یادوں کی سواری ۔ ۔ ۔ ۔

صابرہ امین

لائبریرین
ہم اپنی سہیلی کے ساتھ تیز تیز قدموں سے شیرٹن ہوٹل(آج کے موون پک) کے مرکزی دروازے کی جانب رواں دواں تھے ۔ آج پاکستان ٹیکسٹائل اینڈ کلودنگ فیسٹیول تھا۔ ہمارے کالج رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کو خصوصی اسٹال دیا گیا تھا جہاں ہمارے کلودنگ اور ٹیکسٹائل کے پروجیکٹس رکھے گئے تھے۔ جن طالبات کے پروجیکٹس تھے ان کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئیں تھیں کہ ان سے مقامی اور بین الاقوامی صحافی اور نمائندے سوالات کریں تو وہ اپنے پروجیکٹ، ڈپارٹمنٹ اور کالج کے بارے میں بتائیں اور ہم ان کے سوالات وغیرہ کے لیئے تیار تھے ۔ ۔

آج نمائش کا پہلا دن تھا اور وزیراعلیٰ سندھ کو نمائش کا افتتاح کرنے آنا تھا ۔ ۔ ہوٹل کا مرکزی دروازہ حفاظتی اقدامات کے باعث ایک مخصوص وقت کے بعد بند ہو جانا تھا۔ ہم تیز تیز قدموں سے تقریباَ بھاگتے ہوئے جا رہے تھے کی دور کھڑے ایک کیمرہ لیئے ہوئے شخص نے جو کہ سفید فام تھا ہمیں روکا ۔ ۔اشارے سے ہم سے کہا کہ وہ ہماری تصویرلینا چاہتا ہے ۔ ۔ ہم دونوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔ اس نے کافی دور سے ہماری چنی منی سی تصویر لی ۔ ۔ ہماری سہیلی نےکہا ،ٰ واہ آج تو میری تیاری کام آ گئی ۔ ۔ٰ واقعی!! اس نے آواری سے باب کٹ بال اک دن پہلے ہی کٹوائے تھے ۔ ۔ بمبئ والا سے بلاک پرنٹ کا سوٹ لے کر سلوایا تھا اور بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ ۔ہمیں بہت فخر ہوا کہ ہماری سہیلی کتنی اسمارٹ ہے ۔ ۔(بے وقوفی کا عالم دیکھیئے کہ وہ تصویر اے-بی-سی ملک کے ایکس-وائی-زیڈ اخبار میں چھپنی تھی اور ہم ایویں ہی خوشی میں آپے سے باہر ۔ ۔)اسوقت نہ تو انٹرنیٹ عام تھا اور فیس بک کا "ایف" بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ ۔ ( نہیں نہیں ہم پتھروں کے دور کے نہیں ہیں بھئ ۔ ۔ ۔ )

جب ہم اندر پہنچ کر اپنے اسٹال پر کھڑے ہوئے تو ہماری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ ہماری ساری کلاس تو "پوری کٹ" میں آئی تھی ۔ ۔ہمارا دل تو کئ ایک کو دیکھ کر دھڑکنے بھی لگا ۔ ۔ ہم تو منہ اٹھا کر آ گئے تھے ۔۔۔ہمیں لگا سب اخباروں میں ان کی تصاویر آئیں گی اور تو اور اب تو سہیلی بھی دور کھڑی تھی ۔ ۔ دل بجھ سا گیا۔ ۔ تھوڑی دیر بعد ہٹو بچو کا شور ہوا اور دھڑ دھڑ دھڑ بہت سے کیمرہ مین اور ویڈیو گرافرز الٹے قدموں بھاگتے دکھائ دئیے ۔ ۔ وزیراعلیٰ صاحب نے افتتاح کر دیا تھا اور اب وہ اسٹالز کے معائنے پر تھے ۔ ۔ سب سے پہلا اسٹال ہمارے کالج کا ہی تھا۔ اور پھر وہ آہی گئے ۔ ہمیں لگتا تھا کہ مغرور ہوں گے مگر انھوں نے ہمارے کالج کی نمائندہ کی بات بہت توجہ سے سنی ۔ ۔بڑی شفقت سے چند سوالات کیے اور ہم سب کو بی بی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے نقشِ قدم پر چل کر ملک کے ہر شعبے میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ۔ ۔ سب لوگ ان سے بہت متاثر ہوئے ۔ ۔۔ اور پھر وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے ۔ ۔
ان کے معائنہ کے بعد چلے جانے کی دیر تھی کہ اچانک فوٹوگرافرز نے ہمارےاسٹال پر دھاوا بول دیا ۔ ۔ہم سب کلک کلک کی زد میں آئے ۔ ۔ مگر یہ کیا گورے، کالے، پیلے ہر وضع قطع کے غیر ملکی صحافی لوگ ہمارے پاس آتے اور ہماری اجازت لے کر ہماری تصاویربنا کر شکریہ کے ساتھ چلے جاتے ۔

