برائے اصلاح: جب رکھ دیا اس نے مجھے جام و سبو کے درمیاں

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی التماس ہے

پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں
جب رکھ دیا اس نےمجھے جام و سبو کے درمیاں

اب ہےتمہارے دیس میں رہنا کہ چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں

وُہ مانتا پھر بھی نہیں آنے کی گھر پر التجا
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں

کوئی نہ جائے چُبھ کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں

عزت نہ اپنی اب رہی لوگوں کی اپنے ہاتھ میں
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں

وُہ گھر کی مرغی کو سمجھتے ہیں برابر دال کے
جو جو بھی رکھتے ہیں سجا کر سر پہ اپنے کلغیاں

وُہ بھی شریکِ جرم تھا، قسمت کے دیکھو فیصلے
مہندی کے دن اس کے، پڑیں پیروں میں میرے بیڑیاں

رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی
ہر سال مجھ کو لگتی ہیں اس دن مسلسل ہچکیاں

دو ہی نشاں اب تک ملے ہم کو جُدائی کے ترے
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں

نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کوہسار پر
جب روم میں تھیں جل رہی انسانوں کی سب بستیاں

مقبول رکھ لے ایک تختی ان میں سے اپنے لیے
لگتی ہیں تیرے نام کی منصوبوں پر جو تختیاں
 

الف عین

لائبریرین
چلو اس بار تو دو غزلہ نہیں ہے!
پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں
جب رکھ دیا اس نےمجھے جام و سبو کے درمیاں
... جام و سبو کے بیچ کیوں؟ سمجھ نہیں سکا

اب ہےتمہارے دیس میں رہنا کہ چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں
'کہ' کا محل نہیں اولی میں ۔ 'اب تو' کا محل ہے، یا 'بس اب' کا محل ہے

وُہ مانتا پھر بھی نہیں آنے کی گھر پر التجا
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں
... التجا ماننا محاورہ نہیں

کوئی نہ جائے چُبھ کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں
... کوئی نہ چبھ جائے... بھی تو آ سکتا تھا!
بلکہ 'کوئی' کی جگہ 'شیشہ' یو

عزت نہ اپنی اب رہی لوگوں کی اپنے ہاتھ میں
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں
لوگوں کی بھی اور اپنی بھی؟ ہاتھ جب واحد کہ رہے ہو تو صرف اپنی یا ہماری رکھو

وُہ گھر کی مرغی کو سمجھتے ہیں برابر دال کے
جو جو بھی رکھتے ہیں سجا کر سر پہ اپنے کلغیاں
... مزے کَا ہے، کلعی مرغے کی بھی ہوتی ہے!

وُہ بھی شریکِ جرم تھا، قسمت کے دیکھو فیصلے
مہندی کے دن اس کے، پڑیں پیروں میں میرے بیڑیاں
... یہ بھی سمجھ نہیں سکا

رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی
ہر سال مجھ کو لگتی ہیں اس دن مسلسل ہچکیاں
... لگتی ہیں مجھ کو ہر برس....

دو ہی نشاں اب تک ملے ہم کو جُدائی کے ترے
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں
... اور زیادہ ملنے تھے؟ یہ شعر خواہ مخواہ کا اضافہ لگتا ہے

نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کوہسار پر
جب روم میں تھیں جل رہی انسانوں کی سب بستیاں
... جب جل رہی تھیں.. رواں نہیں؟ انسانوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں مصرع بدلو

مقبول رکھ لے ایک تختی ان میں سے اپنے لیے
لگتی ہیں تیرے نام کی منصوبوں پر جو تختیاں
منصوبوں کی تختیاں؟ سمجھ میں نہیں آیا
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
چلو اس بار تو دو غزلہ نہیں ہے!
ہا ہا ہا ہا
سر، دو غزلہ اس وقت کرتا ہوں جب اشعار موضوع کے لحاظ سے واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہو رہے ہوں یا کچھ ہم خیال ہوں اور باقی متفرق

