انسانی قوت مدافعت

فاخر رضا

محفلین
قوت مدافعت

سوالات

۱۔ انسانی حوالے سے قوت مدافعت کیا ہے

۲۔قوت مدافعت کی کتنی قسمیں ہیں

۳۔ قوت مدافعت کس طرح بڑھائی جاسکتی ہے

۱۔ انسانی حوالے سے قوت مدافعت کیا ہے۔

قوت مدافعت سے مراد انسانی جسم کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ ’’غیر خود‘‘ ذرات (اینٹی جن) کو پہنچانیں اور پھر انہیں انسانی جسم میں داخل ہونے سے روکیں۔ اگر یہ جسم میں داخل ہوجائیں تو ان کو جلد از جلد غیر فعال کردیں تاکہ یہ ذرات انسانی جسم کے لئے ضرررساں ثابت نہ ہوں۔ ان غیر خود ذرات کی ایک مثال انسانی خون کا گروپ بھی ہے۔ یعنی اگر کسی گروپ (اے) کے فرد کو گروپ (بی) کا خون لگا دیا جائے تو یہ ہمارے جسم میں موجود دفاعی نظام ہی ہے جو اس خون کے ’’غیر خود‘‘ خلیات کو دبوچ کر ناکارہ بناتا ہے۔ اسی کو عام زبان میں ری ایکشن بھی کہا جاتا ہے۔ خون کے خلیات کی طرح ہی انسان مختلف اشیاء کے خلاف ری ایکشن دکھاتا ہے مثلا بعض دوائیاں ، کسی خاص قسم کی خوراک وغیرہ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ خوردبینی بیکٹیریا اور وائرس جو جسم میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارا جسم ان کے خلاف بھی اپنے قوت مدافعت کو حرکت میں لاتا ہے۔ اس کے کچھ مراحل ہیں

۲۔قوت مدافعت کی کتنی قسمیں ہیں

سب سے پہلے ہماری جلد دفاع میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اس جلد میں موجود ’’تین تہیں، ایپی ڈرمس، ڈرمس اور ہائیپوڈرمس‘‘ مختلف کام انجام دیتی ہیں اور ان میں سے ایک کام انسان کو بیرونی جراثیم سے بچانا بھی ہے۔ یہ جراثیم ہمارے جسم میں جن جن راستوں سے داخل ہوسکتے ہیں، قدرت نے ان تمام مقامات پر پہرے لگادیئے ہیں۔ مثلاَ ناک، کان، آنکھیں، سانس لینے کا راستہ، اور اسی طرح دیگر راستے، ہر مقام پر جراثیم سے لڑنے کے لئے فوجیں موجود رہتی ہیں۔

اسکے باوجود جو جراثیم جسم میں داخل ہونے کے قابل ہوجاتے ہیں ، کے لئے ہمارے جسم میں کچھ خاص اعضاء کام کرتے ہیں ۔ ان اعضاء کا کام خون کو چھاننا ہے اور اس میں سے مردہ خلیات، جراثیم اور کینسر کے خلیات کو تلف کرنا ہے۔ جی ہاں ہمارے جسم میں کینسر سے لڑنے کی سب سے بڑی صلاحیت ہمارا یہی دفاعی نظام ہے جو چپ چاپ ہمیں ان موزی امراض سے بچاتا ہے۔ ہمارے جسم میں جو اعضاء قوت مدافعت کے حوالے سے فعال ہیں ان میں تلی، تھائمس غدود، ٹانسل، گردن، بغل اور دیگر جگہوں پر پائی جانے والے چھوٹے چھوٹے غدود، خون کا گودہ اور پھیپھڑوں کی باریک تہیں شامل ہیں۔ اسکے علاوہ اس میں ہمارا نظام ہضم بھی بہت موءثر کردار ادا کرتا ہے۔ جس طرح ہماری رگوں میں لال رنگ کا خون گردش کرتا ہے اسی طرح دفاع سے متعلق غدود کا نظام بھی اپنا دوران خون رکھتا ہے مگر اس کا رنگ سفید یا ہلکا پیلا ہوتا ہے اور اسے لمف کہتے ہیں۔

بات کو مختصر کرتے ہوئے یہاں یہ بات اور بتاتے چلیں کہ ہمارے جسم میں نہ صرف خلیات ’’جنہیں سفید خلیات‘‘ کہا جاتا ہے، قوت مدافعت میں عمل انجام دیتے ہیں بلکہ جراثیم سے فوری طور پر نمٹنے کے لئے ایک اینٹی باڈی سسٹم بھی موجود ہوتا ہے جو انسان کو بیماری سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

