انٹر نیٹ سے چنیدہ

رباب واسطی

محفلین
کچھ دوائیں فارمیسی سے نہیں ملتیں
وہ دوائیں جو
کسی کے قُرب میں
کسی کے لمّس میں
کسی کا کندھا میّسر ہونے میں
کسی کی آغوش میں
کسی کے پہلو میں سمٹ جانے میں
کسی کی باہوں میں چُھپ جانے میں
کسی کے چند میٹھے جملوں میں
کسی کی آنکھوں کی محبت بھری چمک میں تو کسی کے دستِ شفقت میں
کسی کی پوروں سے اشک چُننے میں تو کبھی کسی کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں میں مل جاتی ہیں
مگریہ سب دوائیں فارمیسی سے نہیں ملتیں
 

سیما علی

لائبریرین
فرعون کی بیوی نے خود کو تب بدلا جب خدائی کا دعوی' کرنے والے کے محل میں تھی اور نوح کے بیٹے نے اس وقت بھی خود کو بدلنے سے انکار کردیا جب وہ ایک نبی کے گھر میں تھا ۔
"ہدایت " اللہ رب العالمین نے اپنے اختیار میں رکھی ہے
جب ہدایت رب سے ملتی ہے تو دل خود بخود سکون حاصل کرلیتا ہے ۔ ہدایت سُننے میں لفظ بہت چھوٹا ہے لیکن معنی بہت بڑے رکھتا ہے یہ اُسی انسان کو ملتی ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسے پانے کی کوشش کرتا ہے جو پا لیتا ہے وہ غنی ہو جاتا ہے.اسے اللہ کی محبت اور اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے اس لئیے کُچھ اور مانگیں یا نہ مانگیں ہدایت ضرور مانگا کریں یہ بھی صرف اُنہیں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں رب العالمین اپنا محبوب بندہ بنانا چاہتاہے .
کوئی بھی اپنا محبوب کسی کو نہیں دیتا۔ لیکن قربان جائیں اللہ رب العالمین پر اپنا پیارا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہم گناہ گاروں کو عطا فرمایا۔ جس نبی کے امتی ہونے کی دعا نبیوں نے کی تھی ہم اس نبی کے امتی ہیں ۔
ہم اس نبی کے امتی ہونے کا کتنا حق ادا کر رہے ہیں ۔ اپنا محاسبہ کریں ۔ کیا ہم روز محشر انکی شفاعت کے حقدار ہیں ؟؟؟
اب بھی وقت ہے، شعبان چل رہا ہے رمضان المبارک قریب ہیں عہد کریں اللہ کے احکامات اور اس کے محبوب کی سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑیں گے !!

اے ہمارے پاک پروردگار
ہم گناہگار ہیں،خطاکار ہیں لیکن تیرے کرم کے طلب گار ہیں ہمیں بھی ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما ۔ ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اے مہربان رب ہمیں موت دینے سے پہلے موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما روز محشر ہمارے آقا کی شفاعت نصیب فرما۔ اے اللہ ہماری مغفرت فرما ۔ رب ذوالجلال والاکرام-! ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ہمیں صراط مستقیم پر گامزن فرما
**** آمی۔۔۔ن ثمہ آمین یا رب العالمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
فرعون کی بیوی نے خود کو تب بدلا جب خدائی کا دعوی' کرنے والے کے محل میں تھی اور نوح کے بیٹے نے اس وقت بھی خود کو بدلنے سے انکار کردیا جب وہ ایک نبی کے گھر میں تھا ۔
"ہدایت " اللہ رب العالمین نے اپنے اختیار میں رکھی ہے
جب ہدایت رب سے ملتی ہے تو دل خود بخود سکون حاصل کرلیتا ہے ۔ ہدایت سُننے میں لفظ بہت چھوٹا ہے لیکن معنی بہت بڑے رکھتا ہے یہ اُسی انسان کو ملتی ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسے پانے کی کوشش کرتا ہے جو پا لیتا ہے وہ غنی ہو جاتا ہے.اسے اللہ کی محبت اور اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے اس لئیے کُچھ اور مانگیں یا نہ مانگیں ہدایت ضرور مانگا کریں یہ بھی صرف اُنہیں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں رب العالمین اپنا محبوب بندہ بنانا چاہتاہے .
کوئی بھی اپنا محبوب کسی کو نہیں دیتا۔ لیکن قربان جائیں اللہ رب العالمین پر اپنا پیارا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہم گناہ گاروں کو عطا فرمایا۔ جس نبی کے امتی ہونے کی دعا نبیوں نے کی تھی ہم اس نبی کے امتی ہیں ۔
ہم اس نبی کے امتی ہونے کا کتنا حق ادا کر رہے ہیں ۔ اپنا محاسبہ کریں ۔ کیا ہم روز محشر انکی شفاعت کے حقدار ہیں ؟؟؟
اب بھی وقت ہے، شعبان چل رہا ہے رمضان المبارک قریب ہیں عہد کریں اللہ کے احکامات اور اس کے محبوب کی سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑیں گے !!

