تجلیات از حافظ مظہر الدین مظہر

الف نظامی

لائبریرین
عطائے خاص ہے یہ لذتِ گداز تری
بلائیں کیوں نہ لُوں عشقِ شہِ حجاز تری

عجیب شان ہے محبوبِ دل نواز تری
تمام خلقِ خدا ہے شہیدِ ناز تری

ہزار شکر غمِ دوجہاں ہوا معدوم
ہزار شکر ملی بارگاہِ ناز تری

زہے کہ نام بھی ہے تیرا انبساط آور
خوشا کہ یاد بھی ہے زمزمہ طراز تری

مدام محوِ درود و سلام رہ اے دل
یہی رکوع ترا ہے یہی نماز تری

اسی لئے تو گذرتی ہے بے نیازانہ
سنا ہے ہم نے کہ رحمت ہے کارساز تری

مقامِ عشق میں تفریقِ قرب و بعد کہاں
سرِ نیاز ہے اور جلوہ گاہِ ناز تری

حضور کا بھی کرم بے حساب ہے مظہر
حکایتِ غمِ دل ہے اگر دراز تری
 

الف نظامی

لائبریرین
وفورِ شوق میں ہر جذبہء دل میرے کام آیا
کبھی لب پہ درود آیا کبھی لب پر سلام آیا

جہاں بھی منزلِ غم میں کوئی مشکل مقام آیا
وہیں تسکین دینے میرے لب پر اُن کا نام آیا

ہوئی تقسیم جب صبحِ ازل کونین کی نعمت
میرے حصےمیں حبِ ساقیِ کوثر کا جام آیا

خرد اب بھی اسیرِ ظلمتِ اوہامِ باطل ہے
نظر ہم اہلِ دل کو جلوہ ء حسنِ تمام آیا

زہے طالع کہ یادِ مصطفےٰ میں آنکھ بھر آئے
خوشا قسمت کہ آنسو بن کے رحمت کا پیام آیا

تھم اے بے تابی ء شوقِ فراواں کچھ سنبھلنے دے
ٹھہر اے دل کہ وقتِ مدحتِ خیر الانام آیا

مدینے جا کے میری روحِ مضطر نے اماں پائی
جنوں کی راہ میں یوں تو حرم بھی اِک مقام آیا

مئے حبِ نبی سے مست جب میں حشر میں پہنچا
ہوا اک شور برپا! سرورِ دیں کا غلام آیا
 

الف نظامی

لائبریرین
مشہور شد بہ نعتِ محمد کلام ما
“ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما“

در خادمانِ سرورِ دین است نامِ ما
فرض است بر شہانِ زماں احترامِ ما

ائے نورِ حق ، تجلی ماہِ تمامِ ما
بنگر ہجومِ تیرگی صبح و شامِ ما

باد صباست قاصدِ رنگیں خرامِ ما
ہر لحظہ می برد بہ مدینہ سلامِ ما

ما زیں مقامِ عشق و محبت بہ حالتیم
شد در سگانِ آلِ محمد مقامِ ما

یک جلوہ زیبت تو بیت الحرام ہست
یک پر توِ تو ہستی ما و قیامِ ما

جز عشقِ نورِ ذات کسے نیست در جہاں
مقصودِ ما و منزلِ ما و امامِ ما

امروز روح حافظِ شیراز مست شد
امروز لذتے است عجب در کلامِ ما

مظہر سکوں طلب ز درِ سید الوجود
ایں است بابِ رحمت و باب السلامِ ما
 

الف نظامی

لائبریرین
دو جہاں فدا ترے نام پر ہے سکوں فزا ترا نام بھی
تری ذات پر ہو درود بھی تری ذات پر ہو سلام بھی

مجھے اپنی تابشیں کر عطا تو ہے میرا ماہِ تمام بھی
ہے لٹی لٹی مری صبح بھی ہے بجھی بجھی مری شام بھی

ہیں وہی فروغِ رخِ حرم ، ہے انہی کی ضو سے عرب و عجم
وہ عرب کے بدرِ منیر بھی ہیں عجم کے ماہِ تمام بھی

جہاں درد حد سے گذر گیا تری یاد وجہِ سکوں ہوئی
یہ کھلا کہ جانِ عزیز سے ہے قریب تیرا مقام بھی

ترا راز کیا کوئی پا سکے ترا جلوہ کیا نظر آسکے
کہ حریم ناز کی خلوتوں میں ہے تجھ کو اذنِ خرام بھی

ترا نُور، صبحِ ازل کی ضَو ، ترا نُور ، شامِ ابد کی لَو
ترا نُور ، جلوہء صبح بھی ، ترا نُور ، جلوہ شام بھی

جہاں عشق بھی ہے سجود میں ، جہاں حُسن بھی ہے نیاز میں
اُسی بارگاہِ جمال کا میں ہوں ایک ادنی غلام بھی
 

الف نظامی

لائبریرین
زندگی کا لطف جینے کا مزا بھی آگیا
دل جو ڈوبا لب پہ نامِ مصطفیٰ بھی آگیا

بے نوا بھی آگیا بے آسرا بھی آگیا
شہرِ یثرب میں مدینے کا گدا بھی آگیا

دل پریشاں تھا کہ میں پڑھنے لگا صلو علیہ
میری مشکل میں مرا مشکل کشا بھی آگیا

اے دلِ مضطر ٹھہر! اے حسرتِ دل سجدہ کر
لو مبارک ہو درِ خیر الوری بھی آگیا

جلوہء حق نے کیا آکر اجالا چار سو
جب بڑھی ظلمت تو پھر نورِ خدا بھی آگیا

شکرِ ایزد ہوگئی میری محبت بھی قبول
کام میرے تو دلِ درد آشنا بھی آگیا

رحمتِ کونین! اب تو ہے مرا آنکھوں میں دم
اب تو آجا اب تو پیغامِ قضا بھی آگیا

روح پرتسکین بن کر جب محمدﷺ چھا گئے
میری نصرت کے لیے میرا خدا بھی آگیا

اہلِ دل کی انجمن بے سوز رہ سکتی نہیں
نعت لے کرمظہرِ شعلہ نوا بھی آگیا
 

الف نظامی

لائبریرین
طلب بھی ان کے ہے انعام ، چاہ بھی ہے بہت
یہ اشک بھی ہیں غنیمت ، یہ آہ بھی ہے بہت

