گُلاب اور کوئی۔

رشید حسرت

محفلین
بات کُچھ اور تھی پر لُبّ لُباب اور کوئی
پائی تعبِیر کوئی اور، تھا خواب اور کوئی

سخت موسم تو گُلستاں کے سبھی ہم نے سہے
لے گیا چُن کے مگر سارے گُلاب اور کوئی

ایرے غیرے کے لیئے دل میں لچک کیا رکھنا
تھا جو اِک شخص مگر اُس کا حساب اور کوئی

کیا نِکالے گا بھلا حل وہ مُعمّوں کا حُضور
ہم نے پُوچھا ہے سوال اور، جواب اور کوئی

راس آئی نہ تُمہیں بات جو شائستہ کہی
پِھر تو کرنا ہی پڑا ہم کو خِطاب اور کوئی

دِل میں اعادہ کیا اور ہی مشقوں کا مگر
کُھل گئے ہم پہ مُحبّت میں ہی باب اور کوئی

ہم کہاں اور کہاں ساقئِ محفِل کی نظر؟؟
تم نے دیکھا ہے جِسے ہو گا جناب! اور کوئی

کر کے اعمال بھی ہاتھ اپنے رہے ہیں خالی
ڈھوئے جاتا ہے گُنہ اور ثواب اور کوئی

ہم نے وہ فصل بھی کاٹی ہے جو بوئی ہی نہ تھی
آئے حِصّے میں رشِیدؔ اپنے عذاب اور کوئی۔
 
ماشاء اللہ ۔۔۔ اچھی غزل ہے رشیدؔ بھائی
مطلعے سے انور مقصود کا ایک پرانا لانگ پلے یاد آگیا ۔۔۔ ’’ہاف پلیٹ‘‘ ۔۔۔ جس میں معین اختر مرحوم نے ایک مفلوک الحال ادیب کا کردار نبھایا تھا اور جمشید انصاری مرحوم نے ان کے شاعر بیٹے کا۔
جمشید انصاری معین اختر کو اپنی ایک غزل سناتے ہیں (جو میر تقی میرؔ کی غزل ’’ہستی اپنی حباب کی سی ہے‘‘ کی پیروڈی تھی)، جس میں ایک شعر ہوتا ہے
پوچھتے کیوں ہو میری تنہائی
تیرے لبِ لباب کی سی ہے
اس پر معین اختر بگڑ کر پوچھتے ہیں ’’ابے یہ لبِ لباب کیا ہے!‘‘ ۔۔۔ جمشید انصاری جواب دیتے ہیں ’’دراصل یہاں شاعر لبِ لباب لانا چاہتا تھا اور وہ صرف اسی طرح فٹ ہو سکتا تھا!‘‘ :)
 

رشید حسرت

محفلین
ویسے پوچھنا یہ تھا کہ کیا رشید حسرت بھائی کی غزلوں کو ہم "معنن غزلیں" کہہ سکتے ہیں یعنی "عنوان دار غزلیں"؟

جیسے اس معنن غزل کا عنوان ہے "گلاب اور کوئی ڈیش"
مجھے پتہ ہے کہ غزل کا نظم کی طرح عنوان نہیں ہوتا۔ لیکن موبائل میں سیو رکھنے کے لئے عنوان مجبورأ لکھنا پڑتے ہیں۔
 
Top