گرچہ سادہ سی بات ہے وجی بھیاتو آپ اِسے غالب کے شعر سے سمجھیں:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب۔۔۔ آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

۔۔۔۔محبت سےدیکھا خفا ہوگئے
 

سیما علی

لائبریرین
قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے۔۔۔
صبیحہ صبا کی غزل کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں ؀

قلم کو اس لئے تلوار کرنا
کہ بڑھ کے ظلم پر ہے وار کرنا

ملی ہے زندگی تو ہم نے سوچا
ہمیں کیسا یہاں کردار کرنا

بھلا پہلے ہی پتھر کیوں بچھائے
اگر تھا راستہ ہموار کرنا

جہاں پر ماں کو گہری نیند آئی
اسی مٹی کا ہے دیدار کرنا

صباؔ ہے آزمائش کا تسلسل
کہ دریاؤں پہ دریا پار کرنا
 
فکرِ فردا ۔۔
سچی بات تو یہ ہے کہ سیدھی سادی گنگا سے ہوکے آیا تو اِس الٹی گنگا کا بہاؤ یاد نہ رہا مگر شکرہے کہ تدوین کا مارجن تھاسو کبھی ق کبھی غ کبھی ک سے جملے بناتا مٹاتا آخر کو ف سے فکرِ فردا کا بوجھا سرسے اُتار شہیدوں میں شامل ہو ہی گیا۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین

غریب پرور، شاعرانہ اور صوفیانہ مزاج کے پیکر بہادر شاہ ظفر۔۔۔ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی (ثانی) ہندوستان کے بیسویں اور آخری مغل شہنشاہ تھے۔۔

بہادر شاہ ظفر نے جلاوطنی میں جو غزلیں لکھیں۔ ان میں استعاراتی اندازاور کنایوں کی شکل میں اپنی دلی کیفیتوں کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ یہ شعر ان کے ذہنی کرب احساس اور بے بسی کا شاہد ہے۔

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یا ر میں

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
عالمی ادب کی اصطلاح نے کچھ عرصہ پہلے ہی انگڑائی لی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے مختلف خطوں میں اِس کی آواز گونجنے لگی۔ ادب دنیا میں کہیں بھی تخلیق ہو رہا ہو، وہ عالمی ادب ہی ہے۔ایک عرصہ تک تو مغربی ادب کے شہ پاروں کو ہی محض عالمی ادب سمجھا جاتا تھا مگر عوام کی رسائی جوں جوں باقی دنیا کے ادب تک ہو رہی ہے، عالمی ادب میں مشرق اور دیگر خطوں کے ادب کا حصہ بھی بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔
 
ظہیرالدین بابر سے بہادرشاہ ظفر تک پہنچتے پہنچتے ہندُستان میں مسلمانوں کی حکومت کا وہی حال ہوا جو سرسید نے اپنے ایک مضمون ’’رسم و رواج ‘‘ میں بتایاتھاکہ قومیں ایک عرصہ تک عروج پر رہتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ مائل بہ زوال ہوجاتی ہیں اور سبب زوال کا نئے حالات میں نئی باتیں سوچنے سے گریزکرنا اور تعمیرو ترقی کے نئے کاموں سے احترازبرتناہے۔۔
 
صرف پکے اور منجھے ہوئے شاعر ہی نہیں کبھی کبھی بلکہ اکثر۔۔۔ نوآموز شعرا ء کا اصلاح طلب کلام بھی بہت خوبصورت ،خیال کی ندرت اور فکر کی گہرائی لیے ہوتاہے۔مجھے حیرت اِس بات پر ہوتی ہے ایسی دور کی کوڑی وہ لے کیسے آتے ہیں اورایسی کڑی دقتِ نظرکے وہ متحمل کیسے ہوپاتے ہیں؟شاید چیزوں کو ایک نئے اینگل سے دیکھ کر اخذکردہ نتائج دنیا تک پہنچانے کا طوفانی جذبہ اُن کی آتشِ شوق کو بھڑکاکر شعلہ ٔ جو ّالہ بنادیتا ہے۔۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
صرف پکے اور منجھے ہوئے شاعر ہی نہیں کبھی کبھی بلکہ اکثر۔۔۔ نوآموز شعرا ء کا اصلاح طلب کلام بھی بہت خوبصورت ،خیال کی ندرت اور فکر کی گہرائی لیے ہوتاہے۔مجھے حیرت اِس بات پر ہوتی ہے ایسی دور کی کوڑی وہ لے کیسے آتے ہیں اورایسی کڑی دقتِ نظرکے وہ متحمل کیسے ہوپاتے ہیں؟شاید چیزوں کو ایک نئے اینگل سے دیکھ کر اخذکردہ نتائج دنیا تک پہنچانے کا طوفانی جذبہ اُن کی آتشِ شوق کو بھڑکاکر شعلہ ٔ جو ّالہ بنادیتا ہے۔۔
شکیل صاحب یہ ذہن میں خیال آتا کہاں سے ہے؟
 
