راجدھانی ایکسپریس ’’واحد خاتون مسافر‘‘ کو لے کر رانچی پہنچی

سیما علی

لائبریرین
راجدھانی ایکسپریس ’’واحد خاتون مسافر‘‘ کو لے کر رانچی پہنچی
OIP-1-1.jpg

دعوت ڈیسک on ستمبر 5, 2020

رانچی، ستمبر 5: نئی دہلی-رانچی راجدھانی ایکسپریس، جو توری جنکشن پر تانا بھگتوں کے جاری احتجاج کی وجہ سے جمعرات کے روز کئی گھنٹوں تک ڈلٹن گنج اسٹیشن پر پھنسی رہی، جمعہ کے روز علی الصبح تنہا خاتون مسافر کے ساتھ رانچی پہنچی۔

راجدھانی ایکسپریس میں سوار باقی 930 مسافروں کو ڈلٹن گنج اسٹیشن سے رانچی تک بس کے ذریعہ لے جایا گیا لیکن ریلوے کے اہلکار اننیا نامی ایک خاتون کو ضلعی انتظامیہ کے ذریعے بندوبست کرنے کے متبادل طریقے اختیار کرنے پر راضی نہیں کرسکے۔

وہ بس میں سفر کرنے کو تیار نہیں تھی کیوں کہ اس نے ٹرین کے سفر کے لیے رقم ادا کردی تھی۔ آخر کار ریل حکام کو قانون کی اس طالبہ کے آگے سر جھکانا پڑا اور ٹرین کو گوموہ اور بوکارو کے راستے موڑ دیا گیا، جس نے 535 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا، جو اس کے عام راستے سے 225 کلومیٹر زیادہ ہے۔

انڈین ایکسپریس نے اننیا کے حوالے سے بتایا کہ ’’مجھ پر بس یا ٹیکسی کے ذریعے سفر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا، لیکن میں اس کے لیے تیار نہیں تھی کیوں کہ میں نے پہلے ہی ٹرین کے سفر کے رقم کی ادائیگی کردی تھی۔ آخر جب میں نے ٹویٹر کے توسط سے ہندوستانی ریلوے کو آگاہ کیا تو انھوں نے ٹرین کے ذریعہ مجھے رانچی روانہ کیا۔‘‘

ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن (ایچ ای سی) کے ایک ریٹائرڈ اہلکار کی بیٹی اننیا اس وقت بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں ایل ایل بی کی کی پڑھائی کر رہی ہیں۔
راجدھانی ایکسپریس ’’واحد خاتون مسافر‘‘ کو لے کر رانچی پہنچی ⋆ دعوت نیوز
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
یہ سب ہوا کیوں؟
دراصل رانچی پہنچنے والی اس ٹرین میں انانیہ چوہدری ہی اکلوتی مسافر تھیں جنھوں نے دلتونگنج سے رانچی تک کا 535 کلومیٹر کا سفر اکیلے ہی طے کیا۔

ایسا رانچی ریلوے ڈویژن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی ٹرین صرف ایک ہی مسافر کے ساتھ اتنا طویل سفر طے کر کے آئی ہو۔ تاہم اس دوران ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف) کا ایک جوان لڑکی کی حفاظت پر معمور رہا۔

تو کیا صرف انانیہ نے ہی راجدھانی ایکسپریس کی ٹکٹ خریدی تھی؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔

اس ٹرین میں کل 930 مسافر تھے جن میں سے 929 کو دلتونگنج سٹیشن پر اتار دیا گیا۔ ریلوے کی جانب سے تمام مسافروں کے لیے رانچی کے لیے بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔

تاہم انانیہ نے بس کے ذریعے سفر کرنے سے انکار کر دیا اور جب بارہا سمجھانے کے باوجود بھی وہ نہ مانیں تو انھیں ایک متبادل راستے سے رانچی پہنچایا گیا جس میں 15 اضافی گھنٹے صرف ہو گئے۔ یہ وجہ تھی کہ رانچی ریلوے سٹیشن کے باہر ایک ہجوم موجود تھا۔

_114259341__114252839_track-jam-by-tana-bhagats-near-tori-station.jpg

،تصویر کا ذریعہRAVI PRAKASH

،تصویر کا کیپشن
ہوا کچھ یوں کہ موہنداس کرم چند گاندھی کو اپنا آئیڈیل ماننے والے تانا بھگت اپنے کچھ مطالبات منوانے کی غرض سے توری جنکشن کے نزدیک رانچی دلتونگنج ریلوے ٹریک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے جس کے باعث اس ٹریک سے ٹرینوں کی آمدورفت ممکن نہیں تھی


