ڈنگر ڈاکٹروں و دیگر جانور پالنے کے شوقین محفلین سے مشورہ درکار ہے

ہمارے ناہنجار بلے عرف "یومی" نے کھانا چھوڑ رکھا ہے۔ جب تک ہم اس کے لیے ابالی ہوئی مرغی کے نوالے بناکر اس کے منہ کے سامنے نہیں لے جاتے، وہ اپنے سامنے رکھی ہوئی پلیٹ سے اٹھاکر کھانا نہیں کھاتا۔ اسے بھوکا رکھ کر بھی دیکھ لیا۔ بھوکا ہو تو زیادہ نخرے اُٹھواتا ہے۔ پیار بھرے لہجے میں آٹھ دس بار بلاؤ تب کچھ نگاہ التفات ہماری جانب ڈالتا ہے۔ نوالہ پہلے سونگھتا ہے، چکھتا ہے تب بادلِ ناخواستہ کھانے کے موڈ میں آتا ہے۔ تمام نوالے اسی طرح تناول فرمانے کے بعد جب پیٹ بھرجاتا ہے تو منہ موڑ کر چل دیتا ہے۔

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
 
آخری تدوین:

ثمین زارا

محفلین
"گربہ کشتن روز اول" 101 مرتبہ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کیجیئے ۔ ۔ پھر بلے کو کچھ بھی کھلایئے ۔ ۔ آزمائش شرط ہے ۔ ۔ کچھ نہیں ہوگا ۔ ۔
اتنا کوئی ہمیں بگاڑے تو ہم نے بھی یہی کچھ کرنا ہے ۔ ۔ بلے صاحب بالکل صحیح کر رہے ہیں ۔ ۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

شمشاد

لائبریرین
خلیل بھائی یہ والا کھانا کھلا کر دیکھیں۔

Header_1701748_1.11.jpg
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہمارے ناہنجار بلے عرف "یومی" نے کھانا چھوڑ رکھا ہے۔ جب تک ہم اس کے لیے ابالی ہوئی مرغی کے نوالے بناکر اس کے منہ کے سامنے نہیں لے جاتے، وہ اپنے سامنے رکھی ہوئی پلیٹ سے اٹھاکر کھانا نہیں کھاتا۔ اسے بھوکا رکھ کر بھی دیکھ لیا۔ بھوکا ہو تو زیادہ نخرے اُٹھواتا ہے۔ پیار بھرے لہجے میں آٹھ دس بار بلاؤ تب کچھ نگاہ التفات ہماری جانب ڈالتا ہے۔ نوالہ پہلے سونگھتا ہے، چکھتا ہے تب بادلِ ناخواستہ کھانے کے موڈ میں آتا ہے۔ تمام نوالے اسی طرح تناول فرمانے کے بعد جب پیٹ بھرجاتا ہے تو منہ موڑ کر چل دیتا ہے۔

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

پہلے یہ بتائیے خلیل بھائی کہ یومی میاؤں کی عمر کتنی ہے ۔

یہ سوال پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا مراسلہ پڑھ کر ایک واقعہ یاد آگیا ۔ کوئی چودہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ ایک روز اسپتال کی مارننگ میٹنگ میں خلافِ معمول ایک رفیق کار نظر نہیں آئے ۔ یہ صاحب کوریا کے ایک ڈاکٹرتھے ۔ اگلے دن میٹنگ میں میں نے غیرحاضری کی وجہ پوچھی تو کہنےلگے کہ کئی ہفتوں سے ان کے پالتو کتے نے کھانا پینا کم کردیا تھا اور اُس کا رویہ بھی تبدیل ہونے لگا تھا ۔ مقامی ویٹ کے کہنے پر وہ کتے کو سو میل دور ایک دوسرے شہر میں ماہرِ نفسیات کو دکھانے لے گئے تھے ۔ بہت انتظار کے بعد اپائنٹمنٹ ملا تھا۔ جانوروں کے ماہرِنفسیات ڈاکٹر نےچند منٹ کی گفت و شنید اور معائنے کے بعد ڈیپریشن تشخیص کیا اور کتے کے لئے ڈیپریشن کی گولیاں لکھ دیں ۔ یہ واقعہ سنا کر آخر میں ان ڈاکٹر صاحب نے ذرا شکایت بھرے لہجے میں یہ تبصرہ بھی کیا کہ ماہرِ نفسیات نے صرف دس بارہ منٹ کےچیک اپ کی ایک سو بیس ڈالر فیس وصول کی ۔ یہ سن کر میٹنگ میں موجود نفسیات کےہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ: اوہو! میں تو ناحق ساری عمر غلط مریضوں کا علاج کرتا رہا !
 

