لاجواب!
کچھ علم نہیں، سعود بھائی ۔ بہت پہلے شکاگو میں کتابوں کی ایک دکان پر "دیوانِ ٹرانسپورٹ " کی کھڑے کھڑے ورق گردانی کی تھی۔ اس کے دو چار "اشعار" مزیدار لگے اور ذہن میں رہ گئے۔ یہ بھاری بھرکم شعر ان میں سے ایک ہے۔محفلین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے آپ صاحبان کی نذر کردیا۔یہاں پیروڈی وارد ہوئی ہے کیا؟
مزیدار ، مزیدار!ہم نے اس سے ملتا جلتا شعر کچھ یوں پڑھا تھا:
اس نے پہلے رس کہا پھر گل کہا پھر لے کہا
اس طرح ظالم نے رس گلے کے ٹکڑے کر دیے
جیتی رہیے زندگی میں ہر قدم پہ کامیابیاں آپکا مقدر ہوں آمین