مقربین کا حصہ ہے منزلِ محبوب
مرے لیے تو مدینے کی راہ بھی ہے بہت

حضور ایک نظر ، اِک نگاہِ بندہ نواز
حضور ایک نظر ، اِک نگاہ بھی ہے بہت

یہ آرزوئے دیارِ حبیب صلِ علٰے
یہ آرزو ، یہ تمنا ، یہ چاہ بھی ہے بہت

بہت قریب تری ذات ہے رگِ جاں سے
قریب دل کے تری جلوہ گاہ بھی ہے بہت

جو اُن کی یاد میں ہو ، ہے قبول وہ نالہ
جو سوزِ دل کی امیں ہو وہ آہ بھی ہے بہت

ہے مقبلانِ مدینہ سے مجھ کو نسبتِ خاص
سگانِ در سے مری رسم و راہ بھی ہے بہت

فروغِ جلوہء رخ سے ہے مہر شرمندہ
خجل ضیائے محمد سے ماہ بھی ہے بہت

حضور آپ کا دیوانہ ، آپ کا مظہر
خراب حال بہت ہے ، تباہ بھی ہے بہت
 

الف نظامی

لائبریرین
بہ ناز آمدہ ، با نیاز آمدہ
محمد ہمہ دل نواز آمدہ


پئی بے کساں چارہ ساز آمدہ
شہنشاہِ بندہ نواز آمدہ


بہ باغِ جہاں سروِ ناز آمدہ
بہ موزوں قداں سرفراز آمدہ


عجب ساعتے جاں نوازے رسید
عجب ساعتِ جاں نواز آمدہ


تجلی بر ایوانِ کسریٰ فتاد
تجلی ءآہن گداز آمدہ


جنوں نعرہ زد ، عشق جامہ درید
نگارے بہ زلفِ دراز آمدہ


بہ شکلِ بشر صورتِ حق نمود
حقیقت بہ رنگِ مجاز آمدہ


کرم بیں! کہ در بزمِ شاہِ حجاز
غزل خوانِ شاہِ حجاز آمدہ
 

الف نظامی

لائبریرین
رخِ حیات کی تابندگی حضورﷺ سے ہے
حیات جلوہ در آغوش اُن کے نور سے ہے

یہ مہر و ماہ کی تابانیاں حضور سے ہیں
یہ مہر و ماہ کی تنویر اُن کے نُور سے ہے

ترے ظہور سے پھیلے ہیں سرمدی جلوے
تجلیات کا عالم ترے ظہور سے ہے

انہی کا لطف ، انہی کی نظر کا صدقہ ہے
یہ دل کی موج کہ موجِ مئے طہور سے ہے

ہمیں شہرِ مدینہ سے رنگ و نور ملے
ہمیں بھی نسبتِ یک ذرہ اُن کی طُور سے ہے

جہانِ عشق کی سرمستیاں اُسی کی ہیں
وہ بے نوا جسے وابستگی حضور ﷺ سے ہے

مرے خیال کا موضوع ہے جمالِ رسولﷺ
مری نوا کا اثر عالمِ سُرور سے ہے

نصیب ہوں مجھے انوار سبز گنبد کے
دُعا یہ نکلی مرے قلبِ ناصبور سے ہے

جہانِ آب و گِل و باد سے نہیں مظہر
یہ نغمہ سنج تو فردوس کے طیور سے ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے گنہگاروں پہ رحمت اُن کی
میرا حصہ ہے شفاعت اُن کی

جن لبوں پر ہے حکایت اُن کی
لذت اُن کی ہے، حلاوت اُن کی

جن کے مشتاق ہے نوح و آدم
شکرِ ایزد کہ ہوں اُمت اُن کی

بے خبر! عشق کی دنیا میں بھی آ
سُن کبھی مجھ سے حکایت اُن کی

قریہ قریہ ہے فسانہ اُن کا
عالم عالم ہے حکایت اُن کی

حق کا مفہوم ہے معنٰی اُن کا
حق کی تصویر ہے صورت اُن کی

وحی کیا چیز ہے ، قرآن کیا ہے؟
ذکر اُن کا ہے ، حکایت اُن کی

شہرِ محبوبؐ ہے جن کا مسکن
طاعت اُن کی ہے ، عبادت اُن کی

عرصہ ء حشر ہے کتنا رعنا
فوج در فوج ہے اُمت اُن کی

جن کی نظروں میں ہے روضے کا جمال
حجِ اکبر ہے زیارت اُن کی

جو ترے عشق میں جاں سے گذرے
کون سمجھے گا حقیقت اُن کی؟

تھا فقط ٹاٹ بچھونا اُن کا
اللہ اللہ یہ قناعت اُن کی

کیف ہی کیف ہے اُن کا جلوہ
نور ہی نور ہے طلعت اُن کی

مرحبا سیرت آلِ اطہار
پاک اوصاف ہے عترت اُن کی

لللہ الحمد کہ لحظہ لحظہ
یاد آتی ہے عنایت اُن کی

میں ہوں اور نعت کی رنگین فضا
لے اُڑی مجھ کو محبت اُن کی

جیسے رخشاں ہو ستاروں میں قمر
یوں ہے نبیوں میں نبوت اُن کی

صحنِ گلشن میں ہے اُن کی خوشبو
باغِ عالم میں ہے نکہت اُن کی

ہائے گلزاروں میں اُن کے انوار
ہائے پھولوں میں لطافت اُن کی

عالمِ قدس ہے اُن کا پردہ
بزمِ کونین ہے جلوت اُن کی

جو مرے شاہ کے در کے ہیں غلام
قاف تا قاف ہے شہرت اُن کی

نور برسے گا مری تربت پر
رنگ لائے گی محبت اُن کی

ایک مظہر پہ نہیں چشمِ کرم
دونوں عالم پہ ہے رحمت اُن کی
 

الف نظامی

لائبریرین
مدینے کی فضا ہے اور میں ہوں
جمالِ حق نما ہے اور میں ہوں

شہ دیں کی ثنا ہے اور میں ہوں
حقیقت جلوہ زا ہے اور میں ہوں

ہمہ نغمہ ، ہمہ مستی ، ہمہ سوز
مری رنگیں نوا ہے اور میں ہوں

برستے ہیں مری دنیا پہ انوار
عطائے مصطفٰے ہے اور میں ہوں

ہر اک مشکل ہوئی جاتی ہے آساں
مرا مشکل کُشا ہے اور میں ہوں

ہے دل مضطر ، نظر سوئے مدینہ
لبوں پر اک دعا ہے اور میں ہوں

شہنشاہِ دوعالم کی گلی میں
فقیرانہ صدا ہے اور میں ہوں

ہُوا ہوں باریابِ منزلِ شوق
کرم کی انتہا ہے اور میں ہوں

زباں خاموش ہے ، آنکھوں میں آنسو
محبت کی ادا ہے اور میں ہوں

مرا عالم ہے جذب و کیف و مستی
یہ نعتوں کا صلا ہے اور میں ہوں
 

الف نظامی

لائبریرین
تری نگاہ سے ذرے بھی مہر و ماہ بنے
گدائے بے سروساماں جہاں پناہ بنے

رہ مدینہ میں‌قدسی بھی ہیں جبیں فرسا
یہ آرزو ہے مری جاں بھی خاکِ راہ بنے

زمانہ وجد کُناں اب بھی اُن کے طوف میں ہے
جو کوہ و دشت کبھی تیری جلوہ گاہ بنے

حضور ہی کے کرم نے مجھے تسلی دی
حضور ہی مرے غم میں مری پناہ بنے

ترا غریب بھی شایانِ یک نوازش ہو
ترا فقیر بھی اک روز کجکلاہ بنے

جہاں جہاں سے وہ گذرے ، جہاں جہاں ٹھہرے
وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے

کریم! یہ بھی تری شانِ دلنوازی ہے
کہ ہجر میں مرے جذبات اشک و آہ بنے

وہ حسن دے جو تری طلعتوں کا مظہر ہو
وہ نور دے جو فروغِ دل و نگاہ بنے
 

الف نظامی

لائبریرین
مصحفِ روئے تو قرآنِ من است
ایں صحیفہ دین و ایمانِ من است

حجتے بر دین و ایمانِ من است
شکرِ حق در نعت دیوانِ من است

آتشِ عشقِ تو در جانِ من است
شعلہ در دامن نیستانِ من است

ایں عجب در عاشقی شانِ من است
پارہ پارہ جیب و دامانِ من است

قبلہ ء دل ، کعبہ ء جانِ من است
شہرِ محبوبی کہ ایمانِ من است

فقر تو سرمایہ ء جانِ من است
عظمتِ کونین قربانِ من است

اے سحابِ لطف! اے ابرِ کرم
بیں کہ تشنہ کِشتِ ویرانِ من است

کارواں در راہ و من در منزلے
ہر نشانِ جادہ اش جانِ من است

می نوازد ہر زمان با جلوہ
بندہ پرور شانِ سلطانِ من است

از فیوضِ نعتِ ختم المرسلیں
آسماں گرداں بر ایوانِ من است
 

الف نظامی

لائبریرین
مطلع الانوار
مدینے کی طرف جب میرا مستانہ سفر ہوگا
مری دنیا نئی ہوگی مرا عالم دگر ہوگا