اے ہمارے پاک پروردگار
ہم گناہگار ہیں،خطاکار ہیں لیکن تیرے کرم کے طلب گار ہیں ہمیں بھی ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما ۔ ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اے مہربان رب ہمیں موت دینے سے پہلے موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما روز محشر ہمارے آقا کی شفاعت نصیب فرما۔ اے اللہ ہماری مغفرت فرما ۔ رب ذوالجلال والاکرام-! ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ہمیں صراط مستقیم پر گامزن فرما
**** آمی۔۔۔ن ثمہ آمین یا رب العالمین
آمین ثم آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جس طرح بیٹیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ "بیٹی! اگر کبھی خاوند جھڑک بھی دے تو چپ کر جانا، اپنا گھر نہ خراب کر بیٹھنا" اسی طرح بیٹوں کو بھی سکھایا جائے کہ "بیٹا! تمہاری بیوی اپنے والدین کے جگر کا ٹکڑا ہے جنہوں نے تم پر اعتبار کر کے تمہارے حوالے کیا ہے۔ اگر کبھی اس کی بات اچھی نہ لگے تو صبر کر لینا، اسے پریشان مت کرنا"
 

سیما علی

لائبریرین
بیٹا! تمہاری بیوی اپنے والدین کے جگر کا ٹکڑا ہے جنہوں نے تم پر اعتبار کر کے تمہارے حوالے کیا ہے۔ اگر کبھی اس کی بات اچھی نہ لگے تو صبر کر لینا، اسے پریشان مت کرنا"
سلامت رہیے !!!شاد و آباد رہیے
اسی سوچ کی ضرورت ہے بھیا!!!!!
آج ہی صبح ہم حدیث ہم پڑھ رہے تھے جسکا مفہوم ہے کہ شیطان ہمیشہ اُس سے بہت خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی میں بدگمانی پیدا کرتا ہے !!!اور الثر لوگ غیر محسوس طریقے سے یہ کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سلامت رہیے !!!شاد و آباد رہیے
اسی سوچ کی ضرورت ہے بھیا!!!!!
آج ہی صبح ہم حدیث ہم پڑھ رہے تھے جسکا مفہوم ہے کہ شیطان ہمیشہ اُس سے بہت خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی میں بدگمانی پیدا کرتا ہے !!!اور الثر لوگ غیر محسوس طریقے سے یہ کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔۔۔
بالکل۔۔۔ حالانکہ میاں بیوی کے درمیان فتنہ فساد پورے معاشرے کے شدید نقصان کا باعث بنتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ایک یونیورسٹی میں ریسرچ ہو رہی تھی کہ "مرد کو دوسری شادی کی خواہش کب تک رہتی ہے"
پروفیسر صاحب نے کہا 60 سال سے نیچے والوں سے پوچھنا وقت کا زیاں ہے۔ ایسا کریں 60 سال سے اوپر والے مردوں سے پوچھیں۔
چناچہ طالبعلم ایک 60 سالہ بزرگ نظام چاچا سے سوال کیا تو بزرگ نے کہا کیا تمہارے پاس کوئی رشتہ ہے۔ طلبا جان گئے
پھر طلبا نے ایک 70 سال کے بزرگ چراغ دین سے پوچھا اس نے کچھ ایسا ہی جواب دیا۔ ایسے ہی ایک 80 سالہ بزرگ سے پوچھا تو بھی ایسا ہی جواب ملا۔
اس کے بعد ایک 90 سالہ بزرگ حاجی خان سے سوال کیا تو بزرگ بولے آہستہ بات کرو تمہاری چاچی کے کان بہت باریک ہیں فورا سن لے گی۔ یعنی جواب ہاں میں تھا۔

