احتجاج ریکارڈ کروائیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زیک

مسافر
عمران خان سے توشہ خانہ کے سبھی تحائف سمیٹ لینے کی توقع نہ تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس میں شاید کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی تو اُن کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہوتی۔
بدطینت امریکا کا قانون:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عمران خان سے توشہ خانہ کے سبھی تحائف سمیٹ لینے کی توقع نہ تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس میں شاید کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی تو اُن کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہوتی۔
قانون کی خلاف ورزی نہ بھی ہو لیکن آدمی اپنے آپ کو بہت کم تر ضرور ثابت کر دیتا ہے
 
توشہ خانہ سے سرکاری حکام کے لیے رعایتی نرخ تحائف لینے کی سہولت کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی اہلکار دیے گئے تحفے کو بطور سوینئر ذاتی ملکیت میں لینا چاہے تو لے کر رکھ لے. اس کے لیے بھی قانون کے مطابق 30 ہزار مالیت تک کا تحفہ بلا قیمت رکھا جا سکتا ہے، اس سے زائد مالیت کے تحائف کو تخمینہ لگائی گئی قدر کا پچاس فیصد دےکر ہی لیا جا سکتا ہے ... غیر ملکی تحائف لے کر انہیں منافع پر بیچنا بہر حال ایک انتہائی نیچ اور قابل مذمت حرکت ہے، اس صورت میں بھی جب کہ وہ توشہ خانے سے قواعد کے مطابق حاصل کیے گئے ہوں. خان صاحب نے تو بے شرمی کی حد ہی پار کردی. جن تحائف کا کیبنٹ ڈویژن نے تخمینہ 14 کروڑ لگایا تھا، ان کو محض دو کروڑ جمع کرا کے ہڑپ کر لیا گیا .... اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ خان صاحب کے پاس یہ دو کروڑ بھی کہاں سے آئے؟؟؟ وزیر اعظم کی تنخواہ کے علاوہ ان کا اور کیا ذریعہ آمدن ہے؟؟؟؟
 
عمران خان سے توشہ خانہ کے سبھی تحائف سمیٹ لینے کی توقع نہ تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس میں شاید کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی تو اُن کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہوتی۔
وقار بھائی، قانون کی ہی تو صریح خلاف ورزی ہوئی ہے.
توشہ خانہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کی مالیت کا دو الگ الگ پینلز سے تخمینہ لگوایا جاتا ہے جس میں سے جو تخمینہ زیادہ ہو اس کا پچاس فیصد (منفی 30 ہزار چھوٹ) جمع کروا کر ہی تحائف لیے جا سکتے ہیں ...
خان صاحب نےجو تحائف قبضے میں لیے ان کی مالیت کا تخمینہ 14 کروڑ لگایا گیا تھا، جس کے عوض خان صاحب نے محض 2 کروڑ ہی جمع کروائے ... جبکہ ان کو لگ بھگ 7 کروڑ جمع کروانے چاہیے تھے.
اس صریح بددیانتی کو کرپشن نہ سمجھنا یا تو حد سے زیادہ سادہ لوحی ہو سکتی ہے یا پھر وہ کیفیت جس کےتذکرے سےقبلہ وارث بھائی نے منع فرمایا ہے :)
 

