الوداعی تقریب ایک دن ظہیر احمد ظہیر صاحب کے ساتھ

یاز

محفلین
ان دنوں مزاح کا زمرہ بھی کچھ متحرک ہوا ہے تو سوچا کہ ہم بھی اپنی ایک عدد (ناکام سی) کوشش کر لیں۔

ہوا یوں کہ محفل کی آخری سالگرہ کے سلسلے میں انتظامی کمیٹی نے ہمیں پیام بھیجا کہ چونکہ آج کل ظہیراحمدظہیر صاحب پاکستان آئے ہوئے ہیں، تو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور آپ کی ندیدہ۔۔سوری نادیدہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کا انتخاب کر لیا گیا ہے ظہیر صاحب کا انٹرویو کرنے کے لئے۔ یہ سن کر ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے و مینائیں وغیرہ پرواز کر گئیں۔ ہم نے کمیٹی کو بہتیرا سمجھایا کہ ظہیر بھائی تو خراٹے بھی وزن میں لیتے ہیں، اور ان کی گلی سے گزرتا قلفی فروش بھی بے وزن صدا لگانے کی جسارت نہیں کرتا، جبکہ ہمیں وزن سے دور دور کا علاقہ نہیں، سوائے اس کے کہ وزن رکھتے ہیں اور جگہ گھیرتے ہیں۔
لیکن کمیٹی کہاں ماننے والی تھی۔ اس پہ ہم نے عرض کی کہ بس یہ کام ہم سے نہ کروائیں، باقی جو کہیں گے ہم مان لیں گے۔ چاہے کریلوں کا ملک شیک پلا دیں، یا مرچوں کا مربہ کھلا دیں۔ کمیٹی والوں نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے انٹرویو کے علاوہ آپ کے پاس دو مزید آپشنز ہیں۔ یا تو ڈرامہ چوراسی دیکھنا ہو گا، یا آدھے گھنٹے کے لئے چاہت فتح علی خان کے "نغمات" سننا ہوں گے۔ ابھی ہم دوسری آپشن تسلیم کرنے پہ غور کر ہی رہے تھے کہ آواز سنائی دی کہ یہ نغمات سننے کے ساتھ ساتھ دیکھنا بھی ہوں گے۔ یہ سنتے ہی ہمارے پہلے الفاظ یہ تھے کہ انٹرویو کب کرنا ہے، اور کہاں کرنا ہے؟

اب جو انٹرویو کے لئے ہامی بھر چکے تو ظہیر صاحب کی سخن وری اور زبان دانی کومدِ نظر رکھتے ہوئے انتظامی کمیٹی نے سنجیدگی سے اس انٹرویو کی تیاری کروانے کا اہتمام کیا، جیسے

۔۔محمد امین صدیق صاحب سے اردوئے معلیٰ میں مکالمہ جات کی نشستیں رکھوائی گئیں۔
۔۔ غالب و مومن وغیرہ کے مشکل مشکل اشعار مع ترجمہ بھی پڑھوائے گئے۔
۔۔ فرہنگِ آصفیہ کے اسباق دلوائے (اور سکھائے) گئے۔ نیز اس کا ایک جیبی نسخہ بھی فراہم کیا گیا۔
۔۔ مقالاتِ شبلی و سرسید پڑھوانے کا اہتمام کیا گیا۔
۔۔ اور آخر میں مشکل اور دقیق الفاظ پر مشتمل سوالات کی ایک فہرست مرتب کر کے ہمارے حوالے کی گئی، اس تاکید کے ساتھ کہ اس سے روگردانی نہیں کرنی۔

چند روز کی تیاری کے بعد کمیٹی نے اپنے تئیں ہمیں تیار پایا اور پھر انٹرویو کا وقت اور مقام طے کر کے ہمیں اس کارِ دشوار پہ روانگی کا اذن سنا دیا گیا۔ احتیاطاً ہمارے بازو پہ امام ضامن باندھا گیا اور ایک دعائیہ تقریب منعقد کر کے دعا مانگی گئی اور تعویذ وغیرہ پھونکے گئے، جس کے بعد انتظامی کمیٹی نے سموسوں اور نمک پاروں سے (اپنی) تواضع وغیرہ بھی کی۔

