ہماری تک بندیاں

دن میں بازار افواہ کے گرم تھے
قدر جاں نیچے جاتی رہی رات بھر
قدرِ جاں اور افواہ غیر مربوط سے معلوم ہوتے ہیں ۔افواہ کی نسبت سے دوسرے مصرع میں حقیقت یا صداقت کا ذکر میری ناقص رائے میں زیادہ بہتر ہوگا۔
ہم نے قدر جاں کو قدر حق سے تبدیل کر دیا ہے۔

رات بھر جھوٹ کی آگ جلتی رہی
روح حق بلبلاتی رہی رات بھر
اگر بلبلاتی کے بجائے کپکپاتی کہیں تو جھوٹ اور سچ کے تضاد کی کیفیت اور نمایاں ہوجائے گی۔ آگ اور کپکپانے کا تضاد نظر آئے گا۔
ایک بار کو ہم نے سوچھا تھا کہ جھوٹ کے شعلے دہکنے یا بھڑکنے کے تضاد کے طور پر سچ کی لو کپکپانے کی ترکیب استعمال کریں، لیکن یہاں تضاد سے زیادہ سبب اور اثر کا تعلق دکھانے کی منشائ ہے، یعنی وہ جھوٹ کی آگ ہے جس میں جھلستے ہوئے سچ کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ البتہ اب اس سے پہلے شعر میں قدر جاں کو قدر حق سے تبدیل کر دیا ہے تو اس شعر میں روح حق کے استعمال سے تکرار کی سی کیفیت نظر آ رہی ہے اور دونوں ہی اشعار تقریباً ہم مفہوم ہو رہے ہیں، لہٰذا کسی اور انداز میں سوچنا ہوگا یا کسی ایک کو ساقط بھی کیا جا سہتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک بار کو ہم نے سوچھا تھا کہ جھوٹ کے شعلے دہکنے یا بھڑکنے کے تضاد کے طور پر سچ کی لو کپکپانے کی ترکیب استعمال کریں، لیکن یہاں تضاد سے زیادہ سبب اور اثر کا تعلق دکھانے کی منشائ ہے، یعنی وہ جھوٹ کی آگ ہے جس میں جھلستے ہوئے سچ کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ البتہ اب اس سے پہلے شعر میں قدر جاں کو قدر حق سے تبدیل کر دیا ہے تو اس شعر میں روح حق کے استعمال سے تکرار کی سی کیفیت نظر آ رہی ہے اور دونوں ہی اشعار تقریباً ہم مفہوم ہو رہے ہیں، لہٰذا کسی اور انداز میں سوچنا ہوگا یا کسی ایک کو ساقط بھی کیا جا سہتا ہے۔
بہت خوب!
سعود بھائی ، میری رائے میں تو دونوں اشعار کو رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ مسلسل غزل ہے ۔ گویا ایک صورتحال کی عکاس نظم ہے۔ سو اس کے اشعار میں ملتے جلتے مضامین کا آجانا بالکل درست ہے بلکہ صورتحال کے مختلف پہلوؤں کی شدت کے ساتھ عکاسی کرتا ہے ۔ میرے ذہن میں یہ تجویز تھی: جھوٹ کی آگ شب بھر بھڑکتی رہی ۔۔۔۔۔ اور سچ کو جلاتی رہی رات بھر:
دونوں مصرعوں میں رات کی تکرار ختم ہوجاتی ہے اس طرح۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
۔ خار کے بجائے اگر دوستی خوف کھاتی رہی رات بھر کہیں تو خار کھانے کی عدم فصاحت سے جان چھوٹ جائے گی۔
۔بن کے اولے برستی رہیں گولیاں : اس طرح تعقید دور ختم ہوجاتی ہے۔
- توپیں دغتی رہیں ، لوگ مرتے رہے : جمع کا صیغہ بہتر ہے
- قدر حق نیچے جاتی رہی رات بھر: قدرِ حق بالکل ہی عربی فارسی ہوگیا۔ شعر کی مجموعی فضا سے میل نہیں کھارہا ۔ ۔۔۔ اور سچائی ڈگمگاتی رہی رات بھر ۔۔۔ یا اسی طرز پر کچھ اور ہوجائے تو میری رائے میں شعر اچھا ہوجائے گا۔
- جھوٹ و نفرت کو اگر کذب و نفرت کرلیں تو ترکیب کی ساخت پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں رہے گا۔ ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہندی اور فارسی کی عطفی ترکیب جائز نہیں۔