علی وقار

محفلین
وقار بھائی، قانون کی ہی تو صریح خلاف ورزی ہوئی ہے.
توشہ خانہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کی مالیت کا دو الگ الگ پینلز سے تخمینہ لگوایا جاتا ہے جس میں سے جو تخمینہ زیادہ ہو اس کا پچاس فیصد (منفی 30 ہزار چھوٹ) جمع کروا کر ہی تحائف لیے جا سکتے ہیں ...
خان صاحب نےجو تحائف قبضے میں لیے ان کی مالیت کا تخمینہ 14 کروڑ لگایا گیا تھا، جس کے عوض خان صاحب نے محض 2 کروڑ ہی جمع کروائے ... جبکہ ان کو لگ بھگ 7 کروڑ جمع کروانے چاہیے تھے.
اس صریح بددیانتی کو کرپشن نہ سمجھنا یا تو حد سے زیادہ سادہ لوحی ہو سکتی ہے یا پھر وہ کیفیت جس کےتذکرے سےقبلہ وارث بھائی نے منع فرمایا ہے :)
مجھے خان صاحب سے یہ توقع نہیں تھی کہ سبھی تحائف سمیٹ لیں گے :) اور بڑے تحفے کو ٹھکانے بھی لگا دیں گے۔ :) مگر جہاں تک تحفے پچاس فیصد جمع کروا کر ذاتی ملکیت میں رکھنے کا قاعدہ قانون ہے تو اس کی خلاف ورزی بظاہر نہیں ہوئی ہے کیونکہ جب انہوں نے گھڑی، ہار والا تحفہ لیا تھا، جو سب سے قیمتی تھی، تب شرح بیس فیصد تھی جسے ادا کر کے وہ تحفہ رکھ سکتے تھے۔ اور اسے بعد میں خان صاحب کے دور میں بڑھا کر پچاس فیصد کر دیا گیا۔ تاہم، اس پر انکوائری بنتی ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے کہ جن سے یہ تحائف خریدے جاتے۔ مزید یہ کہ کیا انہوں نے ٹیکس ریٹرنز میں انہیں ظاہر کیا تھا، وغیرہ وغیرہ۔
 

زیک

مسافر
مجھے خان صاحب سے یہ توقع نہیں تھی کہ سبھی تحائف سمیٹ لیں گے :) اور بڑے تحفے کو ٹھکانے بھی لگا دیں گے۔ :) مگر جہاں تک تحفے پچاس فیصد جمع کروا کر ذاتی ملکیت میں رکھنے کا قاعدہ قانون ہے تو اس کی خلاف ورزی بظاہر نہیں ہوئی ہے کیونکہ جب انہوں نے گھڑی، ہار والا تحفہ لیا تھا، جو سب سے قیمتی تھی، تب شرح بیس فیصد تھی جسے ادا کر کے وہ تحفہ رکھ سکتے تھے۔ اور اسے بعد میں خان صاحب کے دور میں بڑھا کر پچاس فیصد کر دیا گیا۔ تاہم، اس پر انکوائری بنتی ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے کہ جن سے یہ تحائف خریدے جاتے۔ مزید یہ کہ کیا انہوں نے ٹیکس ریٹرنز میں انہیں ظاہر کیا تھا، وغیرہ وغیرہ۔
 

علی وقار

محفلین
یہ رپورٹ میں نے دیکھی ہے اور اس میں شاید صرف بشریٰ بی بی کا معاملہ مشکوک ہے۔
 

زیک

مسافر
یہ رپورٹ میں نے دیکھی ہے اور اس میں شاید صرف بشریٰ بی بی کا معاملہ مشکوک ہے۔
قانونی طور پر عمران خان کے تحائف خریدنے کا معاملہ ٹھیک ہی لگتا ہے۔ بشری بی بی کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے لیکوڈ اثاثے ان تحائف کے لئے ادا کی گئی رقوم کے مقابلے میں اتنے زیادہ نہیں۔ لہذا یہ سوچنا ہو گا کہ یہ پیسے کہاں سے ادا کئے گئے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹ پاکستان کے علاوہ اکثر ممالک میں یہ تحائف سرکاری ہی سمجھے جاتے ہیں۔
 
یہاں پر گوگی نامی خاتون کے بارے میں کچھ تفصیلات موجود ہیں۔
میرے خیال میں شاید یہ فرح خان کا اچھا یا برا نام رکھا گیا ہے۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کہ فرح خان المعروف گوگی باجی، گوگی آپا کون ہیں؟
یہ ان کا نک نیم ہے۔ خاندان، حلقہ احباب و سرکاری دفاتر میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ جیسے سابقہ خاتون اول ’پنکی‘ یا ’پنکی پیرنی‘ کے نام سے جانی جاتی رہی ہیں۔
 
