مخاطب آپ سب ہیں

زوجہ اظہر

محفلین
مخاطب آپ سب ہیں

اتار چڑھاو رنج و غم اور مشکلات سب زندگی کا حصہ ہیں عموما ہم ان سے نکل بھی آتے ہیں لیکن بعض اوقات چیزوں میں اتنی شدت یا وہ اتنی مسلسل ہوتی ہیں کہ سنبھلنا آسان نہیں لگتا اور جمود کی کیفیت طاری ہوتی ہے
کیا حرج ہے کہ کسی ماہر کی مدد لے لی جائے
برائے مہربانی باہر نکلئے
اس سوچ سے کہ اپنے مسئلے کے حل کے لئے کسی ماہر نفسیات سے بات کرنے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ
ہمارا دماغ خراب ہے
یا
ہم پاگل ہیں
یا کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں

ایک ماہر آپکو ان پہلووں سے روشناس کراتا ہے جن کو سمجھنا مشکل ہورہا ہوتا ہے
سوچ کو نئے زاویے ملتے ہیں کہ جنکی بدولت حل تک پہنچا جا سکتا ہے
سوچیے کہ اس سے پہلے دیر ہو.... گفتگو کرنے سے نہ جھجھکیں

عالمی ذہنی صحت کے دن کے موقع پر
 

صابرہ امین

لائبریرین
مخاطب آپ سب ہیں

اتار چڑھاو رنج و غم اور مشکلات سب زندگی کا حصہ ہیں عموما ہم ان سے نکل بھی آتے ہیں لیکن بعض اوقات چیزوں میں اتنی شدت یا وہ اتنی مسلسل ہوتی ہیں کہ سنبھلنا آسان نہیں لگتا اور جمود کی کیفیت طاری ہوتی ہے
کیا حرج ہے کہ کسی ماہر کی مدد لے لی جائے
برائے مہربانی باہر نکلئے
اس سوچ سے کہ اپنے مسئلے کے حل کے لئے کسی ماہر نفسیات سے بات کرنے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ
ہمارا دماغ خراب ہے
یا
ہم پاگل ہیں
یا کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں

ایک ماہر آپکو ان پہلووں سے روشناس کراتا ہے جن کو سمجھنا مشکل ہورہا ہوتا ہے
سوچ کو نئے زاویے ملتے ہیں کہ جنکی بدولت حل تک پہنچا جا سکتا ہے
سوچیے کہ اس سے پہلے دیر ہو.... گفتگو کرنے سے نہ جھجھکیں

عالمی ذہنی صحت کے دن کے موقع پر
بجا فرمایا ۔ ۔ بعض مرتبہ بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے اور دماغی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے دوائیں لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ ۔ لوگ یہ بات بہت کم سمجھتے ہیں ۔ ۔ بس لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ غصہ کے تیز ہیں وغیرہ ۔ ۔ جب کہ یہ دماغی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مخاطب آپ سب ہیں

اتار چڑھاو رنج و غم اور مشکلات سب زندگی کا حصہ ہیں عموما ہم ان سے نکل بھی آتے ہیں لیکن بعض اوقات چیزوں میں اتنی شدت یا وہ اتنی مسلسل ہوتی ہیں کہ سنبھلنا آسان نہیں لگتا اور جمود کی کیفیت طاری ہوتی ہے
کیا حرج ہے کہ کسی ماہر کی مدد لے لی جائے
برائے مہربانی باہر نکلئے
اس سوچ سے کہ اپنے مسئلے کے حل کے لئے کسی ماہر نفسیات سے بات کرنے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ
ہمارا دماغ خراب ہے
یا
ہم پاگل ہیں
یا کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں

ایک ماہر آپکو ان پہلووں سے روشناس کراتا ہے جن کو سمجھنا مشکل ہورہا ہوتا ہے
سوچ کو نئے زاویے ملتے ہیں کہ جنکی بدولت حل تک پہنچا جا سکتا ہے
سوچیے کہ اس سے پہلے دیر ہو.... گفتگو کرنے سے نہ جھجھکیں

عالمی ذہنی صحت کے دن کے موقع پر

اچھی بات ہے۔

تاہم زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ارد گرد اُن کی نفسیات کو سمجھنے والی کوئی ایک آدھ شخصیت موجود ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
خوش آئیند بات یہ ہے کہ ڈپریشن کے اسی فیصد مریض علاج نہ کروانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ باقی بیس فیصد مریض بغیر علاج کے اگلے دو سال تک ڈپریشن میں مبتلا رہیں گے اور پہلے سے یہ بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کون ٹھیک ہو جائے گا اور کون ٹھیک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو کیو ں نہ علاج کرایا جائے۔۔مگر افسوس ہے کہ ہم اسکو نہ بیماری سمجھتے ہیں نہ علاج کروانا۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
خوش آئیند بات یہ ہے کہ ڈپریشن کے اسی فیصد مریض علاج نہ کروانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ باقی بیس فیصد مریض بغیر علاج کے اگلے دو سال تک ڈپریشن میں مبتلا رہیں گے اور پہلے سے یہ بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کون ٹھیک ہو جائے گا اور کون ٹھیک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو کیو ں نہ علاج کرایا جائے۔۔مگر افسوس ہے کہ ہم اسکو نہ بیماری سمجھتے ہیں نہ علاج کروانا۔۔۔۔۔