روشنی اور تیرگی والا شعر خوبصورت ہے۔ نیند بھی کسممساتی رہی رات بھر اچھا ہے ۔ موت ملہار گاتی رہی رات بھر خوبصورت مصرع ہے! سعود بھائی ، کئی اشعار کے دوسرے مصرع بہت اچھے ہیں ۔ کچھ وقت پال میں لگادیں اور وقت دیں تو یہ بہت اچھی مسلسل غزل ہوگی ۔
 
دونوں مصرعوں میں رات کی تکرار ختم ہوجاتی ہے اس طرح۔
وہ تکرار تو ہم نے دانستہ رکھی تھی، اس نیت سے کہ اس کے آخری شعر ہونے کا غیر محسوس اعلان ہو جائے، ورنہ کچھ اور بھی اچھی شکلیں نکل کر آ رہی ہیں۔ البتہ آپ کا مشورہ بہت ہی عمدہ ہے اس لیے اسے ہم جوں کا توں استعمال کر رہے ہیں۔ :)
 
- قدر حق نیچے جاتی رہی رات بھر: قدرِ حق بالکل ہی عربی فارسی ہوگیا۔ شعر کی مجموعی فضا سے میل نہیں کھارہا ۔ ۔۔۔ اور سچائی ڈگمگاتی رہی رات بھر ۔۔۔ یا اسی طرز پر کچھ اور ہوجائے تو میری رائے میں شعر اچھا ہوجائے گا۔
سچ اور حق پر زور آزمائی اسی لیے کی تھی کیونکہ سچائی اور حقیقت جیسے الفاظ کے استعمال سے مصرع بے وزن ہو رہا تھا (البتہ اس بحر میں ایسی کوئی اجازت موجود ہو تو الگ بات ہے)۔ فی الحال ہم نے وہ مصرع یکسر تبدیل کر دیا ہے اور اب پھر سے وہی سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کہیں دونوں مصرعے غیر مربوط تو نہیں ہو گئے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سچ اور حق پر زور آزمائی اسی لیے کی تھی کیونکہ سچائی اور حقیقت جیسے الفاظ کے استعمال سے مصرع بے وزن ہو رہا تھا (البتہ اس بحر میں ایسی کوئی اجازت موجود ہو تو الگ بات ہے)۔ فی الحال ہم نے وہ مصرع یکسر تبدیل کر دیا ہے اور اب پھر سے وہی سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کہیں دونوں مصرعے غیر مربوط تو نہیں ہو گئے۔ :)
ایسی کوئی اجازت تو نہیں اس بحر میں ، سعود بھائی۔ سچائی والی تجویز کھانا کھانے سے پہلے کی تھی۔ :D اب ڈنر کرلیا ہے تو ایک باوزن تجویز ذہن میں آرہی ہے:
دن بھر افواہوں کے تیر برسا کیے
زخم سچائی کھاتی رہی رات بھر
یہ مصرعے مربوط ہیں اورشعر کا بنیادی خیال مجروح نہیں ہورہا۔ اسے دیکھ لیجیے۔
 
اب ڈنر کرلیا ہے تو ایک باوزن تجویز ذہن میں آرہی ہے
حکما گفتہ اند کہ رات کا کھانا ہلکا پھلکا ہونا چاہیے۔ :)

دن بھر افواہوں کے تیر برسا کیے
افواہوں کے تیر برسنا محاورتاً درست ہے کیا؟
 
دن میں بازار افواہ کے گرم تھے
دشمنی خوں بہاتی رہی رات بھر
ویسے تو افواہ کے مقابل دوسرا مصرع لانے کی جگہ افواہوں کے ممکنہ نتائج پر غور کیا جائے تو موجودہ شعر میں بھی ربط موجود ہے، البتہ ان میں کچھ فاصلہ ضرور محسوس ہوتا ہے۔