اب طلباء علاقے کے سب سے بڈھے کھوسٹ نیکو بابا کے پاس گئے جن کے ہاتھ اور سر رعشہ سے کانپ رہے تھے۔ ان سے سوال کیا کہ مرد کو دوسری شادی کی خواہش کب تک رہتی ہے۔ تو بابا جی کے ہاتھوں اور سر کی حرکت ایک دم رک گئی اور فرمایا ، "میرا خیال ہے قُل تک تو رہتی ہے۔۔"
🥸🥸🥸🥸🥸
 

سیما علی

لائبریرین
محبت کے لفظ پر غور کیا ہے کبھی؟

محبت کے م کا مطلب ہے “محرم”
ح کا مطلب ہے “حلال”
ب کا مطلب ہے “برکت”
اور ت کا مطلب “تحفظ”
جب انسان اپنے محرم رشتے سے محبت کرتا ہے تو وہ محبت اس کے لیے حلال ہوتی ہے اور اس رشتے میں برکت اور تحفظ ہوتا ہے
میرے نزدیک محبت کا مطلب یہ ہے
لیکن آج کل کی محبت میں محرم سے زیادہ نامحرم کو ترجیح دی جاتی ہے جس سے ح سے جسے حلال ہونا تھا وہ محبت ہم پر حرام ہو جاتی
جس محرم محبت پر اللّہ نے رشتے میں برکت ڈالنی تھی وہاں صرف بغاوت جنم لیتی ہے
اور رشتے کا تحفظ “تہمت” کے زیر اثر چکنا چور ہو جاتا ہے
لوگ کہتے ہیں محبت میں سب کچھ جائز ہے غلط کہتے ہیں محبت میں صرف “پاکیزگی” جائز ہے!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میں عموما فیس بک پر اپنی اصل تصویر نہیں لگتا کیونکہ ایک دفعہ لگائی تھی بلاک کے تناسب میں 500% اضافہ ہوگیا تھا ۔
ایک محترمہ سے 2 ماہ سے انبکس انبکس ہو رہا تھا ۔
وہ بهت خواہش مند تھیں مجھے دیکھنے کیلئے۔
شرط یہ طے پائی کہ پہلے میں تصویر دکھاوں گا پھر وہ۔
میں نے بهت دفعہ سمجھایا کہ تصویر دیکھنے کے بعد آپ کا انسانیت سے اعتبار اٹھ جائے گا۔
مگر نہ مانی۔
خیر جب اس نے میری تصویر دیکھی تو میری تعریفوں کے پل باندھ دئیے تم ایسے خود کو چھپاتے ہو اتنا پیارے ہو وغیرہ وغیرہِ۔
میں نے جا کر شیشہ دیکھا اور اس کی تصویر دیکھے بغیر اسےفورا بلاک کر دیا۔
کہ جس کیلئے خوبصورتی کا معیار میں ہوں وہ خود کیسی ہوگی۔ 😐😑
 

