برائے اصلاح :ہم تری یاد کو چپکے سے بلا لیتے ہیں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن

ہم تری یاد کو ،چپکے سے بلا لیتے ہیں
اس لئے اشک ،جدائی میں بہا لیتے ہیں

تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ سمائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں

باندھ لیں سینے پہ، تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز، بنا لیتے ہیں

تیرے لوٹ آنے کی، جب کوئی خبر ملتی ہے
ہم تری راہ میں پلکوں کو بچھا لیتے ہیں

روبرو بیٹھے ہیں! نظریں نہ ملا پائیں ہم
اک نظر دیکھ کے ،آنکھوں کو جھکا لیتے ہیں

جب ترا ہجر بہت حد سے گزرتا ہے تو ہم
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں

میرا کمرہ تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے
جب ترے لب، کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں

ہم بھٹکتے نہیں میثم شبِ ظلمت میں کبھی
اک تری یاد کی جو شمع جلا لیتے ہیں
یاسر علی میثم
 
ہم تری یاد کو چپکے سے بلا لیتے ہیں
اس لئے اشک جدائی میں بہا لیتے ہیں

دل دکھا لیتے ہیں کچھ اشک بہا لیتے ہیں

تم تو ساجن ہو تمہیں کیوں نہ سمائیں دل میں
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگالیتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسائیں دل میں
 

الف عین

لائبریرین
ہم تری یاد کو ،چپکے سے بلا لیتے ہیں
اس لئے اشک ،جدائی میں بہا لیتے ہیں
... کاما کی کیا ضرورت ہے؟
اشک اس لئے بہانا پڑتا ہے تو یاد کو بلانا چہ معنی دارد؟
اسی لئے شاید ڈاکتر عظیم نے اصلاح کی ہے، لیکن وہ بھی بے ربط ہی لگتی ہے

تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ سمائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں
.. سمانا واقعی غلط استعمال ہے یہاں، بسانا درست ہے جیسا عظیم میاں نے لکھا ہے
ساجن البتہ بالی ووڈ برانڈ لفظ ہے، اردو شاعری کا نہیں

باندھ لیں سینے پہ، تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز، بنا لیتے ہیں
.. درست، اگرچہ 'تو' کا طویل کھینچا جانا روانی کو متاثر کرتا ہے

تیرے لوٹ آنے کی، جب کوئی خبر ملتی ہے
ہم تری راہ میں پلکوں کو بچھا لیتے ہیں
.. درست

روبرو بیٹھے ہیں! نظریں نہ ملا پائیں ہم
اک نظر دیکھ کے ،آنکھوں کو جھکا لیتے ہیں
.. درست

جب ترا ہجر بہت حد سے گزرتا ہے تو ہم
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں
... ہجر کا حد سے گزرنا؟
جب ترا ہجر بہت شاق گزرتا ہے تو ہم

میرا کمرہ تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے
جب ترے لب، کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں
.. درست

ہم بھٹکتے نہیں میثم شبِ ظلمت میں کبھی
اک تری یاد کی جو شمع جلا لیتے ہیں
.. ٹھیک
 
باندھ لیں سینے پہ تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز بنا لیتے ہیں

شاید تعویذ سینے پے باندھا نہیں جاتا

درد جب سے حد سے گزرتا ہے شفا کی خاطر
ہم ترے نام کا تعوی ذ بنا لیتے ییں


میرا کمرہ تیری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے
جب ترے لب کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں

میرا کی ساتھ بنا لیتے ہیں اس پہ غور فرمائیں


ہم بھٹکتے نہیں میثم شب ظلمت میں بھی
اک تری یاد کی جو شمع لیتے ہیں

بس تری یاد کی اک شمع جلا لیتے ہیں

ناچیز کے یہ کچھ مشودے ہیں اگر قابل قبول ہوں
ماہرین کی رائے کے بعد
 

یاسر علی

محفلین
تم تو ساجن تو تمھیں کیوں نہ سمائیں دل میں۔۔

میں نے لغت میں دیکھا تو بسانا کا معنی۔۔آباد کرنا
یعنی گھر آباد کرنا ،شہر آباد کرنا
اور
سمانا کا معنی رچنا ،بسنا،اندر آنا وغیرہ تھے
جس پر ایک شعر بھی لکھا تھا۔
واعظ کی بلاغت بھی بڑی چیز ہے لیکن
سچ بات یہ ہے دل میں سمانا بھی ہے اک چیز