اس سب تیاری اور دعائیہ تقریب کے بعد ہم خود کو پراعتماد پاتے ہوئے روانہ ہوئے۔ نزدیکی سٹاپ سے میٹرو بس پکڑی اور طے شدہ سٹاپ پہ اتر گئے۔ ملاقات کے مقرر کردہ مقام پہ پہنچے اور لگے بیٹھ کر انتظار کرنے۔ اسی دوران سوال نامے کو دہرانے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہمارے اوسان خطا ہو گئے، کیونکہ کسی نے ہماری پاکٹ "مار" لی تھی، اور اب نہ سوال نامہ پاس تھا اور نہ فرہنگِ آصفیہ ۔
اس پہ مستزاد یہ کہ سامنے سے ظہیر بھائی بھی آتے دکھائی دیئے۔ ہمارا یہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں
۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا، چار و ناچار اب انٹرویو کی گھڑی تو آن پہنچی تھی۔ سو ہونی ہو کے رہنی تھی۔

ظہیر صاحب نزدیک پہنچے تو پرتپاک طریقے سے ملے اور پھر جو مکالمہ جات ہوئے، ان کی روداد درج ذیل ہے۔

وہ: السلام علیکم قبلہ! امید ہے کہ آپ کے احوال گردشِ دوراں کے موافق چل رہے ہیں۔
ہم (دل ہی دل میں محمد امین صدیق صاحب کو یاد کرتے ہوئے): جی جناب! ہم تو نصیبِ دشمناں مکمل تجلی رکھتے ہیں اور آپ کی بخیریت کے اظہارِ وجوہ کو نیک مطلوب چاہتے ہیں۔

وہ: ہمیں آپ کی بات سمجھنے میں کچھ تامل کا احساس ہے۔ شاید محاورے میں کچھ تشکیک ہے یا الفاظ کو غتربود کر گئے ۔
(اوہ خدایا! وہی ہوا جس کا ڈر تھا، یعنی پہلے ہی جملے سے ہماری اردو دانی کا چراغ گل ہو گیا)

ہم: وہ دراصل ہم نے انگلش میڈیم سے فروغِ تعلیم کو عزمِ عالیشان کیا تھا تو اردو گرامر سے آشوبِ چشم کی ہمکناری نہ ہو سکی۔ یہ بتائیے کہ آپ کی آمدِ فاخرہ میں بلا تاخیر کیونکر ممکن ہوئی۔
وہ: آپ شاید ہماری تاخیر سے آمد کی بابت استفسار کرنا چاہ رہے ہیں۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا۔

ہم: اوہ اچھا! یہ بتائیے کہ اردو محفل پہ استقامت کی ساعت سے کیسے طشت از بام ہوئے؟
وہ:ہمیں گمان ہے کہ آپ ہماری اردو محفل پہ آمد کی بابت سوال کر رہے ہیں
تمہیں کس نے بلایا مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ میخانے بہت سے ہیں

ہم: یہ بتائیں کہ ان دنوں مراتبِ سخن میں کیا مصروفیت ہیں کہ انٹرنیٹ کے بحرِ موجزن میں حاضری پہ کم فراموش ہیں۔ (مشکل الفاظ بول بول کر ہمیں اب تک لقوہ ہونے کا اندیشہ ہونے لگا تھا)۔
وہ: شاید آپ کا سوال ہماری آنلائن رہنے کے اوقاتِ کار میں کمی کی بابت ہے۔ ہم ان دنوں ایک طبی ادارے کے لئے سرمئی علمِ تشریح الابدان (Grey's Anatomy) کی کتاب کو منظوم کر رہے ہیں۔ آپ کو آگاہی تو ہو گی کہ اس سے قبل ہم حیاتیاتی کیمیا کی کتاب کو بصورتِ غزلِ مسلسل موزوں کر چکے ہیں۔

ہم: واہ واہ جناب۔ آپ تو ذوقِ سخنی رکھنے پر مجبورِ تماشا ہیں۔ یہ بتائیے کہ زندگی کی کیا قدر آپ کی نظرِ عنایت میں راندۂ درگاہ ہے؟
وہ:
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

ہم: دریائے سخن میں کس صنفِ نزاکت سے آپ کی رفاقت زیادہ پسندیدہ تر ہے؟
وہ: قبلہ! آپ شاید ہماری پسندیدہ صنفِ ادب کی بابت پوچھ رہے ہیں، لیکن آپ کو اپنی گرامر و انشاپردازی میں اغلاط پہ قابو پانے کی اشد حاجت ہے۔ آپ فرہنگِ آصفیہ کا ضرور مطالعہ کیجئے (ہمارا ہاتھ غیرارادی طور پر اپنی کٹی جیب کی جانب)۔ رہی بات ہماری پسندیدہ صنف کی تو ہمیں غزل کے ساتھ ساتھ نظمِ معریٰ اور انشائیہ کی اصناف سے خوب رغبت ہے۔ ان کی بابت سکھانے کے لئے جلد ہی ہم آپ کے لئے اضافی لیکچرز رکھیں گے۔
(یہ سن کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے).

ہم: یہ بتائیے کہ شاعروں کےحسنِ کلام میں شراب کا ذکرِ خمیدہ کیوں ہوتا ہے
وہ:
نظرِ تغافلِ یار کا گِلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شرابِ صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی

ہم: ہم تو آتش اور یاس یگانہ سے یکسر بیگانہ ہیں اور غالب و داغ سے اعانتِ فراغ ہے، لیکن آپ کی پرسوزیِ طبع کس شاعر کی زائر اور کسی ادیب کی حبیبِ مقسوم رہی ہے۔
وہ: ہمیں مرزا محمد رفیع سودا سے لیکر فانی بدایونی تک سبھی اساتیذ سے غائبانہ صحبت رہی ہے۔ انہی کے ساتھ ساتھ مرزا ہادی رسوا سے لیکر امرتا پریتم تک سب کی نثری کاوشوں کے بھی ہم مداح ہیں۔

ہم: اردو محفل پہ اپنی یادوں کے اجالے میں بندش کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی وارداتِ قلبی کی بابت بھی اندازِ سخن طرازی کیجئے۔
وہ: محفل کا یکایک یوں اسقاط بیک وقت حیرت انگیز اور رقت آمیز ہے کہ جہانِ رنگ و بو کی ایسی بزم آرائی قرطاسِ اردو پہ بے مثل تھی۔
آہ!یہ مجمعِ احباب، یہ بزمِ خاموش
آج محفل میں فراق سخن آرا بھی نہیں
قبلہ! امید ہے کہ آپ کو اختتامِ محفل کی بابت ہماری بات سمجھ آ گئی ہے۔

ہم: جی جی حضور۔ ہماری سمجھ مہمیز ہو کر سمجھوتے پہ پروان چڑھ گئی ہے۔ لیجئے ہم بھی ایک شعر کو منکشف کرتے ہیں
حضرت عیسی ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوائی کرے کوئی

وہ (خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے): دیکھئے قبلہ، اب تک زبانِ سخن کا جو احوالِ غیر موافقِ طبع آپ کئے جا رہے تھے، ہم اس کو بذلہ سنجی گردان کر نظر انداز کر رہے تھے۔ لیکن اب اگر آپ نے زمینِ اردو پہ یوں سہو و تضحیک کی کاشت کی تو ہم اس کو برداشت نہیں کر پائیں گے۔

ہم: کیا ہوا جناب۔ کوئی زبان فروشی ہوئی کیا یا شعر کی ’تختی‘ درست نہیں ہے۔
وہ: اس شعر میں ابنِ مریم کی تلمیح مذکور تھی جس کو آپ نے جہلاً یا سہواً حضرت عیسی بولا ہے۔ نیز مصرعۂ ثانی کو دائرۂ عروض سے یکسر خارج کر کے جہالتِ مطلق کا ثبوت دیا ہے۔

ہم: یوں اذنِ کلام میں بازیابی پر ہم معافی کے خاکستر ہیں کہ ابھی تازہ بہ تازہ خدامِ ادب ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ایسی خطائے حیل و حجت نہ ہو پائے۔ لیجئے ایک اور شعر سناتے ہیں، بالکل درست:
میر تقی میر ان نیم باز آنکھوں میں
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