سیما علی

لائبریرین
ٹین ڈبے والا

میں لاہور میں سعودی عرب کے تعلیمی اتاشی کے سامنے بیٹھا تھا، میرے کاغذات اور جدہ یونیورسٹی کا ویزا اسکے ہاتھ میں تھا- وہ کافی دیر تک کاغذات کو دیکھتا رہا پھر بولا لیکن میں اس ویزے کو نہیں مانتا- میں نے پوچھا وجہ؟ اس نے کہا تعلیم تو ٹھیک ہے مگر تمھارا تجربہ انڈسٹری کا ہے تدریس کا تجربہ تو صفر ہے، جسکو پڑھانے کا کوئی تجربہ ہی نہ ہو وہ کیا پڑھائے گا- میں نے کہا سر لیکن جدہ میں رئیس القسم نے میرا ٹیسٹ اور پڑھائی کا طریقہ دیکھ کر میری سفارش کی ، پھر میرا ڈین سے انٹرویو ہوا اسکے بعد یہ ویزا دیا گیا ہے- اسکےہونٹوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی بولا ضروری نہیں کہ اگر انھوں نے غلطی کی ہو تو میں بھی غلطی کروں- میں نے کہا سر یہ ویزا وائس چانسلر نے جاری کیا ہے جسکی پوسٹ وزیر کے برابر ہوتی ہے، وہ پھر مسکرایا اور بولا اور مجھکو ایسے 15 وزیروں کے کاموں کو چیک کرنے کے لیئے بٹھایا گیا ہے اگرآپ چاہیں تو میں آپ کے کاغذات پر لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آپ کو ویزا نہیں دیا جاسکتا۔ میں نے اس سے مزید حجت کی تو اس نے کہا جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے - میرے ذہن میں اپنی پرانی کمپنی کے
مسٹر فریڈرک کیسے کے الفاظ گونجے " مسٹر رضوان ۔۔ تم نوکری چھوڑ کر بڑی غلطی کررہے ہو، میں نے ان لوگوں کے ساتھ 20 سال کام کیا ہے، انکا ہر وعدہ غلط ہوتا ہے" اور میں نے غصہ میں جواب دیا تھا " یہ لوگ ہمارے لئیے بڑے مقدس ہیں تم انکی توہین کررہے ہو، اس نے کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا ایک وقت آئے گا تم میرے الفاظ کو یاد کروگے- شاید وہ وقت آگیا تھا- پھر اس کے بعد میں نے دو اور چکر لگائے ہوائی جہاز سے اور ہر بار اتاشی کا وہی جواب تھا " کہ جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے" میرے لئیے یہ بڑا سخت وقت تھا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔ دو مہینے بےروزگاری کے ہوچکے تھےمیں سخت ٹینشن میں بیٹھا تھا کہ بیل بجی دروازے پر ٹین ڈبےوالا تھا، کوئی ستر سال کا ہوگا بالکل ہڈیوں کا ڈھانچا، میلا کچیلا پیوند لگے کپڑے، پسینے میں نہایا ہوا- کہنے لگا صاحب دس سال ہوگئے ہیں ان گلیوں میں چکر لگاتے آج پہلی بار کسی کے گھر کی بیل بجائی ہے میں نے حیرت سے کہا ہاں ۔۔ بولو، کہنے لگا یہاں نہیں وہاں نیم کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھ کر آرام سے بات کرنی ہے- میں تذبذب کے عالم میں اس کے ساتھ چل پڑا- کہنے لگا صاحب میری اکلوتی بچی کی شادی ہونے والی ہے شادی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے مگر میرے پاس ایک پیسہ نہیں ہے آج کل کام بھی بہت مندا ہےکئی لوگوں سے ادھار مانگا سب نے منع کردیا، کل رات بہت دیر تک مسجد میں رویااور دعا مانگی تو رات میں خواب میں آپ کی گلی اور گھر نظر آیا اور آواز آئی ان سے جا کر مانگ لے اس لئیے صرف آپکا دروازہ کھٹکھایا ہے- مجھے اس کی کہانی پر یقین نہیں آیا اور ہنسی بھی آئی کہ لوگ کیسی کیسی چار سو بیسی کرنے لگے ہیں- میں نےازراہ مذاق پوچھا کتنے پیسے کی ضرورت ہے بولا صاحب سادگی سے رخصتی کرنی ہے، زیور تو میں اپنے بیوی کا چڑھا دوں گا، مگر پانچ چھ جوڑے اور شادی کا کھانا تو کرنا ہوگا، کوئی تیس ہزار کا خرچہ ہوگا-
