچتے ہوئے خاموش تماش بین بنی بیٹھی ہیں کہ یہ بڑبولا ایک بار بول ہی لے، اس پہ اکٹھا ایک دیوان لکھ کر اور ہزاروں کاپیاں چھپوا کر گھر گھر بانٹوں گی!!!)

میاں صاحب مزید گویا ہوتے ہیں کہ لطیفے پر ہنسی ایک دو بار آتی ہے، کاش مجھے یہ بات بھری جوانی میں سمجھ آ جاتی۔ میں بیگم صاحبہ کی حسِ ظرافت پر مر مٹا اور یہ نہ جان پایا کہ ان کے پاس یہی دو چار لطیفے ہیں جو ریسائیکل ہوتے رہتے ہیں۔ اب بیگم اور لطیفے تو وہی ہیں لیکن میرے قہقہوں کی جگہ آہ و بکا نے لے لی ہے۔اگلے شعر میں مزید کہتے ہیں کہ بیگم کے بغیر دن گنتا تھا اور کہتا تھا کہ "نہ تُو آئے گی، نہ ہی چَین آئے گا" مگر اب زندگی اک جبرِ مسلسل کی طرح کاٹ رہا ہوں اور ہر چند روز بعد میرے دل میں خیال آتا ہے کہ "میں تو اہل ہوں کسی اور کا ، مری اہلیہ کوئی اور ہے۔"

مقطع میں شاعر خورشید تخلص کرتےہیں اور کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دیتے کہ بیگم صاحبہ درحقیقت اس" سورج گرہن" پر دیوان لکھ کر چھپوانے کی تیاریوں میں ہیں ۔وہ اس بات سے البتہ خود بھی بے خبر ہیں کہ جنہیں وہ کاغذی پھول کہہ رہے ہیں اصلی تناور درخت اب اپنی شاخوں (بچوں) سمیت وہی ہے اور بیگم کے عروج کا دور آیا ہی چاہتا ہے کہ بقول احمد فراز دوئم "بچے تیرے جوان ہیں کچھ تو خیال کر"!

یہ صرف ازراہ تفنن مجھے فی البدیہہ مسخریاں سوجھی ہیں کیونکہ آپ نے ٹیگ کر کے رائے مانگ لی تھی، کسی بھی قاری یا لکھاری کے ساتھ اس کی مماثلت فقط اتفاقیہ ہو گی۔ :rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:
Top