شمشاد

لائبریرین
ظہیر بھائی کی بات پر مجھے بھی ایک واقعہ یاد آیا۔

اسلام آباد میں امریکی سفاتخانے میں تعینات ایک سینئر امریکی خاتون اپنے کُتے کو لے کر ڈنگر ہسپتال پہنچیں۔ یہ بڑی سی گاڑی جسے شوفر چلا رہا تھا۔ اس نے ڈنگر ڈاکٹر کو بتایا کہ ان کا کتا کچھ دنوں سے علیل ہے، کچھ کھاتا نہیں ہے، میرے پاس بھی پہلے جیسی گرم جوشی سے نہیں آتا۔ روزانہ سویرے اسے ٹہلانے کے لیے لے کےجاتی ہوں، اب کچھ دنوں سے نخرے دکھا رہا ہے۔ کھانے کو بیش قیمت غذا ہے، رہنے کے لیے خاص طور پر ڈاگ ہاؤس بنا رکھا ہے جس میں اس کے لیے ریشمی بستر ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کیا اور کہنے لگے بیگم صاحبہ اسے ایک دن کے لیےہمارے پاس چھوڑ جائیں۔ وہ بادل نخواستہ چھوڑ گئیں۔

ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جمعدار کو بلایا اور کتا اس کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اس کی چھتر پریڈ کرو۔ اور جس باڑے میں گائے بھینس بندھی ہوئی ہے، وہاں اس کو باندھ دو۔ اور ہاں کھانے کو کچھ نہیں دینا۔ اور ہر تین چار گھنٹوں بعد اس کو دو چار لتر مار دینا۔ جمعدار نے پوری ایمانداری سے ڈاکٹر صاحب کی تشخیص پر عمل کیا۔

اگلے دن بیگم صاحبہ اسی کر و فر سے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کتا منگوایا۔ کتےنے جیسے ہی اپنی مالکن کو دیکھا تو چھلانگ مار کر ان کی گود میں دبک کے بیٹھ گیا۔ اور لگا ان کے ہاتھ منہ کو چاٹنے۔ بیگم صاحب بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ آپ نے ایسا کیا کیا کہ ایک ہی دن میں اس کی کایا پلٹ گئی۔

ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ کچھ نہیں بس اس کو یہ یاد دلایا ہے کہ یہ امریکہ نہیں پاکستان ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
آپ کے بلے کا سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ ہونے والا ہے۔ اسے شمالی علاقہ جات کا ایک چکر لگوا لائیں۔ :)
 
تین ماہ اور محفلین کے انتہائی گرانمایہ پند و نصائح کے بعد ہم انتہائی مسرت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے بلے "یومی" نے دوبارہ کھانا شروع کردیا ہے۔

آج بروز ہفتہ ہم ناشتے سے فارغ ہوکر موبائل پر ڈیجیٹل تھئیٹر پلس پر ارون برلن کا کھیل " ہالیڈے اِن" دیکھ رہے تھے جو 1942ء کی اسی نام سے بنائی گئی فلم کا کلاسیکی میوزیکل ہے جسے 2016ء میں فلمایا گیا، کہ یومی نے آکر ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہم سمجھ گئے کہ موصوف کو بھوک لگی ہے۔ ہم نے اپنی نصف بہتر کو یہ بات بتائی تو انہوں نے بھی کہا کہ اس کا کھانے کا وقت ہوگیا ہے، چنانچہ ہم نے ریفریجریٹر سے یومی کی چکن نکالی اور گلانے کے لیے چولھے پر چڑھادی۔ چکن گل چکی تو اس بڑی بوٹی کے دو ٹکڑے کیے اور کچھ یخنی کے ساتھ یومی کی پلیٹ میں ڈال کر ہم دوبارہ فلم دیکھنے میں محو ہوگئے۔ اسی اثناء میں یومی نے آکر کھانا شروع کیا اور پلیٹ میں رکھی ہوئی چکن کی بوٹیاں ہڈیوں سمیت غائب ہو گئیں۔

یہ کایا پلٹ کیونکر ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔
ہوا یوں کہ۔۔۔

(جاری ہے)

ہمارے ناہنجار بلے عرف "یومی" نے کھانا چھوڑ رکھا ہے۔ جب تک ہم اس کے لیے ابالی ہوئی مرغی کے نوالے بناکر اس کے منہ کے سامنے نہیں لے جاتے، وہ اپنے سامنے رکھی ہوئی پلیٹ سے اٹھاکر کھانا نہیں کھاتا۔ اسے بھوکا رکھ کر بھی دیکھ لیا۔ بھوکا ہو تو زیادہ نخرے اُٹھواتا ہے۔ پیار بھرے لہجے میں آٹھ دس بار بلاؤ تب کچھ نگاہ التفات ہماری جانب ڈالتا ہے۔ نوالہ پہلے سونگھتا ہے، چکھتا ہے تب بادلِ ناخواستہ کھانے کے موڈ میں آتا ہے۔ تمام نوالے اسی طرح تناول فرمانے کے بعد جب پیٹ بھرجاتا ہے تو منہ موڑ کر چل دیتا ہے۔