ابھی حیرانی سے بے ہوش ہونے ہی والے تھے کہ دو غیرملکی صحافی اپنا بڑا سا وڈیو کیمرا لے کر ہمارے پاس آئے ۔ ۔ اور ہمارے سامنے اپنی ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا کہ انہیں ترکش ٹی وی کے لیئے ہمارا انٹرویو چاھیئے ۔ ۔ ایکسکیوز می ۔ ۔ !!! واٹ۔۔۔!!! ہم نے پوچھا ۔ ۔ ایک نے جواب دیا ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش۔ ۔ ہم نے سوچا کہ ترکی والے بھی کتنے کم پڑھے لکھوں کو صحافت میں لے لیتے ہیں ۔ ۔ اپنے اوپر ٹھیک ٹھاک فخر محسوس ہوا ۔ ۔ ہم نے اشارے سے اجازت دی ۔ ۔اب اس نے ہمارے آگے دوسری ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر چند سوالات لکھے تھے۔ ۔ انگلی کے اشارے سے اس نے ہمیں پہلے سوال پر متوجہ کیا ۔ ۔ "واٹ ڈو یو نو اباؤٹ ٹرکی؟" ۔ ۔ ایں دماغ اچانک خالی ہو گیا ۔ ۔ پھر ہم نے سنبھل کر کہا کہ" وہ ایک دوست ملک ہے ۔ ۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے ۔ ۔" (بروقت چالاکی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔) انھوں نے دوسرے سوال پر اشارہ کیا ۔ ۔ لکھا تھا۔"واٹ از دا کیپیٹل آف ٹرکی؟" ارے بھئ بچوں جیسے سوالات ۔ ۔!! ہم نے سوچا ۔ ۔ اور بڑے فخر سے کہا "استنبول" ۔ ۔ وہ دونوں ہنسنے لگے اور ایک ساتھ کہا ۔ ۔"انقرہ " ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھی ہنسنے لگے آخر کیا کرتے ۔ ۔ !!! (اففف ۔ ۔ غرور کا سر منٹوں میں نیچا ہو گیا ۔ ۔ ہم نے سوچا ۔ ۔ ۔) برسوں بعد جب ہم ترکی گئے تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ترکی زبان کا رسم الخط انگریزی ہے مگر اس میں کئ نئے حروف تہجی بھی شامل ہیں جن کی آواز انگریزی سےقطعی الگ ہے اور کہیں بھی متبادل انگریزی سائن بورڈز نظر نہیں آتے ۔ لوگوں کو انگریزی نہیں آتی اور ان کو کوئی احساس کمتری نہیں ۔ صرف سیاحتی مقامات پر گائڈز یا اکا دکا لوگوں کو آتی ہے) ۔ ۔ ۔ ۔ پھر انھوں نے ہمارے کالج اور وہاں موجود ہونے کی غرض و غایت کا پوچھا ۔ ۔ ہاں اس کا ہم نے تفصیلی جواب دیا ۔ ۔ چند منٹ کے اس انٹرویو کے بعد وہ شکریہ کر کے چلے گئے ۔ ۔ ہمارے سارے دوست تو ہم سے بڑے متاثر ہوئے۔ ۔ ( ہم خود بھی "متاثرین" میں شامل تھے ۔ ۔ سچ میں!!) خیر مزا آیا ۔ ۔

دوسرے دن جب ہم اپنی ڈیوٹی پر گئے توپتہ چلا کہ وہ دونوں کئ بار ہمارے بارے میں پوچھ چکے ہیں کہ جن کا کل انٹرویو لیا ہے وہ کہاں ہیں ۔ ۔ ہائیں اب تو ہمیں کچھ "گڑبڑیشن" محسوس ہوئ ۔ ۔ اچانک سامنے سے دونوں کو آتے دیکھا ۔ ۔ وہ بھی سیدھا ہماری طرف آئے ۔ ۔ ہم نے ہونق انداز میں ان کو دیکھا ۔ ۔ انھوں نے سلام کیا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر دیا ۔ ۔( ہیں یہ کیا ہے ۔ ۔ ہم نے سوچا) ہماری دوست نے مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھا ۔ ۔ ہم نے غیر اختیاری طور پر وہ لفافہ لے لیا ۔ ۔ ۔ ۔ انھوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کے ارتغل کی طرح سر جھکایا۔۔(جی جی ارتغل کی طرح ۔ ۔ !! ) ہم نے لفافہ کھولا ۔ ۔ ارے یہ کیا اس میں ہماری افتتاح والے دن کی تصویر مو جود تھی ۔ ۔ اففف!! ہم نے شکریہ ادا کیا ۔ ۔ مگر دل میں ایک خیال کے آتے ہی ان سے پوچھا کہ ہم کو ہی کیوں دی ہے جبکہ ہمارے کالج کی ایک اور بھی دوست موجود تھیں ۔ ۔ پھر وہی جواب ۔ ۔۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ پھر ہمیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور ایک گزرتے صاحب کو روک کر کچھ کہنے لگے ۔ ۔ پتہ چلا وہ ان کے مترجم ہیں اور اردو بھی جانتے ہیں!!! انھوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہم نے مختصراَ تمام بات بتائی اور پوچھا کہ انھوں نے ہمارا ہی انٹرویو کیوں لیا اور یہ تصویر بھی دی ۔ ۔ جب مترجم صاحب نے ان سے ترکی میں پوچھا تو وہ ہنسنے لگے ۔ ۔ پھر ان کا جواب سن کر مترجم صاحب بھی ہنسنے لگے ۔ ۔ اور مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ صحافی پہلی بار پاکستان آئے تھے ۔ ۔ ان کے ذہن میں اپنے ہم وطنوں کی طرح ہمارے ملک کی خواتین کے بارے میں بالکل افغانستان کی خواتین جیسا تصور تھا یعنی برقع پوش۔ ۔ مگر ان کو ایک بھی ایسی خاتون یہاں نظر نہ آئیں جن کو وہ اپنے ملک کے تصور کے مطابق دکھا سکتے اور کیونکہ صرف ہم نے ہی اسکارف پہنا تھا تو انھوں نے ہماری اخبارات کے لیئے تصویر اور ملکی ٹی وی کے لئے وڈیو بنائی اور شکرانے کے طور پر ہمیں یہ تصویر عنایت کی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ہاہاہا ۔۔۔جی اب ہماری ہنسنے کی باری تھی ۔ ۔۔۔ اور اس کے بعد دوستوں ہمارا "تیار" نہ ہونے کا ملال جاتا رہا ۔ ۔ بھئ آخر کوہماری دوستیں تو صرف کالج کی جب کہ ہم پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ ۔ اب سمجھ آیا کہ کیوں مقامی میڈیا ہماری دوستوں پر اور غیرملکی میڈیا ہم پر مہربان تھا۔ ۔ ۔!!
😝
😝
😝
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
یہ مضمون ہم نے 2020 میں فیس بک کے اس فورم پر لکھا تھا جسے کووڈ کے دنوں میں جوائن کیا تھا۔ نیا لکھنے کا وقت مل ہی نہیں پا رہا تو سوچا آپ سے کچھ تو شئیر کیا جائے۔۔ محفل سے جاتے وقت کوشش ہے کہ آخری دن تک آئیں مگر اکثر سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔ اسی لیے کئی بار لوگوں کے مراسلات میں بال کی کھال نکال کر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ اور کیا کریں!!
یہ مضمون ٰیادوں کی سواری ٰ نامی سیگمنٹ کا حصہ تھا۔ امید ہے کسی کو تو پسند آئے گا!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
:clap::clap::clap:
🌟✨⭐🏅🎖️
زبردست!! ماشاء اللہ ، تبارک اللہ!
یہ جواہرات آپ محفل کے جاتے جاتے باہر نکال کر لارہی ہیں ۔ شاباش!

