احمد ندیم قاسمی غزل: نہ ظلمتِ شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے

نہ ظلمتِ شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے
مگر مسافر رواں دواں ہیں ہتھیلیوں پر چراغ دھر کے

حصارِ دیوار و در سے میں نے نکل کے دیکھا کہ اس جہاں میں
ستارے جب تک چمک رہے ہیں، چراغ روشن ہیں میرے گھر کے

میں دل کا جامِ شکستہ لاؤں کہ روح کی کرچیاں دکھاؤں
میں کس زباں میں تمھیں سناؤں، جو مجھ پر احساں ہیں شیشہ گر کے

نئی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی تاریخ خود لکھے گا
بس اب عجائب گھروں میں رکھ دو قدیم معیار خیر و شر کے

بہشت کی نعمتیں ابھی تک ندیمؔ کے انتظار میں ہیں
کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پر آدم کی رہگزر کے

٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
 

Ahmad400

محفلین
یہ خالد احمد کہ غزل ہے، ان کی کتاب ٗہتیھلیوں پہ چراغٗ سے. شاعر کے نام کی درستگی کر لیجئے.
 
یہ خالد احمد کہ غزل ہے، ان کی کتاب ٗہتیھلیوں پہ چراغٗ سے. شاعر کے نام کی درستگی کر لیجئے.
یہ غزل میں نے سنگ میل پبلشررز کی شائع کردہ احمد ندیم قاسمی کے مجموعۂ کلام محیط سے دیکھ کر ٹائپ کی ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ احمد ندیم قاسمی کی غزل ہے۔
 
Top