کسوٹی قسط نمبر 5

یاز

محفلین
مجھے تو یہی سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا ہوتا ہے! یعنی اوپر سے جگر پہ چوٹ کیسے لگ سکتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے، جس کے لئے چیٹ جی پی ٹی کو زحمت دی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا سوال نہایت دلچسپ اور منطقی ہے۔ظاہری بات ہے، عام سوچ میں یہی آتا ہے کہ "جگر" تو جسم کے اندر ہوتا ہے، اور "اوپر سے چوٹ" باہر سے لگتی ہے — تو پھر "اوپر سے جگر پہ چوٹ" کیسے لگ سکتی ہے؟
لیکن اس جملے میں "اوپر سے" کا مطلب صرف جسمانی سمت نہیں ہے، بلکہ یہ محاوراتی اور جذباتی مفہوم رکھتا ہے۔


وضاحت:​


"اوپر سے جگر پہ چوٹ لگنا" ایک ادبی و محاوراتی انداز بیان ہے، جو عام طور پر شدید جذباتی صدمے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔


مثالاً:


  • کوئی شخص پہلے ہی کسی غم یا دکھ میں مبتلا ہو، اور پھر اوپر سے ایک اور سانحہ ہو جائے — تو کہا جاتا ہے:
    "اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی!"

یعنی:
  • پہلے ہی دل یا جذبات نڈھال تھے، اور پھر ایک اور درد نے جگر کو چیر دیا۔

جگر کا مطلب:​

ادب اور شاعری میں "جگر" عموماً صبر، ہمت، اور جذبات کا استعارہ ہوتا ہے۔
"جگر پر چوٹ" کا مطلب ہے — دل پر گہرا اثر یا صدمہ۔

لہٰذا، یہ جملہ جذباتی یا ذہنی تکلیف کے لیے استعمال ہوتا ہے، نہ کہ جسمانی حقیقت کے لیے۔
 

یاز

محفلین
یہ رہا جملہ "اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی" پر ایک مختصر ادبی تبصرہ:


✦ ادبی تبصرہ ✦​

"اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی" — یہ محاورہ اپنے اندر غم و الم کی گہرائی لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جب انسان ایک دکھ سے سنبھلنے بھی نہ پائے کہ دوسرا صدمہ دل و دماغ کو چیرتا ہوا گزر جائے۔ یہاں "اوپر سے" محض سمت کا تعین نہیں کرتا، بلکہ یہ غیر متوقع، ناپسندیدہ، اور بے وقت دکھ کی شدت کو اجاگر کرتا ہے۔

"جگر" اردو شاعری میں صبر و استقامت کا نشان رہا ہے۔ اور جب چوٹ جگر پر لگے، تو مطلب ہوتا ہے کہ برداشت کی انتہا کو بھی پار کر لیا گیا ہو۔

یہ جملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بعض اوقات درد صرف ایک لمحے کا نہیں ہوتا — بلکہ وہ پے در پے وار بن کر انسان کی روح کو زخمی کر دیتا ہے۔
 

یاز

محفلین
مجھے تو یہی سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا ہوتا ہے! یعنی اوپر سے جگر پہ چوٹ کیسے لگ سکتی ہے؟
اور ڈیپ سیک نے کچھ یوں روشنی سٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے سوال میں ایک لطیفہ اور شاعرانہ چاشنی ہے! 😊

"اوپر سے جگر پہ چوٹ" کا شاعرانہ مطلب

اردو شاعری اور محاوروں میں "جگر" دل یا روح کی علامت ہوتا ہے، اور "اوپر سے چوٹ" کا مطلب ہے بظاہر کوئی نقصان نہ ہونا، لیکن اندر گہرا زخم لگ جانا۔ یعنی:

  • کوئی بات یا واقعہ دل کو ٹھیس پہنچائے۔
  • دکھائی نہ دینے والا صدمہ یا رنج۔
  • ظاہر میں سب ٹھیک، مگر اندر سے ٹوٹ جانا۔

مثال کے طور پر:

کسی نے آپ کو برا بھلا کہہ دیا، یا کسی نے دھوکہ دے دیا — ظاہر میں آپ نے کوئی ردعمل نہیں دیا، مگر دل (جگر) کو گہرا زخم لگا۔ یہی "اوپر سے جگر پہ چوٹ" ہے!

