کسوٹی #24

صحیح کہا۔ حسن تو نظر ہی میں ہوتا ہےکیونکہ یہ کسی چہرے یا جسمانی ساخت کا محتاج نہیں، بلکہ دیکھنے والے کی نظر اور دل کی کیفیت میں چھپا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے خزاں کے زرد پتے بھی شاعری کا استعارہ بن جاتے ہیں، تو کسی کے لیے بہار کے رنگین پھول بھی بے معنی نظر آتے ہیں۔ایسے ہی لیلی جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ بہت کالی تھی۔ لیکن مجنوں تو دیوانہ تھا اس کا۔
بالکل، جو انسان بھا جائے اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اور بھانے کی توجیہہ اگر ہو تو وہ بھانا بھی جلد ڈھل جاتا ہے۔
 

یاز

محفلین
صحیح کہا۔ حسن تو نظر ہی میں ہوتا ہےکیونکہ یہ کسی چہرے یا جسمانی ساخت کا محتاج نہیں، بلکہ دیکھنے والے کی نظر اور دل کی کیفیت میں چھپا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے خزاں کے زرد پتے بھی شاعری کا استعارہ بن جاتے ہیں، تو کسی کے لیے بہار کے رنگین پھول بھی بے معنی نظر آتے ہیں۔ایسے ہی لیلی جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ بہت کالی تھی۔ لیکن مجنوں تو دیوانہ تھا اس کا۔
کیتا سوال میاں مجنوں نوں
تیری لیلا رنگ دی کالی اے

دتا جواب میاں مجنوں نے
تیری انکھ نہ ویکھن والی اے

قرآن پاک دے ورق چٹے
اتے لکھی سیاہی کالی اے

چھڈ وے بلھیا دل دے چھڈیا
تے کی گوری تے کی کالی اے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بالکل، جو انسان بھا جائے اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اور بھانے کی توجیہہ اگر ہو تو وہ بھانا بھی جلد ڈھل جاتا ہے۔
جو محض وقتی طور پر دل کو بھا جائیں، ان کے لیے جواز یا توجیہہ تلاش کرنی پڑتی ہے، اور جب کوئی چیز دلیلوں اور وضاحتوں پر کھڑی ہوتی ہےتو وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔اسی لئے اس کا اثر بھی جلد ہی زائل ہو جاتا ہے یا یوں کہئیے کہ وہ بھانا جلد ڈھل جاتا ہے۔
 

یاز

محفلین
لیجئے جناب۔ اب آپشن کچھ کم رہ گئے ہیں۔ چناب اور راوی کے درمیان سیالکوٹ، گوجرانوالا، شیخوپورہ، فیصل آباد اور جھنگ وغیرہ ہیں۔ موٹروے ایم ٹو کے مشرق مغرب سے مزید محدود ہونے کا امکان ہے۔
 
انٹرٹینمنٹ پوسٹ#2
بس وہی جو ایک زیادہ ہوگا اسکا جواب ہاں ہوگا باقی سب تو نہیں *15 ہو جائیں گے۔

15 سے یاد آیا کہ دورِ یونیورسٹی میں ادارے کا رولمنمبر 1015 تھا جسکو پروفیسر حضرات اپنی آسانی کے لئے 15 کہہ دیا کرتے تھے۔
پہلے ہی سیمسٹر میں آرگینگ کیمسڑی کے سادہ لوح درویش منش پروفیسر سے ادارے کی خوب بن گئی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انکے ہفتے میں دو لیکچر تھے ایک علی الصبح 8 بجے اور ایک آدھی راتیں سوا چار بجے۔ ابتدائی دنوں میں والدہ کی طبعیت خراب تھی تو میں روزانہ لائلپور آیا جایا کرتا تھا جسکی وجہ سے اکثر وبیشتر صبح انکے لیکچر میں تاخیر سے پہنچتا اور رات والے لیکچر میں 10-15 منٹ میں ہی نکل آتا۔
تو جنوری کی ایک خوبصورت شام تھی دھند نے اپنے خوبصورت پاؤں کل شب سے پھیلا رکھے تھے اور ہلنے کا نام نہ لے رہے تھے شام والا لیکچر تھا اور ہم سب سے پچھلے والے بنچ پر بیٹھے کھڑکی سے باہر کی دنیا پر نظر جمائے ہوئے تھے دس منٹ نکل گئے 20 منٹ نکل جائے جب آدھا گھنٹہ ہو گیا اور میں کلاس سے نہ نکلا تو استاد جی فرماتے اوہ "ون فائیو اج گھر نہیں جانا" میں آکھیا نہیں سر دھند بڑی اے ویگن لبھے نہ لبھے
کہندے اوہو میں تے کوئز لینے سی تینوں تے آندا نہیں ہونا چلو اگلے لیکچر اچ سہی۔ 🙃
 
Top