دن بھر افواہوں کے تیر برسا کیے
زخم سچائی کھاتی رہی رات بھر
اس کی جگہ درج ذیل شعر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

دن میں بازار افواہوں کے گرم تھے
منہ صداقت چھپاتی رہی رات بھر

نوٹ: افواہوں کو اس دفعہ جمع برتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حکما گفتہ اند کہ رات کا کھانا ہلکا پھلکا ہونا چاہیے۔ :)
بالکل۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ رات کا پہلا کھانا ہلکا پھلکا ہونا چاہیے۔:)
افواہوں کے تیر برسنا محاورتاً درست ہے کیا؟
افواہوں کے تیر برسنا درست ہے۔ تیر برسنا اور تیروں کی بارش ہونا بہت معروف اور فصیح محاورے ہیں۔ اس میں افواہوں کو تیروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وجہِ تشبیہ چبھنا اور کُھبنا ہیں۔ جیسے طنز کے تیر اور دشنام کے تیر کی تشبیہات استعمال کی جاتی ہیں۔ جس پس منظر اور جس صورتحال کی عکاسی میں یہ شعر لکھے جا رہے ہیں اس میں افواہیں دل پر تیر کا کام ہی کرتی ہیں۔ اس لیے میری رائے میں یہاں افواہوں کے تیر قابلِ قبول تشبیہ ہے۔

کسی خاص سیاق و سباق یا صورتحال کے پس منظر میں تشبیہ دینے کے لیے کوئی بھی مشترکہ صفت وجہِ تشبیہ بن سکتی ہے۔ مثلاً سیاست کی دیوار امن کی راہ میں حائل ہے( غیر لچکدار اور ہٹ دھرم سیاست کو دیوار سے تشبیہ دینا بالکل معقول ہے)۔ چونکہ جھوٹی خبریں نفرت اور غصےکو ہوا دے رہی ہیں اس لیے جھوٹ کو آگ سے تشبیہ دینا بھی معقول ہے۔ شاعری آپ کو اتنی آزادی تو دیتی ہے کہ دشنام کو سنگ اور میٹھے لفظوں کو پھول کہہ سکیں۔ آنکھوں کو جھیل اور زلفوں کو گھٹا کہہ سکیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دن میں بازار افواہ کے گرم تھے
دشمنی خوں بہاتی رہی رات بھر
ویسے تو افواہ کے مقابل دوسرا مصرع لانے کی جگہ افواہوں کے ممکنہ نتائج پر غور کیا جائے تو موجودہ شعر میں بھی ربط موجود ہے، البتہ ان میں کچھ فاصلہ ضرور محسوس ہوتا ہے۔
عام غزل کے برعکس مسلسل غزل میں ایک آسانی اور اجازت یہ ہے کہ ہر شعر میں دونوں مصرعوں کا باہم پوری طرح مربوط ہونا ضروری نہیں ہے ۔ چونکہ اشعار ایک ہی موضوع پر (نظم کی طرح)تسلسل کے ساتھ آرہے ہوتے ہیں تو ہر شعر کو الگ الگ مکمل معانی کا حامل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس لیے مسلسل غزل میں اشعار کی ترتیب بھی بہت اہم ہوتی ہے ا۔ اسی ترتیب سےمضمون اور خیال کا بہاؤ متعین ہوتا ہے۔ آپ کا مقتبسہ بالا شعر اگر عام غزل کا ہوتا تو یقیناً دو لخت کہلاتا لیکن اس مسلسل غزل میں یہ چلے گا۔

اس کی جگہ درج ذیل شعر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

دن میں بازار افواہوں کے گرم تھے
منہ صداقت چھپاتی رہی رات بھر
یہ بہت اچھا ہوگیا ، سعود بھائی۔ بہت خوب!
 
Top