شاعری میں استعمال:

میرؔ اور غالبؔ کی شاعری میں ایسے استعارے ملتے ہیں، جیسے:

"دل پہ چوٹ کھائی ہے تو چہرے پہ نہیں آتا"
"جگر کے زخم تو دکھائی نہیں دیتے"

سادہ مطلب:

یہ محاورہ "دکھ چھپانے" کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ جیسے کوئی شخص مسکراتا رہے، مگر اندر سے ٹوٹ چکا ہو۔

اگر آپ کسی خاص شعر یا جملے کی وضاحت چاہتے ہیں تو بتائیں! ورنہ یہ اردو زبان کا ایک خوبصورت استعارہ ہے جو دکھ کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔
 
یہ ایک اہم سوال ہے، جس کے لئے چیٹ جی پی ٹی کو زحمت دی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا سوال نہایت دلچسپ اور منطقی ہے۔ظاہری بات ہے، عام سوچ میں یہی آتا ہے کہ "جگر" تو جسم کے اندر ہوتا ہے، اور "اوپر سے چوٹ" باہر سے لگتی ہے — تو پھر "اوپر سے جگر پہ چوٹ" کیسے لگ سکتی ہے؟
لیکن اس جملے میں "اوپر سے" کا مطلب صرف جسمانی سمت نہیں ہے، بلکہ یہ محاوراتی اور جذباتی مفہوم رکھتا ہے۔


وضاحت:​


"اوپر سے جگر پہ چوٹ لگنا" ایک ادبی و محاوراتی انداز بیان ہے، جو عام طور پر شدید جذباتی صدمے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔


مثالاً:


  • کوئی شخص پہلے ہی کسی غم یا دکھ میں مبتلا ہو، اور پھر اوپر سے ایک اور سانحہ ہو جائے — تو کہا جاتا ہے:
    "اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی!"

یعنی:
  • پہلے ہی دل یا جذبات نڈھال تھے، اور پھر ایک اور درد نے جگر کو چیر دیا۔

جگر کا مطلب:​

ادب اور شاعری میں "جگر" عموماً صبر، ہمت، اور جذبات کا استعارہ ہوتا ہے۔
"جگر پر چوٹ" کا مطلب ہے — دل پر گہرا اثر یا صدمہ۔

لہٰذا، یہ جملہ جذباتی یا ذہنی تکلیف کے لیے استعمال ہوتا ہے، نہ کہ جسمانی حقیقت کے لیے۔
علامات جان کر ہم شدید صدمے میں ہیں، کسی نیوٹرل ڈاکٹر سے رجوع فرمائیں جو بے غم کاٹ پیٹ کر سکے!
 

یاز

محفلین
ڈیپ سیک نے اوپر والا بیان اس وقت دیا، جب ان کو یہ عرضی ڈالی کہ شاعرانہ بات ہے، ورنہ پہلے یہ جواب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگر (Liver) کو اوپر سے چوٹ لگنے کی بات سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات مددگار ہوں گے:

1. جگر کی جسم میں پوزیشن

جگر جسم کے دائیں جانب، پیٹ کے اوپری حصے (Right Upper Quadrant) میں ہوتا ہے۔ یہ پسلیوں (Ribs) کے نیچے محفوظ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کچھ حالات میں چوٹ لگ سکتی ہے۔

2. اوپر سے چوٹ لگنے کے اسباب

  • براہ راست ضرب: اگر کوئی شدید دھچکا (مثلاً حادثہ، مکا، گرنا) دائیں پسلیوں کے علاقے میں لگے، تو جگر کو چوٹ پہنچ سکتی ہے۔
  • پسلیوں کا فریکچر: ٹوٹی ہوئی پسلیاں اندر جگر کو زخمی کر سکتی ہیں۔
  • نشیلی چوٹیں: کھیلوں کے دوران، لڑائی، یا کوئی تیز دھار آلہ (چاقو، گولی) بھی جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

3. کیسے پتہ چلے گا؟

چوٹ لگنے پر درج ذیل علامات ہو سکتی ہیں:

  • دائیں جانب شدید درد (خاص طور پر سانس لینے یا حرکت کرنے سے بڑھ جائے)۔
  • پیٹ میں سوجن یا اکڑن۔
  • چکر آنا یا بلڈ پریشر کم ہونا (اندرونی خون بہنے کی علامت)۔

4. احتیاط اور علاج

  • اگر شدید چوٹ لگے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
  • سی ٹی اسکین یا الٹراساؤنڈ سے جگر کی چوٹ کی تصدیق ہوتی ہے۔
  • بعض کیسز میں سرجری بھی درکار ہو سکتی ہے۔

خلاصہ:​

جگر اگرچہ پسلیوں کے نیچے محفوظ ہوتا ہے، لیکن مضبوط دھچکے یا نوکیلی چوٹ سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں فوری طبی امداد ضروری ہے۔