یہ مسئلہ پیدا کیوں ہوا؟
ہوا کچھ یوں کہ موہنداس کرم چند گاندھی کو اپنا آئیڈیل ماننے والے تانا بھگت اپنے کچھ مطالبات منوانے کی غرض سے توری جنکشن کے نزدیک رانچی-دلتونگنج ریلوے ٹریک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے جس کے باعث اس ٹریک سے ٹرینوں کی آمدورفت ممکن نہیں تھی۔

یہی وجہ تھی کہ راجدھانی ایکسپریس کو دلتونگنج سٹیشن پر روکا گیا تھا۔ انانیہ کی آنکھ صبح ساڑھے دس بجے کے قریب اپنے والد کی کال سے کھلی کی تو اس وقت ٹرین رکی ہوئی تھی۔
اس کے بعد کا قصہ جاننے کے لیے ہم نے انانیہ چوہدری سے رابطہ کیا اور ان کی زبانی یہ روداد جانی۔

’یہ لڑائی میں اپنے لیے نہیں نظام کے لیے لڑ رہی تھی‘

انھوں نے بتایا کہ 'میں اوپر والی برتھ پر سو رہی تھی اس لیے جب ٹرین رکی تو مجھے پتا نہیں چل سکا۔ میں نے اپنے والد کو نیند میں ہی بتا دیا کہ ٹرین تاخیر سے رانچی پہنچے گی کیونکہ اس وقت یہ کہیں رکی ہوئی ہے۔ اس وقت ایک عمر رسید انکل نے کہا کہ ٹرین کچھ دیر سے نہیں پانچ گھنٹے سے یہاں رکی ہے تو میں حیران رہ گئی۔'

'نیچے اتری تو دیکھا کہ ٹرین دلتونگنج سٹیشن پر کھڑی ہے اور توری میں ٹریک بند ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مجھے اس لیے بھی حیرت تھی کہ مغل سرائے میں ہی یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ ٹرین متبادل راستے سے رانچی جائے گی تو پھر ٹرین پرانے راستے سے ہی دلتونگنج کیسے پہنچ گئی؟ میرے اس سوال کا جواب کسی اہلکار کے پاس نہیں تھا۔'

انانیہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وزیرِ ریلوے کو ٹویٹ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔ اور پھر 12 بج کر 50 منٹ پر ایک اور ٹویٹ کیا۔ تب تک دوسرے مسافر پلیٹ فارم پر اتر کر ہنگامہ کرنے لگے تھے۔
انانیہ کے مطابق کچھ گھنٹوں بعد ریلوے اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ ٹرین احتجاج کے باعث آگے نہیں جا پائے گی اس لیے رانچی تک پہنچنے کے لیے مسافروں کے لیے بسوں کا انتظام کر لیا گیا ہے۔

انانیہ کہتی ہیں کہ 'تمام مسافر بس کے ذریعے سفر کرنے پر آمادہ ہو گئے لیکن میں اڑ گئی۔ میں نے کہا کہ اگر میں نے ٹرین کا کرایہ بھرا ہے تو میں یہ سفر بھی ٹرین کے ذریعے ہی طے کروں گی۔ '

انھوں نے بتایا کہ 'ریلوے کے حکام نے پہلے مجھے منانے کی کوشش کی۔ پھر مجھے ڈرایا۔ مجھ سے میرے گھر والوں کے فون نمبر مانگے تاکہ ان سے رابطہ کر سکیں۔ میں نے کہا کہ جب ٹکٹ میں نے خریدا ہے تو بات بھی میں ہی کروں گی۔

'اب میں ٹرین میں اکلوتی مسافر رہ گئی تھی۔ حکام نے مجھے ٹیکسی کے ذریعے گھر جانے کی پیش کش بھی کی لیکن میں نہیں مانی کیونکہ یہ لڑائی میں اپنے لیے نہیں نظام کے لیے لڑ رہی تھی۔'

_114259342__114252837_while-rail-passengers-were-boarding-in-buses-outside-daltonganj-railway-station-to-travel-to-ranchi.jpg

،تصویر کا ذریعہRAVI PRAKASH

،
تصویر کا کیپشن
انانیہ کہتی ہیں کہ 'تمام مسافر بس کے ذریعے سفر کرنے پر آمادہ ہو گئے لیکن میں اڑ گئی۔ میں نے کہا کہ اگر میں نے ٹرین کا کرایہ بھرا ہے تو میں یہ سفر بھی ٹرین کے ذریعے ہی طے کروں گی‘