میں نے سوچا 50000 تو آج کل صرف دلہن کے بیوٹی پارلرمیں ہی خرچ ہوجاتے ہیں- یہ رقم میرے لئیے بہت معمولی تھی اگر میں باہر کام کررہا ہوتا، مگر اب اس بے روزگاری میں یہ میرے لئیے بہت بڑی رقم تھی- میں خاموش سا ہوگیا وہ بولا صاحب آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں اور میرے محلے والوں سے پوچھ لیں یہ جھوٹی کہانی نہیں ہے، میں غریب ضرور ہوں مگر ایماندار ہوں قسطوں میں آپ کی رقم لوٹا دوں گا۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر بےچارگی اور لجاجت- وہ پھر بولا میں کبھی بیل نہ بجاتا اگر یہ خواب نہ دیکھتا۔ میں عجیب شش و پنج میں تھا پھر مجھے یاد آیا کہیں پڑھا تھا کہ جب تنگی ہو تو خدا سے تجارت کیا کرو وہ کبھی نا امید نہیں کرتا۔۔۔ تیس ہزار دینے کا مطلب یہ تھا کہ اب واپسی کی کوئی امید نہیں – خیر میں گیا اور تیس ہزار اس کے ہاتھ میں رکھ دئیے- اس نے میرے ہاتھ چوم لئیے اور رونے لگا۔۔۔
کوئی پندرہ دن بعد پھر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے غصہ سے پوچھا اب کیا مسئلہ ہے کیا پھر کوئی خواب دیکھا ہے بولا ہاں مگر آپ کو کیسے پتہ چلا ؟ میں نے جنجھلا کر کہا ظاہر ہےپہلے خواب دیکھا تھا تو بیل بجائی اب پھر خواب دیکھا ہوگا جو بیل بجائی ہے- جلدی بتاؤ مجھے بہت کام ہیں- کہنےلگا صاحب کل عشاء کی نماز پڑھ کر بڑی دعا کی کہ مولا قرض تو دلا دیا ہے اب ادائیگی میں بھی مدد کردے اور سوگیا تو پھر آپ کا گھر نظر آیا آواز آئی کہ تیرا قرض ادا کردیا گیا ہے جاکر بتادے کہ اسکا بھی کام کردیا گیا ہے- میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا- میں نے کہا ٹھیک ہے جاؤ میں نے تم سے کون سا قرض وصول کرنا تھا- لیکن کمرہ میں آکر میں کافی دیر تک سوچتا رہا پھر والدہ سےمشورہ کیا تو وہ بولی تم کل ہی لاہور جاؤ ہوسکتا ہے قدرت کوئی راستہ نکالے میں نے تنک کر کہا تین بار تو جا چکا ہوں وہ تو بس ایک ہی بات کہتا ہے" جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے" اب تو اس کو میرا چہرا بھی زبانی یاد ہوگیا ہوگا- والدہ نے کہا میں پیسے دیتی ہوں تم اللہ کا نام لے کر جاؤ تو سہی، کچھ لوگ خدا کےبہت قریب ہوتے ہیں یہ بات عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔
خیر میں اگلےدن لاہور پہنچا موسلا دھار بارش ہورہی تھی، ڈرتے ڈرتے اتاشی کے کمرہ میں داخل ہوا دیکھا کرسی پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہے، میں نے کہا یہاں تو ایک اور صاحب ہوتے تھے بولا ہاں انکو ایک ہفتہ ہوا واپس وزارت خارجہ میں بلا لیا گیا ہے اور میں نے چارج سنبھال لیا ہے- میں نے کاغذات اسکو دیئے بولا آپ بہت لیٹ آئے اب تو یونیورسٹی کھلنے میں چند دن رہ گئےہیں- پھر اس نے سکریٹری کو بلایا کہا کہ پرسوں سےیونیورسٹی شروع ہورہی ہے یہ پہلے ہی لیٹ ہوچکے ہیں فورا ٹکٹ بناؤ پاسپورٹ پر ویزا لگاؤ اورسالانہ ھاؤس رینٹ، ایک ماہ کی سلیری کا چیک بنا کر لے آؤ، اور سنو چائے بھجوادینا- میں ایک لمحہ کے لئیے گم سم سا ہوگیا، قدرت اس طرح بھی مہرباں ہوسکتی ہے ؟، پرانے اتاشی کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہےتھے- اوپر والے نے اس مغرور شخص کی کرسی چھین لی تھی کیا صرف میرا کام کروانے کے لئیے؟ پھر موسم پر میں نے گفتگو شروع کی بتایا کہ بہت موسلادھار بارش ہورہی تھی بڑی مشکل ہوئی آنے میں تو اس نے بڑی شائستہ اردو میں جواب دیا کہ آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں ہم تو ایسے موسم کو ترستے ہیں، مجھ پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے اس کی اردو سن کر- میرا حیران چہرہ دیکھ کر وہ ہنسا بولا میں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی ہے پاکستانی ایک ذہین ، محنتی اور بڑی مہمان نوازقوم ہے میں ان سے محبت کرتا ہوں خاص طور پر استادوں سے۔۔۔ چائے ختم ہوگئی تھی، پاسپورٹ، ٹکٹ اور چیک میرے ہاتھ میں تھا۔۔۔ مجھے ٹین ڈبے والے کے خواب کےالفاظ یاد آئے کہ تمھارا قرض ادا کردیا گیا ہے- لیکن ایسی ادائیگی کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا-“
پروردگار آپکی نیکی کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
😇😇😇😇😇
 