یعنی دو سال بعد تو جان چھوٹ ہی جائے گی۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
یعنی دو سال بعد تو جان چھوٹ ہی جائے گی۔ :)
بہت ممکن ہے کہ اگر دو سال بعد ٹھیک نہ ہو تو قرابت دار تمام زندگی اُسی حالت میں برداشت کریں گے۔ یہ تو میں نے پڑھا تھا وہ آپُلوگوں سے شئیر کر لیا۔بہتر طور پہ کوئی سائکائٹرسٹ ہی بتا سکتے ہیں۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ممکن ہے کہ اگر دو سال بعد ٹھیک نہ ہو تو قرابت دار تمام زندگی اُسی حالت میں برداشت کریں گے۔ یہ تو میں نے پڑھا تھا وہ آپُلوگوں سے شئیر کر لیا۔بہتر طور پہ کوئی سائکائٹرسٹ ہی بتا سکتے ہیں۔۔۔۔۔

ہم تو نہیں جائیں گے۔ :)
 

زوجہ اظہر

محفلین
بہت ساری چیزیں کھانے سے جڑی ہیں ، پیٹ کے اضطراب کو ختم کر دیا جائے تو ذہن کو بہت حد تک پر سکون رکھا جا سکتا ہے۔

کھانے سے ذہن کا تعلق

ایک دباو والی یا مشکل صورتحال میں کوئی پر سکون ہو سکتا ہے مگر اسکا پیٹ بہت کچھ کہہ رہا ہوتا ہے

جیسے ہم میں سے اکثر کو کسی ٹسٹ سے پہلے پیٹ کے درد کا تجربہ یقینا رہا ہے

تیزابیت، متلی ،دست اور قبض وغیرہ اسی کا شاخسانہ ہو سکتے ہیں

اسی طرح بہت زیادہ کھانا ،بہت کم یا بالکل بھوک نہ لگنا
ذہنی تناو کا سبب ہو سکتے ہیں

دیکھا گیا ہے ڈپریشن میں زیادہ کھانے والے چاہے بھوک ہو یا نہ ہو کچھ نہ کچھ نوش کرتے رہتے ہیں کیونکہ اسی سے ان کے اضطراب کو سکوں ملتا ہے
یا
غم و فکر میں مبتلا شخص
قلیل مقدار میں کھانا تناول کرتا ہے
 

زوجہ اظہر

محفلین
زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی وجہ سے کوئی بھی شخص پریشان ہو سکتا ہے

یہ تعلیمی ، تعلقاتی ،ازدواجی یا کسی اور نوعیت کے ہو سکتے ہیں

اور اس دوران متعلقہ شخص مختلف طرح پیش آسکتاہے

ہماری ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال سے گزرنے والے کو .... لیبل نہ کریں کہ یہ مینٹل ہے ،نفسیاتی ہے

یاد رکھیے نفسیاتی مرض کی تشخیص ہوتی ہے اور یہ کام باقاعدہ جانچ پڑتال کے بعد کیا جاتا ہے

بالکل اسی طرح ،جس طرح دوسرے عوارض میں ٹسٹ کے نتائج آنے پر بیماری کی تصدیق ہوتی ہے
 

ماہی احمد

لائبریرین
سادہ مگر بہترین اندازِ تحریر اور ایک انتہائی اہم موضوع۔۔۔۔ خصوصاً آجکل کے حالات میں۔۔۔۔ اس میں پہلے ہمیں خود کو اور پھر اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو (خصوصاً نو عمر بچوں کو) مدد دینے کے ضرورت ہے۔۔۔۔ بہت بار ظاہر میں کچھ نہیں نظر آتا اور اندر طوفان پر طوفان اٹھتے ہیں۔۔۔۔ ایسے میں خود اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نرمی کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ اور اگر کہیں لگے کہ حالات ٹھیک نہیں تو جیسے جسمانی صحت میں ذرا سی اونچ نیچ کے لئیے ہم سو طرح کے جتن کرنے لگتے ہیں، ذہنی صحت کے لئیے بھی پروفیشنلز سے ملنا چاہئیے اور دوسروں کو انکرج کرنا چاہئیے۔۔۔
 
آخری تدوین:

