محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ
ایک نظم اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
اک روز، میں تھا، آئنہ تھا اور خضاب تھا
یعنی کہ ایک حیلہ تھا عَودِ شباب کا
پہلے ٹٹولا بالوں کو، شیشے کو دیکھ کر
پھر خودکلام یوں ہوا چہرے کو دیکھ کر
ایسا بھی سن رسیدہ ابھی تک نہیں ہوں میں
دل پر لگاؤں قفل وہ بوڑھا کہیں ہوں میں؟
رنگوں سے کھیلتا نہیں اس احتمال سے
میں ہار مان جاؤں گا اس ماہ و سال سے؟
گر آ گئی ہے سر میں سفیدی، تو کیا ہوا
جب تک ہے دل جوان، تو بوڑھا کوئی ہوا؟
بیگم کے پیروں کی جو بس آہٹ ذرا سنی
پاؤں تلے سے میرے زمیں ہی نکل گئی
آنکھیں ہوئیں جو چار، تو بولی یوں نیک بخت
مدت ہوئی کہ باندھ چلا ہے شباب رخت
کچھ پاسِ عمر چاہیے، بوڑھے میاں، ذرا
توبہ کا وقت ہے، ارے! کیجے خدا خدا
سر سے چمک اُٹھا ہے اگرچہ کہ کل جہاں
بیٹھے ہیں گم، اُمیدِ جوانی میں یہ یہاں
چھپ جائے چاہے ساری سفیدی خضاب سے
لاٹھی بغیر پاؤں تو اُٹھے جناب سے
ایک نظم اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
اک روز، میں تھا، آئنہ تھا اور خضاب تھا
یعنی کہ ایک حیلہ تھا عَودِ شباب کا
پہلے ٹٹولا بالوں کو، شیشے کو دیکھ کر
پھر خودکلام یوں ہوا چہرے کو دیکھ کر
ایسا بھی سن رسیدہ ابھی تک نہیں ہوں میں
دل پر لگاؤں قفل وہ بوڑھا کہیں ہوں میں؟
رنگوں سے کھیلتا نہیں اس احتمال سے
میں ہار مان جاؤں گا اس ماہ و سال سے؟
گر آ گئی ہے سر میں سفیدی، تو کیا ہوا
جب تک ہے دل جوان، تو بوڑھا کوئی ہوا؟
بیگم کے پیروں کی جو بس آہٹ ذرا سنی
پاؤں تلے سے میرے زمیں ہی نکل گئی
آنکھیں ہوئیں جو چار، تو بولی یوں نیک بخت
مدت ہوئی کہ باندھ چلا ہے شباب رخت
کچھ پاسِ عمر چاہیے، بوڑھے میاں، ذرا
توبہ کا وقت ہے، ارے! کیجے خدا خدا
سر سے چمک اُٹھا ہے اگرچہ کہ کل جہاں
بیٹھے ہیں گم، اُمیدِ جوانی میں یہ یہاں
چھپ جائے چاہے ساری سفیدی خضاب سے
لاٹھی بغیر پاؤں تو اُٹھے جناب سے
آخری تدوین: