برائے اصلاح - اساتذہ کے پیشِ نظر

اس کے دامن میں اترتے ہیں ستارے اکثر
وہ جو چاہت سے مرے بال سنوارے اکثر

غم کے صہرا میں میسر ہو ہی جاتی ہے خوشی
پیار سے جب وہ مرا نام پکارے اکثر

اس کی قربت میں نہیں خوف بھی اس لمحے کا
جس میں رہتے نہیں ہیں لوگ ہمارے اکثر

گر ملے بیچ سمندر بھی جو طوفاں ہم کو
اس کی لائے دعا ہی کھینچ کنارے اکثر

میں نہ لوٹوں تو پریشانی میں وہ تو میری
جاگتی آنکھوں میں ہی رات گزارے اکثر

سعد کہتے رہیں کچھ بھی یہ زمانے والے
بیٹے ہوتے ہیں ماں کے راج دلارے اکثر
 

الف عین

لائبریرین
اکثر ردیف اکثر بے معنی لگ رہی ہے بطور خاص 'جو' یا 'جب' کے ساتھ تو قطعی غلط ہے
اس کے دامن میں اترتے ہیں ستارے اکثر
وہ جو چاہت سے مرے بال سنوارے اکثر
... ردیف جیسا اوپر کہا گیا

غم کے صہرا میں میسر ہو ہی جاتی ہے خوشی
پیار سے جب وہ مرا نام پکارے اکثر
... ردیف، 'ہو ہی' میں تنافر تو ہے ہی، 'ہُہِ' تقطیع ہونا بھی درست نہیں

اس کی قربت میں نہیں خوف بھی اس لمحے کا
جس میں رہتے نہیں ہیں لوگ ہمارے اکثر
.. مفہوم؟

گر ملے بیچ سمندر بھی جو طوفاں ہم کو
اس کی لائے دعا ہی کھینچ کنارے اکثر
.. دعا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں
لائے اس کی ہی دعا کھینچ کنارے اکثر

میں نہ لوٹوں تو پریشانی میں وہ تو میری
جاگتی آنکھوں میں ہی رات گزارے اکثر
... میری پریشانی؟ یا میری طرف سے پریشانی؟ ہاں، فکر میں میری ہو سکتا ہے
جاگتی. آنکھوں بھی محاورے کے خلاف ہے. محاورہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتا ہے

سعد کہتے رہیں کچھ بھی یہ زمانے والے
بیٹے ہوتے ہیں ماں کے راج دلارے اکثر
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے
 
اکثر ردیف اکثر بے معنی لگ رہی ہے بطور خاص 'جو' یا 'جب' کے ساتھ تو قطعی غلط ہے
اس کے دامن میں اترتے ہیں ستارے اکثر
وہ جو چاہت سے مرے بال سنوارے اکثر
... ردیف جیسا اوپر کہا گیا

ایک عمر ہر انسان پر ایسی ہوتی ہے جس میں ماں ہی بال سنوارتی ہے۔

غم کے صہرا میں میسر ہو ہی جاتی ہے خوشی
پیار سے جب وہ مرا نام پکارے اکثر
... ردیف، 'ہو ہی' میں تنافر تو ہے ہی، 'ہُہِ' تقطیع ہونا بھی درست نہیں

یہ دوبارا سمجھا دیجئے

اس کی قربت میں نہیں خوف بھی اس لمحے کا
جس میں رہتے نہیں ہیں لوگ ہمارے اکثر
.. مفہوم؟
ہو لمحہ جس میں لوگ آپ کو چھوڑ بھی دیں ،اگر ماں کی قربت حاصل ہو تو ایسے وقت میں بھی انسان کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتا

گر ملے بیچ سمندر بھی جو طوفاں ہم کو
اس کی لائے دعا ہی کھینچ کنارے اکثر
.. دعا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں
لائے اس کی ہی دعا کھینچ کنارے اکثر

بہترین تدوین ۔ جزاک اللّہ

میں نہ لوٹوں تو پریشانی میں وہ تو میری
جاگتی آنکھوں میں ہی رات گزارے اکثر
... میری پریشانی؟ یا میری طرف سے پریشانی؟ ہاں، فکر میں میری ہو سکتا ہے
جاگتی. آنکھوں بھی محاورے کے خلاف ہے. محاورہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتا ہے

جی اس پر غور کرتا ہوں

سعد کہتے رہیں کچھ بھی یہ زمانے والے
بیٹے ہوتے ہیں ماں کے راج دلارے اکثر
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے

نظر ثانی کیجئے، بہر میں ہے
 
ایک عمر ہر انسان پر ایسی ہوتی ہے جس میں ماں ہی بال سنوارتی ہے۔
یہ شعر ماں کی شان میں کہا گیا تھا؟؟؟

ہو لمحہ جس میں لوگ آپ کو چھوڑ بھی دیں ،اگر ماں کی قربت حاصل ہو تو ایسے وقت میں بھی انسان کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتا
یہاں کون سے الفاظ سے اشارہ ہوتا ہے کہ ماں کے قرب کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے؟؟؟

نظر ثانی کیجئے، بہر میں ہے
میرے بھائی ۔۔۔ استادِ محترم کے مرتبہ کا خیال کریں ۔۔۔ جتنی ہماری آپ کی ملا کر عمر نہیں، اس سے زیادہ ان کا تجربہ ہے ۔۔۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو ان کو نظرِ ثانی کا کہنے سے پہلے ایک بار یہ دیکھ لیں کہ کہاں غلطی کر رہے ہیں۔ ’’ماں کے‘‘ محض ’’مَکے‘‘ تقطیع ہو رہا ہے!!!
 
یہ شعر ماں کی شان میں کہا گیا تھا؟؟؟


یہاں کون سے الفاظ سے اشارہ ہوتا ہے کہ ماں کے قرب کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے؟؟؟
میں نے یہ غزل لکھی ہی ایسے تھی کہ آخری شعر میں ظاہر ہو کہ ذکر کس کا ہو رہا ہے۔

میرے بھائی ۔۔۔ استادِ محترم کے مرتبہ کا خیال کریں ۔۔۔ جتنی ہماری آپ کی ملا کر عمر نہیں، اس سے زیادہ ان کا تجربہ ہے ۔۔۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو ان کو نظرِ ثانی کا کہنے سے پہلے ایک بار یہ دیکھ لیں کہ کہاں غلطی کر رہے ہیں۔ ’’ماں کے‘‘ محض ’’مَکے‘‘ تقطیع ہو رہا ہے!!!
جی کسی گستاخی کا مرتکب ہوا ہوں تو معذرت چاہوں گا۔ ں ویسے ہی نہیں گنا جاتا ، ما ، م پر زبر سے مکمل ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے محدود علم کے ساتھ بات کی ہے۔ ظاہر ہے ، نظر ثانی کی بات پر استاد کو میرے علم کا انداذہ ہو جائے گا اور وہ اس کے مطابق جواب دیں گے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس کو نظم ہی کہیں اور عنوان ماں دے دیں۔
قربت والے شعر کے علاوہ باقی اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کے بارے میں کہا جا رہا ہے، گو یقین کے ساتھ نہیں۔ماں کے کو مکے باندھا نہیں جا سکتا
 
اس کو نظم ہی کہیں اور عنوان ماں دے دیں۔
قربت والے شعر کے علاوہ باقی اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کے بارے میں کہا جا رہا ہے، گو یقین کے ساتھ نہیں۔ماں کے کو مکے باندھا نہیں جا سکتا

جی سر، اس کا عنوان ماں ہی ہے۔ اپ عرض کر رہے ہیں کے ماں کے کو تبدیل کیا جائے گویا ماں کا الف گرانا آپ کی تجویز کے مطابق درست نہیں۔

میں سر اس شعر پر غور کرتا ہو اور بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
اس کو نظم ہی کہیں اور عنوان ماں دے دیں۔
قربت والے شعر کے علاوہ باقی اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کے بارے میں کہا جا رہا ہے، گو یقین کے ساتھ نہیں۔ماں کے کو مکے باندھا نہیں جا سکتا

مزید میں اس بارے میں اور علم چاھتا ہو کہ یہ کیسے انداذہ کیا جائے کہ مکے جیسے الفاظ باندھنا درست ہے کہ نہیں مثال کے لئے ، غالب صاحب کا مصرع ہے

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

اس میں ہر ایک ۔ ہ ریک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس پوسٹ کا مقصد صرف حصول علم ہے
 
مزید میں اس بارے میں اور علم چاھتا ہو کہ یہ کیسے انداذہ کیا جائے کہ مکے جیسے الفاظ باندھنا درست ہے کہ نہیں مثال کے لئے ، غالب صاحب کا مصرع ہے

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

اس میں ہر ایک ۔ ہ ریک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس پوسٹ کا مقصد صرف حصول علم ہے
اس کو وصالِ الف کہتے ہیں ... یہاں الف گرتا نہیں بلکہ اسکی حرکت اگلے حرف میں ضم ہو جاتی ہے ... اس سے روانی میں خلل نہیں آتا بلکہ اور بڑھ جاتی ہے، اسی لیے یہ اساتذہ کا اسلوب رہا ہے.
 
آخری تدوین:
اس کو وصالِ الف کہتے ہیں ... یہاں الف گرتا نہیں بلکہ اسکی حرکت اگلے حرف میں ضم ہو جاتی ہے ... اس سے روانی میں خلل نہیں آتا بلکہ اور بڑھ جاتی ہے، اسی لیے اساتذہ کو اسلوب رہا ہے.

جی سمجھ گیا یعنی الف کی آواز ختم نہیں ہوئی بلکہ منتقل ہو گئی ہے۔ صحیح سمجھا ہوں ،،؟
 
ایک اور بات سمجھا دیں کہ لفظ ہر کا ہ الگ کس کلیہ کے مطابق ہوا جبکہ ہر 2 کے وزن والا لفظ ہے
ہر اگر مفرد ہو تو اس کا وزن 2 ہوگا. تاہم تقطیع ہمیشہ ملفوظی ہوتی ہے. ہر کا تلفظ ہَ+رْ ہوتا ہے. اس کی ر ساکن ہے اس لیے سامنے کے الف سے اس کا وصال ہو گیا.
 
اس کو نظم ہی کہیں اور عنوان ماں دے دیں۔
قربت والے شعر کے علاوہ باقی اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کے بارے میں کہا جا رہا ہے، گو یقین کے ساتھ نہیں۔ماں کے کو مکے باندھا نہیں جا سکتا
محمّد احسن سمیع :راحل:
سر یہ کیسا رہے گا

سعد کہتے رہیں کچھ بھی یہ زمانے والے
ماں کے ہوتے ہیں پِسر راج دلارے اکثر
 
Top