سیما علی

لائبریرین
ایک کپ کافی

اشفاق احمد کہتے ہیں کہ :
ہم اٹلی کے شہر وینس کے ایک نواحی قصبے کے مشہور کافی شاپ پر بیٹھے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے
کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا کر بیٹھ گیا۔
اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دی اور اپنا آرڈر اس طرح دیا ’’
دو کپ کافی لاؤ اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر‘‘۔
ہم نے اس شخص کے اس انوکھے آرڈر کو دلچسپی سے سنا۔
بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دی۔
اُس نے کافی کا وہ کپ پیا ………..
مگر پیسے دو کے ادا کیے۔ اس گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورق چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو گاہک اور آئے جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر، انہوں نے دو ہی کپ پیئے مگر تین کپ کی ادائیگی کی اور چلتے بنے۔
ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے وہی کیا، دیوار پر ایک اور ورق چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔ ایسا لگتا تھا یہاں ایسا ہونا معمول ہے مگر ہمارے لیے یہ سب کچھ انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔
کچھ دیر بعد ایک شخص اندر داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا
اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛
’’ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ‘‘۔
بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیے چلتا بنا۔ ….
ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے …
کہ بیرے نے دیوار پر لگے……
پرچوں میں سے ایک پرچہ اتار کر کونٹرکے اندر رکھ دیا. …..
اب ہمارے لیے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا،
ہمیں سارے معاملے کا پتا چل گیا تھا۔
اس قصبے کے باسیوں کی اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے تر کر دیا تھا اور ہم سوچنے لگے کہ کیا ہمارے پیارے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ:
ایک بار لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں ایک بھارتی گلوکار نے کنسرٹ کیا۔رقص و موسیقی کی محفل میں پاکستان کے نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ مہمانوں کی تواضع ہر قسم کے مشروبات سے کی گئی جبکہ پاکستانی فلمی اداکاراوُں نے رقص کر کے بھارتی گلوکار کا ساتھ دیا اور دیکھنے والوں سے خوب داد وصول کی۔اس تقریب میں پاکستان کے نامی گرامی سیاستدان، اداکار، دانشور اور بڑی بڑی شخصیات مدعو سکیورٹی کا سخت انتظام تھا، مشہور فلسفی اشفاق احمد صاحب کو بھی دعوت نامی بھیجا گیا۔

اشفاق صاحب جب قذافی سٹیڈیم پہنچے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ دعوت نامہ ساتھ لانا بھول گئے ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی کے عملہ سے کہا کہ وہ دعوت نامہ لانا بھول گئے ہیں انہیں اندر آنے دیا جائے۔ سکیورٹی والوں نے انہیں اندر آنے نہ دیا۔ انہوں نے بہت کہا کہ وہ ملک کی مشہور شخصیت ہین مگر سکیورٹی والوں نے نہ صرف انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا بلکہ دھکے مار کر وہاں سے ہٹا دیا اور کہا کہ بابا جی یہاں ہر کوئی مشہور بنا پھرتا ہے۔ جاوُ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ تنگ نہ کرو۔ بقول اشفاق صاحب مجھے بہت دکھ ہوا کہ ایسا میرے ساتھ کیوں ہوا؟ کیا میری اتنی بھی اوقات نہیں تھی کہ مجھے ایک کارڈ کے بغیر پہچان لیا جاتا؟۔ میں بے عزتی کے احساس کی وجہ سے پوری رات سو نہیں پایا۔

