انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
با ادب با نصیب۔۔۔
*وہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے ۔اکثر ایسا ہوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے ۔اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لیے؟ تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جس کا نام صدیق ہو ، عمر ہو ، عثمان ہو، علی ہو یا خدیجہ ،عائشہ اور فاطمہ ہو تو میں اس سے پیسے لوں۔ ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدین ، امہات المومنین اور بنات رسولﷺ کے ہم نام لوگوں سے پیسے نہ لیے ۔ یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔

*امام احمدبن حنبل نہر پر وضو فرما رہے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضوکرنے آن پہنچا، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضوکرے ۔

* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) انہوں نے کہا کہ بڑے تو رسول اللہ ہی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ہے۔

* حضرت مجدد الف ثانی رات کو سوتے ہوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہوں اور بیت الخلا جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے ۔

* ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ہے یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ اس ( دوست ) نے کہا عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ہے مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ہے، اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ،چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا ۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوئے اور انہی کی دعا کا صدقہ ہے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ہے۔

* والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہ کے زمانے سے چلا آر ہا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے حضرت عبد اللہ ابن عباس کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی خود ہی کسی کا م سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا ، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے۔ وہ صحابی شرمندہ ہوتے اور کہتے کہ آپ تورسول اللہ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں ، آپ کایہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔
کتنی ہی مدت ہمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ہے ) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمر ہ ہوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگر د خود چل کر وہا ں پڑھنے آتے جبکہ اب شاگر د کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ہے۔

* حضرت عمر کے بیٹے حضرت عبد اللہ ابن عمر جار ہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ہو جاتا آپ نے اسے اتناعطا کر دیا۔فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کااحترام نہ کروں۔

مسلما ن تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی احتیاط کی جاتی تھی۔وہا ں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ہی رہتا تھا۔ اسلامی تہذیب کمزور ہوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔ اب برابر ی کا ڈھنڈو را پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابرکھڑے ہوگئے اور شاگرداستاد کے برابر۔
اسلام اس مساوات کا ہر گز قائل نہیں کہ جس میں گھوڑا اورگدھا برابر ہو جائیں اور ابوبکر اور ابو جہل برابر۔ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ لاکھ زمانہ بدلے مگر ابو بکر، ابو بکر رہے گا اور ابو جہل، ابو جہل۔ گھوڑا، گھوڑ ا رہے گا اور گدھا، گدھا۔ اسی طرح استاد، استاد رہے گا اور شاگرد، شاگر د۔ والد، والد رہے گا اور بیٹا ، بیٹا۔سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ہے اُن کے اُن کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ہی تہذیب کا حسن ہے۔
 

سید عمران

محفلین
اورنگزیب عالمگیر اور کندن بہروپیا..
اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اس نے کہا :
'' میں کندن بہروپیا ہوں اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں آپ کو جو اپنے علم پر بڑا ناز ہے کو دھوکہ دے سکتا ہوں میں بھیس بدلونگا آپ پہچان کر دکھائیے - "*
عالمگیر نے کہا ! " منظور ہے "
اس نے کہا حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں - اگر تو آپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کے دینے دار ہوں –
لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلہ تو آپ سے پانچ سو روپیہ لونگا -شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے -ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگزیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچا اور مرہٹوں پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے کہ اس کی فوجیں وہ قلعہ توڑ نہ سکیں -لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش ولی الله رہتے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہوں
شہنشاہ پریشان تھا بیچارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس - سلام کیا اور کہا ؛''آپ ہماری مدد کریں میں کل اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں -* "
تو فقیر نے فرمایا ! " نہیں کل مت کریں ، پرسوں کریں اور پرسوں بعد نماز ظہر - "اورنگزیب نے کہا جی بہت اچھا ! چنانچہ اس نے بعد نماز ظہر جو حملہ کیا ایسا زور کا کیا اور ایسے جذبے سے کیا اور پیچھے فقیر کی دعا تھی ، اور ایسی دعا کہ قلعہ ٹوٹ گیا اور فتح ہو گئی - مفتوح جو تھے پاؤں پڑ گئے -بادشاہ سیدھا درویش کی خدمت میں حاضر ہوا - حضور یہ سب آپ ہی کی بدولت ہوا ہے –
اس فقیر نے کہا : " نہیں جو کچھ کیا الله ہی نے کیا "*
انھوں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں دو بڑے بڑے قصبے دیتا ہوں اور اور آئندہ پانچ سات پشتوں کے لئے ہر طرح کی معافی ہے -اس نے کہا :
" بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں - ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی - "*
اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا -ایک دن اورنگزیب اپنے تخت پر آ کر بیٹھا جب وہ ایک فرمان جاری کر رہا تھا عین اس وقت وہ فقیر آیا –
تو شہنشاہ نے کہا :
" حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا - "*
کندن نے کہا ! " نہیں شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو جناب عالی میں کندن بہروپیا ہوں - میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں - "*
اس نے کہا : " تم وہ ہو - ؟؟؟کندن نے کہا ہاں وہی ہوں - جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا -اورنگزیب نے کہا :" مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے - میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کے نام اتنی زمین کر دی جب میں نے آپ کی سات پشتوں کو یہ رعایت دی کہ اس میری ملکیت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں - آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا ؟ یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں - اس نے کہا
1f618.png
" حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا ، ان کی عزت مقصود تھی - وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں - یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں
(اشفاق احمد کے زاویہ سے اقتباس)
 

سید عمران

محفلین
علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے میں حج کے بعد مدینہ منورہ گیا ھم لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو لے کر ایک ڈھیر پر جھاڑ دیا تاکہ کہ روٹی کے ٹکڑوں اور ھڈیوں کو جانور کھائیں...
تھوڑی دیر کے بعد جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک خوبصورت نو دس سال کا بچہ ان ٹکڑوں کو چن چن کر کھا رہا ہے مجھے سخت افسوس ھوا... میں بچے کو لیکر قیام گاہ میں آیا. اور اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا کیونکہ میں ایسی ہستی کے شہر میں تھا جو غریبوں کا والی تھا.... میرے اس برتاؤ سے بچہ بے حد متاثر ھوا میں نے چلتے وقت اس سے پوچھا کہ بیٹے تمھارے والد کیا کام کرتے ہیں؟
اس نے کہا کہ میں یتیم ھوں.... میں نے کہا کہ بیٹا میرے ساتھ ھندوستان چلو گے؟ وہاں تم کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا... عمدہ عمدہ کپڑے پہناؤں گا.... اپنے مدرسے میں تعلیم دوں گا... جب تم عالم فاضل بن جاؤ گے تو میں خود تم کو یہاں لے کر آؤں گا اور تمھیں تمھاری والدہ کے سپرد کر دوں گا..... تم جاؤ اور اپنی والدہ سے اجازت لیکر آؤ.... لڑکا بہت خوش ھوا اور اچھلتا کودتا اپنی والدہ کے پاس واپس گیا.... وہ بیچاری بیوہ دوسرے بچوں کے اخراجات سے پریشان تھی اس نے فوراً ہی اجازت دے دی... بچہ فوراً واپس آ گیا اور مولانا صاحب کو بتایا کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا.... میری ماں نے اجازت دے دی ہے پھر پوچھنے لگا کہ وہاں چنے ملتے ہیں؟ مولانا عثمانی صاحب نے بتایا کہ یہ ساری چیزیں وافر مقدار میں ملتی ھیں....
مولانا صاحب کا بیان ھے کہ میری انگلی پکڑ ے پکڑ ے مسجد نبوی( والصلوۃ و والسلام )میں وہ میرے ساتھ آیا اور ٹھٹک کر رہ گیا.... سرکار دوعالم( صلی اللہ علیہ وسلم) کے روضہ مبارک کو دیکھا اور مسجد کے دروازے کو..... اور پوچھا.... بابا کیا... یہ دروازہ اور روضہ مبارک بھی وہاں ملے گا..... میں نے کہا کہ بیٹا اگر یہ وہاں مل جاتا تو میں یہاں کیوں آتا.... لڑکے کے چہرے کا رنگ بدل گیا.... میری انگلی چھوڑ دی اور بولا... بابا تم جاؤ.... اگر یہ نہیں ملے گا تو میں ہرگز ہرگز اس دروازے کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا... بھوکا رھوں گا.... پیاسا رھوں گا..... اس دروازے کو دیکھ کر میں اپنی بھوک پیاس بجھاتا رھوں گا.... جس طرح آج تک بجھاتا رھا ھوں.... یہ کہہ کر بچہ رونے لگا اور اس کے عشق کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ گیا....
 