۳۔ قوت مدافعت کس طرح بڑھائی جاسکتی ہے

جب انسان کے جسم میں کوئی وائرس داخل ہوتا ہے تو جسم اس کے خلاف اپنا دفاعی عمل شروع کرتا ہے۔ اگر جراثیم کا حملہ کم قوت کا ہو اور جسم کو اس کے خلاف فوج جمع کرنے کا وقت مل جائے تو اس صورت میں انسان بغیر کسی علامات کے صحت مند ہوجاتا ہے۔ یہ قوت مدافعت بعد کے مراحل میں بھی انسان کے کام آتی ہے۔ مثلاَ اگر دوبارہ وہی جرثومہ حملہ کرے تو اس صورت میں ہماری جسم پہلے سے تیار ہوتا ہے اور اس حملے پر فوری طور پر قابو پا لیتا ہے۔ اگر یہ حملہ نیا ہو اور شدید ہو تو انسانی جسم ہار جاتا ہے اور یہ بیکٹیریا یا وائرس اپنا کام خوب دکھاتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان نہ صرف شدید بیمار ہوسکتا ہے بلکہ اسکی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

جسم میں اس قوت مدافعت کو بڑھانے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو اس وائرس کے حملے کا انتظار کیا جائے اور جسم کو اس سے لڑنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اگر جسم جیت گیا تو خوب اور اگر ایسا نہ ہوا تو جان بھی جاسکتی ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ویکسین کے ذریعے یہ قوت مدافعت قائم کی جائے اور بڑھائ جائے تاکہ انسان بغیر جان کو خطرے میں ڈالے جراثیم سے لڑنے کے قابل ہوسکے۔ ویکسین کے ذریعے ایک سوچی سمجھی مقدار میں مردہ یا نیم مردہ حالت میں جراثیم کو یا ان جراثیم کے غیر ضرر رساں اجزاء کو جسم میں داخل کیا جاتاہے۔ اس عمل کو بار بار دہرانے سے جسم میں اس جرثومے کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔ اب جب کبھی بھی وہ جرثومہ جسم میں داخل ہوگا ، جسم اس کے خلاف فوری ری ایکشن دکھائے گا اور بیمار ہونے سے بچ جائے گا۔ یہ ایک کامیاب طریقہ کار ہے جس سے مختلف وائرسس اور ٹی بی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے یا اس کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا سے اسمال پاکس کا خاتمہ کامیاب ویکسین پروگرام سے ہی ممکن ہوا۔ اب بھی پولیو کے خاتمے کے لئے مہم جاری ہے اور اس پر بھی جلد قابو پالیا جائے گا۔

کورونا وائرس جس نے آج دنیا کو پریشان کیا ہوا ہے اور لاکھوں جانیں لے چکا ہے، اس سے جان چھڑانے کے لئے ویکسین کی تیاری جاری ہے۔ مگر جب تک کو نہیں بن جاتی احتیاط لازمی ہے۔ ماسک کا استعمال، سماجی فاصلہ اور ہاتھ دھونا، یہ سب ہی کام ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے افراد آج کل قوت مدافعت کو بڑھانے کے نسخے بھی بتا رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کو اوپر دی گئی معمولی سے معلومات بھی نہیں ہوتیں اور وہ قوت مدافعت کو بڑھانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے۔

میں آپ کے سامنے صرف تحقیق سے ثابت شدہ بات ہی رکھوں گا اور امید کرتا ہوں کہ آپ ان پر غور فرمائیں گے اور فضول مشوروں سے بچیں گے۔

کچھ امور ایسے ہیں جن میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ چاہے اس سے آپ کی قوت مدافعت فوری طور پر نہ بڑھے مگر طویل مدت میں اس کے فائدوں سے انکار ممکن نہیں۔ وہ امور کیا ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

۱۔ سگریٹ نوشی مکمل طور پر ترک کردیں

۲۔ ایسی غذا استعمال کریں جن میں پھل اور سبزیاں زیادہ ہوں۔

۳۔ باقاعدگی سے ورزش کو عادت بنائیں۔

۴۔ شراب نوشی سے پرہیز کریں

۵۔ اچھی نیند کو یقینی بنائیں۔

۶۔ انفیکشن سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کریں، ہاتھ دھوتے رہیں اور اچھی طرح پکا ہوا گوشت استعمال کریں۔