فغاں مقبول ہوگی نالہ ممنونِ اثر ہوگا
مسافر ، موردِ الطافِ شاہ بحر و بر ہوگا

تعالی اللہ صحرائے مدینہ میں سفر ہوگا
جنوں آزادِ قید بندشِ دیوار و در ہوگا

جنوں ہی جادہ منزل جنوں ہی راہبر ہوگا
جنوں ہی نغمہ خواں ، افسانہ خواں ، شام و سحر ہوگا

زہے قسمت کہ سارا وقت مستی میں بسر ہوگا
جہانِ ہوش سے دیوانہ اُن کا بے خبر ہوگا

جہاں بھی ، جس جگہ بھی ، عشقِ خواجہ جلوہ گر ہوگا
وہاں سارا نظامِ آگہی زیر و زبر ہوگا

توقع ہے کہ دامن خون کے اشکوں سے تر ہوگا
توقع ہے کہ حالِ زار شایانِ نظر ہوگا

نظر کے سامنے جب روضہ خیر البشر ہوگا
بس اک آئینہ ہوگا اور آئینہ نگر ہوگا

رہے گی چپ زباں ، غم کا بیاں با چشمِ تر ہوگا
ملا اذنِ حضوری تو فسانہ مختصر ہوگا

شہنشاہوں سے رتبہ مجھ گدا کا بیش تر ہوگا
ہر اک اشکِ فروزاں غیرتِ لعل و گہر ہوگا

جمالِ مصطفےٰ تسکین دہِ قلب و نظر ہوگا
تجلی گاہ ، میرا چاکِ دل ، چاکِ جگر ہوگا

وہ عالم بھی عجب مسحور کن دیوانہ گر ہوگا
سرِ سودا زدہ ہوگا اور اُن کا سنگِ در ہوگا

جبیں پرنور ہوگی جلوہ معراجِ نظر ہوگا
کہ ہر سجدہ حریمِ ناز کی دہلیز پر ہوگا

دعائیں جتنی مانگی ہیں وہ خواجہ ﷺ کی نظر میں ہیں
مری جھولی میں اُن رنگیں دعاوں کا ثمر ہوگا

بہے ہیں اشک جتنے اضطرابِ شوق میں برسوں
اُن اشکوں کا فسانہ شاہ کے پیشِ نظر ہوگا

حضوری میں تو لب تک بھی نہ ہلنے پائیں گے مظہر
کرم خواجہ ﷺ کا ہوگا اور طلب سے بیش تر ہوگا​
 

الف نظامی

لائبریرین
معراج کی رات

جلوہ افروز ہے اک ماہِ مبیں آج کی رات
نور ہی نور ہے تا حدِ یقیں آج کی رات

حرمِ ناز میں پہنچے شہِ دیں آج کی رات
حرمِ ناز ہے کچھ اور حسیں آج کی رات

مرحبا صلِ علےٰ حسنِ محمد ﷺکے فیوض
جگمگاتی ہے دوعالم کی جبیں آج کی رات

عالمِ کیف میں ہیں عرشِ معلےٰ کے مکیں
عالمِ وجد میں ہے عرشِ بریں آج کی رات

قاب قوسین کی منزل تھی محمدﷺ کا مقام
رہ گیا سدرہ پہ جبریلِ امیں آج کی رات

عبد و معبود میں حائل کوئی پردہ نہ رہا
یعنی معبود ہے بندے کے قریں آج کی رات

جس حقیقت کی نہیں فلسفہ دانوں کو خبر
اُس سے آگاہ ہیں ، اربابِ یقیں آج کی رات

ہم گنہ گاروں کی سرکارﷺ نے بخشش چاہی
یاد سرکارﷺ کو آئے ہیں ہمیں آج کی رات

دھُل گئی میرے گناہوں کی سیاہی مظہر
کام آیا ہے مرا حسنِ یقیں آج کی رات​
 

الف نظامی

لائبریرین
عشق نبی ﷺ ہے راہبر عالمِ وجد و کیف میں
سوئے حجاز ہے سفر عالمِ وجد و کیف میں

