ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ عمر صاحب آپ دوسروں کو اپریشیٹ (appreciate) بہت کم کرتے ہو اسی لیے شاید آج آپ تنہا کھڑے ہو اپنے مقام پر.. میں نے کہا ایسا باکل نہیں ہے بلکہ میں ہر اس شخص کو اپریشیٹ کرتا ہوں جو خود اپنے آپ کو اپنی ذات کو اپریشیٹ کرتا ہے. پوچھنے لگا کیسے؟
میں نے کہا اگر ایک شخص آپ کے سامنے اپنی ذات کو چھوڑ کر اپنی تخلیق کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی تعریف کرے گا دوسرے کی تخلیق کو سراہے گا تو آپ بھی سامنے والے کو چھوڑ کر دوسرے کی تعریف سے متاثر ہوں گے.
میں نے کہا ہم سب ناشکرے ہیں ہم اپنی ہی ذات کی تحقیر کرنے میں لگے رہتے ہیں.
جو لوگ خود اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسروں سے متاثر ہوں میں بھلا انکی کیا مدد کر سکتا ہوں کیسے انھیں اپریشیٹ کر سکتا ہوں..
میں نے پوچھا میں ایک ڈاکٹر کو جو ابھی ڈاکٹر بنا بھی نہیں ہوتا ابھی پہلے ہی سال کا سٹوڈنٹ ہوتا ہے اسکو ڈاکٹر صاحب کہہ کر کیوں پکارتا ہوں؟
کیوں
کیونکہ میں اسکو یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم ایک ڈاکٹر بننا چاہتے ہو تو تم آج سے ڈاکٹر بن گئے ہو، دراصل ہر شخص خود اپنے آپ کو اپنا نام اور القاب دیتا ہے کوئی دوسرا آپکو کوئی نام نہیں دے سکتا.
میں نے پھر کہا آج تم اور یہ لوگ کیسے جانتے ہیں کہ میرا نام "عمر شرجیل چوہدری" ہے اور تمہارا فلاں نام ہے؟ اس لیے کہ ہم نے ان کو خود بتایا ہے ہمیں اس نام سے پکارو اور وہ سب پکارتے ہیں.
آسان لفظوں میں بات یہ ہے اگر کوئی خود کو کاہل سست کہتا ہے تو پوری دنیا اسکو کاہل اور سست کہتی ہے اگر کوئی خود کو بدصورت کہتا ہے پوری دنیا اسے بدصورت ہی سمجھے گی چاہے وہ کیسا ہی خوبصورت ہو.

ہم سب اپنی پہچان خود بناتے ہیں خود دوسروں کو بتاتے ہیں اور خود اپنی عزت دوسروں سے کرواتے ہیں.
اگر ایک کمپنی اپنی تخلیق پہ اپنے نام کا لیبل نہ لگائے تو کیا ہم اس کمپنی کو جان پائیں گے نہیں ناں.
ہم سب خود پر بھی ایک لیبل لگاتے ہیں اور اس لیبل پر کیا لکھنا ہے اسکا فیصلہ بھی ہم خود ہی کرتے ہیں.

دیکھو انسان کیوں پیدا کیا گیا؟

ہمارے خالق نے ہمیں اس لیے تخلیق کیا کہ اسکو جانا جائے اسکو پہچانا جائے اور اس نے خود ہی اپنی پہچان ہمیں بتائی کہ وہ کون ہے. اس نے خود ہمیں اپنا نام بتایا کہ میں اللہ ہوں میں نے تم کو پیدا کیا اور یہ سارا جہان میں نے تخلیق کیا. دیکھو کیسی خوبصورت تخلیق ہے میری.. اسی نے بتایا یہ آسمان میں نے تخلیق کیا تم کو اس میں کوئی عیب دکھائی نہیں دے گا، بغیر ستون کے اسکو میں نے چھت بنایا. اور یہ کتاب قرآن پاک بھی میں نے نازل کیا ہے تم اس جیسی ایک سورت بھی نہیں بنا سکتے. یعنی اس نے خود ہمیں اپنی پہچان کروائی. اور اس نے خود کہا سارا سمندر اگر سیاہی ہو جائے اور اس جیسے سات اور سمندر بھی لے آؤ تو میری بڑائی بیان نہیں ہوسکتی.