۷۔ اسٹریس کم کرنے کی کوشش کریں۔

کچھ اور اہم معلومات

بوڑھے افراد کورونا سے زیادہ متاثر ہوئے اور ان میں اموات کی شرح بھی زیادہ رہی۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔ دیگر یہ کہ وہ اپنی غذا میں کم خاص قسم کے معمولی مقدار میں ضروری عناصر سے محروم رہتے ہیں۔ انہیں مائرہ نیوٹریئینٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں زنک، سیلینیئم، فولاد، تانبہ، فالک ایسڈ اور کچھ وٹامن شامل ہیں۔ ان کی کمی کو کھانے میں تنوع پیدا کرکے پورا کیا جاسکتا ہے۔ پھلوں، سبزیوں اور دیگر مصالحہ جات اور میووں میں یہ اشیاء پائی جاتی ہیں۔ اگر ڈاکٹر کسی خاص قسم کی کمی تشخیص دے تو اسے بھی الگ سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے سے قوت مدافعت پر کتنا اثر ہوگا، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس کمی کو پورا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سرد موسم میں انفیکشن زیادہ ہونے کی وجہ سرد موسم سے زیادہ گھروں میں زیادہ دیر کھڑکی دروازے بند کرکے بیٹھنا ہے۔ اس طرح وائرس کے پھیلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ گرم مشروبات کے استعمال یا ٹھنڈی اشیاء کا استعمال روکنے سے انفیکشن کے بچاو میں مدد ملنے کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

بعض جڑی بوٹیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قوت مدافعت کو بڑھا سکتی ہیں۔ اسکے نہ صرف یہ کہ کوئی ثبوت موجود نہیں بلکہ ان کے مضر اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے نسخوں سے لازماَ بچنا چاہیے۔

کچھ افراد نزلہ زکام یا کورونا تشخیص ہوتے ہیں اینٹی بایوٹک کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ اس سے بھی حتی الامکان بچنا چایئے۔

بعض اوقات انسان کو دائمی طور پر خاندان، ملازمت یا کسی اور وجہ سے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ یہ دائمی پریشانیاں انسانی جسم پر مضر اثر ڈال سکتی ہیں۔ ان مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کچھ دائمی بیماریاں بھی انسان پر غلط اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کا باقاعدہ علاج انسان کی قوت مدافعت بڑھاسکتا ہے۔

اگر انسان پرامید رہے، مایوسی سے بچے اور یقین رکھے کہ وہ بیماری سے لڑ سکتا ہے تو یہ سوچ انسان کو بیمار ہونے سے بچا سکتی ہے۔ اس حوالے سے کئی مذہبی شخصیات کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کی بنیاد پر اپنے آپ کو امراض کے زیر اثر آنے سے بچائے رکھا اور طویل عمر پائی۔ ایمان بر خدا کا انسانی قوت مدافعت پر کیا اثر ہوتا ہے، اس پہلو پر تحقیق کے دروازے کھلے ہیں۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس کے کم از کم منفی نتائج نہیں نکلیں گے۔

فاخر رضا
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اگر انسان پرامید رہے، مایوسی سے بچے اور یقین رکھے کہ وہ بیماری سے لڑ سکتا ہے تو یہ سوچ انسان کو بیمار ہونے سے بچا سکتی ہے۔ اس حوالے سے کئی مذہبی شخصیات کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کی بنیاد پر اپنے آپ کو امراض کے زیر اثر آنے سے بچائے رکھا اور طویل عمر پائی۔ ایمان بر خدا کا انسانی قوت مدافعت پر کیا اثر ہوتا ہے، اس پہلو پر تحقیق کے دروازے کھلے ہیں۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس کے کم از کم منفی نتائج نہیں نکلیں گے۔
ہمیں اللہ تعالی اس ناگہانی آفت سے سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے:
اپنی زندگیوں کو بہتر کرنے اور سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ بصیرت حاصل ہو کہ اس بحران سے ہم بہتر ہو کر نکلیں (آمین)
مولائےِ کائینات علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
  • ’اللہ نے یقین اور اطمینان میں سکون اور خوشی رکھی ہے۔ جو بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہوگا وہ دکھی اور غمزدہ ہوگا‘۔ (بحارالانوار، اشاعت 76)۔
  • ’صاف کپڑے پہننا دکھ اور غم کو دور کرتا ہے‘۔
  • (بحار الانوار، اشاعت 76)۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
ہمیں اللہ تعالی اس ناگہانی آفت سے سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے:
اپنی زندگیوں کو بہتر کرنے اور سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ بصیرت حاصل ہو کہ اس بحران سے ہم بہتر ہو کر نکلیں (آمین)
مولائےِ کائینات علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
  • ’اللہ نے یقین اور اطمینان میں سکون اور خوشی رکھی ہے۔ جو بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہوگا وہ دکھی اور غمزدہ ہوگا‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔
  • ’صاف کپڑے پہننا دکھ اور غم کو دور کرتا ہے‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔
بحارالانوار
 
Top