ہیں دل و دیدہ و نظر عالم وجد و کیف میں
آج ہیں سارے ہمسفر عالمِ وجد و کیف میں

نورِ خدا ہے جلوہ گر عالمِ وجد و کیف میں
جلوے ہیں حاصلِ نظر عالمِ وجد و کیف میں

جب ملی اُن کی رہگذر عالمِ وجد و کیف میں
ہوگا سماں عجیب تر عالمِ وجد و کیف میں

اُن کے کرم پہ ہے نظر عالم وجد و کیف میں
ہے مری شام اور سحر عالمِ وجد و کیف میں

اب مرے دل کی دھڑکنیں ضامنِ عرضِ شوق ہیں
مجھ سے ہیں وہ قریب تر عالمِ وجد و کیف میں

ہے مری التجا یہی ہے مرا مدعا یہی
لوٹوں عرب کی خاک پر عالمِ وجد و کیف میں

حشر میں ہوگا نغمہ زا مظہرِ زمزمہ سرا
مجھ کو ملی ہے یہ خبر عالمِ وجد و کیف میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
میلاد رسول ﷺ
ساعتِ ذکرِ پاکِ رسول ﷺ آگئی سارے عالم پہ اک کیف چھانے لگا
مُطربانِ ازل زمزمہ سنج ہیں رُوحِ کونین کو وجد آنے لگا

اُن کی آمد کے پھر تذکرے چھڑ گئے ذکرِ میلاد پھر دل لُبھانے لگا
گلستاں گلستاں پھر بہار آگئی ، پھر چمن کا چمن مسکرانے لگا

سازِ فطرت سے نغمے ابلنے لگے ، دل کے جذبات شعروں میں ڈھلنے لگے
شاعرِ خوش نوا وجد میں جھوم کر روح پرور ترانے سنانے لگا

چار سُو عبرت انگیر تھا اک سماں ، ظلمتوں سے تھا معمور سارا جہاں
آفتابِ نبوت ہوا ضَوفشاں ، نورِ حق ہر طرف جگمگانے لگا

نقشِ بے رنگِ دنیا پہ رنگ آ گیا ، چار سُو ایک دل کش سماں چھا گیا
ایک امی لقب بن کے محبوبِ رب نعمتوں کے خزانے لٹانے لگا

آج پھر تیری آمت ہے خوار و زبُوں درد مندوں کی آنکھوں سے جاری ہے خُوں
میرے آقا ﷺ سفینہ ہے منجدھار میں ، میرے خواجہ ﷺ سفینہ ٹھکانے لگا

یاورِ بے کساں ! خلق کے راہبر ! ہم غلاموں پہ بھی لطف کی اِک نظر
تیرے قربان مایوسیاں بڑھ گئیں ، تیرے قرباں یقیں ڈگمگانے لگا

پھر ہمیں عظمتِ بوذری بخش دے ، شانِ فاروق و فقرِ علی بخش دے
پھر زمانے کے انداز ہیں خشمگیں ، پھر زمانہ ہمیں آزمانے لگا​
 

الف نظامی

لائبریرین
عاشقِ روئے جاں فزائے تو ایم
موردِ بخشش و عطائے تو ایم

پادشاہیم ، ما گدائے تو ایم
زانکہ پروردہ عطائے تو ایم

از ازل نامِ تست وردِ زباں
از ازل زمزمہ سرائے تو ایم

قبلہ شوق و کعبہ جانیم
خاک بوسانِ نقشِ پائے تو ایم

عشقِ تو لذتِ دگر بخشد
سوز در سینہ از ولائے تو ایم

عندلیباں بہ بوستاں شاداند
ما سرِ کوئے دل رُبائے تو ایم

ذوق و مستی عبارتے از ماست
یعنی یک طرفہ ماجرائے تو ایم

عشق را ہر زماں بوجد آریم
نامہ و قاصد و صبائے تو ایم

نے نیازم از غمِ کونین
ما کہ در سایہ لوائے تو ایم

نعمت تو دینِ ما ، وظیفہ ما
لللہ الحمد در ثنائے تو ایم

"لی مع اللہ" بہ شانِ خود گفتی
بے خبر از مقام و جائے تو ایم​
 
Top