در اصل آج کے انسان کا ایک المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر پر نظر رکھتا ہے۔ اور ہر پہر اس کی خبر رکھتا ہے۔ اور ہر کسی کو سراہتا ہے مگر اپنی تعریف بھول جاتا ہے. اور وہ اس دنیا سے علی الخصوص بے خبر ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عالمِ اکبر کہا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ'' اے انسان کیا تو اپنے آپ کو چھوٹا سا جرثومہ تصور کر رہا ہے ۔تیرا ظاہر تو عالمِ اصغر ہے اور تیرے اندر عالمِ اکبر چھپا ہے ''۔ اور اس عالمِ اکبر کو دیکھنے کے لئے انسان کو چشمِ دل سے خود کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو ہیچ اور کمتر سمجھنا چھوڑ دیں اور دوسروں کا احسان مند اور دستِ نگر بن کر رہنے کے بجائے اپنے اوپر بھروسہ کرنا سیکھیں۔ خود اپنی قوتوں، طاقتوں، حوصلوں، صلاحیتوں، ہمت، سوجھ بوجھ سے کام لیں۔
ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب کی فلسفہ خودی بھی اسی کی تشریح کرتی ہے. کیا ہی خوبصورت یہ بند ’’خودی کے متعلق علاّمہ اقبالؔ نے تحریر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، بارہ بھی تو، حاصل بھی تو
آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے؟
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ، طوفان سے کیا!
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی! کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو ، محفل بھی تو
اس نظم میں فرماتے ہیں کہ ترقی و کمال حکومت و ثروت پر موقوف نہیں۔ یہ وہ دولت ہے جو خدا نے ہر انسان کے سینے میں دی ہے۔ تو! جو شخص بھی محنت کرے گا اور اپنے ممکنات اور خوبی کو ابھارے گا اسے حاصل کرے گا۔
نہ صہبا ہوں، نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
اقبالؔ فرماتے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
ایسا نہیں ہے کہ علامہ اقبالؔ نے خود اپنے آپ کو نہیں ڈھونڈھا، اپنے اندر خودی پیدا نہیں کی۔ انہوں نے خود اس بات کی تاکید کی ہے کہ انہوں نے مدّتوں اقبالؔ کو اقبال سے ملانے کی کوشش کی۔
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں

اور پھر تیس بتیس برس کے بعد فاتحانہ انداز میں لکھتے ہیں کہ:
اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدّت کے بعد آخر وہ شاہیں زیردام آیا

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پہلے علاّمہ نے خود اپنے اندر خودی کو تلاش کیا اور جب پالیا تو پیغام دیا، فلسفۂ خودی کا۔

علامہ اقبال نے بھی خود اپنی پہچان کروائی، پہلے خود کو خودی سے متعارف کروایا پھر پوری دنیا کو بتایا ہاں میں اقبال ہوں اور یہ میری تصنیف ہے.
اگر اقبال اپنی تصنیف چھوڑ کر دوسروں کی پڑھتا اور دوسروں کی پہچان کرواتا رہتا خود سے آشنا ہو کر دنیا کو اپنا آپ نہ دکھاتا تو آج اقبال کو بھی کوئی نہیں جانتا ہوتا.

اور آخر میں اقبال کی ہی ایک اور نظم پیش خدمت ہے جس میں خودی کو کس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں.

دیوانہ و دلبستہ اقبال خودت باش
سرگرم خودت عاشق احوال خودت باش
اپنی خوشبختی و اقبالمندی کا عاشق ہو جا خودی کی تعمیر میں مصروف اوراپنے حال و احوال کا شیدائی ہو جا۔
یک لحظہ نخور حسرت آنرا کہ نداری
راضی بہ ھمین چند قلم مال خودت باش
اس چیز کا غم نہ کھا جسے تو تہی دامن ہے اسی تھوڑے پر ہی قانع رہ جو تیری ملکیت میں ہے۔
دنبال کسی باش کہ دنبال تو باشد
اینگونہ اگر نیست بہ دنبال خودت باش
اسی کا خیال رکھ جو تیرا خیال رکھتا ہو بصورتِ دیگر اپنے عزتِ نفس کے تحفظ کی خاطر اپنی ہی شخصیت کے تعاقب میں لگا رہ۔
پرواز قشنگ است ولی بی غم و محنت
منت نکش از غیر و پروبال خودت باش
بغیر غم و تکلیف کے پرواز اچھی چیزہے دوسروں کی احسان مندی سے خود کو بچا کر اپنے ہی بال و پر کے سہارے محوِ پرواز ہو جا.