عمران خان سے توشہ خانہ کے سبھی تحائف سمیٹ لینے کی توقع نہ تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس میں شاید کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی تو اُن کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہوتی۔
عمران خان نے توشہ خانے کے تحائف کو خرید لیا تھا پھر بعد میں بیچا تھا۔ یہ ہی سُنا ہے
 
توشہ خانے کو ہر سیاستدان نے اپنی مرضی سے برتا لیکن کبھی کبھار ایسے لوگوں کو جاننے کا موقع ملتا ہے کہ بے اختیار علامہ کے شعر کا یہ مصرع دماغ میں گھوم جاتا ہے
"ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی"
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ سید منور حسن مرحوم جو کہ جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ان کی بیٹی فاطمہ کی شادی کے موقع پر ملک کی اہم شخصیات نے شرکت کی اور بچی کو بلامبالغہ لاکھوں کے تحائف ملے، جن میں سونے کے زیورات بھی شامل تھے۔
تقریب کے اختتام پر رخصتی سے پہلے بیٹی سے کہا:
"بیٹی ایک اہم بات کہوں گا غور سے سننا۔
یہ جو اتنے تحائف ملے ہیں یہ فاطمہ بنت منور حسن کو اُس کی اپنی وجہ سے ملے ہیں یا منور حسن کی وجہ سے ملے ہیں؟
سید زادی بات کی گہرائی سمجھ گئی۔جواب دیا کہ آپ کی وجہ سے۔
پوچھا!
یہ تمام تحائف منور حسن کی بیٹی کو دیئے گئے ہیں یا امیر جماعت اسلامی کی بیٹی کو؟
کہا کہ امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے۔
فرمایا، بیٹا پھر یہ تحائف بھی جماعت کا اثاثہ ہیں۔ ہمارا ان تحائف پر کوئی حق نہیں۔ سید زادی نے جھکی نظروں کے ساتھ سبھی تحائف بابا کی جھولی میں ڈال دیے۔ جنہیں جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا گیا۔
اللہ پاک ایسے ایماندار اور سمجھ دار لوگوں کو پاکستان کا حاکم بنائے آمین
 
توشہ خانہ سے سرکاری حکام کے لیے رعایتی نرخ تحائف لینے کی سہولت کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی اہلکار دیے گئے تحفے کو بطور سوینئر ذاتی ملکیت میں لینا چاہے تو لے کر رکھ لے. اس کے لیے بھی قانون کے مطابق 30 ہزار مالیت تک کا تحفہ بلا قیمت رکھا جا سکتا ہے، اس سے زائد مالیت کے تحائف کو تخمینہ لگائی گئی قدر کا پچاس فیصد دےکر ہی لیا جا سکتا ہے ... غیر ملکی تحائف لے کر انہیں منافع پر بیچنا بہر حال ایک انتہائی نیچ اور قابل مذمت حرکت ہے، اس صورت میں بھی جب کہ وہ توشہ خانے سے قواعد کے مطابق حاصل کیے گئے ہوں. خان صاحب نے تو بے شرمی کی حد ہی پار کردی. جن تحائف کا کیبنٹ ڈویژن نے تخمینہ 14 کروڑ لگایا تھا، ان کو محض دو کروڑ جمع کرا کے ہڑپ کر لیا گیا .... اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ خان صاحب کے پاس یہ دو کروڑ بھی کہاں سے آئے؟؟؟ وزیر اعظم کی تنخواہ کے علاوہ ان کا اور کیا ذریعہ آمدن ہے؟؟؟؟
محمد احسن صاحب جتنا کُریدیں گے اُٰتنا کِرکِرا ہوگا۔
سب پاکستان کے حکمرانوں میں عمران خان صاحب پھر بھی بہتر ہیں ۔
 
محمد احسن صاحب جتنا کُریدیں گے اُٰتنا کِرکِرا ہوگا۔
سب پاکستان کے حکمرانوں میں عمران خان صاحب پھر بھی بہتر ہیں ۔
مجھے کارکردگی کے کوئی پانچ کلیدی اشاریے ایسے گنوا دیں جن کی بنیاد پر موصوف کو سب سے بہتر قرار دیا جاتا ہے؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top