یہ سن کر ظہیر صاحب جارحانہ ارادوں سے ہماری جانب بڑھے ہی تھے کہ ہم نے اٹھ کر دوڑ لگا دی۔
یوں یہ جاں لیوا مشن اپنے اختتام کو پہنچا

(یہ روداد "بحفاظت واپسی" پر میٹرو کے سفر کے دوران لکھی گئی)۔
 
آخری تدوین:
سب سے پہلے سہیل وڑائچ دوئم فرام چائنہ بننے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ تفصیلی تبصرے کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں مگر یہ بتاتے چلیں کہ ہنس ہنس کے منہ دُکھ گیا ہے، بس اس کا ذرا علاج کر کے ابھی آئے!!! :laughing:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ واہ۔۔۔ یاز بھائی تحریر کی کیا ہی بات ہے بہت خوب۔۔۔
لیکن تحریر کے آخر تک میں ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، اس جملے کے انتظار میں رہا۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاہاہاہا

کمال ہے یاز بھائی!

ابھی کہیں سنا تھا۔ یاز کرے پرواز! اب دیکھ بھی لیا۔ :ROFLMAO:

بہت پر لطف تحریر ہے، ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا۔ :)

ماشاءاللہ

اللہ کرے زورِ سخن اور زیادہ ❤️
 

سیما علی

لائبریرین
ہم: یوں اذنِ کلام میں بازیابی پر ہم معافی کے خاکستر ہیں کہ ابھی تازہ بہ تازہ خدامِ ادب ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ایسی خطائے حیل و حجت نہ ہو پائے۔ لیجئے ایک اور شعر سناتے ہیں، بالکل درست:
میر تقی میر ان نیم باز آنکھوں میں
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

یہ سن کر ظہیر صاحب جارحانہ ارادوں سے ہماری جانب بڑھے ہی تھے کہ ہم نے اٹھ کر دوڑ لگا دی۔
یوں یہ جاں لیوا مشن اپنے اختتام کو پہنچا

(یہ روداد "بحفاظت واپسی" پر میٹرو کے سفر کے دوران لکھ
زبردست زبردست زبردست
بہت خوب کیا ایک دن ظہیر صاحب کے ساتھ گذرا
ایک معصومانہ سوال بھی پوچھ لیتے سہیل وڑائچ صاحب کے لہجے صبح ناشتے میں کیا نوش فرماتے ہیں ظہیر بھائی۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
سب سے پہلے سہیل وڑائچ دوئم فرام چائنہ بننے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ تفصیلی تبصرے کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں مگر یہ بتاتے چلیں کہ ہنس ہنس کے منہ دُکھ گیا ہے، بس اس کا ذرا علاج کر کے ابھی آئے!!! :laughing:
کیا بات ہے ہم نے آپکا مراسلہ پڑھے بغیر لکھا واقعی ہنسی نہیں رک رہی۔۔۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

یاز

محفلین
واہ واہ۔۔۔ یاز بھائی تحریر کی کیا ہی بات ہے بہت خوب۔۔۔
لیکن تحریر کے آخر تک میں ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، اس جملے کے انتظار میں رہا۔۔۔۔
"کیا ہے کھلا تضاد نہیں؟"

(پردہ گرتا ہے)
زبردست زبردست زبردست
بہت خوب کیا ایک دن ظہیر صاحب کے ساتھ گذرا
ایک معصومانہ سوال بھی پوچھ لیتے سہیل وڑائچ صاحب کے لہجے صبح ناشتے میں کیا نوش فرماتے ہیں ظہیر بھائی۔۔۔
کھلا تضاد کا ذکر تو لازماً کرنا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی میر صاحب ٹک روتے روتے سو گئے۔
جبھی تو، ورنہ تو۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہا ہاہاہاہاہاہ!!!!
مزیدار مزیدار! بہت خوب! کیا بات ہے جناب! مزا آیا پڑھ کر۔
اچھی بات یہ ہے کہ آپ نے درست ظہیراحمد ظہیر کا انٹرویو کیا۔اور ٹیگ بھی درست سمت میں بھیجا۔ ہمارے کچھ پڑوسیوں کی طرح دوسری طرف نہیں بھیج دیا۔
 
Top