زوجہ اظہر

محفلین
سادہ مگر بہترین اندازِ تحریر اور ایک انتہائی اہم موضوع۔۔۔۔ خصوصاً آجکل کے حالات میں۔۔۔۔ اس میں پہلے ہمیں خود کو اور پھر اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو (خصوصاً نو عمر بچوں کو) مدد دینے کے ضرورت ہے۔۔۔۔ بہت بار ظاہر میں کچھ نہیں نظر آتا اور اندر طوفان پر طوفان اٹھتے ہیں۔۔۔۔ ایسے میں خود اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نرمی کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ اور اگر کہیں لگے کہ حالات ٹھیک نہیں تو جیسے جسمانی صحت میں ذرا سی اونچ نیچ کے لئیے ہم سو طرح کے جتن کرنے لگتے ہیں، ذہنی صحت کے لئیے بھی پروفیشنلز سے ملنا چاہئیے اور دوسروں کو انکرج کرنا چاہئیے۔۔۔

شکریہ ماہی احمد
 

زوجہ اظہر

محفلین
زندگی مسلسل رواں دواں ہے اور ہم سب اس کوبھرپور گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں
اس زندگی کا ایک بڑا پہلو *تعلقات* ہیں
جو پر سکون زندگی کی ضمانت ہیں

یاد رکھیے تعلقات پر ہم باقاعدہ کام کرسکتے ہیں

ماں باپ ، بہن بھائی ، میاں بیوی اور اولاد ..
موجودہ دور میں ہم ان رشتوں میں بد اعتمادی اور بے یقینی محسوس کر سکتے ہیں

ہمارے اندر قابلیت ہے کہ ہم انکو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں
تو کبھی الجھ جاتے ہیں

تھراپسٹ یا کونسلر وہ سرا ڈھونڈنے میں مددگار ہوتا ہے کہ جس کے ایک دفعہ ہاتھ آنے کے بعد آپ چیزوں کو سلجھاتے چلے جاتے ہیں
تعلقات خوشگوار اور بہتر ہونے لگتے ہیں
 

زوجہ اظہر

محفلین
مخاطب آپ سب ہیں

آپ اپنی زندگی کے رکھوالے ہیں
ایک عادت جس پر قابو پا کر اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے یہ ہے کہ اپنی ذہنی علامات کو انٹرنیٹ پر مت کھوجیں

جیسے اگر منفی سوچیں قابض ہیں تو اس عمل سے ان کو مزید پاوں پھیلانے کا موقع میسر سکتاہے

یا تناو میں کسی شخص کو ایک علامت ہے مگر متعلقہ مواد دیکھنےیا پڑھنے کے بعد توقع کی جاسکتی ہے کہ اسمیں مزید علامات بڑھیں

یہ ایک طرح سے ایسی آموزش ( سیکھنا learning ) کا عمل ہے کہ جس فرد شعوری طور پر آگاہ نہیں ہوتا

مزید یہ کہ ملنے والی متعلقہ معلومات اتنی وافر مقدار میں ہوتی ہیں کہ فرد مزید الجھن در الجھن کا شکار ہوسکتا ہے
 

زوجہ اظہر

محفلین
مخاطب آپ سب ہیں

اپنے ماں اور باپ کو انسان سمجھنا

اس کا ادراک کہ وہ پہلے انسان ہیں پھر ان کو رب کریم نے ہماری ذمہ داریاں سونپی ہیں

وقت گزرتا ہے ہم عاقل و بالغ ہو کراپنی زندگیوں میں مگن ہوتے ہیں ۔۔۔۔
یہ وقت ہے کہ ہم ان کو بلند منصب پر بٹھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بس اب اللہ اللہ کریں(جبکہ یہ کام بالغ ہونے سے لیکر آخری سانس تک کرنا ہے) اور بلاوے(موت) کا انتظار۔۔۔۔

سوچئے اگر پچاس یا پچپن سال کی عمر میں ساتھی کی رحلت ہوئی اور اب دوسرے کے پاس کچھ سال ہیں جو دہائیوں پر محیط ہو سکتے ہیں
یہ اولاد کا کام ہے کہ وہ ان کو انسان سمجھیں ان سے احترام یا دوسرے طریقوں سے پوچھیں کہ وہ کوئی ساتھی چاہتے ہیں
یہ ان کی عمر کا وہ حصہ ہے جہاں تنہائی ہوتی ہے کہ اولاد اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوچکی ہوتی ہے

ایک خاتون نے کہا جب میں بیس سال کی تھی جب میری والدہ کا انتقال ہوا اسوقت کچھ لوگوں نے کہا بھی تو میرا سخت ردعمل تھا کہ میری ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا
پھر میری شادی ہوئی تو احساس ہوا کہ والد کتنے تنہا ہیں ۔۔۔ اگرچہ میری بھابھیاں اچھی ہیں مگر ظاہر ہے وہ بچوں اور گھر بار میں مصروف رہتی ہیں ۔
تو ہم نے والد کا نکاح ثانی کیا کہ بابا کو ساتھی کی ضرورت ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم محترمہ
ایک مثبت معلوماتی سلسلہ ہے ماشاءاللہ ۔جاری رہنا چاہیے۔
عنوان مجھے لگتا ہے "مخاطب ہم سب ہیں" ہونا چاہیے کیونکہ معالج یا ماہر کو بھی ایک اور معالج اور ماہر کی بہرحال ضرورت پڑ سکتی ہے۔
 
Top