صبح اٹھ کر جب اخبار دیکھا تو اخبار بھرا پڑا تھا گزشتہ رات کی تقریب کی خبروں سے سرخی تھی کہ ۔بھارتی گلوکار کارگل میں بھارتی فتح کا جشن منا کر چلا گیا، بیوقوف پاکستانی شراب کے نشے میں دھت ڈھول کی تھاپ پر بھارتی فتح کا جشن مناتے رہے۔ بھارتی گلوکار نے جان بوجھ کر اسی تاریخ کو شو کیا جب پاکستان نے کارگل سے فوج واپس بلائی تھی اور بھارت نے فتح کا اعلان کیا تھا۔ ۔ افسوس ناک بات یہ کہ پوری رات پاکستان کی خواتین بھی ناچتی رہیں اور پاکستان کو رسوا کرتی رہیں۔ تقریب میں شامل ہونے والی تمام شخصیات کے ناموں کے ساتھ تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ اور آخری لائن یہ تھی کہ اس تقریب میں اشفاق احمد بھی مدعو تھے مگر وہ اس ذلت آمیز تقریب میں شامل نہیں ہوئے۔ یہ خبر پڑھ کر میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے ایسی جگہ سے دھکے مار کر نکلوا دیا جہاں میرا ملک بدنام ہو رہا تھا۔ اللہ نے مجھے ایک گناہ سے بچا لیا۔ اور میں اسکے اس احسان کا شکر ادا کرنے کی بجائے ساری رات غمگین رہا۔ جس بات کو میں اپنی بےعزتی سمجھ رہا تھا اس میں تو میری عزت تھی۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے رسوا کرے۔ اللہ سے بدگمان نہ ہونا۔ وہ سب جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے.۔۔
بے شک ایسا ہی ہے !!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق - لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے ۔ انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضورﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔

رمضان میں پورا مدینہ اشیائے خورونوش لے کر مسجد نبوی ﷺ حاضر ہو جاتا ہے - دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبوی ﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضور ﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں ۔ مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں -

میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا:
’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘

میرے منجمد وجود میں ایک نیلگوں شعلہ سا لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا کہ یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔

وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے "باب جبرائیل" - آپ ﷺ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے - افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھا پیالہ اس دستر خوان پر چن دیا جاتا -

سیدنا حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
’’عائشہ باہر دیکھئے باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں‘‘

آپؓ اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں:
"یا رسول اللہ ﷺ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔‘‘

آپﷺ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے -

میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں میرے حضور ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔

میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا،
"آج بھی رمضان ہے، ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضور ﷺ حضرت عائشہؓ سے پوچھیں:
’’ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں‘‘

اور ام المومنین عرض کریں گی:

’’یا رسول اللہﷺ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں‘ یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہﷺ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے‘‘ -

اور

پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو !!!!
 

سیما علی

لائبریرین
پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو !!!!
بالکل ایسا ہی ہے اُس در پر سارا کا سارا وجود آنکھیں ہی بن جاتا ہے اور سارے اعضاء آنسو ۔۔۔۔اے مالک ہمارے یہ آنسو جو ذکر پڑھ کے نکلتے ہیں انھیں اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرما شاید یہی آنسو ہمارے باعثِ بخشش بن جائیں !!!
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلِّمْ
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بالکل ایسا ہی ہے اُس در پر سارا کا سارا وجود آنکھیں ہی بن جاتا ہے اور سارے اعضاء آنسو ۔۔۔۔آئے مالک ہمارے یہ آنسو جو ذکر پڑھ کے نکلتے ہیں انھیں اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرما شاید یہی آنسو ہمارے باعثِ بخشش بن جائیں !!!
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلِّمْ
آمین۔۔
 

سید عمران

محفلین
اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔
۔
* پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔

* دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔

* تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا

* چوتھا دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

* پانچواں دروازہ کثرتِ نفلی عبادت ہے۔ جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے

٭ چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے

٭ ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔ ایسے رشتہ داروں سے بھی ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں۔

٭ آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔ غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے

٭ نوواں دروازہ اللہ پر توکل ہے۔ جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا

٭دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے۔ انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا

٭ گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے

٭بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا

٭ تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے۔ جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے تو اس کے رزق میں کمی نہیں ہوتی

٭چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندگستی کو دور بھگاتی ہے

٭ پندرہواں دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے

٭ سولواں دروازہ ہے اللہ سے دعا مانگنا۔ جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے اللہ اس کو بہت دیتا ہے.
 