انانیہ کہتی ہیں کہ چند گھنٹوں بعد ریلوے کے ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ ٹرین رانچی برستہ گایا-گومو جائے گی۔ اس میں زیادہ وقت لگے گا۔ کیونکہ میں ٹرین میں اکلوتی مسافر تھی اس لیے ایک آر پی ایف کا جوان میری حفاظت کی لیے ٹرین میں موجود تھا۔

'شام چار بجے ٹرین دلتونگنج سے روانہ ہوئی اور برستہ گومو رانچی پہنچی۔ میری ٹویٹ کے جواب میں ریلویز کی جانب سے دھنبد شہر کے ڈویژنل ریلوے مینجر کو شام سات بجے ٹیگ کیا گیا۔ تب تک ٹرین گومو کی جانب گامزن تھی۔

'
یہ وہ ریلوے کا نظام ہے جو میرے نزدیک غلط ہے۔'



راجدھانی ایکسپریس کا 535 کلومیٹر کا سفر اور مسافر صرف ایک لڑکی - BBC News اردو
 

صابرہ امین

لائبریرین
راجدھانی ایکسپریس ’’واحد خاتون مسافر‘‘ کو لے کر رانچی پہنچی
OIP-1-1.jpg

دعوت ڈیسک on ستمبر 5, 2020

رانچی، ستمبر 5: نئی دہلی-رانچی راجدھانی ایکسپریس، جو توری جنکشن پر تانا بھگتوں کے جاری احتجاج کی وجہ سے جمعرات کے روز کئی گھنٹوں تک ڈلٹن گنج اسٹیشن پر پھنسی رہی، جمعہ کے روز علی الصبح تنہا خاتون مسافر کے ساتھ رانچی پہنچی۔

راجدھانی ایکسپریس میں سوار باقی 930 مسافروں کو ڈلٹن گنج اسٹیشن سے رانچی تک بس کے ذریعہ لے جایا گیا لیکن ریلوے کے اہلکار اننیا نامی ایک خاتون کو ضلعی انتظامیہ کے ذریعے بندوبست کرنے کے متبادل طریقے اختیار کرنے پر راضی نہیں کرسکے۔

وہ بس میں سفر کرنے کو تیار نہیں تھی کیوں کہ اس نے ٹرین کے سفر کے لیے رقم ادا کردی تھی۔ آخر کار ریل حکام کو قانون کی اس طالبہ کے آگے سر جھکانا پڑا اور ٹرین کو گوموہ اور بوکارو کے راستے موڑ دیا گیا، جس نے 535 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا، جو اس کے عام راستے سے 225 کلومیٹر زیادہ ہے۔

انڈین ایکسپریس نے اننیا کے حوالے سے بتایا کہ ’’مجھ پر بس یا ٹیکسی کے ذریعے سفر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا، لیکن میں اس کے لیے تیار نہیں تھی کیوں کہ میں نے پہلے ہی ٹرین کے سفر کے رقم کی ادائیگی کردی تھی۔ آخر جب میں نے ٹویٹر کے توسط سے ہندوستانی ریلوے کو آگاہ کیا تو انھوں نے ٹرین کے ذریعہ مجھے رانچی روانہ کیا۔‘‘

ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن (ایچ ای سی) کے ایک ریٹائرڈ اہلکار کی بیٹی اننیا اس وقت بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں ایل ایل بی کی کی پڑھائی کر رہی ہیں۔
راجدھانی ایکسپریس ’’واحد خاتون مسافر‘‘ کو لے کر رانچی پہنچی ⋆ دعوت نیوز
سیما آپا ان صاحبہ کو بےکار سب کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ۔ بات کو سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ناکہ اپنی بات پر اڑ جائیں کہ ہم نے تو ٹکٹ لیا ہے۔ ۔ بہت سا وقت اور حکومت کا پیسہ بچ سکتا تھا ۔ ۔ ہاں بس کوئی خبر نہ بنتی ۔ ۔:D
 