سید عمران

محفلین
ڈرامہ نگار، دانشور اور طنزو مزاح نگار انور مقصود سے کسی نے پوچھا:
’’پاکستانی سیاستدانوں کو الیکشن میں کیسے چُنا جائے؟‘‘
انور مقصود نے بامعنی جواب دیا:
’’جیسے اکبر بادشاہ نے انارکلی کو ’’چنا‘‘ تھا--دیوار میں --‘‘
270d.png
ایک دفعہ مرزا غالب گلی میں بیٹھے آم کھا رہے تھے، ان کے پاس ان کا ایک دوست بھی بیٹھا تھا جو کہ آم نہیں کھاتا تھا۔ اسی وقت وہاں سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو غالب نے آم کے چھلکے گدھے کے آگے پھینک دئیے۔ گدھے نے چھلکوں کو سونگھا اور چلتا بنا تو غالب کے دوست نے سینہ پھلا کر کہا دیکھا مرزا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے تو مرزا نے بڑے اطمینان سے کہا کہ جی ہاں دیکھ رہا ہوں گدھے آم نہیں کھاتے۔
270d.png
ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں ۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا :
’’جون صاحب ! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ یہاں اہلِنظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
270d.png
جوش ملیح آبادی نے پنجابی زبان کی اکھڑ پن سے زچ ہو کر کنور مہندر سنگھ بیدی سے کہا: ’’کنور صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ دوزخ کی سرکاری زبان یہی آپ کی پنجابی ہوگی۔‘‘ کنور صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’تو پھر جوش صاحب! آپ کو ضرور سیکھ لینی چاہیے۔‘‘
270d.png
ایک مرتبہ حبیب جالب نے ناصر کاظمی سے کہا:
’’جب بھی آپ کی کوئی غزل کسی رسالے میں دیکھتا ہوں، دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے، کاش یہ غزل میرے نام سے چھپتی!‘‘
ناصر کاظمی نے شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر بعد حبیب جالب نے پوچھا: ’’میری غزل دیکھ کے آپ کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟‘‘
ناصر کاظمی نے کہا:
’’شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ غزل میرے نام سے نہیں چھپی۔‘‘
270d.png
ساحرلدھیانوی نے اپنی نظم ’’فن کار‘‘ کے ایک شعر میں عرصہ گاہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کسی نے اس لفظ پر اعتراض کیا تو ساحر نے ایک صاحب کی معرفت علامہ تاجور نجیب آبادی سے استفسار کیا۔
علامہ تاجور نے کہا:
’’اگر کسی دوست نے استعمال کیا ہے تو صحیح ہے، اگر کسی دشمن
نے لکھا ہے تو غلط ہے، میں دونوں طرح ثابت کر سکتا ہوں۔‘‘
270d.png
ایک اعلیٰ عہدے دار پطرس بخاری سے ملاقات کے لیے آئے، پطرس نے کہا: ’’تشریف رکھیے!‘‘
ان صاحب کو یوں محسوس ہوا کہ کچھ بے اعتنائی برتی جا رہی ہے، چنانچہ انہوں نے کہا: ’’مَیں محکمہ برقیات کا ڈائریکٹر ہوں۔‘‘
پطرس مسکرائے اور کہا: ’’پھر آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیے!!‘‘
270d.png
فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا: ’’اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟‘‘
مولانا نے بے ساختہ جواب دیا: ’’آفٹر نون۔‘‘
270d.png
علامہ اقبال کو ستار بجانے کا بہت شوق تھا۔ ایک صبح ستار بجانے میں محو تھے کہ سرذولفقار علی اور سردار جو گندر سنگھ تشریف لے آئے۔ ان کو ستار بجاتے دیکھ کر جوگندر سنگھ بولے:
’’ہر وقت ستار کو گود میں لیے بیٹھے رہتے ہو۔‘‘
علامہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’کیا کروں ”سِیکھنی“ جو ہوئی۔
 

سید عمران

محفلین
ﺳﯿﮑﻨﮉﺭﯼ ﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺳﮑﻮﻝ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺑﮯ ﺩﺭﺩﯼ ﺳﮯ ﺳﭙﺮﮮ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﺮﺍﻓﺎﺕ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺪﮮ ﻧﻘﺶ ﻭ ﻧﮕﺎﺭ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ‘
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﮑﻮﻝ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﯾﮧ ﭘﮩﻼ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﻮﺳﻨﺎﮎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﮭﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎ ﮐﭽﮫ ﺳﭩﺎﻑ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭼﻼﺋﯿﮟ ‘ ﺣﺎﺿﺮ ﻭ ﻏﺎﺋﺐ ﮐﺎ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﮔﭽﮫ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ‘
ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮں گا ، ﮐﻞ ﺁﭖ ﺳﮑﻮﻝ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮟ۔
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﻗﺼﮧ ﮐﮩﮧ ﮈﺍﻻ ‘ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻠﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﮩﺎ ‘ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﺩھیمے ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﯽ . ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﻧﮕﺴﺎﺯ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻼﯾﺎ، ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﺭﻧﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ‘ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ، ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭﺩﮬﯿﻤﯽ ﺳﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ ‘
ﺑﯿﭩﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺮ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﺗﻮ ﻧﺎ ﮐﺮﻭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺮ ﻧﯿﭽﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﺍﺿﺢ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﻧﻔﺴﯿﺎﺗﯽ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﯾﺴﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺗﻮ ﻣﺎﺭ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﭘﺎﺗﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ‘ ﺑﭽﮯ، ﺗﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﺑﮩﺖ ﺷﻔﯿﻖ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺳﺮﺯﻧﺶ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ، ﭘﮭﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ؟
ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺳﺮ، ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﺎ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺎﺵ ﻣﯿﺮﺍ ﻭﺍﻟﺪﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﺎ ﮐﮩﺘﺎ ‘ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯿﮑﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ‘ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻠﯽٰ ﮐﺎﺭﮐﺮﺩﮔﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﭖ ﮐﯿﺎ۔
ﺳﭻ ﮐﮩﺎ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﮧ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﻧﺎ ﮐﮧ ﮈﻧﮉﮮ ﺳﮯ ﯾﺎ ﮔﺎﻟﻢ ﮔﻠﻮﭺ ﺳﮯ..!!
 

سید عمران

محفلین
ایک دن استاد نے بورڈ پر نو کا پہاڑا لکھا
9×1=7
9×2=18
9×3=27
9×4=36
9×5=45
9×6=54
9×7=63
9×8=72
9×9=81
9×10=90
لکھنے کے بعد بچوں کو دیکھا تو بچہ استاد پر خوب ہنس رہے تھے.
کیوں کہ پہلی لائن غلط تھی.
استاد نے بچوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا "میں نے پہلی لائن جان بوجھ کر غلط لکھی ہے، کیوں کہ میں تمہیں اس کے ذریعہ ایک بہت اہم اور تجربہ کی بات بتانا چاہتا ہوں وہ کہ دنیا بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کرے گی، تم دیکھ سکتے ہو میں نے نو بار صحیح لکھاجو تم نے نظر انداز کر دیا مگر وہ ایک غلطی پکڑ لی اور اس ایک غلطی پر ہنس رپے ہو اور میرا مذاق بنا رہے ہو."
*دنیا بھی تمہاری 9 خوبیوں کو چھوڑ اس ایک غلطی پر نظر رکھے گی اور اسی کا مذاق بنا بنا کر تمہارا جینا حرام کرے گی..
 