سید عمران

محفلین
ہم تو لٹیرے ہیں

سوڈان کے ایک شخص نے ایک مضمون لکھا جس میں اس نے اپنے ساتھ پیش آنے والے دو دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔

پہلا واقعہ:
مجھے آیرلینڈ میں میڈیکل کا امتحان دینا تھا. امتحان فیس 309 ڈالر تھی۔ میرے پاس کھلی رقم (ریزگاری) نہیں تھی، اس لیے میں نے 310 ڈالر ادا کر دیے۔ اہم بات یہ کہ میں امتحان میں بیٹھا، امتحان بھی دے دیا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد سوڈان واپس آ گیا۔ ایک دن اچانک آئرلینڈ سے میرے پاس ایک خط آیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ "آپ نے امتحان کی فیس ادا کرتے وقت غلطی سے 309 کی جگہ 310 ڈالر جمع کر دیے تھے۔ ایک ڈالر کا چیک آپ کو بھیجا جارہا ہے، کیوں کہ ہم اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتے"
حالانکہ یہ بات وہ بھی جانتے تھے کہ لفافے اور ٹکٹ پر ایک ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہوں گے!!

دوسرا واقعہ:
میں کالج اور اپنی رہائش کے درمیان جس راستے سے میں گزرتا تھا، اس راستے میں ایک عورت کی دوکان تھی جس سے میں 18 پینس میں کاکاو کا ایک ڈبہ خریدتا تھا۔
ایک دن دیکھا کہ اس نے اسی کاکاو کا ایک ڈبہ اور رکھ رکھا ہے جس پر قیمت 20 پینس لکھی ہوئی ہے۔
مجھے حیرت ہوئی اور اس سے پوچھا کہ کیا دونوں ڈبوں کی نوعیت (کوالٹی) میں کچھ فرق ہے کیا؟
اس نے کہا : نہیں، دونوں کی کوالٹی یکساں ہے۔
میں نے پوچھا کہ پھر قیمت کا یہ فرق کیوں؟
اس نے جواب دیا کہ نائجیریا، جہاں سے یہ کاکاو ہمارے ملک میں آتا ہے، اس کے ساتھ کچھ مسائل پیدا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے قیمت میں اچھال آگیا ہے۔ زیادہ قیمت والا مال نیا ہے، اسے ہم 20 کا بیچ رہے ہیں اور کم قیمت والا پہلے کا ہے، اسے ہم 18 کا پیچ رہے ہیں۔
میں نے کہا، پھر تو 18 والا ہی خریدیں گے جب تک یہ ختم نہ ہوجائے؟ 20 والا تو اس کے بعد ہی کوئی خریدے گا۔
اس نے کہا: ہاں، یہ مجھے معلوم ہے۔
میں نے مشورہ دیا کہ دونوں ڈبوں کو مکس کر دو اور 20 کا ہی بیچو ۔ کسی کے لیے قیمت کا یہ فرق جاننا مشکل ہوگا۔
اس نے میرے کان میں پھسپھساتے ہوئے کہا : کیا تم کوئی لٹیرے ہو
(are you a robber???)
مجھے اس کا یہ جواب عجیب لگا اور میں آگے بڑھ گیا۔
لیکن یہ سوال آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ کیا میں کوئی لٹیرا ہوں؟
یہ کون سا اخلاق ہے؟
دراصل یہ ہمارا اخلاق ہونا چاہیے تھا۔
یہ ہمارے دین کا اخلاق ہے ۔
یہ وہ اخلاق ہے جو ہمارے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا تھا، لیکن؟
ایمانداری سے بتائیں کیا ہم لٹیرے نہیں ہیں ؟
 
Top