زندگی کے اداس رنگ

جاسمن

لائبریرین
IMG-20210410-WA0000.jpg
 
میڈم!
اوپر دی گئی تصویر دیکھ کر ایک عظیم انسان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
بی ایس سی میں میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ پاؤں پولیو زدہ تھے اور چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ دور دراز دیہی علاقے سے تعلق تھا۔ والدین غریب تھے۔ معذوری کو اس نے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ پڑھنے کا شوق تھا۔
اپنے کلاس فیلوز میں ایسے رہتا تھا جیسے نارمل انسان رہتا ہے۔اس کے ایک چچا اسے مالی امداد فراہم کرتے تھے۔ اس وقت کے بہت اچھے کالج کے ہاسٹل میں ہمارے ساتھ رہتا تھا۔چونکہ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اس لیے ہاتھوں اور پاؤں کے بل پر ہاسٹل سے کالج جاتا تھا اور اسی طرح واپس آتا تھا۔ پھر بی ایس سی کے بعد ہم ایک بہت اچھی یونیورسٹی کے ہائی میرٹ والے شعبہ میں چلے گئے وہ بھی ساتھ ہی تھا۔ وہاں بھی وہ ہمارے ساتھ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوا۔ یونیورسٹی پہاڑی علاقے میں تھی ۔ مختلف شعبہ جات اونچے نیچے بنے ہوئے تھے۔ وہاں کسی نے اسے ہاتھوں سے چلنے والی ٹرائی سائیکل لے دی جس پر وہ ہاسٹل سے شعبہ کی عمارت تک جاتا اور پھر ہاتھوں اور پاؤں سے چلتا ہوا کلاس تک جاتا۔
ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ ایک بہت اچھے عہدے پر فائز ہوا اور ترقی کرتا ہوا آج اپنےمحکمے کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔
اب یہ قسمت کا کھیل ہے یا انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے کہ اس جیسے ہزاروں لوگ بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر بہت ہی بدحالی کا شکار ہیں۔ لیکن میرے دوست کی کہانی یہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میڈم!
اوپر دی گئی تصویر دیکھ کر ایک عظیم انسان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
بی ایس سی میں میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ پاؤں پولیو زدہ تھے اور چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ دور دراز دیہی علاقے سے تعلق تھا۔ والدین غریب تھے۔ معذوری کو اس نے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ پڑھنے کا شوق تھا۔
اپنے کلاس فیلوز میں ایسے رہتا تھا جیسے نارمل انسان رہتا ہے۔اس کے ایک چچا اسے مالی امداد فراہم کرتے تھے۔ اس وقت کے بہت اچھے کالج کے ہاسٹل میں ہمارے ساتھ رہتا تھا۔چونکہ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اس لیے ہاتھوں اور پاؤں کے بل پر ہاسٹل سے کالج جاتا تھا اور اسی طرح واپس آتا تھا۔ پھر بی ایس سی کے بعد ہم ایک بہت اچھی یونیورسٹی کے ہائی میرٹ والے شعبہ میں چلے گئے وہ بھی ساتھ ہی تھا۔ وہاں بھی وہ ہمارے ساتھ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوا۔ یونیورسٹی پہاڑی علاقے میں تھی ۔ مختلف شعبہ جات اونچے نیچے بنے ہوئے تھے۔ وہاں کسی نے اسے ہاتھوں سے چلنے والی ٹرائی سائیکل لے دی جس پر وہ ہاسٹل سے شعبہ کی عمارت تک جاتا اور پھر ہاتھوں اور پاؤں سے چلتا ہوا کلاس تک جاتا۔
ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ ایک بہت اچھے عہدے پر فائز ہوا اور ترقی کرتا ہوا آج اپنےمحکمے کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔
اب یہ قسمت کا کھیل ہے یا انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے کہ اس جیسے ہزاروں لوگ بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر بہت ہی بدحالی کا شکار ہیں۔ لیکن میرے دوست کی کہانی یہ ہے۔

سبحان اللہ ! ایسے لوگ واقعی مثال ہوتے ہیں۔
اب یہ قسمت کا کھیل ہے یا انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے کہ اس جیسے ہزاروں لوگ بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر بہت ہی بدحالی کا شکار ہیں۔ لیکن میرے دوست کی کہانی یہ ہے۔

