کسوٹی #24

صابرہ امین

لائبریرین
غم ناک اور ہمیں اپن ے اور قاری صاحب کے بیشتر واقعات یاد آگئے۔ اساتذہ کو سوتے کم دیکھا مگر ہمارے ایک قاری صاحب ہوتے تھے جو ہم سب کزنز کو سبق دہرانے کا کہہ کر سو جایا کرتے تھے۔ جب وہ گھر آتے تھے تو میرا چچازاد بھائی گیٹ سے سب کو الرٹ کرنے کے لیے اونچی آواز میں کہتا تھا القارعۃ مالقارعۃ!!!!! اور جب قاری صاحب سو رہے تھے ایک دن تو میں نے جان بوجھ کے اپنی کزن کو جس کا نام اقراّ تھا بار بار کہا اقرا بسم ربک الذی خلق۔۔۔اقرا۔۔۔۔اقرا۔۔۔۔اقرا۔۔۔۔قاری صاحب نیند سےجاگ گئے اور وہ کمر میں مکیاں لگائیں کہ بس!!
ایک اور قاری صاحب تھے اس سے پہلے جن کے گھر پورے گاؤں کے بچے سیپارہ پڑھنے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بچی کو مار پڑ رہی تھی اور میری اس کی جانب پشت تھی، میں سوٹی کی آوازیں گنتی رہی اور جب وہ واپس آ کے برابر بیٹھی تو میں نے کہا بہن، سولہ تھیں! اس نے جا کے روتے ہوئے قاری صاحب کو بتا دیا اور قاری صاحب نے کہا: آ جا پتر، تے ہن گن کنیاں نیں! پھر اس کے بعد وہ دھلائی ہوئی کہ آج تک چراغوں میں روشنی وغیرہ نہیں رہتی۔ قاری صاحب کو ذرا سا مذاق بھی ہضم کیوں نہ ہوتا تھا بھلا!
یقین نہیں آتا کہ یہ سچ ہے! یہ تو سراسر ظلم ہے!! آخر لوگ اپنے بچوں کو ایسے جاہل لوگوں کے پاس کیوں بھیجتے ہیں؟ مار کر بھی بھلا پڑھائی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کا نفسیاتی علاج ہونا چاہیئے۔ ہم نے تو ایک بہت شفیق استانی جی سے قران پاک پڑھا۔ بچوں کو ایک بہت شفیق قاری صاحب گھر آ کر پڑھاتے تھے۔
 
یقین نہیں آتا کہ یہ سچ ہے! یہ تو سراسر ظلم ہے!! آخر لوگ اپنے بچوں کو ایسے جاہل لوگوں کے پاس کیوں بھیجتے ہیں؟ مار کر بھی بھلا پڑھائی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کا نفسیاتی علاج ہونا چاہیئے۔ ہم نے تو ایک بہت شفیق استانی جی سے قران پاک پڑھا۔ بچوں کو ایک بہت شفیق قاری صاحب گھر آ کر پڑھاتے تھے۔
بس جی، اساتذہ کو جاہل تو نہ کہہ سکتے ہم کہ جو کچھ سیکھا ہے انہی سے سیکھا ہے۔ لیکن ہمارے بزرگ اور ہمارے اساتذہ کچھ ایسے مشفق نہ تھے کہ پیار سے سمجھاتے، ورنہ ہم نہ تو ایسے کند ذہن تھے نہ ہم پیار کی زبان سے نابلد تھے۔ ہمارے زمان و مکان کی قید میں تعلیم و تربیت کا طریقہ ہی مار کٹائی ہوتا تھا، اور خود میں نے انٹر تک ماریں کھائی ہیں جی۔ کون کون سی مار کا تذکرہ کریں اور مجھے تو نہیں سمجھ آتی کہ ایسی کیا بڑی بات ہو جاتی ہے کہ لوگ کسی بھی عمر کے انسان پر ہاتھ اٹھانا جائز سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ہے یا کتنا ہی بڑا۔ خود اپنا ریکارڈ کلین ہے جی، ہم چھوٹے بھائیوں کی بڑی آپا بھی رہے ہیں اور اب تک سینکڑوں شاگرد بھی ہیں، ہم تو سخت بات بھی نہ کریں کہ جس سے جان نکل جائے، سخت ہاتھ لگانا تو ممکن ہی نہیں۔ دنیا کا ایسا کون سا اصول ہے جس پہ لوگوں کو پینجے کی طرح پنج کر ہی پورا اتارا جانا چاہیے؟
You have your way. I have my way. As for the right way, the correct way, and the only way, it does not exist.
Friedrich Wilhelm Nietzsche
 