آپ کے فقرے نے مجھے کئی دفعہ ہنسنے پر مجبور کر دیا

پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں
جب رکھ دیا اس نےمجھے جام و سبو کے درمیاں
... جام و سبو کے بیچ کیوں؟ سمجھ نہیں سکا

یعنی دائیں بائیں ہر طرف جام و سبو موجود ہیں

اب ہےتمہارے دیس میں رہنا کہ چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں
'کہ' کا محل نہیں اولی میں ۔ 'اب تو' کا محل ہے، یا 'بس اب' کا محل ہے
اب دیکھیے

بس اب تمہارے دیس میں رہنا ہے چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں

وُہ مانتا پھر بھی نہیں آنے کی گھر پر التجا
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں
... التجا ماننا محاورہ نہیں
اب دیکھیے
گھر پر مرے آتا نہیں وُہ مِنّتوں کے باوجود
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں
کوئی نہ جائے چُبھ کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں
... کوئی نہ چبھ جائے... بھی تو آ سکتا تھا!
بلکہ 'کوئی' کی جگہ 'شیشہ' یو
یہ دیکھیے

شیشہ نہ چُبھ جائے کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں
عزت نہ اپنی اب رہی لوگوں کی اپنے ہاتھ میں
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں
لوگوں کی بھی اور اپنی بھی؟ ہاتھ جب واحد کہ رہے ہو تو صرف اپنی یا ہماری رکھو
پہلا مصرع تبدیل کر دیا ہے

دستار بندی اب تو ہوتی ہے اچکّوں کی یہاں
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں

وُہ گھر کی مرغی کو سمجھتے ہیں برابر دال کے
جو جو بھی رکھتے ہیں سجا کر سر پہ اپنے کلغیاں
... مزے کَا ہے، کلعی مرغے کی بھی ہوتی ہے!
جی، سر!
وُہ بھی شریکِ جرم تھا، قسمت کے دیکھو فیصلے
مہندی کے دن اس کے، پڑیں پیروں میں میرے بیڑیاں
... یہ بھی سمجھ نہیں سکا

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے آزاد کر دیا ہے جبکہ مجھے قید کر دیا وہ بھی اسکی مہندی کے دن۔ اب دیکھیے

وُہ بھی شریکِ جرم تھا، منصف کے دیکھو فیصلے
مہندی کے دن اس کے، مرے پاؤں میں ڈالیں بیڑیاں

رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی
ہر سال مجھ کو لگتی ہیں اس دن مسلسل ہچکیاں
... لگتی ہیں مجھ کو ہر برس....

رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی
لگتی ہیں مجھ کو ہر برس اس دن مسلسل ہچکیاں
دو ہی نشاں اب تک ملے ہم کو جُدائی کے ترے
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں
... اور زیادہ ملنے تھے؟ یہ شعر خواہ مخواہ کا اضافہ لگتا ہے
سر، ارادہ تو یہ نہیں لیکن ہو سکتا ہے ایسا محسوس ہو رہا ہو۔ اب دیکھیے

ہیں زندگی بھرساتھ یہ تحفے جُدائی کے ترے
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں
نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کوہسار پر
جب روم میں تھیں جل رہی انسانوں کی سب بستیاں
... جب جل رہی تھیں.. رواں نہیں؟ انسانوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں مصرع بدلو
دوسرا مصرع بدلنے کے بعد

نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کُہسار پر
جل رہیں تھیں آگ میں جب روم کی سب بستیاں
مقبول رکھ لے ایک تختی ان میں سے اپنے لیے
لگتی ہیں تیرے نام کی منصوبوں پر جو تختیاں
منصوبوں کی تختیاں؟ سمجھ میں نہیں آیا