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
 
آخری تدوین:

باباجی

محفلین
بلیوں سے دشمنی ہے ہماری ۔۔ اگر کتوں سے متعلق کچھ ہوتا تو یقیناً کوئی کار آمد مشورہ دینے کے قابل ہوتا
 
معذرت۔۔۔
سر، ہمیں ڈنگر ڈاکٹر اور دیگر جانور پالنے کا کوئی شوق نہیں!!!
خوب پکڑا ہے جناب۔ اسے یوں ہونا چاہیے، " ڈنگر ڈاکٹروں نیز جانور پالنے کے شوقین محفلین سے مشورہ درکار ہے۔

صاحب پتا چل رہا ہے کہ آنجناب نے ابھی ابھی حاطب صدیقی صاحب کا کالم پڑھا ہے اور نگاہیں 6 بائی 6 کیے ہر مراسلے کو پڑھ رہے ہیں
 

بابا-جی

محفلین
بھلے وقتوں میں جنابِ مُحترم ڈنگر ڈاکٹر کو بیطار کہا جاتا تھا۔ لکھنے میں اِسے بتار بھی لکھ لیا کرتے تھے مگر ڈنگر ڈاکٹر ایسا زبان پر چڑھا سب کے کِہ دوست احباب ڈنگر ڈاکٹر کا سُن لیتے تھے تو صرف اُسے دیکھنے کے لیے اکھٹے ہو جاتے تھے۔ اب تو خیر کلینکس قائم ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بھلے وقتوں میں جنابِ مُحترم ڈنگر ڈاکٹر کو بیطار کہا جاتا تھا۔ لکھنے میں اِسے بتار بھی لکھ لیا کرتے تھے مگر ڈنگر ڈاکٹر ایسا زبان پر چڑھا سب کے کِہ دوست احباب ڈنگر ڈاکٹر کا سُن لیتے تھے تو صرف اُسے دیکھنے کے لیے اکھٹے ہو جاتے تھے۔ اب تو خیر کلینکس قائم ہیں۔
اندون سندھ میں ہماری خالہ کے پڑوس میں ایک ویٹرنری ڈاکٹر رہتے تھے۔ ہم انہیں ڈاکٹر ڈھور کہتے تھے ۔
 

Ali Baba

محفلین
ڈاکٹر کو ہر کوئی اس کے منہ پر ڈاکٹر کہہ کر بلا سکتا ہے۔ کیا صاحبِ لڑی یا اور کوئی کسی ویٹنری ڈاکٹرکو اس کے منہ پر "ڈنگر ڈاکٹر" کہہ کر بلا سکتا ہے؟ نہیں! کیوں؟

"ڈنگر ڈاکٹر" ایک تحقیر آمیز اصطلاح ہے اور اس کا مطلب ڈھور ڈنگروں کا علاج کرنے والا ڈاکٹر نہیں بلکہ عام طور پر جس شخص کی تحقیر کرنی ہو اس کو کہا جاتا ہے اور لغوی معنوں کی بجائے ہمیشہ اسی مجازی تحقیری معنوں میں ہی استعمال ہوتی ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں تو کسی ویٹ ڈاکٹر کو اس کے منہ پر "ڈنگر ڈاکٹر" کہہ کر نتیجہ دیکھ لیں!

کہنا صرف اتنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ واقعی سنجیدہ لڑی ہے تو عنوان میں یہ تحقیر آمیز اصطلاح نہیں ہونی چاہیئے۔
 
کہنا صرف اتنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ واقعی سنجیدہ لڑی ہے تو عنوان میں یہ تحقیر آمیز اصطلاح نہیں ہونی چاہیئے۔
ہم پاکستانیوں کے حسِ مزاح کو کیا ہوگیا ہے۔ کیا اب ہمیں اپنی ہر تحریر کے ساتھ وہی نوٹ لکھنا ہوگا :

نوٹ: یہ ایک مزاحیہ تحریر ہے

نوٹ: یہ تحریر مزاحیہ تحریر ہے۔
 
آخری تدوین:
لا حول و لا قوۃ الا باللہ! کیا اردو ادب اتنا حساس ہے کہ اس میں طنز و مزاح کی بھی گنجائش نہیں؟ یہاں تو ایسے احتجاجی مراسلے دیکھنے کو ملے گویا کسی لا دین نے کسی مذہبی مجلس میں وجود خدا سے انکار کی کاری ضرب لگا دی ہو۔ اس لڑی کے مقفل ہونے کا سبب کم از کم ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ :) :) :)

جب ایک مضمون پر لکھا ہوا ہمارا ایک چھوٹا سا نوٹ بھی اتنا ہی مقبول ہوا:)
 
Top