سیما علی

لائبریرین
صلاح ودرستگی
حضرت جلال آبادیؒ نے فرمایا کہ اپنے کا م درستگی کے ساتھ کرو اسی کو صلاح کہتے ہیں انبیاء کرام کیلئے ہے وکانو من الصالحین مطلب کہ وہ اپنے کام درستگی سے کرنے والے تھے اورجب ہوگی درستگی توکسی اچھی ہوگی درستی خالق برتر کے ساتھ۔اورکیوں نہ ہو جبکہ قولاً وفعلاً خلوۃً وجلوۃً لیاساً وطعاماً ہرموقعہ پر درستگی کے ساتھ ہیں توخالق باری کیوں درستگی کوپسند نہ کریں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
استقامت
حضرت جنید بغدادیؒ نے دیکھا کہ کسی شخص کوسولی پرچڑھایا جارہا ہے اوروہ سولی پرہے بتلایاگیا چوری کا عادی ہے پہلے چوری میں ہاتھ پائوں کاٹ دئے گئے اس کے بعد پھربھی اس نے چوری کرلی تو حضرتؒ نے اس کے پائوں کوچوما لوگوں نے معلوم کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کی استقامت کوچوم رہا ہوں کاش یہ شخص دین میں استقامت اختیارکرتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت شیخ الہندؒ کی تواضع
حضرت شیخ الہندؒ کا واقعہ ہے ایک صاحب بتلاتے ہیں کہ رامپور رہنے والے دیوبند ہمارا مقدمہ تھا چنانچہ ہم وہاں پہونچے ایک بنیابھی ہمارے ساتھ تھا دن ختم ہونے لگا تو سوچا کہ رات کو ٹھہرنے کیلئے کوئی جگہ متعین کرلی جائے ہم نے سوچا کہ حضرت شیخ الہندؒ کے یہاں ٹھہریں گے تورات کو وہیں ٹھہرے رات کو دیکھا کہ حضرت شیخ الہندؒ اس بنیے کے پیر دبانے کیلئے اٹھے یہ دیکھ رہے تھے کہ حضرت میں حاضر ہوں حضرتؒ نے جواب دیا کہ نہیں تم ہمارے مہمان ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے کبھی ملازم کی ضرورت ہی نہیں پڑی‘ ہم دو میاں بیوی ہیں‘ فلیٹ چھوٹا ہے‘ مل کر کام کر لیتے ہیں‘ کھانا میں خود بنا لیتی ہوں‘ میرا خاوند رات کو مشین میں کپڑے ڈال دیتا ہے‘ میں صبح انھیں استری کر لیتی ہوں‘ صفائی ہم دونوں مل کر کر لیتے ہیں چناں چہ ہمیں کبھی کک یا ملازم رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی‘‘۔

یہ الفاظ 15 برس تک دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کی سربراہ رہنے والی خاتون کے ہیں‘ جی ہاں یہ اینجلا مرکل ہیں‘ یہ 2005سے 2021 تک جرمنی کی مسلسل چانسلر آ رہی ہیں‘ یہ 9 سال سے فوربز میگزین کی موسٹ پاورفل لیڈی ‘ پورے یورپ اور فری ورلڈ کی لیڈر بھی ہیں‘ اینجلا مرکل 1954 میں ہیمبرگ میں پیدا ہوئیں‘ والدین کے ساتھ مشرقی جرمنی گئیں‘ 1986 میں کوانٹم کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی اور ریسرچ سائنس دان کے طور پر کام شروع کر دیا‘ مشرقی جرمنی میں 1989 میں سیاسی بیداری کا عمل شروع ہوا تو یہ سیاست میں آئیں اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ مختلف حیثیتوں میں کام کرتی رہیں‘ 2002 میں اپوزیشن لیڈر بنیں‘ گرہارڈ شنوڈر کو ہرا کر 2005میں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بن گئیں۔

یہ کمال تھا لیکن یہ اتنا بڑا کمال نہیں تھی‘ کمال اس خاتون نے اس کے بعد کیے اور پھران کی لائن لگا دی‘ جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا‘ ملک میں امن‘ سکون اور استحکام آیا اور جرمنی کا معاشی سکہ پوری دنیا میں چلنے لگا‘ یہ مسلسل 15سال چانسلر رہیں‘ یہ مزید بھی رہ سکتی تھیں لیکن انھوں نے 2018 میں اعلان کر دیا ’’میں 2021کے الیکشنز میں حصہ نہیں لوں گی‘ میں سیاست سے ریٹائر ہو رہی ہوں‘‘ یہ اعلان عجیب تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ دنیا‘ یورپ اور جرمنی کی مشہور ترین سیاست دان ہیں‘ لوگ ان سے حقیقتاً محبت کرتے ہیں لہٰذا یہ اگر چاہیں تو یہ مزید دس پندرہ سال اس عہدے پر رہ سکتی ہیں لیکن انھوں نے خود ہی اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ یقیناً کمال ہے لیکن ان کا اصل کمال ان کا سادہ لائف اسٹائل ہے۔

اینجلا مرکل نے 18سال پہلے برلن میں ایک فلیٹ خریدا تھا‘ یہ درمیانے سائز کا مڈل کلاس فلیٹ ہے‘ یہ 18سال سے اپنے خاوند جوکم سیور (Joachim Sauer) کے ساتھ اسی فلیٹ میں رہائش پذیر ہے‘ خاوند یونیورسٹی میں کیمسٹری کا پروفیسر ہے‘ یہ کبھی لائم لائٹ میں نہیں آیا‘ روز بس پر یونیورسٹی جاتا ہے اور اسے اگر بیرون ملک سفر کرنا پڑے تو یہ سستی ایئر لائینزپر اکانومی کلاس میں ٹریول کرتا ہے‘ یہ دونوں میاں بیوی 23سال سے اکٹھا ناشتہ کرتے ہیں‘ ناشتہ سادہ ہوتا ہے اور یہ دونوں مل کر بناتے ہیں۔

برتن بھی دونوں دھوتے ہیں اور اس کے بعد اینجلا مرکل چانسلر کی گاڑی میں آفس چلی جاتی ہیں جب کہ خاوند بس یا پھر چھوٹی ذاتی گاڑی میں یونیورسٹی روانہ ہوجاتا ہے‘ اینجلا مرکل نے 20سال سے نئے قیمتی کپڑے نہیں خریدے‘ وارڈروب میں تیس پرانی جیکٹس‘ کوٹس اور لانگ کورٹس ہیں‘ اس کے پاس ٹراؤزر بھی صرف سفید رنگ کے ہیں اور یہ دنیا کو 18سال سے انھی وائٹ ٹراؤزرز میں نظر آرہی ہے‘ اس کے کوٹ اور جیکٹس بھی تبدیل نہیں ہوئیں‘ اس کے پاس صرف ایک نیکلس ہے ‘ دنیا نے آج تک اس کے گلے میں صرف یہی نیکلس دیکھا‘ ہیئراسٹائل بھی ایک ہی رہا‘ یہ کبھی بال بنوانے کے لیے بھی سیلون نہیں گئی۔

صرف تین شوق ہیں‘ ہائیکنگ‘ فٹ بال کے میچ اور کھانا بنانا‘ اینجلا پروفیشنل شیف ہے‘ اینجلا مرکل نے اقتدار کے 15برسوں میں روزانہ 20 گھنٹے کام کیا‘ یہ صرف چار گھنٹے سوتی ہے تاہم اس کا کہنا ہے میں مزاج کے لحاظ سے اونٹ ہوں‘ میں اپنی نیند اسٹور کر لیتی ہوں‘ چھٹی کا دن آتا ہے تو میں لمبی نیند لے لیتی ہوں جب کہ عام دنوں میں میری نیند صرف چار گھنٹے ہوتی ہے‘ یہ اپنے اسٹاف کو ہر وقت دستیاب رہتی ہیں‘ اسے سحری کے وقت بھی فون کیا جاتا تھا تو یہ فون خود اٹھاتی تھی اور اس کی آواز میں کسی قسم کی تھکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔

لوگ اس کے یکساں ہیئراسٹائل‘ ایک جیسے کپڑے اور ایک نیکلس کا مذاق اڑاتے ہیں تو یہ ہنس کر جواب دیتی ہے ’’میں جرمنی کی چانسلر ہوں‘ فیشن گرل نہیں‘‘ یہ 2008 میں ناروے میں فیشن شو میں مدعو تھی‘ یہ ناروے کے وزیراعظم کے ساتھ شو میں گئی لیکن پورے ہال میں سب سے سستے کپڑے اس نے پہن رکھے تھے‘ اس کے سوٹ کی مالیت صرف پانچ یورو تھی اور وہ بھی چار سال پرانا تھا جب کہ ویٹرز تک کے ڈریس مہنگے اور ماڈرن تھے مگر اس سستے سوٹ کے باوجود پورے ہال میں آئرن لیڈی صرف ایک ہی تھی اور اس کا نام تھا اینجلا مرکل۔ یہ کپڑوں پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ کہتی ہے ’’مرد عورتوں کو صرف اور صرف فیشن سمبل سمجھتے ہیں۔

