ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی محتاط گفتگو طوسی کے لیے وبالِ جان بن گئی

ابو جعفر منصور کے درباریوں میں ایک صاحب جن کا نام ابوالعباس طوسی تھا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بہت بری رائے رکھتا تھا، امام صاحب کو اس کا علم بھی تھا، ایک روز جب خلیفہ منصور کا دربار لگا ہوا تھا تو اس نے سوچا کہ آج میں ابوحنیفہ کی جان لے سکتا ہوں تو امام صاحب کی طرف متوجہ ہوا اور بر سرِدر بار امام صاحب سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہا:
اے ابوحنیفہ! یہ بتائیے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ فلاں آدمی کی گردن ماردو اور معلوم نہ ہو کہ اس شخص کا قصور کیا ہے تو کیا ہمارے لیے اس کی گردن مارنی جائز ہوگی؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ابوالعباس سے جوابی سوال فرمایا کہ ابوالعباس! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ امیر المومنین صحیح حکم دیتے ہیں یا غلط؟
ابوالعباس طوسی نے کہا کہ ظاہر ہے حق کا حکم ہی دیتے ہیں۔ تب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: تو صحیح حکم کے نافذ کرنے میں تردکی گنجائش کیا ہے؟ طوسی امام صاحب سے یہ جواب پا کر کھسیانا ہو کر بے حد شرمندہ ہوا۔ پھر اپنے قریب بیٹھے شخص سے فرمایا کہ یہ مجھے باندھنا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے باندھ دیا۔ جس جال میں وہ امام صاحب کو پھنسانا چاہتا تھا اس میں وہ خود پھنس گیا۔
(تاریخِ بغداد،تحت:ما ذكر من وفور عقل أبي حنيفة وفطنته وتلطفه)
الجھا ہے پاؤں یا رکا زلفِ دراز میں
لوآپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اس واقعے میں امام اعظم کی حاضر دماغی تو خوب دکھائی گئی ہے لیکن اس سے ایک بڑا اشکال پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر اامام ابوحنیفہ، ابو جعفر المنصور کو امیر المومنین سمجھتے تھے اور اس کے ہر حکم کو صحیح سمجھتے تھے جو واجب التعمیل بھی تھا جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہےتو جب امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم نے المنصور کے خلاف بغاوت و خروج کیا تو منصور نے امام ابو حنیفہ سے ان کے خلاف فتویٰ دینے کو کہا جس کے انکار پر ان کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ اگر پہلا واقعہ اور اس میں استدلال درست ہے تو پھر اس انکار کی کیا توجیہہ ہو سکتی ہے؟

اب اللہ ہی جانے دونوں میں سے کونسا واقعہ سچا ہے یا دونوں ہی صحیح ہیں!
 

علی وقار

محفلین
اگر اامام ابوحنیفہ، ابو جعفر المنصور کو امیر المومنین سمجھتے تھے اور اس کے ہر حکم کو صحیح سمجھتے تھے

حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ابوالعاس سے برجستہ سوال فرمایا کہ ابوالعاس! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ امیر المومنین صحیح حکم دیتے ہیں یا غلط؟

بظاہر یہی لگتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے نہیں دی ہے بلکہ ابو العاس سے محتاط انداز میں اس کی رائے طلب کی ہے۔
 
اس واقعے میں امام اعظم کی حاضر دماغی تو خوب دکھائی گئی ہے لیکن اس سے ایک بڑا اشکال پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر اامام ابوحنیفہ، ابو جعفر المنصور کو امیر المومنین سمجھتے تھے اور اس کے ہر حکم کو صحیح سمجھتے تھے جو واجب التعمیل بھی تھا جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہےتو جب امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم نے المنصور کے خلاف بغاوت و خروج کیا تو منصور نے امام ابو حنیفہ سے ان کے خلاف فتویٰ دینے کو کہا جس کے انکار پر ان کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ اگر پہلا واقعہ اور اس میں استدلال درست ہے تو پھر اس انکار کی کیا توجیہہ ہو سکتی ہے؟

اب اللہ ہی جانے دونوں میں سے کونسا واقعہ سچا ہے یا دونوں ہی صحیح ہیں!
نہ ہی آپ نے کوئی حوالہ دیا نہ ہی انہوں نے کوئی حوالہ دیا ہے کِس کی بات کو صحیح مانیں
 

فاخر رضا

محفلین
یہ کوئی بات نہیں ہے. بس حاضر دماغی کا مظاہرہ ہے. عباسی خلیفوں کو خلیفہ کہنا اور وہ بھی واجب اطاعت.
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ ہی آپ نے کوئی حوالہ دیا نہ ہی انہوں نے کوئی حوالہ دیا ہے کِس کی بات کو صحیح مانیں
یہ کوئی مناظرہ تو نہیں ہے سر کہ بغیر حوالے کے آپ بات نہ مانیں۔ مت مانیے۔

ویسے اگر مطالعے کا شوق ہو تو کچھ تردد کریں اردو وکی پیڈیا پر ہی امام ابو حنیفہ یا ابو جعفر المنصور کے بارے میں کچھ پڑھ لیں، شاید کچھ دریچے وا ہو جائیں۔
 