اب جی کڑا کرکے سوا پانچ ڈالر کی قربانی د ے دی ہی جائے ۔ تاکہ ہم بھی معزز اور قابل استادوں کی فہرست میں آجائیں ۔ :D
 

صابرہ امین

لائبریرین
:clap::clap::clap:
🌟✨⭐🏅🎖️
زبردست!! ماشاء اللہ ، تبارک اللہ!
یہ جواہرات آپ محفل کے جاتے جاتے باہر نکال کر لارہی ہیں ۔ شاباش!

اب جی کڑا کرکے سوا پانچ ڈالر کی قربانی د ے دی ہی جائے ۔ تاکہ ہم بھی معزز اور قابل استادوں کی فہرست میں آجائیں ۔ :D
بہت نوازش۔۔اتنے سارے تمغے۔o_O
دل رکھنے کا شکریہ۔۔ اللہ آپ کے قلم کی تاثیر ہمیں بھی دے۔ آمین
اللہ آپ کو بہت دے، آمین۔۔ سوا پانچ ڈالر ہوں یا سوا پانچ ملین، اللہ ہمارا ہاتھ دینے والا ہی رکھے، لینے والا ہرگز نہیں۔۔!!
آپ اس کے بغیر بھی ٹھیک ٹھاک معزز ہی ہیں۔۔ خواہ مخواہ خرچے مرچے کی کیا ضرورت ہے! :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت نوازش۔۔اتنے سارے تمغے۔o_O
دل رکھنے کا شکریہ۔۔ اللہ آپ کے قلم کی تاثیر ہمیں بھی دے۔ آمین
اللہ آپ کو بہت دے، آمین۔۔ سوا پانچ ڈالر ہوں یا سوا پانچ ملین، اللہ ہمارا ہاتھ دینے والا ہی رکھے، لینے والا ہرگز نہیں۔۔!!
آپ اس کے بغیر بھی ٹھیک ٹھاک معزز ہی ہیں۔۔ خواہ مخواہ خرچے مرچے کی کیا ضرورت ہے! :D
تحریر پر تو زبردست کہا ہے۔ :)
اللہ کریم آپ کو دین و دنیا کی تما م نعمتیں عطا فرمائے اور بے زوال رکھے۔ آمین!

سنجیدہ تو آپ ہوگئیں ۔ میں کون سا پانچ ڈالر بھیج رہا تھا ۔ باتیں ہی بگھار رہا تھا۔ :D
تو ہم ہیں ۔ یہ بات ہمیں دو تین ماہ سے اچھی طرح معلوم ہے۔اب بیگم اس سے اتفاق نہ کریں تو وہ اور بات ہے۔:D
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
بہت عمدہ صابرہ امین ۔
تحریر کی خوبی یہی ہے کہ روانی ایسی ہو کہ بندہ مکمل پڑھ کر ہی دم لے، اور محسوسات کا اندازِ بیان اس طرح ہو کہ پڑھتے ہوئے قاری بھی خود کو مصنف کے ساتھ ساتھ ہی چلتا محسوس کرے۔ یہ تحریر یقیناً ان خوبیوں سے مزین ہے۔

امید ہے کہ یادداشتوں کے ٹوکرے میں سے مزید ایسی عمدہ تحاریر سامنے لاتی رہیں گی۔
بہت دعائیں
 

صابرہ امین

لائبریرین
سنجیدہ تو آپ ہوگئیں ۔ میں کون سا پانچ ڈالر بھیج رہا تھا ۔ باتیں ہی بگھار رہا تھا۔ :D
تو ہم ہیں ۔ یہ بات ہمیں دو تین ماہ سے اچھی طرح معلوم ہے۔اب بیگم اس سے اتفاق نہ کریں تو وہ اور بات ہے۔:D
ہاں ، ہمُ ٹھیک ٹھاک سنجیدہ ہی ہیں ۔ آپ ہمارے ایک مذاق کو پہلے ہی بہت سنجیدہ لے چکے ہیں۔ :D
آپ کو یقینا ہم سے زیادہ جانتی ہیں۔ 😄مگر ہم اپنے الفاظ واپس ہرگز نہ لیں گے۔ جو لکھ دیا سو لکھ دیا!!😎
 
ہم اپنی سہیلی کے ساتھ تیز تیز قدموں سے شیرٹن ہوٹل(آج کے موون پک) کے مرکزی دروازے کی جانب رواں دواں تھے ۔ آج پاکستان ٹیکسٹائل اینڈ کلودنگ فیسٹیول تھا۔ ہمارے کالج رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کو خصوصی اسٹال دیا گیا تھا جہاں ہمارے کلودنگ اور ٹیکسٹائل کے پروجیکٹس رکھے گئے تھے۔ جن طالبات کے پروجیکٹس تھے ان کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئیں تھیں کہ ان سے مقامی اور بین الاقوامی صحافی اور نمائندے سوالات کریں تو وہ اپنے پروجیکٹ، ڈپارٹمنٹ اور کالج کے بارے میں بتائیں اور ہم ان کے سوالات وغیرہ کے لیئے تیار تھے ۔ ۔

آج نمائش کا پہلا دن تھا اور وزیراعلیٰ سندھ کو نمائش کا افتتاح کرنے آنا تھا ۔ ۔ ہوٹل کا مرکزی دروازہ حفاظتی اقدامات کے باعث ایک مخصوص وقت کے بعد بند ہو جانا تھا۔ ہم تیز تیز قدموں سے تقریباَ بھاگتے ہوئے جا رہے تھے کی دور کھڑے ایک کیمرہ لیئے ہوئے شخص نے جو کہ سفید فام تھا ہمیں روکا ۔ ۔اشارے سے ہم سے کہا کہ وہ ہماری تصویرلینا چاہتا ہے ۔ ۔ ہم دونوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔ اس نے کافی دور سے ہماری چنی منی سی تصویر لی ۔ ۔ ہماری سہیلی نےکہا ،ٰ واہ آج تو میری تیاری کام آ گئی ۔ ۔ٰ واقعی!! اس نے آواری سے باب کٹ بال اک دن پہلے ہی کٹوائے تھے ۔ ۔ بمبئ والا سے بلاک پرنٹ کا سوٹ لے کر سلوایا تھا اور بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ ۔ہمیں بہت فخر ہوا کہ ہماری سہیلی کتنی اسمارٹ ہے ۔ ۔(بے وقوفی کا عالم دیکھیئے کہ وہ تصویر اے-بی-سی ملک کے ایکس-وائی-زیڈ اخبار میں چھپنی تھی اور ہم ایویں ہی خوشی میں آپے سے باہر ۔ ۔)اسوقت نہ تو انٹرنیٹ عام تھا اور فیس بک کا "ایف" بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ ۔ ( نہیں نہیں ہم پتھروں کے دور کے نہیں ہیں بھئ ۔ ۔ ۔ )

