مزاح برائے تاوان

اے خان

محفلین
یاز صاحب بولتے بولتے فارسی رو میں نکل جاتے ہیں اور پھر مجھے کوئی لفظ اٹک جاتا ہے۔۔۔۔۔
دوسرا یہ ہواہے کہ میں ایک دو دور دراز جگہوں سے واپس آئی ہوں، اگر آپ نے وہ لڑئیاں دیکھ لیں اور ادھر نکل لیے تو ہماری بہن آپ کے انتظار میں سوکھ سکتی ہیں ۔ اس لیے جلدی واپس جائیے!
دیکھتے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ارے اتنا بھاری تاوان ،،،، ہم نہ دینے کے ۔۔۔
اب ، جب بندوق کی نالی کا رخ تو محفل کے سینے کی طرف موڑہی دیا گیا ہے اور لبلبی پر انگلی رکھ لی گئی ہے تو کیا قیامت باقی رہ گئی محفلین کے دلو ں پر ٹوٹنے کو ۔سن لو ظالمو!!! محفل بھی اب سر خم نہ کرے گی،،،،بھیگا دامن لیے پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے سینہ تان کر کھڑی رہے گی ،،،، کسی کے سامنے نہیں گڑگڑائے گی ،،،،کسی شاہ کے لاڈلے کے پاس رحم کے لیے سفارش کا رقعہ نہیں بھجوائے گی ۔اپنی کمر پہ لدے ےتوشے سے جام شہادت نکال کر لبوں سے لگارہی ہے اور چیخ چیخ کر ایک خون ناحق کااذن دے رہی ہے ،،، چلاؤ گولی ،،،
لیکن یہ کیا،،،، یہ بندوق تھامنے والے کے ہاتھ پر یہ کیسا لرزہ طاری ہے ،،، کیوں گولی چلانے کا حوصلہ چھوٹا جارہا ہے ،،، کیوں بھری بندوق تاننےے والے توانا بازو ، یکدم شل ہوئے جا رہے ہیں ،،،، کیا جذبات آن کی آن میں فلک پر آویزاں صحیفوں کا نوشتہ پڑھ آئے ہیں ،،، کیا خبر،،،، کیا خبر ،،،، کیا خبر،،،،، یہ دلخراش منظر دیکھنے کی تاب چشم فلک میں بھی نہیں رہی،،،، یا دھرتی ،جو آج تک زمانے کے بہاؤ سے سرموانحراف نہ کرتی تھی آج بغاوت پر آمادہ ہوا چاہتی ہے ،،،، کون جانتا ہے کہ آج اس بندوق کی نالی بارود اگل پائے گی یا نہیں ،،، زمانہ تھم سا گیا ہے گھڑیوں کی سوئیاں ساکت کھڑی ہو کر اس نظارے کو دیکھنے میں مگن ہو گئی ہیں ،،،، بلند بال پہاڑوں سے گرتے جھرنے ٹھہر گئے ہیں اور سوچ میں پڑے ہیں کہ کیا ہو گا ،،،، دریاؤں کا پانی کناروں کو کاٹتے ہوئے ٹھاٹھیں مارتا ہوا اچھل اچھل کر تا دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے ک اس جنگ میں جذبہ جیتتا ہے یا یا خود ساختہ مصلحتیں ،،،، سمندروں کے کنارے مدو جزر کو چڑھارہے ہیں کہ کسی طرح ایک جھلک اس مبہہوت کردینے والے منظر کی دیکھ سکیں ،،، بادلوں کی نگاہیں جھکی ہوئی ٹکٹکی باندھے بندوق کی نالی کو تک رہی ہیں ،،،، افق کی اس پار ڈوبتا سورج رات کی پناہ لینے سے انکاری ہے ،،،، چاند پلٹ پلٹ کر کان لگا رہا ہے کہ قریب سے قریب تر ہوتے اس لمحے کی قسمت میں کیا لکھا ہے ،،،، لیکن کیا ،،،،،، یہ آواز کیسی تھی یہ کان پھاڑ دےنے والا دھماکا کیسا تھا ۔ اور یہ کسی ہیکل کے دھڑام سے زمیں بوس ہونے کی آواز ،،،،، نہیں نہیں یہ کیا ہوا ،،،، بندوق اٹھانے والے کے تھرتھراتے ہاتھوں نے آنکھ بند کر کے گولی چلادی اور برسوں کھڑے ایک پھلدار اور سایہ فگن درخت کو لمحے بھر میں زمیں بوس ہو کر گر گیا ،،،، اب وہ ظالم خود ہی کھڑا آنسو بہا رہا ہے گھٹنے زمیں پر ٹکے ہیں اشک رواں کا ایک سیلاب ہے ،،،،، سسکیاں ہیں ،،،، آہیں ہیں اندھیرا ہے بندوق ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی ہے اسے اٹھانے کا یارا نہیں ۔،،،، بیہوش ہو گیا ،،،، لیکن یہ کیا کہ زمین پر پڑے جسد سے بہتا خون کچھ لکھ رہا ہے ۔ یہ کیا لکھ رہا ہے یہ کیا نقش ہے جو تشکیل پا رہا ہے ۔
یہ نقشہ ہے ڈسکورڈ فورم کی نو زائیدہ سرزمین کا ۔ :) :) :)
۔ یہاں صرف غیرسنجیدہ قارئین تشریف لاویں
مریم آپ کی ہدایت کے مطابق ایک غیر سنججیدہ قاری یہاں آیا تھا اور یہ چٹکلا چھوڑ گیا
 
آخری تدوین:
Top