صابرہ امین

لائبریرین
بس جی، اساتذہ کو جاہل تو نہ کہہ سکتے ہم کہ جو کچھ سیکھا ہے انہی سے سیکھا ہے۔ لیکن ہمارے بزرگ اور ہمارے اساتذہ کچھ ایسے مشفق نہ تھے کہ پیار سے سمجھاتے، ورنہ ہم نہ تو ایسے کند ذہن تھے نہ ہم پیار کی زبان سے نابلد تھے۔ ہمارے زمان و مکان کی قید میں تعلیم و تربیت کا طریقہ ہی مار کٹائی ہوتا تھا، اور خود میں نے انٹر تک ماریں کھائی ہیں جی۔ کون کون سی مار کا تذکرہ کریں اور مجھے تو نہیں سمجھ آتی کہ ایسی کیا بڑی بات ہو جاتی ہے کہ لوگ کسی بھی عمر کے انسان پر ہاتھ اٹھانا جائز سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ہے یا کتنا ہی بڑا۔ خود اپنا ریکارڈ کلین ہے جی، ہم چھوٹے بھائیوں کی بڑی آپا بھی رہے ہیں اور اب تک سینکڑوں شاگرد بھی ہیں، ہم تو سخت بات بھی نہ کریں کہ جس سے جان نکل جائے، سخت ہاتھ لگانا تو ممکن ہی نہیں۔ دنیا کا ایسا کون سا اصول ہے جس پہ لوگوں کو پینجے کی طرح پنج کر ہی پورا اتارا جانا چاہیے؟

Friedrich Wilhelm Nietzsche
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
ایسے لوگ Uneducated literate کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تعلیم کے شعبے کے پاس پھٹکنا بھی نہیں چاہئے۔
 
بس جی، اساتذہ کو جاہل تو نہ کہہ سکتے ہم کہ جو کچھ سیکھا ہے انہی سے سیکھا ہے۔ لیکن ہمارے بزرگ اور ہمارے اساتذہ کچھ ایسے مشفق نہ تھے کہ پیار سے سمجھاتے، ورنہ ہم نہ تو ایسے کند ذہن تھے نہ ہم پیار کی زبان سے نابلد تھے۔ ہمارے زمان و مکان کی قید میں تعلیم و تربیت کا طریقہ ہی مار کٹائی ہوتا تھا، اور خود میں نے انٹر تک ماریں کھائی ہیں جی۔ کون کون سی مار کا تذکرہ کریں اور مجھے تو نہیں سمجھ آتی کہ ایسی کیا بڑی بات ہو جاتی ہے کہ لوگ کسی بھی عمر کے انسان پر ہاتھ اٹھانا جائز سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ہے یا کتنا ہی بڑا۔ خود اپنا ریکارڈ کلین ہے جی، ہم چھوٹے بھائیوں کی بڑی آپا بھی رہے ہیں اور اب تک سینکڑوں شاگرد بھی ہیں، ہم تو سخت بات بھی نہ کریں کہ جس سے جان نکل جائے، سخت ہاتھ لگانا تو ممکن ہی نہیں۔ دنیا کا ایسا کون سا اصول ہے جس پہ لوگوں کو پینجے کی طرح پنج کر ہی پورا اتارا جانا چاہیے؟

Friedrich Wilhelm Nietzsche
استاد کا کام بچے کو یہ سکھانا ہونا چاہیے کہ سوچنا/ سیکھنا کیسے ہے، کیا سوچنا/سیکھنا ہے یہ کسی کو کسی دوسرے کو نہیں سکھانا چاہیے۔ والدین کو بھی بچوں کو سردوگرم کا مقابلہ مردانہ وار کرنا سکھانا چاہیے، خود ہی وہی سرد و گرم نہ بن جائیں تو بہتر ہے۔لیکن پھر وہی بات کہیں گے کہ:
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کچلا ہے
کہ زندگی اذیت ہے
اور سانس کی بھی قیمت ہے
کس کا ہاتھ ہے
جو "وائولینس" سے رنگا نہیں
کس کا گریباں ہے
جو گرفت سے بچا نہیں
وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
 
Top