خود اپنی ذات سے محبت کرنا سب سے بڑی اور اہم بات ہے، اپنے ہی حال سے راضی رہنا اہم ہے اور آج ہم کو یہ سننے کو ملتا ہے فلاں مجھ سے بہتر ہے فلاں کامیاب ہے فلاں امیر ہے فلاں نے بہت ترقی کی فلاں فلاں.. سب سے بہتر آپ کی اپنی ذات ہے اسی کو سنواریے، اپنے کم کو ہی زیادہ جانیے، اپنی عزت نفس کو ٹھیس مت لگنے دیں. دوسروں کی غلامی کی بجائے اپنے آپ میں اپنی فقیری میں ہی اپنی بادشاہی کو جانا جائے.
آپ جو ہیں خود سے ہیں دنیا آپکو کوئی بھی نام پہچان نہیں دینے والی، اس دنیا کو آپ کے ہونے اور نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق پڑتا ہے تو صرف آپکی اپنی ذات کو.
جون ایلیا صاحب کہتے ہیں
نہیں دنیا کو جب پرواہ ہماری
دنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم؟
لہذا یاد رکھیں آپ اپنی ذات کی پہچان خود ہیں اور آپ دوسروں کی بجائے اپنے آپ کو تشہیر کریں. اللہ آپ کو اور مجھے ہدایت عطا فرمائے. آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عمر بھائی میں آپ کی تحریر کا نتیجہ شاید سمجھ نہیں پایا۔ مجھے اس میں خودی اور خود ستائی گڈ مڈ ہوتی ہوئی نظر آئی
 
خود ستائی کو تو ہر مہذب اور با اخلاق شخص نے ہمیشہ بُرا گردانا ہے
جب کہ ہر کوئی جس نے خود کو متعارف کروایا خودستائی ہی کا استعمال کیا، اگر آپ خود کو برا بھلے کہیں گے تو کیا خیال ہے لوگ آپ کو اچھا سمجھیں گے نہی‍ں بھی آپکو برا ہی کہیں گے.. اگر آپ آج لوگوں کو اپنا نام عبدالرؤوف کی بجائے عبداللہ بتائیں گے تو آپ کو عبداللہ ہی پکارا جائے گا.. دوسری بات خودستائی سے پہلے خودی ضروری ہے کہ آپ کو پہلے خود معلوم ہو آپ کون ہیں یہ دنیا نہیں جانتی کہ عبدالرؤوف کون ہے اور نہ ہی کبھی کوئی جاننے کی کوشش کرے گا جبتک آپ خود نہیں اپنا آپ متعارف کرواؤ گے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرے خیال میں نہ تو صاحبِ کردار کا کردار چھپ سکتا ہے "بغیر تعریف کے بھی"۔ اور نہ ہی خود ستائی سے کوئی صاحبِ کردار بن سکتا ہے۔ تو پھر خود سرائی کی جگہ کہاں بچی؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ اپنی ذات کی پہچان خود ہیں اور آپ دوسروں کی بجائے اپنے آپ کو تشہیر کریں
اپنی ذات کی پہچان تک تو بات ٹھیک ہے مگر دوسروں کی بجائے اپنے آپ کو تشہیر کرنا؟
کیا اتنا کافی نہیں ہوتا کہ آپ بس اپنا کام دوسروں کے سامنے پیش کریں اور اگلا کام لوگوں کو کرنے دیں کہ ان کی آپ کے بارے پرکھ کیا کہتی ہے۔
خود ہی پرچہ ء امتحان دے کر خود ہی حل کرنا ہے اور اپنی مرضی کے درجات دینے ہیں تو باقی سب کس کام کے۔
"خودی" ضروری ہے لیکن "خود ستائی" کافی حد تک "خود نمائی" کے زمرے میں آتی ہے جب آپ خود ہی اپنی تشہیر کرنے لگو۔ یوں تو " تنقید" کا بھی کوئی وجود نہ رہے گا ۔ جبکہ تنقید مزید بہتری کی راہ پر ڈالتی ہے۔

نہیں؟؟؟
 
Top