آخری تدوین:
اس واقعے میں امام اعظم کی حاضر دماغی تو خوب دکھائی گئی ہے لیکن اس سے ایک بڑا اشکال پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر اامام ابوحنیفہ، ابو جعفر المنصور کو امیر المومنین سمجھتے تھے اور اس کے ہر حکم کو صحیح سمجھتے تھے جو واجب التعمیل بھی تھا جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہےتو جب امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم نے المنصور کے خلاف بغاوت و خروج کیا تو منصور نے امام ابو حنیفہ سے ان کے خلاف فتویٰ دینے کو کہا جس کے انکار پر ان کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ اگر پہلا واقعہ اور اس میں استدلال درست ہے تو پھر اس انکار کی کیا توجیہہ ہو سکتی ہے؟

اب اللہ ہی جانے دونوں میں سے کونسا واقعہ سچا ہے یا دونوں ہی صحیح ہیں!
صاحب تحریر نے واقعے کا ابتدائی جملہ "اليوم أقتل أبا حنيفة" حذف کردیا جس سے یہ اشکال پیدا ہوا۔ حقیقت میں یہ سازش تھی جسے صاحب تحریر نے آپ کی مقبولیت پر حسد کے ساتھ نتھی کرکے اور ہی رنگ دے دیا۔ امام کی منصور کے لیے مخالفت تو اظہر من الشمس ہے، یہ سازش اسی پس منظر میں معلوم ہوتی ہے کہ آپ منصور کے خلاف مزاج کچھ کہیں اور یار لوگوں کو موقع ملے۔
یہ تو واقعہ کی ذرا سی وضاحت تھی۔ اب یہ بات اللّٰہ ہی جانے کہ صاحب تحریر نے ابو العباس طوسی کو ابو العاس طوسی عجلت کی بنا پر لکھا ہے یا کسی اور وجہ سے۔
یہ واقعہ ابن جوزی نے الاذکیاء میں نقل کیا ہے
 
ابو جعفر منصور کے درباریوں میں ایک صاحب جن کا نام ابوالعباس طوسی تھا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بہت بری رائے رکھتا تھا، امام صاحب کو اس کا علم بھی تھا، ایک روز جب خلیفہ منصور کا دربار لگا ہوا تھا تو اس نے سوچا کہ آج میں ابوحنیفہ کی جان لے سکتا ہوں تو امام صاحب کی طرف متوجہ ہوا اور بر سرِدر بار امام صاحب سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہا:
اے ابوحنیفہ! یہ بتائیے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ فلاں آدمی کی گردن ماردو اور معلوم نہ ہو کہ اس شخص کا قصور کیا ہے تو کیا ہمارے لیے اس کی گردن مارنی جائز ہوگی؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ابوالعباس سے جوابی سوال فرمایا کہ ابوالعباس! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ امیر المومنین صحیح حکم دیتے ہیں یا غلط؟
ابوالعباس طوسی نے کہا کہ ظاہر ہے حق کا حکم ہی دیتے ہیں۔ تب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: تو صحیح حکم کے نافذ کرنے میں تردکی گنجائش کیا ہے؟ طوسی امام صاحب سے یہ جواب پا کر کھسیانا ہو کر بے حد شرمندہ ہوا۔ پھر اپنے قریب بیٹھے شخص سے فرمایا کہ یہ مجھے باندھنا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے باندھ دیا۔ جس جال میں وہ امام صاحب کو پھنسانا چاہتا تھا اس میں وہ خود پھنس گیا۔
(تاریخِ بغداد،تحت:ما ذكر من وفور عقل أبي حنيفة وفطنته وتلطفه)
الجھا ہے پاؤں یا رکا زلفِ دراز میں
لوآپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیسے ہیں سب؟
امید ہے بخیر وعافیت ہوں گے۔
بندہ کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ بات اتنی بڑھ جائے گی، بس ایک (عالم دین کی لکھی ہوئی) کتاب میں یہ واقعہ پڑھا اچھا لگا تو شیئر کردیا، کتاب میں بظاہر حوالے کے طور پر جو نام لکھا گیا تھا، اس کو بھی نقل کردیا، باقی رہی یہ بات کہ ابوالعباس کی بجائے ابوالعاس کیوں لکھا اس کی وجہ یہی ہے کہ کتاب ابوالعاس ہی لکھا ہوا تھا جو کہ شاید کتابت کی غلطی ہی ہوگی۔ اب تاریخ بغداد کے حوالے سے ساتھ تصحیح کرنے کی کسی حد تک کوشش کی ہے، احباب ملاحظہ فرمالیں اور آئندہ بھی امید رکھتا ہوں کہ بندہ کی کم علمی اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی جاتی رہے گی۔ آخر میں عرض یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آپ حضرات کو زحمت گوارا کرنا پڑی اس پر پہلے تو اپنے پروردگار سے اور پھر آپ تمام حضرات سے انتہائی معذرت خواہ ہوں۔
 
Top