سیما علی

لائبریرین
سیما آپا ان صاحبہ کو بےکار سب کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ۔ بات کو سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ناکہ اپنی بات پر اڑ جائیں کہ ہم نے تو ٹکٹ لیا ہے۔ ۔ بہت سا وقت اور حکومت کا پیسہ بچ سکتا تھا ۔ ۔ ہاں بس کوئی خبر نہ بنتی ۔ ۔:D
ہمارا مقصد یہ تھا کہ شنوائی تو ہو ہمارے یہاں تو سننے والا کوئی نہیں۔قیامت ٹوٹ پڑے مگر سنتے نہیں ہمار ے تایازاد ابھی انڈیا گیئے تو بتا رہے تھے انڈین ریلوے بالکل انگلستان کی ریلوے کی طرح وقت کاپابند ہے ۔اُفسوس ہوتا ہے اپنی ٹرئینوں کی حالتِ زار دیکھ کر:crying3::crying3:
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارا مقصد یہ تھا کہ شنوائی تو ہو ہمارے یہاں تو سننے والا کوئی نہیں۔قیامت ٹوٹ پڑے مگر سنتے نہیں ہمار ے تایازاد ابھی انڈیا گیئے تو بتا رہے تھے انڈین ریلوے بالکل انگلستان کی ریلوے کی طرح وقت کاپابند ہے ۔اُفسوس ہوتا ہے اپنی ٹرئینوں کی حالتِ زار دیکھ کر:crying3::crying3:

ایک وقت تھا کہ ہمارا ریلوے نظام بھی وقت کا بہت پابند تھا۔ ہم اگر ایک منٹ بھی تاخیر سے پہنچتے تو ٹرین نکل جاتی۔

لیکن اگر ہم وقت پر پہنچ جاتے تو ٹرین اپنے سولہ سنگھار میں ہی ایک گھنٹہ لگا دیتی۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
uD6rq02_d.jpg

کاش ہماری بھی اسی طرح سنی جاسکے اور کم از کم اتنی جرُات تو کریں ۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں سنوائی نہیں ہوتی بالکل بھی ۔ اثر رسوخ والے قانون پر اڑنے کے بجائے ماورائے قانون اپنے کام نکلوالیتے ہیں۔

اور غریب کے پاس یوں بھی کوئی "چوائس" نہیں ہوتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک وقت تھا کہ ہمارا ریلوے نظام بھی وقت کا بہت پابند تھا۔ ہم اگر ایک منٹ بھی تاخیر سے پہنچتے تو ٹرین نکل جاتی۔

لیکن اگر ہم وقت پر پہنچ جاتے تو ٹرین اپنے سولہ سنگھار میں ہی ایک گھنٹہ لگا دیتی۔ :)

درست سولہ سنگھار پورے اور کرایہ آسمان سے باتیں کرتا ہوا۔۔۔۔ اور شیخ رشید صاحب کا دماغ ساتویں آسمان پر باتیں کروا لو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
درست سولہ سنگھار پورے اور کرایہ آسمان سے باتیں کرتا ہوا۔۔۔۔ اور شیخ رشید صاحب کا دماغ ساتویں آسمان پر باتیں کروا لو۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں وزراء کے پاس متعلقہ علم اور تجربہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی ادارے کی کارکردگی کو ٹھیک کر سکیں۔

ریلوے میں ایک معمولی آفیسر بننے کے لئے تو بے تحاشا شرطیں ہوں گی لیکن ریلوے کا وزیر بننے کے لئے کوئی شرط نہیں ہوتی ۔ سوائے اس کے کہ الیکشن جیت لیا جائے اور وزیر بنانے پر مجاز حکام کا دل بھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب جعلی شیخ رشید اور خواجہ آصف جیسے ریلوے وزیر ہوں تو جتنی ریل چل رہی ہے، یہ بھی معجزے سے کم نہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
کیوں صابرہ بٹیا!
باتیں بنانے کے علاوہ تو کوئی کام نہیں کرتے۔۔۔
باتیں سننے کا بھی ایک مزہ ہے ۔ ۔ :LOL: کافی خواب دکھا رہے ہیں ۔ ۔ ایم ایل ون ۔ ۔ کراچی لاہور نان اسٹاپ ٹرین سروس وغیرہ ۔ ۔ ویسے ہم کبھی پاکستان میں ٹرین میں نہیں بیٹھے ۔ ۔ دعا ہے کہ ریلوے کا نظام بہتر ہو جیسا دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ ۔
 

سیما علی

لائبریرین
باتیں سننے کا بھی ایک مزہ ہے ۔ ۔ :LOL: کافی خواب دکھا رہے ہیں ۔ ۔ ایم ایل ون ۔ ۔ کراچی لاہور نان اسٹاپ ٹرین سروس وغیرہ ۔ ۔ ویسے ہم کبھی پاکستان میں ٹرین میں نہیں بیٹھے ۔ ۔ دعا ہے کہ ریلوے کا نظام بہتر ہو جیسا دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ ۔
ان شاء اللّہ
ہم بھی آخری مرتبہ 1989 میں ٹرین میں بیٹھے تھے وہ بھی لاہور سے کراچی۔
 
Top