جب ہم اندر پہنچ کر اپنے اسٹال پر کھڑے ہوئے تو ہماری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ ہماری ساری کلاس تو "پوری کٹ" میں آئی تھی ۔ ۔ہمارا دل تو کئ ایک کو دیکھ کر دھڑکنے بھی لگا ۔ ۔ ہم تو منہ اٹھا کر آ گئے تھے ۔۔۔ہمیں لگا سب اخباروں میں ان کی تصاویر آئیں گی اور تو اور اب تو سہیلی بھی دور کھڑی تھی ۔ ۔ دل بجھ سا گیا۔ ۔ تھوڑی دیر بعد ہٹو بچو کا شور ہوا اور دھڑ دھڑ دھڑ بہت سے کیمرہ مین اور ویڈیو گرافرز الٹے قدموں بھاگتے دکھائ دئیے ۔ ۔ وزیراعلیٰ صاحب نے افتتاح کر دیا تھا اور اب وہ اسٹالز کے معائنے پر تھے ۔ ۔ سب سے پہلا اسٹال ہمارے کالج کا ہی تھا۔ اور پھر وہ آہی گئے ۔ ہمیں لگتا تھا کہ مغرور ہوں گے مگر انھوں نے ہمارے کالج کی نمائندہ کی بات بہت توجہ سے سنی ۔ ۔بڑی شفقت سے چند سوالات کیے اور ہم سب کو بی بی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے نقشِ قدم پر چل کر ملک کے ہر شعبے میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ۔ ۔ سب لوگ ان سے بہت متاثر ہوئے ۔ ۔۔ اور پھر وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے ۔ ۔
ان کے معائنہ کے بعد چلے جانے کی دیر تھی کہ اچانک فوٹوگرافرز نے ہمارےاسٹال پر دھاوا بول دیا ۔ ۔ہم سب کلک کلک کی زد میں آئے ۔ ۔ مگر یہ کیا گورے، کالے، پیلے ہر وضع قطع کے غیر ملکی صحافی لوگ ہمارے پاس آتے اور ہماری اجازت لے کر ہماری تصاویربنا کر شکریہ کے ساتھ چلے جاتے ۔

ابھی حیرانی سے بے ہوش ہونے ہی والے تھے کہ دو غیرملکی صحافی اپنا بڑا سا وڈیو کیمرا لے کر ہمارے پاس آئے ۔ ۔ اور ہمارے سامنے اپنی ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا کہ انہیں ترکش ٹی وی کے لیئے ہمارا انٹرویو چاھیئے ۔ ۔ ایکسکیوز می ۔ ۔ !!! واٹ۔۔۔!!! ہم نے پوچھا ۔ ۔ ایک نے جواب دیا ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش۔ ۔ ہم نے سوچا کہ ترکی والے بھی کتنے کم پڑھے لکھوں کو صحافت میں لے لیتے ہیں ۔ ۔ اپنے اوپر ٹھیک ٹھاک فخر محسوس ہوا ۔ ۔ ہم نے اشارے سے اجازت دی ۔ ۔اب اس نے ہمارے آگے دوسری ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر چند سوالات لکھے تھے۔ ۔ انگلی کے اشارے سے اس نے ہمیں پہلے سوال پر متوجہ کیا ۔ ۔ "واٹ ڈو یو نو اباؤٹ ٹرکی؟" ۔ ۔ ایں دماغ اچانک خالی ہو گیا ۔ ۔ پھر ہم نے سنبھل کر کہا کہ" وہ ایک دوست ملک ہے ۔ ۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے ۔ ۔" (بروقت چالاکی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔) انھوں نے دوسرے سوال پر اشارہ کیا ۔ ۔ لکھا تھا۔"واٹ از دا کیپیٹل آف ٹرکی؟" ارے بھئ بچوں جیسے سوالات ۔ ۔!! ہم نے سوچا ۔ ۔ اور بڑے فخر سے کہا "استنبول" ۔ ۔ وہ دونوں ہنسنے لگے اور ایک ساتھ کہا ۔ ۔"انقرہ " ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھی ہنسنے لگے آخر کیا کرتے ۔ ۔ !!! (اففف ۔ ۔ غرور کا سر منٹوں میں نیچا ہو گیا ۔ ۔ ہم نے سوچا ۔ ۔ ۔) برسوں بعد جب ہم ترکی گئے تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ترکی زبان کا رسم الخط انگریزی ہے مگر اس میں کئ نئے حروف تہجی بھی شامل ہیں جن کی آواز انگریزی سےقطعی الگ ہے اور کہیں بھی متبادل انگریزی سائن بورڈز نظر نہیں آتے ۔ لوگوں کو انگریزی نہیں آتی اور ان کو کوئی احساس کمتری نہیں ۔ صرف سیاحتی مقامات پر گائڈز یا اکا دکا لوگوں کو آتی ہے) ۔ ۔ ۔ ۔ پھر انھوں نے ہمارے کالج اور وہاں موجود ہونے کی غرض و غایت کا پوچھا ۔ ۔ ہاں اس کا ہم نے تفصیلی جواب دیا ۔ ۔ چند منٹ کے اس انٹرویو کے بعد وہ شکریہ کر کے چلے گئے ۔ ۔ ہمارے سارے دوست تو ہم سے بڑے متاثر ہوئے۔ ۔ ( ہم خود بھی "متاثرین" میں شامل تھے ۔ ۔ سچ میں!!) خیر مزا آیا ۔ ۔