یہ اگر خود چھ چھ ماہ ایک ہی شرٹ‘ پتلون اور کوٹ پہنتے رہیں انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن یہ خواتین کو ہمیشہ نئے اور مہنگے کپڑوں میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ اس کا کہنا ہے ’’ہم اپنے گندے کپڑے رات کو مشین میں ڈالتے ہیں کیوں کہ رات کے وقت بجلی بھی زیادہ ہوتی ہے اور سستی بھی تاہم مجھے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے مشین کی وجہ سے ہمارے ہمسایوں کی نیند خراب نہ ہوتی ہو لہٰذا میں ایک دن ان کے پاس گئی اور ان سے رات کے وقت مشین چلانے کی باقاعدہ اجازت لی‘‘ اینجلا مرکل کو کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔

روس کے صدر پیوٹن ایک میٹنگ میں انھیں ڈرانے کے لیے اپنا لیبراڈر ساتھ لے آئے‘ اینجلا مرکل نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’پیوٹن مجھے یہ بتانا چاہتے تھے وہ مرد ہیں اور میں عورت‘‘ یہ خیال درست ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے دنیا بھر کے تمام مرد مل کر بھی اس عورت کو کم زور ثابت نہیں کرسکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ وہ عورت ہے جس نے ثابت کر دیا عورتیں لوہا بھی ہو سکتی ہیں اور دنیا کی بہترین حکمران بھی۔

مجھے 2009 میں اینجلا مرکل کو دیکھنے اور ملنے کا اتفاق ہوا‘ یوسف رضا گیلانی جرمنی کے دورے پر گئے تھے‘ میں ان کے وفد میں شامل تھا‘ اینجلا مرکل نے اس وقت یوسف رضا گیلانی سے کہا تھا ’’جب تک کسی ملک کی پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوتی اس وقت تک اس کے حکمران مضبوط نہیں ہوتے‘ میں روز اپنے دفتر کی کھڑکی سے جرمن پارلیمنٹ کو دیکھتی ہوں اور اپنے آپ سے کہتی ہوں اینجلا تمہیں اس عمارت نے آئرن لیڈی بنایا‘ یہ جب تک مضبوطی سے کھڑی ہے تم بھی کھڑی ہو۔

جس دن یہ کم زور ہو جائے گی تم بھی اس دن آئرن لیڈی نہیں رہو گی‘‘ اینجلا مرکل نے یوسف رضا گیلانی کو مشورہ دیا تھا ’’ آپ اگر مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنی پارلیمنٹ کو مضبوط کریں‘ آپ کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکے گی‘‘ ہمیں یہ بات یوسف رضا گیلانی نے واپسی کے سفر کے دوران بتائی تھی‘ اینجلا مرکل ستمبر 2021میں ریٹائر ہو جائے گی‘ ریٹائرمنٹ کے وقت اس کے کل اثاثے ساڑھے گیارہ ملین یورو ہیں اور یہ اس رقم میں برلن میں ڈھنگ کا کوئی مکان تک نہیں خرید سکتی لیکن یہ اس کے باوجود مطمئن ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتی ہے یہ رقم دونوں میاں بیوی کے لیے کافی ہے۔

میں نے جب یہ حقائق پڑھنا اور کھوجنا شروع کیے تو میں نے اپنے آپ سے سوال کیا‘ یہ کون لوگ ہیں اور کیا یہ لوگ دوزخ میں چلے جائیں گے اور ہم ہوس کے پجاری اپنے ہی لوگوں کا خون چوسنے کے باوجود جنتی ہوں گے؟ میں نے یہ بھی سوچا‘ رسولؐ ہمارے سادہ تھے اور اللہ نے ایمان داری‘ اخلاص اور ان تھک محنت کا حکم ہمیں دیا تھا لیکن محنتی یہ لوگ نکلے‘ اخلاص کے پیکر بھی یہ ہیں‘ ایمان دار بھی یہ اتنے ہیں کہ یہ حکمران ہونے کے باوجود کپڑے دھونے کی مشین بھی ہمسایوں سے پوچھ کر چلاتے ہیں اور یہ 15سال کے اقتدار کے بعد خود ہی کرسی سے اٹھ بھی جاتے ہیں۔

عوام کو انھیں اتارنے کے لیے التحریر اسکوائر گرم کرنا پڑتا ہے اور نہ مک گیا تیرا شو مشرف کے نعرے لگانا پڑتے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ عالم اسلام کی کھوئی ہوئی میراث ہیں‘ رسولؐ ہمارے تھے‘ قرآن ہمارا تھا اور خلفاء راشدین بھی ہمارے تھے لیکن افسوس ان پر عمل ان لوگوں نے کیا۔

لہٰذا آج ہم پوری دنیا سے جوتے کھا رہے ہیں‘ ہم دنیا کے مہنگے ترین کپڑے پہن کر جہازوں میں بیٹھ کر اس اینجلا مرکل کے سامنے امداد کا کشکول پھیلا رہے ہیں جس نے پانچ یورو کے 20سال پرانے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور جو گھر سے صبح کے برتن دھوکر آفس آتی ہے اور شام کو اپنے کپڑے خود استری کرتی ہے اور اس کا خاوند بیوی کی 15سالہ چانسلری کے باوجود پروفیسر کا پروفیسر رہتا ہے‘ وہ یونیورسٹی کاوائس چانسلر بھی نہیں بنتا اور یہ ہے وہ فرق جس نے آج ہمیں بھکاری اور اینجلا مرکل جیسی لیڈروں کے ملکوں کو سخی بنا دیا‘ یہ ان داتا ہو گئے اور ہم اقوام عالم کے سامنے جھولی پھیلا کر کھڑے ہیں لیکن ہمیں اس کے باوجود شرم نہیں آتی۔

منقول
(سید شہزاد ناصر کی وال سے)

اور ایک ہماری لیڈر ہیں کہ لاکھوں روپے کی تو جوتی پہنی ہوتی ہے، ان کے والد بزرگوار کروڑ روپے کی کلائی کی گھڑی پہنتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو جب گولی لگی، دنیا کا مہنگا ترین چشمہ پہنے ہوئے تھی۔
 