اگر کوئی خاص صورتحال بتانی ہو تو مزید رہنمائی کر سکتا ہوں
 
یہ ایک اہم سوال ہے، جس کے لئے چیٹ جی پی ٹی کو زحمت دی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا سوال نہایت دلچسپ اور منطقی ہے۔ظاہری بات ہے، عام سوچ میں یہی آتا ہے کہ "جگر" تو جسم کے اندر ہوتا ہے، اور "اوپر سے چوٹ" باہر سے لگتی ہے — تو پھر "اوپر سے جگر پہ چوٹ" کیسے لگ سکتی ہے؟
لیکن اس جملے میں "اوپر سے" کا مطلب صرف جسمانی سمت نہیں ہے، بلکہ یہ محاوراتی اور جذباتی مفہوم رکھتا ہے۔


وضاحت:​


"اوپر سے جگر پہ چوٹ لگنا" ایک ادبی و محاوراتی انداز بیان ہے، جو عام طور پر شدید جذباتی صدمے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔


مثالاً:


  • کوئی شخص پہلے ہی کسی غم یا دکھ میں مبتلا ہو، اور پھر اوپر سے ایک اور سانحہ ہو جائے — تو کہا جاتا ہے:
    "اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی!"

یعنی:
  • پہلے ہی دل یا جذبات نڈھال تھے، اور پھر ایک اور درد نے جگر کو چیر دیا۔

جگر کا مطلب:​

ادب اور شاعری میں "جگر" عموماً صبر، ہمت، اور جذبات کا استعارہ ہوتا ہے۔
"جگر پر چوٹ" کا مطلب ہے — دل پر گہرا اثر یا صدمہ۔

لہٰذا، یہ جملہ جذباتی یا ذہنی تکلیف کے لیے استعمال ہوتا ہے، نہ کہ جسمانی حقیقت کے لیے۔
یہ رہا جملہ "اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی" پر ایک مختصر ادبی تبصرہ:


✦ ادبی تبصرہ ✦​

"اوپر سے جگر پہ چوٹ لگ گئی" — یہ محاورہ اپنے اندر غم و الم کی گہرائی لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جب انسان ایک دکھ سے سنبھلنے بھی نہ پائے کہ دوسرا صدمہ دل و دماغ کو چیرتا ہوا گزر جائے۔ یہاں "اوپر سے" محض سمت کا تعین نہیں کرتا، بلکہ یہ غیر متوقع، ناپسندیدہ، اور بے وقت دکھ کی شدت کو اجاگر کرتا ہے۔

"جگر" اردو شاعری میں صبر و استقامت کا نشان رہا ہے۔ اور جب چوٹ جگر پر لگے، تو مطلب ہوتا ہے کہ برداشت کی انتہا کو بھی پار کر لیا گیا ہو۔

یہ جملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بعض اوقات درد صرف ایک لمحے کا نہیں ہوتا — بلکہ وہ پے در پے وار بن کر انسان کی روح کو زخمی کر دیتا ہے۔
اور ڈیپ سیک نے کچھ یوں روشنی سٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے سوال میں ایک لطیفہ اور شاعرانہ چاشنی ہے! 😊

"اوپر سے جگر پہ چوٹ" کا شاعرانہ مطلب

اردو شاعری اور محاوروں میں "جگر" دل یا روح کی علامت ہوتا ہے، اور "اوپر سے چوٹ" کا مطلب ہے بظاہر کوئی نقصان نہ ہونا، لیکن اندر گہرا زخم لگ جانا۔ یعنی:

  • کوئی بات یا واقعہ دل کو ٹھیس پہنچائے۔
  • دکھائی نہ دینے والا صدمہ یا رنج۔
  • ظاہر میں سب ٹھیک، مگر اندر سے ٹوٹ جانا۔

مثال کے طور پر:

کسی نے آپ کو برا بھلا کہہ دیا، یا کسی نے دھوکہ دے دیا — ظاہر میں آپ نے کوئی ردعمل نہیں دیا، مگر دل (جگر) کو گہرا زخم لگا۔ یہی "اوپر سے جگر پہ چوٹ" ہے!