میں ان معاملات پر اکثر غور کرتا ہوں۔ کچھ لوگ اپنی معذوری کو نمایاں کرنے کا ہر ممکن اہتمام کرتے ہیں اور اُسے دکھا دکھا کر بھیک مانگتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی کا ہاتھ درست نہیں ہے تو باقی اعضاء تو درست ہیں۔ کیوں نہ یہ لوگ کوئی کام کاج کریں اور عزت کی روٹی کمائیں۔ خراب عضو کو دکھا دکھا کر بھیک مانگنا تو ہمہ وقت شکایت کی کیفیت میں رہنا ہے۔

لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ سب سے اہم چیز ذہن اور ذہن سازی ہے۔ اگر ذہن مضبوط ہو تو انسان کو بہت سی چیزیں سمجھ بھی آتی ہیں اور عمل کی قوت بھی مل جاتی ہے۔ لیکن اگر ذہن کمزور ہو تو انسان باقی تمام اعضاء کی موجودگی کے باوجود بہت سے آسان کام بھی سر انجام نہیں دے پاتا۔

کچھ لوگ جسمانی طور پر بالکل درست ہوتے ہیں۔ اعضاء متناسب ہوتے ہیں۔ لیکن ذہن کمزور ہوتا ہے۔ شخصیت سازی ہوئی نہیں ہوتی۔ علم و تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ تو وہ سب کچھ ہونے کے باوجود پڑھنے میں یا کمانے میں کمزور ہوتے ہیں۔

باقی معاشرے سے کسی کو کیا ملا یہ بھی بہت اہم ہے۔ اور قسمت وغیرہ بھی اپنی جگہ ہے۔ سو بے شمار پہلو ہوتے ہیں ان سب معاملات میں۔
 
اداس رنگ پیش کرنے میں تذبذب کا شکار تھی۔لیکن ایسی تصاویر مجھے اداس کرنے کے ساتھ ایک تحریک بھی ضرور دیتی ہیں کہ میں ان رنگوں کو مدھم کر سکوں۔ایک نئے سرے سے میں کمربستہ ہوتی ہوں۔جو کچھ ہم کر سکتے ہیں۔جتنا کر سکتے ہیں۔۔۔ضرور کریں۔
بس اسی لئے پیش کئے۔
لیکن اگر ان سے مثبت تحریک نہیں مل رہی کسی کو۔۔۔تو مٹا دیتے ہیں۔۔۔۔
(اگر مٹانے سے مٹ سکتے ہوں۔۔۔۔۔۔۔)
مٹانے سے مٹ نہیں سکتے لیکن سدھارنے سے بہتر ہو سکتے ہیں۔
قدرت شاید ان لوگوں کو متمول لوگوں کا امتحان لینے یا انہیں سبق سکھانے کے لیے بھیجتی ہے۔
اچھے معاشروں میں بھی ایسے لوگ ہوں گے لیکن وہ اس طرح بدحالی میں سڑکوں پر نظر نہیں آتے۔ وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ان کے لیے بہت کچھ اچھا کیا ہوا ہے اور ان لوگوں کو ان کے حصے کی خوشیاں فراہم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اور آپ شاید یہی کوشش کرنے اور کروانے کی کوشش کرہی ہیں۔ اجر دینے والا اللہ ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
IMG-20230507-102629.jpg

عجیب بات ہے کہ بجٹ کسی ادارے کا ہو یا پورے ملک کا، اس کی بے شمار کاپیاں چھاپ لی جاتی ہیں اور اسے شاید کوئی بھی نہیں پڑھتا۔ صفحات بھی اکثر بہت اچھے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعد میں ردی کے بھاؤ بکتے ہیں۔
یہ تھیلے ہے تھیلے ایک ذمہ دار ادارے کی دیوار سے باہر گرائے گئے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
میں نے ایک سرکاری جامعہ میں اسی طرح کی فضول خرچی کی اعلیٰ مثالیں خود دیکھی ہیں۔
شاید بدعنوانی کرنے کے لیے بھی اس طرح کے کام کیے جاتے ہوں گے۔
 
Top