سیما علی

لائبریرین
اور ایک ہماری لیڈر ہیں کہ لاکھوں روپے کی تو جوتی پہنی ہوتی ہے، ان کے والد بزرگوار کروڑ روپے کی کلائی کی گھڑی پہنتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو جب گولی لگی، دنیا کا مہنگا ترین چشمہ پہنے ہوئے تھی۔
بھیا ہمارے لیڈروں کے پاس عوام کا پیسہ ہے اور وہ اپنے آپ پر لٹاتے ہیں ۔۔۔مہنگے چشمے مہنگے کپڑے مہنگے جوتے استعمال کرتے ہیں اور پھر وہی جوتے عوام پر برساتے ہیں !!!!!!پر پھر بھی اُنکو ہی ووٹ دیتے ہیں !!!!!افسوس صد افسوس ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
قدیم عربی ادب سے ماخوذ حکایت
ماخذ: جریدہ الأخبار الوسط
درزی کی حکمت و نصیحت
اردو ترجمہ نگار: توقیر بُھملہ
ایک بوڑھا درزی اپنے کام میں مگن تھا کہ اس کا چھوٹا بیٹا دوکان میں داخل ہوا اور کہنے لگا " بابا میں نے اپنے ابتدائی قاعدے اچھی طرح یاد کرکے اپنے استاد کو سنا دیے ہیں تو انہوں نے مجھے اگلی جماعت میں شامل کرلیا ہے" باپ نے بیٹے کو مبارک دی تو بیٹا کہنے لگا " بابا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں یہ قاعدے یاد کرلوں گا تو آپ مجھے زندگی گزارنے کا ایک بہترین گُر سکھائیں گے، تو بابا آج وہ وعدہ پورا کریں نا "
بوڑھے درزی نے کہا" ہاں میرے بیٹے مجھے اچھی طرح یاد ہے میں ذرا کام سے فارغ ہوجاؤں تو پھر بتاتا ہوں" تم ایسا کرو وہ ذرا قینچی پکڑاؤ، بیٹے نے باپ کو قینچی دی تو بوڑھے درزی نے قینچی کے ساتھ ایک بڑے کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا شروع کر دیا، کاٹنے کے بعد قینچی کو زمین پر رکھے جوتوں میں پھینک دیا، پھر سوئی اٹھائی اس میں دھاگہ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو سینے لگا، ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سی کر خوبصورت قمیص میں بدلا اور سوئی کو سر پر بندھے عمامے میں لگا دیا، پھر بچ جانے والے دھاگے کو جیب میں ڈال دیا..
درزی کا بیٹا حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، اس سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگا " بابا آج تو آپ نے عجیب کام کیے ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے،مہنگی قینچی کو زمین پر جوتوں میں اور سستی سوئی کو سر پر عمامہ میں ایسا کیوں کیا؟
اس کا درزی باپ مسکراتے ہوئے کہنے لگا" بیٹا میرے پاس وہ بڑا کپڑا ایک خاندان کی مانند تھا جس کو قینچی نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنادیا، تو قینچی اس شخص کی مثال ہے جو آپس میں مربوط مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں الگ کرنے پر مجبور کردیتا ہے، اور سوئی کی مثال اس شخص کی ہے جو ان رشتوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے، اور دھاگے کی مثال ایک مددگار کی ہے جو اگر سوئی میں نہ ہو تو وہ سی نہیں سکتی، اب میرے بیٹے تم نے زندگی بھر اس نصیحت کو یاد رکھنا ہے کہ بظاہر قیمتی دکھائی دینے والے لوگ جو رشتوں کو فرقہ فرقہ کرنے والے ہیں انکی جگہ قینچی کی طرح جوتیوں میں ہے، اور ہمیشہ جوڑنے والے لوگ جو سوئی کی طرح بظاہر عام سے کیوں نہ دکھائی دیں انہیں ہمیشہ سر پر بٹھا کر رکھنا، آخری بات دھاگہ جیب میں رکھا تھا اس سے مراد کوئی بھی کام کرنے سے پہلے آس پاس اپنے مددگار ضرور رکھنا...
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج کرنے گیا ، وہاں منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں مَیں نے ایک شخص کو دیکھا جو بلند آواز کے ساتھ بار بار پکار رہا تھا
لبیک لبیک لبیک اور غیب سے آواز آتی لا لبیک لا لبیک لالبیک سرکار فرماتے ہیں کہ یہ سارا ماجرا دیکھ کر میں نے اس شخص کو بازو سے پکڑا اور بھرے مجمع سے باہر لے آیا اور پوچھابھلے مانس تجھے پتہ ہے کہ جب تو پکارتا ہے کہ اےمیرے اللّہ ﷻ میں حاضر ہوں تو عالمِ غیب سے حاتِب کی آوز آتی ہے نہیں تو حاضر نہیں ہے تو وہ شخص بولا ہاں معین الدینؒ میں جانتا ہوں اور یہ سلسلہ پچھلے 24 سالوں سے جاری ہے یہ میرا چوبیسواں حج ہے وہ بڑا بے نیاز ہے میں ہر سال یہی امید لیکر حج پر آتا ہوں کہ شايداس دفعہ میرا حج قبول ہو جائے لیکن ہر سال ناکام لوٹ جاتاہوں
سرکارؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ ہر بار ناکامی ،اور نامرادی کے باوجود تو پھر کیوں چلا آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رُندھی ہوٸی آواز میں گڑگڑاتے ہوئے بولا ۔
اے معین الدینؒ تو بتا میں یہاں نہ آٶں تو کدھر جاٶں اُس کے سوا میرا کون ہےکون میری باتیں سننے والا ہےکون میرے گناہ معاف کرنے والا ہےکون میری مدد کرنیوالا ہےمیں کس در پہ جا کر گڑگڑاٶں کون میری دادرسی کرے گاکون میرا خالی دامن بھرے گا کون مجھے بیماری میں شفا دے گاکون میرے گناہوں کی پردہ داری کرے گامعین الدینؒ مجھے بتا اگر کوٸی دوسرا رب ہے تو بتا میں اسکے پاس چلا جاتا ہوں ، مجھے بتا معین الدینؒ اسکے علاوہ اگر کوٸی در ہے تو میں وہاں جاٶں روٶں اور گڑگڑاٶ سرکار فرماتے ہیں اسکی باتیں سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ، جسم پر لرزہ طاری ہو گیااور میں نے اپنے لرزتے ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں دعا کیلیے اٹھائے اور کپکپاتے ہونٹوں سے ابھی صرف اللّہﷻ کو پکارنا شروع ہی کیا تھا کہ غیب سےآوازآٸی
اے معین الدین یہ ہمارا اور اس کا معاملہ ہے تو پیچھے ہٹ جا تم نہیں جانتے کہ مجھ اسکا اس طرح گڑگڑا کر لبیک لبیک لبیک کہنا کتنا پسند ہےاگر میں اسکے لبیک کے جواب میں آج ہی لبیک کہہ دوں اور اسے یہ یقین ہو جائے کہ اسکاحج قبول ہو گیا ہےتو وہ آئندہ حج کرنے نہیں آٸیگا اور یہ سمجھتا ہے کہ اسکا حج قبول نہیں ہورہاتواسے بتاٶ کہ پچھلے 23 سالوں سے جتنے بھی لوگوں کے حج قبول ہوئے ہیں وہ سب اس کی لبیک لبیک لبیک کی بدولت ہی قبول ہوئے ہیں .
#_ایمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اموال دوطرح کے ہیں۔ایک مال وقف عام ہے اس میں کسی کا حق نہیں کہ دوسرے کو روکے جیسے سورج کی تپش ہے، دھوپ ہے، ہوا یا بارش ہے تو یہ چیزیں ہر انسان ، ہرذی روح کیلئے وقفِ عام ہیں ۔ مال کا دوسرا درجہ وہ ہے جس میں انسان کو ملکیت کا حق دیا گیا ہے۔ اب جو چیز انسان کی ملک بن گئی ہے، زمین ہے یا اس کی دولت ہے،جائز طریقے سے کماتا ہے تو یہ ایک ایسا حق ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے خواہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی قوم ہو یا کوئی بھی معاشرہ ہو۔بعض ایسی برائیاں ہیں جن پر پوری دنیا متفق ہے مثلاً چوری ، ڈاکہ، بدکاری،قتل و غارت۔ یہ سارے اس طرح کے کام ہیں جن کے برا ہونے پر پوری انسانیت متفق ہے۔ اسلام نے ان برائیوں کیخلاف آ گے بڑھتے ہوئے ایک خوبصورت حل دیدیا کہ جس کا جو حق ہے، اس سے چھینا نہ جائے، ناجائز طریقے سے نہ لیاجائے اور اگر آپ نے اس کی ملکیت جائز طریقے سے لینی ہے تو قیمت دے کر لیں۔حصول رزق کے معروف ذرائع ہیں اور اسلام نے ایک اصول دیا ہے کہ جو رزق معروف ذرائع کے علاوہ آتا ہے وہ حلال نہیں ہوتا۔ معروف ذرائع کے علاوہ جو بھی آئے گا وہ چوری کا ہوگا یا چھینا ہو ا ہوگا، وہ اس بندے پر حلال نہیں ہوتا۔ حرام رزق آدمی کو آدمیت سے گرا دیتا ہے۔حرام رزق کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ جوبندہ حرام کھاتا ہے،وہ کتنی گریہ و زاری کرے، کتنا روئے پیٹے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ ایک شخص بہت دور سے سفر کر آئے گا، اس کے پائوں مٹی سے اٹے ہو ں گے، اس کے بال پریشان ہوں گے، اس کے کپڑے پھٹے ہوں گے اور وہ بیت اللہ کے گرد طواف کر رہا ہوگا، اللہ کو پکار رہا ہوگا لبیک الھم لبیک لیکن بارگاہ الوہیت سے اس کا کوئی جواب آئے گا نہ اللہ اس کی فریاد سنے گا۔‘‘ عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ! اتنی محنت اتنا مجاہدہ کرکے جو بیت اللہ شریف میں آکے اللہ کو پکار رہا ہوگا تو اس کی بات کیوں نہیں سنی جائے گی؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’اس لیے کہ اس کا رزق حرام کا ہوگا۔‘‘اگر حرام کھاتاہے، چوری سے پیسہ کماتا ہے، رشوت لے کرپیسے جمع کر لیتا ہے، دوسروں کے حقوق غصب کر لیتا ہے اور پھر وہ حج پہ بھی چلا جاتا ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ کریم اس کی درخواست رد فرما دیتے ہیں۔