دوسرے دن جب ہم اپنی ڈیوٹی پر گئے توپتہ چلا کہ وہ دونوں کئ بار ہمارے بارے میں پوچھ چکے ہیں کہ جن کا کل انٹرویو لیا ہے وہ کہاں ہیں ۔ ۔ ہائیں اب تو ہمیں کچھ "گڑبڑیشن" محسوس ہوئ ۔ ۔ اچانک سامنے سے دونوں کو آتے دیکھا ۔ ۔ وہ بھی سیدھا ہماری طرف آئے ۔ ۔ ہم نے ہونق انداز میں ان کو دیکھا ۔ ۔ انھوں نے سلام کیا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر دیا ۔ ۔( ہیں یہ کیا ہے ۔ ۔ ہم نے سوچا) ہماری دوست نے مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھا ۔ ۔ ہم نے غیر اختیاری طور پر وہ لفافہ لے لیا ۔ ۔ ۔ ۔ انھوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کے ارتغل کی طرح سر جھکایا۔۔(جی جی ارتغل کی طرح ۔ ۔ !! ) ہم نے لفافہ کھولا ۔ ۔ ارے یہ کیا اس میں ہماری افتتاح والے دن کی تصویر مو جود تھی ۔ ۔ اففف!! ہم نے شکریہ ادا کیا ۔ ۔ مگر دل میں ایک خیال کے آتے ہی ان سے پوچھا کہ ہم کو ہی کیوں دی ہے جبکہ ہمارے کالج کی ایک اور بھی دوست موجود تھیں ۔ ۔ پھر وہی جواب ۔ ۔۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ پھر ہمیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور ایک گزرتے صاحب کو روک کر کچھ کہنے لگے ۔ ۔ پتہ چلا وہ ان کے مترجم ہیں اور اردو بھی جانتے ہیں!!! انھوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہم نے مختصراَ تمام بات بتائی اور پوچھا کہ انھوں نے ہمارا ہی انٹرویو کیوں لیا اور یہ تصویر بھی دی ۔ ۔ جب مترجم صاحب نے ان سے ترکی میں پوچھا تو وہ ہنسنے لگے ۔ ۔ پھر ان کا جواب سن کر مترجم صاحب بھی ہنسنے لگے ۔ ۔ اور مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ صحافی پہلی بار پاکستان آئے تھے ۔ ۔ ان کے ذہن میں اپنے ہم وطنوں کی طرح ہمارے ملک کی خواتین کے بارے میں بالکل افغانستان کی خواتین جیسا تصور تھا یعنی برقع پوش۔ ۔ مگر ان کو ایک بھی ایسی خاتون یہاں نظر نہ آئیں جن کو وہ اپنے ملک کے تصور کے مطابق دکھا سکتے اور کیونکہ صرف ہم نے ہی اسکارف پہنا تھا تو انھوں نے ہماری اخبارات کے لیئے تصویر اور ملکی ٹی وی کے لئے وڈیو بنائی اور شکرانے کے طور پر ہمیں یہ تصویر عنایت کی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ہاہاہا ۔۔۔جی اب ہماری ہنسنے کی باری تھی ۔ ۔۔۔ اور اس کے بعد دوستوں ہمارا "تیار" نہ ہونے کا ملال جاتا رہا ۔ ۔ بھئ آخر کوہماری دوستیں تو صرف کالج کی جب کہ ہم پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ ۔ اب سمجھ آیا کہ کیوں مقامی میڈیا ہماری دوستوں پر اور غیرملکی میڈیا ہم پر مہربان تھا۔ ۔ ۔!!
😝
😝
😝
سیکنڈ ٹو یاز
عمدہ تحریر ہے۔

اب جی کڑا کرکے سوا پانچ ڈالر کی قربانی د ے دی ہی جائے

میں کون سا پانچ ڈالر بھیج رہا تھا
زبانی کلامی میں بھی چالیس منٹ کے اندر اندر 25 سینٹ مار گئے ہیں۔
صورتحال گمبھیر لگتی ہے۔
 
بہت خوب صورت اور رواں تحریر اور مجھےاپنی یادداشتوں میں سے کئی واقعات یاد آ گئے، ان میں سےایک نقل کرتی ہوں:

برمنگھم میں ہمارے قیام کے غالبا اوائل دنوں کی بات ہے، سخت جاڑے کی راتیں تھیں اور مغرب شام تین بجے کے قریب ہی ہو جایا کرتی تھی۔ ہم شہر کے مرکزی حصے میں کسی کام سے گئے اور جب فارغ ہوئے تو رات ہوچکی تھی۔ زندگی تو وہاں سخت سردی اور اندھیری رات میں بھی رواں دواں رہتی ہے مگر معاملہ یہ تھا کہ بس سٹاپ پر سٹاپ کی کپیسٹی سے زیادہ لوگ کھڑے تھے کیونکہ وہ بس جو ہر بیس منٹ بعد آتی ہے، کئی گھنٹوں سے آ کر ہی نہیں دےرہی تھی۔ غیر یقینی سی صورتحال تھی اوریہاں سے ہمارے گھر تک سفر تقریبا ایک گھنٹے کا تھا، مزید برآں ہمارے گھر کو کوئی ٹرین اسٹیشن بھی نزدیک نہ لگتا تھا۔ کافی انتظار کے بعد ایک بس آئی لیکن اس میں سواریاں پیچھے سے بھری ہوئی آ رہی تھیں ، بہت مشکل سے تین چار لوگ زبردستی اندر گھسے اور بس چل دی۔ میں تو اس دھکم پیل کا حصہ نہ بننا چاہتی تھی، سو کھڑی رہی۔ پھر جب اگلی بس آئی اس میں بھی یہی صورتحال تھی۔ آخر میں نے ویٹنگ ٹائم میں سوچا کہ جی کڑا کرنا ہی پڑے گا مریم، ورنہ ادھر ہی رات گزر جائے گی۔ لیکن بہت عجیب لگ رہا تھا کہ اندر لوگ بھرے ہوئے ہیں اور باہر سے لوگ ان کے ساتھ جا کے کھڑے ہو رہے ہیں اور وہ بھی اس قدر مخلوط سسٹم ہے کہ انہیں تو عورت مرد کی تمیز ہے نہیں، مگر پھر بھی سیٹ پر بیٹھنے میں بات اور ہوتی ہے، اس طرح اور! خیر اگلی بس میں کسی طرح میں بھی گھس گئی لیکن دروازے سے آگے جگہ نہیں تھی، اندر دروازے کے پاس ہی کھڑے ہونا پڑا۔ پھر سٹاپ بائے سٹاپ چند سواریاں اتریں تو بس کے درمیان تک کھڑے ہونے کی نوبت آ گئی ۔ اب پتہ نہیں کون بھائی تھے جو کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے اور وہ سیٹ سے کھڑے ہوگئے اور مجھے کہا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ میں نے انگلینڈ میں ایسا واقعہ تقریبا نہ ہونے کے برابر کبھی دیکھا یا سنا ہے کہ پاکستان کی طرح مرد عورتوں کو جگہ وغیرہ دیں یا سامان وغیرہ اٹھوائیں ۔ بہت تشکر محسوس کیا اور جلد ہی ان بھائی کا سٹاپ بھی آگیا اور وہ اتر گئے۔ لیکن میں سوچتی رہی کہ ابھی بھی اتنی خواتین کھڑی ہیں، ڈبل ڈیکر بس ہے اور لوگ سیڑھیوں پر بھی کھڑے ہیں اور بس کی دوسری منزل پر بھی، پھر کسی انسان کو اس انہونی کا خیال آیا ہی کیوں کہ ایک ہی عورت کو یہاں کھڑے رہنا نہیں چاہیے؟ کافی سوچ بچار کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچ سکی کہ یہاں میں اکیلی "حجابی" عورت ہوں، شاید اس لیے؟لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے ظاہر سے اتنا فرق نہیں پڑتا، باطن اچھا ہونا چاہیے۔۔۔۔لیکن میں سوچتی ہوں اگرچہ باطن "زیادہ اہم" ہے لیکن جیسے نماز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مؤمن اور کافر میں فرق کرتی ہے اور شیطان نے بھی سجدے سے انکار کیا تھا۔۔۔۔ہمیں ہر روز وہی عمل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔۔۔۔ایسے ہی ایک سماج میں، چاہے دوسرے لوگ مسلمان ہیں یا نہیں ہیں اور چاہے آپ مسلمان ہی ہیں لیکن ہر کوئی آپ کو باطن کی گہرائی سے نہیں دیکھ پائے گا لیکن آپ کے حلیے سے لوگ کہیں نہ کہیں آپ کی سماجی حدود کا اندازہ لگاتے ہیں اور دینے والے آپ کو عزت دیتے ہیں (جس کے دل میں اللہ تعالی ڈال دیں)۔ زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جب سمجھ نہ آئی کہ کسی نے ایسا کیوں کیا اور پھر لگا حجاب کی وجہ سے کیا ہوگا کیونکہ اور تو کوئی انٹریکشن ہی نہ ہوا کہ کسی کو ہمارا پتہ ہوتا اور وہ سب کو چھوڑ کر ہمارے لیے ایسا کر گزرتا! (حسن ظن بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کبھی پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اور ملکی ٹی وی کے لئے وڈیو بنائی اور شکرانے کے طور پر ہمیں یہ تصویر عنایت کی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ہاہاہا ۔۔۔جی اب ہماری ہنسنے کی باری تھی ۔ ۔۔۔ اور اس کے بعد دوستوں ہمارا "تیار" نہ ہونے کا ملال جاتا رہا ۔ ۔ بھئ آخر کوہماری دوستیں تو صرف کالج کی جب کہ ہم پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ ۔ اب سمجھ آیا کہ کیوں مقامی میڈیا ہماری دوستوں پر اور غیرملکی میڈیا ہم پر مہربان تھا۔ ۔
بہت خوبصورت اندازِ تحریر ۔
صابرہ بٹیا بہت شکریہ اتنی عمدہ تحریر شریک کی آخر آپکو محفل کی محبت کچے دھاگے سے باندھ لائی
جیتں رہیے اللہ کے حضور دعا ہے آپکو اپنی امان میں رکھے۔ماشاء اللہ
دوبارہ پڑھی تو اور مزا آیا
💙💙💙💙💙
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
بہت خوبصورت اندازِ تحریر ۔
صابرہ بٹیا بہت شکریہ اتنی عمدہ تحریر شریک کی آخر آپکو محفل کی محبت کچے دھاگے سے باندھ لائی
جیتں رہیے اللہ کےمرون حضور دعا ہے آپکو اپنی امان میں رکھے۔ماشاء اللہ
دوبارہ پڑھی تو اور مزا آیا
💙💙💙💙💙
آپ کا شکریہ ، سیما علی آپا کہ ہمیں اطلاع فرہم کی۔۔ ورنہ تو یہ ہونا تھا کہ کبھی ہم آتے تو محفل پر لگا تالا منہ چڑا رہا ہوتا۔ 😕
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہاں ، ہمُ ٹھیک ٹھاک سنجیدہ ہی ہیں ۔ آپ ہمارے ایک مذاق کو پہلے ہی بہت سنجیدہ لے چکے ہیں۔ :D
آپ کو یقینا ہم سے زیادہ جانتی ہیں۔ 😄مگر ہم اپنے الفاظ واپس ہرگز نہ لیں گے۔ جو لکھ دیا سو لکھ دیا!!😎
ارے ، آپ بالکل بھی سنجیدہ نہ ہوں ۔ کوئی ضرورت نہیں آپ کو اپنے الفاظ واپس لینے کی۔
آپ جیتیں ، ہم ہارے۔ میں ہی اپنے بیہودہ ، ناہنجار ، عاقبت نا اندیش ، بیوقوفانہ ، جاہلانہ ، معصومانہ ، مجرمانہ ، ایک آنا دو آنا الفاظ واپس لے لیتا ہوں ۔ :oops:

بیگم کے کاندھے پر مشین گن رکھ کر چلانے کا شکریہ! کسے کہ کشتہ نہ شد ۔۔۔۔۔۔
:D:censored:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

صابرہ امین

لائبریرین
بہت خوب صورت اور رواں تحریر اور مجھےاپنی یادداشتوں میں سے کئی واقعات یاد آ گئے، ان میں سےایک نقل کرتی ہوں:

برمنگھم میں ہمارے قیام کے غالبا اوائل دنوں کی بات ہے، سخت جاڑے کی راتیں تھیں اور مغرب شام تین بجے کے قریب ہی ہو جایا کرتی تھی۔ ہم شہر کے مرکزی حصے میں کسی کام سے گئے اور جب فارغ ہوئے تو رات ہوچکی تھی۔ زندگی تو وہاں سخت سردی اور اندھیری رات میں بھی رواں دواں رہتی ہے مگر معاملہ یہ تھا کہ بس سٹاپ پر سٹاپ کی کپیسٹی سے زیادہ لوگ کھڑے تھے کیونکہ وہ بس جو ہر بیس منٹ بعد آتی ہے، کئی گھنٹوں سے آ کر ہی نہیں دےرہی تھی۔ غیر یقینی سی صورتحال تھی اوریہاں سے ہمارے گھر تک سفر تقریبا ایک گھنٹے کا تھا، مزید برآں ہمارے گھر کو کوئی ٹرین اسٹیشن بھی نزدیک نہ لگتا تھا۔ کافی انتظار کے بعد ایک بس آئی لیکن اس میں سواریاں پیچھے سے بھری ہوئی آ رہی تھیں ، بہت مشکل سے تین چار لوگ زبردستی اندر گھسے اور بس چل دی۔ میں تو اس دھکم پیل کا حصہ نہ بننا چاہتی تھی، سو کھڑی رہی۔ پھر جب اگلی بس آئی اس میں بھی یہی صورتحال تھی۔ آخر میں نے ویٹنگ ٹائم میں سوچا کہ جی کڑا کرنا ہی پڑے گا مریم، ورنہ ادھر ہی رات گزر جائے گی۔ لیکن بہت عجیب لگ رہا تھا کہ اندر لوگ بھرے ہوئے ہیں اور باہر سے لوگ ان کے ساتھ جا کے کھڑے ہو رہے ہیں اور وہ بھی اس قدر مخلوط سسٹم ہے کہ انہیں تو عورت مرد کی تمیز ہے نہیں، مگر پھر بھی سیٹ پر بیٹھنے میں بات اور ہوتی ہے، اس طرح اور! خیر اگلی بس میں کسی طرح میں بھی گھس گئی لیکن دروازے سے آگے جگہ نہیں تھی، اندر دروازے کے پاس ہی کھڑے ہونا پڑا۔ پھر سٹاپ بائے سٹاپ چند سواریاں اتریں تو بس کے درمیان تک کھڑے ہونے کی نوبت آ گئی ۔ اب پتہ نہیں کون بھائی تھے جو کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے اور وہ سیٹ سے کھڑے ہوگئے اور مجھے کہا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ میں نے انگلینڈ میں ایسا واقعہ تقریبا نہ ہونے کے برابر کبھی دیکھا یا سنا ہے کہ پاکستان کی طرح مرد عورتوں کو جگہ وغیرہ دیں یا سامان وغیرہ اٹھوائیں ۔ بہت تشکر محسوس کیا اور جلد ہی ان بھائی کا سٹاپ بھی آگیا اور وہ اتر گئے۔ لیکن میں سوچتی رہی کہ ابھی بھی اتنی خواتین کھڑی ہیں، ڈبل ڈیکر بس ہے اور لوگ سیڑھیوں پر بھی کھڑے ہیں اور بس کی دوسری منزل پر بھی، پھر کسی انسان کو اس انہونی کا خیال آیا ہی کیوں کہ ایک ہی عورت کو یہاں کھڑے رہنا نہیں چاہیے؟ کافی سوچ بچار کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچ سکی کہ یہاں میں اکیلی "حجابی" عورت ہوں، شاید اس لیے؟لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے ظاہر سے اتنا فرق نہیں پڑتا، باطن اچھا ہونا چاہیے۔۔۔۔لیکن میں سوچتی ہوں اگرچہ باطن "زیادہ اہم" ہے لیکن جیسے نماز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مؤمن اور کافر میں فرق کرتی ہے اور شیطان نے بھی سجدے سے انکار کیا تھا۔۔۔۔ہمیں ہر روز وہی عمل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔۔۔۔ایسے ہی ایک سماج میں، چاہے دوسرے لوگ مسلمان ہیں یا نہیں ہیں اور چاہے آپ مسلمان ہی ہیں لیکن ہر کوئی آپ کو باطن کی گہرائی سے نہیں دیکھ پائے گا لیکن آپ کے حلیے سے لوگ کہیں نہ کہیں آپ کی سماجی حدود کا اندازہ لگاتے ہیں اور دینے والے آپ کو عزت دیتے ہیں (جس کے دل میں اللہ تعالی ڈال دیں)۔ زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جب سمجھ نہ آئی کہ کسی نے ایسا کیوں کیا اور پھر لگا حجاب کی وجہ سے کیا ہوگا کیونکہ اور تو کوئی انٹریکشن ہی نہ ہوا کہ کسی کو ہمارا پتہ ہوتا اور وہ سب کو چھوڑ کر ہمارے لیے ایسا کر گزرتا! (حسن ظن بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کبھی پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا)
دو باتیں۔۔
معلوم نہیں کہ سوئے اتفاق اگر کسی سوشل گیدرنگ میں آپ
نے ہمیں کٹ میں دیکھ لیا تو فورا اپنی رائے سے رجوع کر لیں گے یا نہیں؟؟!!
ہماری سہیلی کے ساتھ ہم نے ایک لمبا عر صہ گزارا وہ ایک بہت ہی خوبصورت کردار کی مالک تھی اور ہے۔ دوپٹہ اوڑھنا یا نہ اوڑھنا فیملی ویلیوز کے باعث ہوتا ہے۔ اچھے یا برے ہونے سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہمارے ساتھ کی بعض برقعہ پوش طالبات چھپی رستم تھیں!! اسی طرح بننا سنورنا بھی ایک عمر میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اور کبھی کبھار ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ اس کا بھی کردار سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ذاتی پسند یا نا پسند سےالبتہ ہے۔

حیرت ہوئی کہ وہاں بس میں لوگ کسی کو اپنی سیٹ نہیں دیتے!! یہاں تو بچوں، بزرگوں، بچے والی خواتین، معذور افراد اور کسی کو بھی ضرورت مند جان کر سب ہی اپنی سیٹ دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب صورت اور رواں تحریر اور مجھےاپنی یادداشتوں میں سے کئی واقعات یاد آ گئے، ان میں سےایک نقل کرتی ہوں:

برمنگھم میں ہمارے قیام کے غالبا اوائل دنوں کی بات ہے، سخت جاڑے کی راتیں تھیں اور مغرب شام تین بجے کے قریب ہی ہو جایا کرتی تھی۔ ہم شہر کے مرکزی حصے میں کسی کام سے گئے اور جب فارغ ہوئے تو رات ہوچکی تھی۔ زندگی تو وہاں سخت سردی اور اندھیری رات میں بھی رواں دواں رہتی ہے مگر معاملہ یہ تھا کہ بس سٹاپ پر سٹاپ کی کپیسٹی سے زیادہ لوگ کھڑے تھے کیونکہ وہ بس جو ہر بیس منٹ بعد آتی ہے، کئی گھنٹوں سے آ کر ہی نہیں دےرہی تھی۔ غیر یقینی سی صورتحال تھی اوریہاں سے ہمارے گھر تک سفر تقریبا ایک گھنٹے کا تھا، مزید برآں ہمارے گھر کو کوئی ٹرین اسٹیشن بھی نزدیک نہ لگتا تھا۔ کافی انتظار کے بعد ایک بس آئی لیکن اس میں سواریاں پیچھے سے بھری ہوئی آ رہی تھیں ، بہت مشکل سے تین چار لوگ زبردستی اندر گھسے اور بس چل دی۔ میں تو اس دھکم پیل کا حصہ نہ بننا چاہتی تھی، سو کھڑی رہی۔ پھر جب اگلی بس آئی اس میں بھی یہی صورتحال تھی۔ آخر میں نے ویٹنگ ٹائم میں سوچا کہ جی کڑا کرنا ہی پڑے گا مریم، ورنہ ادھر ہی رات گزر جائے گی۔ لیکن بہت عجیب لگ رہا تھا کہ اندر لوگ بھرے ہوئے ہیں اور باہر سے لوگ ان کے ساتھ جا کے کھڑے ہو رہے ہیں اور وہ بھی اس قدر مخلوط سسٹم ہے کہ انہیں تو عورت مرد کی تمیز ہے نہیں، مگر پھر بھی سیٹ پر بیٹھنے میں بات اور ہوتی ہے، اس طرح اور! خیر اگلی بس میں کسی طرح میں بھی گھس گئی لیکن دروازے سے آگے جگہ نہیں تھی، اندر دروازے کے پاس ہی کھڑے ہونا پڑا۔ پھر سٹاپ بائے سٹاپ چند سواریاں اتریں تو بس کے درمیان تک کھڑے ہونے کی نوبت آ گئی ۔ اب پتہ نہیں کون بھائی تھے جو کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے اور وہ سیٹ سے کھڑے ہوگئے اور مجھے کہا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ میں نے انگلینڈ میں ایسا واقعہ تقریبا نہ ہونے کے برابر کبھی دیکھا یا سنا ہے کہ پاکستان کی طرح مرد عورتوں کو جگہ وغیرہ دیں یا سامان وغیرہ اٹھوائیں ۔ بہت تشکر محسوس کیا اور جلد ہی ان بھائی کا سٹاپ بھی آگیا اور وہ اتر گئے۔ لیکن میں سوچتی رہی کہ ابھی بھی اتنی خواتین کھڑی ہیں، ڈبل ڈیکر بس ہے اور لوگ سیڑھیوں پر بھی کھڑے ہیں اور بس کی دوسری منزل پر بھی، پھر کسی انسان کو اس انہونی کا خیال آیا ہی کیوں کہ ایک ہی عورت کو یہاں کھڑے رہنا نہیں چاہیے؟ کافی سوچ بچار کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچ سکی کہ یہاں میں اکیلی "حجابی" عورت ہوں، شاید اس لیے؟لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے ظاہر سے اتنا فرق نہیں پڑتا، باطن اچھا ہونا چاہیے۔۔۔۔لیکن میں سوچتی ہوں اگرچہ باطن "زیادہ اہم" ہے لیکن جیسے نماز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مؤمن اور کافر میں فرق کرتی ہے اور شیطان نے بھی سجدے سے انکار کیا تھا۔۔۔۔ہمیں ہر روز وہی عمل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔۔۔۔ایسے ہی ایک سماج میں، چاہے دوسرے لوگ مسلمان ہیں یا نہیں ہیں اور چاہے آپ مسلمان ہی ہیں لیکن ہر کوئی آپ کو باطن کی گہرائی سے نہیں دیکھ پائے گا لیکن آپ کے حلیے سے لوگ کہیں نہ کہیں آپ کی سماجی حدود کا اندازہ لگاتے ہیں اور دینے والے آپ کو عزت دیتے ہیں (جس کے دل میں اللہ تعالی ڈال دیں)۔ زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جب سمجھ نہ آئی کہ کسی نے ایسا کیوں کیا اور پھر لگا حجاب کی وجہ سے کیا ہوگا کیونکہ اور تو کوئی انٹریکشن ہی نہ ہوا کہ کسی کو ہمارا پتہ ہوتا اور وہ سب کو چھوڑ کر ہمارے لیے ایسا کر گزرتا! (حسن ظن بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کبھی پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا)
⭐✨🎖️🏅🏆
زبردست!! ماشاء اللہ ، تبارک اللہ!!! اللہ کریم آپ کو اور مضبوط اور توانا بنائے!!!!
مریم افتخار ، یہاں وہ محولہ بالا نا معقول پیراگراف درج کر لیجیے کہ جس پر یہ خاکسار کینیڈین میزائلوں کا نشانہ بنا ۔ :D:D:D

تفن برطرف! ہنسی مذاق میں بھی اگر کوئی سنجیدہ بات اہم اور ذکر طلب نظر آئے تو میں اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے باز نہیں آتا ۔ آپ کی تحریر پڑھ کر جو تصویر ذہن میں بنی اس پر میں آپ صر ف یہی کہوں گا کہ ہمیں آپ پر فخر ہے! ایک چھوٹی سی جھلک سے ہی انسان کی پوری تصویر ذہن میں لائی جاسکتی ہے۔
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ حیا داری
اس دورِ پرفتن میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اور فخر سے سر اٹھا کر چلتے ہوئے سفر کرنا نہ صرف آپ کی convictions کو ظاہر کرتا ہے بلکہ کردار کی مضبوطی ، ہمت و صلاحیت اور خود اعتمادی کا آئینہ دار ہے ۔ اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے ، دین و دنیا کی فلاح نصیب فرمائے! خوش رہیں ، شاد و آباد رہیں ۔ آمین
 
عبدالقیوم بھائی ، باتوں باتوں میں ایک آدھ چونّی کا ادھر ادھر گرجانا عام سی بات ہے۔:D
آپ کو مل جائے تو واپس لوٹا دیجیے گا۔
سعودی عرب میں کچھ عرصہ مزدوری کا موقع ملا۔ وہاں ہماری خراد ورکشاپ کا سپروائیزر ایک دن اک سعودی سے مول تول کر رہا تو بل جو 207 ریال بنا تھا وہ سعودی کے پاس پورا نہیں تھا۔ سعودی چاہتا تھا کہ 100 ریال دے دوں اور باقی کا وعدہ کر لوں۔ سپروائیزر نے اس سے صرف سات ریال لیے اور باقی بعد میں دینے کا کہا۔

جب وہ چلا گیا تو میں نےاس سےسات ریال لینے کی بابت استفسار کیا۔۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔اگر میں اس سے 100 ریال لے لیتا تو جب بھی یہ دوبارہ متھے لگا تو اوپر والی رقم مار جائے گا اور مجھے بھی مانگتے حیا آئے گی۔ اب سات لےلیے۔۔۔ دو سو بھی لے ہی لوں گا۔

25 سینٹ بڑے اہم ہوتے ہیں۔
 
Top