شاعری میں استعمال:

میرؔ اور غالبؔ کی شاعری میں ایسے استعارے ملتے ہیں، جیسے:


سادہ مطلب:

یہ محاورہ "دکھ چھپانے" کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ جیسے کوئی شخص مسکراتا رہے، مگر اندر سے ٹوٹ چکا ہو۔

اگر آپ کسی خاص شعر یا جملے کی وضاحت چاہتے ہیں تو بتائیں! ورنہ یہ اردو زبان کا ایک خوبصورت استعارہ ہے جو دکھ کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔
آج ساری آرٹیفیشل انٹیلیجنس گویا ہم کو رلانے میں لگی ہے!!!!
کہاں ہے میرا ریشمی رومال؟
 
ڈیپ سیک نے اوپر والا بیان اس وقت دیا، جب ان کو یہ عرضی ڈالی کہ شاعرانہ بات ہے، ورنہ پہلے یہ جواب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگر (Liver) کو اوپر سے چوٹ لگنے کی بات سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات مددگار ہوں گے:

1. جگر کی جسم میں پوزیشن

جگر جسم کے دائیں جانب، پیٹ کے اوپری حصے (Right Upper Quadrant) میں ہوتا ہے۔ یہ پسلیوں (Ribs) کے نیچے محفوظ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کچھ حالات میں چوٹ لگ سکتی ہے۔

2. اوپر سے چوٹ لگنے کے اسباب

  • براہ راست ضرب: اگر کوئی شدید دھچکا (مثلاً حادثہ، مکا، گرنا) دائیں پسلیوں کے علاقے میں لگے، تو جگر کو چوٹ پہنچ سکتی ہے۔
  • پسلیوں کا فریکچر: ٹوٹی ہوئی پسلیاں اندر جگر کو زخمی کر سکتی ہیں۔
  • نشیلی چوٹیں: کھیلوں کے دوران، لڑائی، یا کوئی تیز دھار آلہ (چاقو، گولی) بھی جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

3. کیسے پتہ چلے گا؟

چوٹ لگنے پر درج ذیل علامات ہو سکتی ہیں:

  • دائیں جانب شدید درد (خاص طور پر سانس لینے یا حرکت کرنے سے بڑھ جائے)۔
  • پیٹ میں سوجن یا اکڑن۔
  • چکر آنا یا بلڈ پریشر کم ہونا (اندرونی خون بہنے کی علامت)۔

4. احتیاط اور علاج

  • اگر شدید چوٹ لگے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
  • سی ٹی اسکین یا الٹراساؤنڈ سے جگر کی چوٹ کی تصدیق ہوتی ہے۔
  • بعض کیسز میں سرجری بھی درکار ہو سکتی ہے۔

خلاصہ:​

جگر اگرچہ پسلیوں کے نیچے محفوظ ہوتا ہے، لیکن مضبوط دھچکے یا نوکیلی چوٹ سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں فوری طبی امداد ضروری ہے۔

اگر کوئی خاص صورتحال بتانی ہو تو مزید رہنمائی کر سکتا ہوں
میں بھی پہلے یہی والا سمجھی تھی!! 😁
 

اے خان

محفلین
اگرچہ یہ ایک سیرئیس بات ہے مگر پھر بھی کہنے میں حرج نہیں۔
میں نے چند سال قبل ایک ویڈیو دیکھی، دوبارہ اب معلوم نہیں کن کی ورڈز سے ڈھونڈوں۔۔۔لیکن مفہوم بہت دل کو بھایا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب ہم فزیکل تکلیف کے لیے ہمیشہ احتیاط اور پرہیز کرتے ہیں جیسے کہ دل کی سرجری ہو تو ہم دوبارہ ایسا نہیں کریں گے کہ بار بار آپریشن تھیٹر کے بنچ پر لیٹیں۔ تو دل کی دوسری تکلیف کے لیے کیوں بار بار لیٹتے ہیں؟ (طبیعت بھی ہوتی ہے مگر سوشل میڈیا کے دور میں اس جلتی میں تیل ڈالنے والے کئی عوامل بھی ہو سکتے ہیں) مگر! اپنے اوپر اتنا رحم کرنا چاہیے کہ بار بار اپنے دل کو تختہ مشق نہ بنائے جائیں کیونکہ یہ سارا پراسیس تکلیف دہ ترین ہی ہوتا ہے۔ بزرگوں کی باتیں بچوں کو سمجھ نہیں آتیں کیونکہ وہ کسی اور دور کے ہیں۔ لیکن کیا اپنے ہم عمروں اور ہم عصروں کی بھی نہ آویں گی؟ جان جائے گی تو حق ادا ہوگا؟
اس بھاشن والے خواب کے بعد عبداللہ بھائی کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے اٹھتے ہی کہا، بس کر پگلی رلائے گی کیا!