آخرت کے حوالے سے ایسے بندے کے بارے میں حضوراکرم ﷺ نے فرمایا ’’کسی کے وجود پر جو گوشت حرام کے رزق سے بنے گا اس کیلئے آگ ہی سزاوار ہے۔ ‘‘ اس حدیث شریف کی تشریح میں ملتا ہے کہ بعض ایسے مسلمان ہوں گے جن کی نجات تو ہو جائے گی، جوکچھ انہوں نے حرام کھایا اس کی تلافی بھی ہوگئی معافی بھی ہوگئی لیکن اس کھانے سے جوگوشت وجود کا حصہ بن گیا، اس گوشت کو جلانے کے لیے انہیں جہنم بھیجا جائے گا۔ وہ جل جائے گا تو اس کی جگہ اللہ کریم انہیں نیا گوشت عطا فر ماکر جنت بھیجیں گے۔ یعنی بعض ایسے لوگ ہوں گے کہ انہوں نے توبہ کرلی،جس کا رزق لیا تھا اس سے معافی مانگ لی،اللہ نے نجات دے دی لیکن نجات کے بعد اگر ان کے وجود میں حرام کا گوشت ہوگا تو وہ گوشت ضرور آگ میں جلے گا ۔ اسکے جلانے کیلئے انہیں دوزخ جانا ہوگا۔جب وہ جل جائے گا تو اللہ انہیں دوسرا گوشت عطا فرماکر جنت بھیجیں گے۔حرام کا کوئی ذرہ جو وجود میں ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا، وہ جلانے کیلئے اسے جہنم جانا ہوگا۔نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ روز محشر ایسا کوئی دائو نہیں چلے گا۔ وہاں تو سیدھی سیدھی بات ہوگی،حق کی بات ہوگی،حق کے مطابق ہوگی۔ ‘‘

دنیا میں انسانی معاشرے کو تباہ کرنے والے جو کام تھے،اسلام نے ان کو اتنا خوبصورت موڑ دیا کہ وہ معاشرے کی آبادی کاسبب بن گئے،جو فساد کا سبب بن رہے تھے وہ صلح کا سبب بن گئے، ازدواجی تعلقات کوبھی ایک خوبصورت حسین موڑ دے کر انسانی آبادی کا سبب بنا دیا،معاشرے کی آبادی اور بقاء کا سبب بنا دیا اور مالی امور میں بھی اپنے اپنے حقوق کے اندر رہنے کا حکم دے کر فساد کو یکسر ختم کر دیا۔اب اگر ہم حدود ِالٰہی سے تجاوز کرتے ہیں تو فساد ہوگا۔بنیادی بات یہ ہے کہ اگر لوگ اپنے حقوق تک محدود رہیں تو کوئی فساد پیدا ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی اپنی حد میں نہیں رہتا تو اس کیلئے عدالتیں ہوں۔ انصاف ہونا چاہیے، حکومت کو انصاف کرنا چاہیے،حق دار کو حق دلا نا چاہیے اور جو ناجائز کرے اسے سزا دینی چاہیے۔ جزا و سزا کا نظام اصلاح معاشرہ کیلئے ہے ۔ محض لوگوں کو تنگ کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ بھی لوگوں کی سہولتوں کیلئے ہے کہ معاشرے میں اصلاح ہو،احترام آدمیت ہو ، انصاف ملے، لوگوں کا جائز حق روکا نہ جائے اور کسی کو ناجائز کرنے نہ دیا جائے ۔ ہمارے ہاں یہ ہے کہ جو تگڑا ہے وہ ناجائز بھی کر لیتا ہے اور جو کمزور ہے اس کا جائز بھی رہ جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں فساد تو ہوگا!اگر ہمیں اسے ختم کرنا ہے تو ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ معاشرے میں جس کا حق ہے وہ اسے ملنا چاہیے۔اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہرمستحق کو اس کا حق ملنا چاہیے اور ہر اس بندے کا ہاتھ روکنا چاہیے جو دوسرے کا حق چھیننا چاہتا ہے۔ اگر یہ اصول ہو گا تو فساد ازخود ختم ہوجائے گا۔کسی کو کسی سے شکایت ہی نہیں رہے گی تو وہ اسے مارنے کیوں بھاگے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ

بغداد کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ اچانک بادشاہ کا بیٹا بیمار پڑ گیا اور دوسرے دن مر گیا. بادشاہ کو گمان گزرا شاید یہ سب واقعہ حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ سے بدسلوکی کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ بادشاہ نے اپنے مشیران کو حکم دیام، کوئی بھی صورت ہو انہیں بغداد واپس لاو۔حکم پاتے ہی مشیران تیز گھوڑوں پر سوار ہو کر دوڑ پڑے. شاہی قاصدوں نے انھیں جا لیا پھر دست بدست عرض کی حضور واپس بغداد تشریف لے چلیں۔یہ سن کر حضرت شمس رحمتہ اللہ علیہ کے چہرے پر اذیت کا رنگ ابھر آیا کل جس جگہ مجھے ذلیل کیا گیا آج پھر اسی مقام پر جانے کا کہ رہے ہو؟؟؟؟

حضرت شمس رحمتہاللہ علیہ نے انکار کر دیا لیکن شاھی کارندے بہت دیر تک عاجزی کا مظاہرہ کرتے رہے تو آپ کو ان پر رحم آ گیا جب آپ شاھی محل پہنچے وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی یہ سب کیا ہے آپ نے بادشاہ سے پوچھا،یہ میرے جواں مرگ بیٹے کی میت ہے آپ کے بغداد سے جاتے ہی اچانک بیمار ہوا اور دیکھتے ھی دیکھتے آغوش فنا میں چلا گیا۔میں سمجھتا ھوں آپ کی دل آزاری کے باعث میرا بیٹا اس انجام کو پہنچا. شدت غم سے بادشاہ کی آواز کانپ رہی تھی۔فی الواقع اگر یہی بات ہے تو آپ کے بیٹے کو سزا کیوں ملی؟؟؟ گناہ تو آپ نے کیا تھا. حضرت شمس نے فرمایا۔

ممکن ہے قدرت نے. میرے لیے یہی سزا منتخب کی ھو کہ تمام عمر بیٹے کی جدائی میں تڑپتا رہوں. بادشاہ نے کہا.میری درخواست ھے کہ آپ میرے بیٹے کے حق میں دعائے خیر فرما دیں. بادشاہ نے کہا ھو سکتا ھے آپ کی دعاؤں سے اسے نئی زندگی مل جائے.ایسا ھوتا تو نہیں ھے پھر بھی تمہاری تالیف قلب کے لیے مالک کی بارگاہ میں عرض کیے دیتا ھوں. ایوان شاھی کے ایک کمرے میں ابھی دعا کے الفاظ کی گونج باقی ھی تھی کہ شہزادے کے جسم کو جنبش ہو ئی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور حیرت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا،یہ منظر دیکھ کر بادشاہ حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں گر گیا کہ یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ھے۔

ھرگز نہیں یہ تو قادر مطلق کی کرم نوازی کا ادنی سا مظاہرہ ہے جو اپنی ذات میں لاشریک ھے اسی کا شکر ادا کرو. آپ رح نے فرمایا.یہی کرامت آپ کے لیے وبال جان بن گئی. لوگوں نے آپکو شعبدے باز کہا اور آپ کے خلاف صف آراء ہوگئے، حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کی کھال کھینچ لی گئی اسی حالت میں بغداد سے نکال دیا جب آپ لہو لہان تھے،ولی عہد سلطنت شہزاد محمد کو آپ سے بہت عقیدت تھی جب آپ شہر بدر ھوئے تو شہزاد محمد بھی آپ کے ساتھ ھو لیے.بغداد سے نکل کرہندوستان کا رخ کیا اور طویل مسافت کے بعد ملتان پہنچے اور سکونت اختیار کی۔ ملتان کے لوگوں نے بھی اہل بغداد کی طرح آپ کی مخالفت کی. ایک بار یوں ہوا حضرت شمس ؒ کو گوشت بھوننے کے لیے آگ کی ضرورت پیش آئی آپ نے شہزاد محمد کو آگ لانے کے لیے بھیجا مگر پورے شہر میں سے کسی نے بھی آگ نہ دی ایک سنگدل شخص نے اس وجہ سے شہزادے کو اتنا مارا کہ چہرے پر زخموں کے نشان ابھر آئے.واپس آ کر شہزاد نے پورا واقع سنایا تو آپ ؒ کو جلال آ گیا آپ نہایت غصے کی حالت میں خانقاہ سے نکلے گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا پھر حضرت شمس ؒ نے آسمان پر نظر کر کے سورج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا؛ تو بھی شمس میں بھی شمس اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔

اتنا کہنا تھا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بھڑی کہ اہل ملتان چیخ اٹھے پورا شہر آگ کی بھٹی بن کہ رہ گیا،کچھ باخبر لوگوں نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ کیا چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہر کو دے ڈالیں گے. آپ ؒ نے فرمایایہ نادان نہیں سفاک ہیںآگ جیسی بے قیمت چیز نہیں دے سکتے میرے محبوب کے چہرے کو زخموں سے سجا دیا آخر اس کا جرم کیا تھا. جانتے ھو یہ کون ھے؟؟؟ بغداد کا شہزادہ میری خاطر بھیک مانگنے گیا لیکن اس کو شہر والوں سے زخم ملے. جب تک سارے شہر کے جسم آبلوں سے نہیں بھر جائیں گے مجھے قرار نہیں آے گا۔

خدا کے لیے انہیں معاف کر دیں. ملتان کے دانائے راز حضرات نے سفارش کرتے ہوئے کہا.خیر جب خدا کو درمیان میں لے آئے ہو تو معاف کیے دیتا ھوں. آپ ؒ نے فرمایا .پھر سورج سے مخاطب ہوئے اپنی حرارت کم کر دے معلوم نہیں یہ لوگ روز حشر کی گرمی کیسے برداشت کریں گے. آپ کا یہ فرمانا تھا سورج کی حرارت اعتدال پر آ گئی.لوگ اب بھی ملتان کی گرمی کو اسی واقعے کا نتیجہ سمجھتے ھیں
 

سیما علی

لائبریرین
یومِ مادر پر اپنی بہت ہی پیاری اماّں کے نام ؀
پروردگار اپنی بارگاہ میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے آمین

ماں نے چلنا سکھایا


مجھے محبت ہے اپنے ہاتھوں کی تمام انگلیوں سے
نہ جانے کون سی انگلی پکڑ کر ماں نے چلنا سکھایا ہوگا
واقعی اب دنیا میں مامتا ہی ایک رشتہ خالص رہ گیاہے مجھے اچھی لگتی ہیں میرے ہاتھ کی سبھی انگلیاں جانے کس انگلی کو پکڑ کر میری ماں نے مجھے چلنا سکھایا کہتے ہیں بچے کی پہلی یونیورسٹی ماں کی گود ہوتی ہے جس میں پڑھا ہوا سبق ساری زندگی یاد رہتا ہے۔خلوص اور محبت ہے آج کی دنیا میں اگراب بھی کوئی خالص رشتہ ہے تو وہ مامتاکا رشتہ ہے- ماں سے کیسا عجیب رشتہ ہے۔دکھ تکلیف میں ہمیشہ ماں ہی یاد آتی ہے دل کی گہرائیوں سے نکل کر لبوں پر ایک ہی صدا مچل جاتی ہے ہائے ماں ۔ امیرہو یا غریب، بچہ ہو یا بوڑھا۔ عورت ہو یا مرد۔ سب کی ایک ہی قدر مشترک ہے ماں سے دردکا رشتہ ہے اسی لئے سب کو دکھ تکلیف میں ہمیشہ ماں ہی شدت سے یاد آتی ہے- انسان کی شخصیت پر باپ سے زیادہ ماں کی چھاپ گہری ہوتی ہے۔

ماں تو اپنے بچوں کے چہرے دیکھ کر ان کے دل کا حال جان لیتی ہے اولاد کیلئے ماں سے بہتر کوئی مرشد نہیں ہوتا۔۔ایک دن میں نے اپنی ماں سے پوچھاجن کی ماں نہیں ہوتی ان کیلئے دعا کون کرتاہے؟۔۔۔وہ مسکرا کر بولی دریا اگر سوکھ بھی جائے تو ریت سے نمی نہیں جاتی۔جس گھرمیں ماں نہیں ہوتی وہاں قبرستان کی سی ویرانی ہوتی ہے دنیا میں سب سے حساس دل ماںکا ہوتاہے جو اپنے بچے کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتاہے اس کے باوجود بہت کم لوگ سوچتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے سے تھے کوئی ہماری بات سمجھنے سے قاصرتھا لیکن ایک ہستی ایسی تھی جو ہمارے ٹوٹے پھوٹے ۔۔بے معنی الفاظ بھی سمجھ جاتی تھی کتنی عجیب بات ہے کہ آج ہم میں سے اکثر لوگ اس ہستی کو کہتے ہیں آپ نہیں جانتیں۔۔۔تمہیں کیا پتہ؟

کاش اولاد یہ احساس کرے۔اس سے پہلے یہ رشتہ ختم ہو جائے ہم اپنے والدین کے تابعداربن جائیں تو کل پچھتاوے کی آگ میں جلنے سے بچا جا سکتاہے ماںدنیا کی سب سے انمول چیزہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں والدین کی زندگی میں قدرکریں اپنی خوشیاں اولادپرقربان کرکے انہیں معاشرے میں قابلِ فخر بنانے کی جدوجہدکرنے والوںکو خراج ِ تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔۔۔زندگی کا حاصل خوشی ، چاہت، عشق ، دیوانگی صرف ماں ہے جوسراپا دعاہے۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
خلیل جبران کی نظم" pity the nation " جس کا اردو ترجمہ جناب فیض احمد فیض نے کیا
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کے جلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے باز ہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو
خلیل جبران
 

شمشاد

لائبریرین
شہر لاہور کا ملامتی کردار چھجو بھگت

نہ بلخ نہ بخارے

جو سکھ چھجو دے چوبارے

چھجو بھگت

اور اسکا چوبارہ بقول استاد محترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب لاہور کا پہلا باقاعدہ کلب تھا ۔گذشتہ دنوں لاہور کے متعلق اک تحریر استاد مکرم تبسم کاشمیری صاحب کو واٹس اپ کی تو کہنے لگے گھمن میاں چھجو بھگت پر کچھ لکھو کیونکہ وہ ہم جیسے رندوں کا سرخیل تھا ۔

میں نے استاد محترم سے عرض کیا کہ ضرور کوشش کروں گا ۔لاہور کے عشا ق کو خبر ہو کہ چھجو بھگت ہو یا شاہ حسین لاہور ی اور اسی طرح کے کئی ملامتی کردار جنھوں نے لاہور میں اپنے ڈیرے خانقاہیں اور تکیے آباد کیے ۔لاہور شہر کی دریا دلئ ۔کشادگی اور ہشاشت انہی کے دم سے قائم تھئ اور آج تک اس کا اثر نظر آتا ہے ۔ان رندوں نے بظاہر دنیا سے فرار اختیار کیا ۔وہ ایسے کام کرتے تھے جن سے لوگ دور بھاگتے اور اچھا نہ سمجھتے تھے ۔اک تلخ سچائی تو یہ ہے کہ انہی درویشوں کی نظر ہے کہ لاہور شہر کی تہذیب ۔ثقافت ۔کلچر میں اک مست الست رچاو ۔ترقی پسندی اور اعتدال دکھائی دیتا ہے ۔

جہانگیر کے دور میں چھجو بھگت کا عروج تھا ۔

چھجو بھگت بھاٹیہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔اس کا سونے کا کاروبار تھا ۔اس کے من کی دنیا نے کروٹ کھائی تو سب کچھ چھوڑ کر میاں میر لاہوری کی مجلس میں جا بیٹھا ۔اسکا دھرم بظاہر ہندو ازم تھا مگر اس کی شناسائی مسلم صوفیاء سے تھی ۔آپ ذرا تصور کریں کہ اس وقت ہمارے معاشرے کے خوبصورت انداز اور رنگ کیا کیا تھے ۔چھجو بھگت نے اپنا اک مسکن بنایا جس کے تھوڑے سے آثار آج بھی لاہور کے مئیو ہسپتال میں موجود ہیں ۔جب میئو ہسپتال نہیں بنا تھا تو اس جگہ بڑا شاندار باغ تھا ۔اندرون لاہور کے باہر چھجو بھگت کا یہ ڈیرہ مجرد زندگی گزارنے والے ملنگوں کی آمجگاہ بنا ۔لاہور کے شہری بھی اس دور میں بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ چھجو بھگت کے پاس آتے تھے ۔چھجو بھگت کی شہرت پورے لاہور میں تھی ۔اہلیان لاہور گپ شپ کرنے ۔اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور رند جام تھامے رقص کرنے چھجو بھگت کے پاس آتے ۔اسی لیے تو اس دور سے ہی مثل مشہور ہے