سر، مراد وہ تختیاں ہے جو کسی منصوبے کے سنگِ بنیاد اور افتتاح کے موقع پر لگائی جاتی ہیں اور جن پر افتتاح وغیرہ کرنے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔ ان کو چاہیئے کہ ایک تختی اپنی قبر پر لگانے کے لیے بھی رکھ لیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جل رہیں تھیں آگ میں جب روم کی سب بستیاں
فاعلاتن چار بار کی بحر میں ہو گیا
مہندی اور تختی والے اشعار کا درست ابلاغ مجھ کو تو نہیں ہو سکا۔ آگے تمہاری مرضی!
دوسرے احباب کا کیا خیال ہے
 
مہندی والا شعر مجھے تو موضوع کے اعتبار سے مزاحیہ لگ رہا ہے۔
ابلاغ شاید اس طرح کچھ بہتر ہوسکے اگر پہلے مصرعے میں تمہید کے بعد لیکن، مگر وغیرہ لایا جائے، جس سے واضح ہو گا کہ گو دونوں ہی شریکِ جرمِ محبت تھے، مگر سزا صرف شاعر کو ہی سنائی گئی۔
تختیوں والے شعر کی بابت استادِ محترم کا ارشاد بجا ہے۔ آپ نے اپنا مافی الضمیر جو بیان کیا ہے، شعر کے الفاظ سے اس معنی کا ابلاغ نہیں ہورہا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آپ کی آراء دینے کے لیے بہت شُکریہ
آپ کی مرضی ہی میری مرضی ہے۔

کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب دیکھیے

وُہ تھا محبت میں شریکِ جرم ، منصف نے مگر
جانے دیا اس کو، مرے پاؤں میں ڈالیں بیڑیاں

نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کُہسار پر
جب روم بھر میں جل رہیں تھیں بستیوں پر بستیاں

مقبول کرتا کام کوئی اور ہے تعمیر میں
لگتی کسی اور نام کی منصوبوں پر ہیں تختیاں
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آپ کی آراء دینے کے لیے بہت شُکریہ
آپ کی مرضی ہی میری مرضی ہے۔

کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب دیکھیے

وُہ تھا محبت میں شریکِ جرم ، منصف نے مگر
جانے دیا اس کو، مرے پاؤں میں ڈالیں بیڑیاں

نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کُہسار پر
جب روم بھر میں جل رہیں تھیں بستیوں پر بستیاں

مقبول کرتا کام کوئی اور ہے تعمیر میں
لگتی کسی اور نام کی منصوبوں پر ہیں تختیاں
یہ منصوبوں کی تختیاں میری حلق سے نہیں اتر رہی ہیں، باقی تو سب ٹھیک ہء
 

مقبول

محفلین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم الف عین صاحب

سر، اب دیکھیے

مقبول ملنے کو مجھے تیار وہ ہوتا نہیں
ارسال میں ہوں کر چُکا اب تک ہزاروں عرضیاں
مقبول بھائی اگر قابلِ قبول ہو :) تو مقطع اس طرح کر لیں

اب دید کی صورت کوئی مقبول تم پیدا کرو
ارسال میں تو کر چکا ان کو ہزاروں عرضیاں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
مقبول بھائی اگر قابلِ قبول ہو :) تو مقطع اس طرح کر لیں

اب دید کی صورت کوئی مقبول تم پیدا کرو
ارسال میں تو کر چکا ان کو ہزاروں عرضیاں

رؤف بھائی، بہت شکریہ

کیوں نہیں۔ استادِ محترم جیسا کہیں گے ویسا کر لیں گے

اس میں ہلکی سی تبدیلی بھی شاید ممکن ہو

مقبول کوئی اور صورت دید کی پیدا کرو
ارسال تو تم کر چکے ان کو ہزاروں عرضیاں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
رؤف بھائی، بہت شکریہ

کیوں نہیں۔ استادِ محترم جیسا کہیں گے ویسا کر لیں گے

اس میں ہلکی سی تبدیلی بھی شاید ممکن ہو

مقبول کوئی اور صورت دید کی پیدا کرو
ارسال تو تم کر چکے ان کو ہزاروں عرضیاں
یہ بہتر ہے، لیکن تو تم' کے تنافر کو دور کرنے کے لئے' میں ' کر دو۔
 
Top