سدا خوش رہیں محترم الف نظامی صاحب!
میں تو اِسے مشاہدے کا رہین ِ منت کہوں گا ، جس سے فکروخیال کو حرکت ملتی ہے اور وہ کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔۔۔

غالب کا شعر دہرانے کی ضرورت نہیں:
آتے ہیں غیب سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوائے سروش ہے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
زبان و بیان کی غلطیاں نہ ہوں تو اکثر نوآموز شاعروں کا کلام ،میں تو کہوں گا پھڑکتے ہوئے نغمے سے کم نہیں ہوتا۔۔
راحتیں نصیب ہوں شکیل بھائی آپکو پروردگار کا کرم ہو آپ پر ، آمین
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔
اس کا مصدر (Spaw) ہے، جس کے معنی ہیں کرکے دکھانا، یہ ادب کی اس صنف کا نام ہے جس کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے واقعات محض بیان کئے جانے کی بجائے کرکے دکھائے جا سکیں۔ ڈرامہ میں شاعر کو جو قصہ بیان کرنا ہوتا ہے، اسے چند اشخاص کی گفتگو کے پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان اشخاص کا بھیس بدل کر ان کی گفتگو اور ان کے کاموں کو دہرائیں تاکہ دیکھنے والوں کو سارا ماجرا آنکھوں کے سامنے گذرتا نظر آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ بہت دل پذیر اور موثر ہے اور ادب کے کسی اور شعبے کو یہ بات نصیب نہیں ہو سکتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
دو بنیادی عناصر سے مرکب ہے ڈرامہ ۔۔۔جو مساوی اہمیت رکھتے ہیں
(۱) قصہ ۔
(۲) اشخاص۔
ڈرامہ کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے واقعات بہت موثّر اور جاذب نظر ہوں، ہر چیز کرکے دکھائی جا سکے۔ کوئی جزو ایسا نہ ہو کہ مصنف کو الفاظ میں سمجھانے یا بیان کرنے کی ضرورت ہو۔ قصے کے کچھ اجزاء خصوصاً ایسے قصے جن کے دیکھنے سے کراہت ہو عمل کے ذریعہ سے نہ دکھائے جائیں بلکہ اشخاص کی گفتگو میں ان کا ذکر آئے تو کوئی حرج نہیں، لیکن ایسے حصے ڈرامے میں جتنے کم ہوں اچھا ہے، کیونکہ جب کوئی ناٹک تھیٹر میں دکھایا جاتا ہے تو دیکھنے والے سارے قصہ کو آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا بیان کانوں سے سن کر انھیں اطمینان نہیں ہوتا۔
 

سیما علی

لائبریرین

خون سفید ہوتا ہے اور ایک وہ جس پر چل کر بال تو ہم نے بال سفید ہونے والے راستے کو ترجیح دی۔ یہ الفاظ ہیں انور مقصود صاحب کے۔۔​

جب ان سے سوال کیا کہ آپ کے خاندان کے لوگوں کے بال سفید کیوں ہیں تو میں نے جواب دیا کہ ’جب ہم پاکستان آئے تھے تو ہمارے سامنے دو راستے تھے، ایک وہ جس سے خون سفید ہوتا ہے اور ایک وہ جس پر چل کر بال تو ہم نے بال سفید ہونے والے راستے کو ترجیح دی۔۔​

 
Top