نہ بلخ نہ بخارے
جو سکھ چجو دے چوبارے

یاد رہے کہ اس وقت دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں بلخ اور بخارے کا شمار ہوتا تھا ۔چھجو بھگت اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہوتا تھا ۔اس کی تاریخ ولادت کے بارے میں تاریخ خاموش ہے اور اسکی وفات پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔چھجو بھگت سے بہت سی کرامات بھئ منسوب ہیں مگر وہ ہمارا موضوع نہیں ہیں ۔ہمارا دل تو چھجو کے ڈیرے سے جڑا ہوا ہے جس میں سے پیار اور الفت کی خوشبو آتی تھی ۔زندگی اور زمانے کے ستائے لوگ اس کے کلب میں آکر دل بہلاتے تھے ۔

اس دور میں لاہور شہر کے کلچر اور تہذیب کی گواہی لاہور شہر کی فصیل کے چند میٹر کے فاصلے پر موجود چھجو کا ڈیرہ دیتا تھا ۔چھجو مست الست فقیر تھا جس نے اپنے کلب کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول رکھے تھے ۔میری دانست میں کڑوا مشروب سے لیکر ہر طرح کی ذہنی اور روحانی آسودگی کا سامان چھجو کے کلب میں میسر ہوتا تھا ۔

مدت بعد رنجیت سنگھ بھی چھجو کے ڈیرے سے خاص محبت کرتا تھا اور ہر روز لنگر کے لیے پیسے بھیجتا تھا ۔اس کے دور میں چھجو کے کلب کو جدید شکل بھی دی گئی ۔

بہرحال لاہور شہر کا حسن اس کے یہی فقیر ہیں جن کے سامنے صرف و صرف انسان کی اہمیت تھی ۔ان کا مذہب انسان دوستی تھا ۔محبت فاتح عالم ان کا طریق تھا ۔چھجو بھگت لاہور شہر کا کلاسیکل اور تاریخی کردار ہے ۔اب تو کبھی کبھی جی چاہتا ہے پھر سے وہی ڈیرے آباد ہوں ۔فقیر اس شہر پہ حکومت کریں اور ہر سو امن و محبت کے گیت گائے جائیں ۔

(نعیم گھمن)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کل آپ بہت یاد آئے ... طاق رات میں دعاؤں کی کتاب پڑھتے ہوئے میں نے اٹھ کر اے سی کی کولنگ میں اضافہ کیا اور دوبارہ نرم صوفے میں دھنس گئی .. درمیان میں وہ دعا بھی درج تھی جو آپ نے طائف کی وادی میں مانگی تھی .. مگر اس سے قبل شعب ابی طالب کے تین سخت ترین سال بھی اہل ایمان جھیل چکے ہیں .. مکہ کے دروازے بند ہوگئے تو اس امید پر آپ طائف آئے کہ شاید در کھل جائیں یا دل .. تین سرداروں سے ملے،پیغام پہنچایا مگر سخت مایوسی .. پھر محلے کے اوباشوں کو پیچھے لگا دیا .. وہ پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹخنوں پر تاک تاک کر مارتے .. ساتھ میں فقط زید بن حارثہ ہیں۔ فرماتے ہیں .. پتھر آگے سے آتا تو میں آگے ڈھال بن جاتا .. اتنے میں پیچھے سے پتھر آتا میں پیچھے دوڑتا مگر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش .. زخموں سے خون بہنے سے غشی طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے تو دو اوباشوں نے کھڑا کر دیا کہ ... کھڑے ہو جاؤ تم تو اللہ کے نبی ہو!! عرش بھی دیکھ رہا ہے اور زید بن حارثہ بھی ٹوٹے ہوئے دل سے دیکھ رہے ہیں .. آپ ایک باغ میں پناہ لیتے ہیں .. جوتے خون سے جم چکے ہیں( ہم سیرت کی کتابوں میں یہ پڑھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں) نعتیں پڑھ کر، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طواف کرکے، جنت البقیع میں دفن ہونے کا خواب دیکھتے ہیں .. کیا دعا کی تھی آپ نے طائف کی وادی میں .. اے اللہ! میں فریاد لے کر آیا ہوں.. وسائل کی کمی,اپنی رسوائی تیری جناب میں بیان کر رہا ہوں .. تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ ایسے دشمن کے جو مجھ پر رحم نہ کھائے .. اے اللہ اگر تو راضی ہے تو کوئی پروا نہیں ہے.. دل چاھا زید بن حارثہ سے پوچھتے کہ کیا گزری آپ کے اوپر.. کیا حالت ہوئی ہوگی آپ کے دل کی .. آسان تو نہ ہوگا محبوب خدا کا مقدس ترین بہتا ہوا لہو دیکھنا .. بولیں،کیسا رنگ تھا اس روز آسمان کا .. بتائیے زید آپ سے اللہ راضی ہو، کیا پتھر نما انسانوں کے بیچ آپ کے دل سے بددعا نہ نکلی ہو گی؟ اچھا بتائیے پہاڑوں کا فرشتہ کتنی دیر بعد آیا تھا .. کائنات کے اس پاکیزہ لہو کو کیسے صاف کیا آپ نے؟ پھر مرہم پٹی کو تو کچھ بھی نہ ہوگا! اچھا تو کیا محبوب خدا آپ کے سہارے چلتے ہوئے باہر آئے!! کیا کہتے جاتے تھے آپ واپسی کے سفر میں؟ کتنے دن لگے زخم مندمل ہونے میں؟ زید بن حارثہ آپ پر ہزاروں سلام زخم تو آپ کو بھی آئے ہونگے؟ بتائیں کیا کسی ایک نے بھی معذرت نہیں کی طائف کی بستی میں؟ دل سوچتا ہے اپنے محبوب کو جنت کی کوئی ٹھنڈی سڑک کیوں نہ دکھائی اللہ رب العزت نے .. چشم تصور میں اچانک حضرت زید بن حارثہ نمودار ہوئے اور گویا ہوئے جب ہم چند سو مسلمان تھے .. زمین پر کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا مگر اسلام محفوظ تھا .. آج تو مسلمانوں کی ستاون آزاد ریاستوں اور دو ارب اسلام کا دم بھرنے والے مسلمانوں کے بیچ تنہا اور لا وارث ہے .. مسجد اقصیٰ پر فائرنگ دیکھنے والے مسلمان سحروافطار کی لذتوں میں گم ہیں .. لوگوں کو بتاؤ کہ اسلام تو غالب آئے گا جیسے اپنے اولین دور میں غالب آیا مگر آزمائشیں تو تب بھی تھیں اور ... اب بھی ہیں ..
 

سیما علی

لائبریرین
مسلمانوں کی ستاون آزاد ریاستوں اور دو ارب اسلام کا دم بھرنے والے مسلمانوں کے بیچ تنہا اور لا وارث ہے .. مسجد اقصیٰ پر فائرنگ دیکھنے والے مسلمان سحروافطار کی لذتوں میں گم ہیں .. لوگوں کو بتاؤ کہ اسلام تو غالب آئے گا جیسے اپنے اولین دور میں غالب آیا مگر آزمائشیں تو تب بھی تھیں اور ... اب بھی ہیں ..
ہمارا سلام ہے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ۔۔ہم پڑھتے ہیں تو حالت غیر ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لہوِ مبارک گرا اور غشی طاری ہونے لگی السلام علیك یا رسول الله‘
دل میں محمد مصطفیٰ صلے علیٰ کا نام ہے
اس نام کی حرمت سے اپنا ہر جواں کٹ جائیگا
اسلام غالب آئیگا۔۔۔۔۔
ان شاء اللّہ ضرور
 
Top