سوری سوری
ہم عاشقی وغیرہ کی باتیں نہیں کریں گے،
یاز بھائی اگر ہم مطالبہ بھی کریں تو آپ نے شعر نہیں لکھنا

بس یہ آخری

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو

فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت، باقی سب کچھ مایا ہو۔

۔۔۔ابنِ انشاء
 

یاز

محفلین
دیکھا تو نہیں، لیکن شنید ہے کہ اس میں ان کا بھی کچھ رول ہے۔ جبھی کچھ ڈسکلیمر نما ہنٹ داغا۔
اس بابت کچھ ابہام رہے شاید۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ کسی فلم یا ٹی وی پروگرام میں ان کو بھی کچھ کور کیا ہو۔
 
سوری سوری
ہم عاشقی وغیرہ کی باتیں نہیں کریں گے،
یاز بھائی اگر ہم مطالبہ بھی کریں تو آپ نے شعر نہیں لکھنا

بس یہ آخری

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو

فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت، باقی سب کچھ مایا ہو۔

۔۔۔ابنِ انشاء
بھائی، یہ اشعار تو ہمارے بھی پسندیدہ ہیں!!!
اور مقصد یہاں سنسر کرنا نہیں تھا کسی شے کو۔۔۔کیونکہ ہم سب کہیں نہ کہیں گھٹے ہوئے ہیں معاشرتی رولز میں۔ تبھی ہم کہیں وہ گھٹن ایکسپریس کر پاتے ہیں۔ شاید یہ سارا آرٹ ورک جو پڑھنے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے یہ بھی ذہن کے نہاں خانوں کی گھٹن کا پردہ چاک کرنے کی ایک راہ ہی تھی۔ میرا مدعا فقط یہ تھا کہ واردات قلبی یا معاشرتی جو بھی ہو، اپنے ساتھ کھڑے رہیں۔ خود سے مخالف صف میں کھڑا ہو کر خود اپنے نقصان کی راہیں ہموار کبھی نہ کریں۔ اور میں یہ ہر ہر انسان کو کہتی ہوں جس کو کہہ سکتی ہوں۔ سیلف-لو سیکھنا سب سے کٹھن تھا، مگر جب سیکھا تو اب وہی ایک قوٹیشن ذہن میں رہتی ہے کہ عقلمند آدمی اپنے مسائل کو حل کرتا ہے، یا ان سے لڑتا ہے یا ان کو قبول کرتا ہے مگر۔۔۔۔! وہ ان میں خود اضافہ نہیں کرتا! 🎬
 

یاز

محفلین
سوری سوری
ہم عاشقی وغیرہ کی باتیں نہیں کریں گے،
یاز بھائی اگر ہم مطالبہ بھی کریں تو آپ نے شعر نہیں لکھنا

بس یہ آخری

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو

فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت، باقی سب کچھ مایا ہو۔

۔۔۔ابنِ انشاء
ہمیں لگتا ہے کہ آپ کچھ سنجیدہ وغیرہ ہو گئے مقتبس مراسلے کی رو سے
 

یاز

محفلین
بھائی، یہ اشعار تو ہمارے بھی پسندیدہ ہیں!!!
اور مقصد یہاں سنسر کرنا نہیں تھا کسی شے کو۔۔۔کیونکہ ہم سب کہیں نہ کہیں گھٹے ہوئے ہیں معاشرتی رولز میں۔ تبھی ہم کہیں وہ گھٹن ایکسپریس کر پاتے ہیں۔ شاید یہ سارا آرٹ ورک جو پڑھنے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے یہ بھی ذہن کے نہاں خانوں کی گھٹن کا پردہ چاک کرنے کی ایک راہ ہی تھی۔ میرا مدعا فقط یہ تھا کہ واردات قلبی یا معاشرتی جو بھی ہو، اپنے ساتھ کھڑے رہیں۔ خود سے مخالف صف میں کھڑا ہو کر خود اپنے نقصان کی راہیں ہموار کبھی نہ کریں۔ اور میں یہ ہر ہر انسان کو کہتی ہوں جس کو کہہ سکتی ہوں۔ سیلف-لو سیکھنا سب سے کٹھن تھا، مگر جب سیکھا تو اب وہی ایک قوٹیشن ذہن میں رہتی ہے کہ عقلمند آدمی اپنے مسائل کو حل کرتا ہے، یا ان سے لڑتا ہے یا ان کو قبول کرتا ہے مگر۔۔۔۔! وہ ان میں خود اضافہ نہیں کرتا! 🎬
عمدہ بات۔
لیکن آج سنجیدگی کی لہر کیوں دوڑ رہی محفل میں!!
 
Top