راہنمائی درکار ہے آخر سمانا کیوں نہیں آسکتا؟
شکریہ
 

یاسر علی

محفلین
باندھ لیں سینے پہ تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز بنا لیتے ہیں

شاید تعویذ سینے پے باندھا نہیں جاتا

درد جب سے حد سے گزرتا ہے شفا کی خاطر
ہم ترے نام کا تعوی ذ بنا لیتے ییں

تعویز سینے پہ باندھنا یہ شاعر کے تاثرات ہوتے ہیں۔
نہ کہ لازمی ہے سینے پہ باندھنا جائے۔
وصی شاہ ایک شعر ہے۔۔
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے تعویز بنالیں تم کو
حالانکہ نہ کسی انسان کو تعویذ بنایا جاسکتا ہے اور
نہ تعویز ہاتھ پہ باندھا جاتا ہے ۔
بلکہ بازو یا کلائی میں باندھا جاتا ہے۔

درد جب حد سے گزرتا ہے۔
ایک مشہور گیت کے الفاظ ہیں۔اور فقط تعویز بنا لینے سے شفا نہیں ۔باندھنا ضروری ہے۔
پھر بھی اگر اعتراض ہے تو ۔
باندھ لیں بازو پہ کیا جا سکتا ہے۔


میرا کمرہ تیری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے
جب ترے لب کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں

میرا کی ساتھ بنا لیتے ہیں اس پہ غور فرمائیں

اس میں گمان ہے شتر گربہ کا۔
تیری خوشبو سے مہک اٹھے ہمارا کمرہ

ہم بھٹکتے نہیں میثم شب ظلمت میں بھی
اک تری یاد کی جو شمع لیتے ہیں

بس تری یاد کی اک شمع جلا لیتے ہیں

کبھی بغیر پہلا مصرع اچھا نہیں لگ رہا مجھے۔
ہاں دوسرا پہلے سے بہتر ہے۔۔

ناچیز کے یہ کچھ مشودے ہیں اگر قابل قبول ہوں
ماہرین کی رائے کے بعد
 

الف عین

لائبریرین
وہ خود دل میں سماتا ہے، آپ اسے سما نہیں سکتے۔ آپ اسے بسا سکتے ہیں
عظیم کے مشورے صائب ہیں، میرا کمرہ کے شتر گربہ پر صرف نظر کر گیا تھا
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے گا جناب!


چوم لیتے ہیں اسے پاس بٹھا لیتے ہیں
ہم کبھی پھول کو، ہونٹوں پہ سجا لیتے ہیں

تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ بسائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں

باندھ لیں دل پہ تو کچھ ہم کو شفا ملتی ہے
یا
باندھ لیں سینے پہ، تو ہم کو شفا ملتی ہے
جب ترے نام کا تعویز، بنا لیتے ہیں

تیرے لوٹ آنے کی، جب کوئی خبر ملتی ہے
ہم تری راہ میں پلکوں کو بچھا لیتے ہیں

روبرو بیٹھے ہیں! نظریں نہ ملا پائیں ہم
اک نظر دیکھ کے ،آنکھوں کو جھکا لیتے ہیں

جب ترا ہجر بہت شاق گزرتا ہے تو ہم
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں

تیری خوشبو سے مہک اٹھے ہمارا کمرہ
جب ترے لب، کسی کاغذ پہ بنا لیتے ہیں

ہم بھٹکتے نہیں میثم شبِ ظلمت میں کبھی
بس تری یاد کی اک شمع جلا لیتے ہیں
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
باندھ لیں دل پہ تو کچھ ہم کو شفا ملتی ہے
بہتر ہے
تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ بسائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں
ایک تو ساجن کے بارے میں لکھ چکا ہوں
دوسرے پوری غزل میں محبوب کے لئے تو کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، یہاں تم کیوں
تو ہے محبوب، تجھے کیوں....
تو تو محبوب ہے، پھر کیوں...
دو تجاویز
باقی درست ہو ہی چکی ہے غزل
 

یاسر علی

محفلین
باندھ لیں دل پہ تو کچھ ہم کو شفا ملتی ہے
بہتر ہے
تم تو ساجن ہو، تمہیں کیوں نہ بسائیں دل میں؟
ہم تو دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتے ہیں
ایک تو ساجن کے بارے میں لکھ چکا ہوں
دوسرے پوری غزل میں محبوب کے لئے تو کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، یہاں تم کیوں
تو ہے محبوب، تجھے کیوں....
تو تو محبوب ہے، پھر کیوں...
دو تجاویز
باقی درست ہو ہی چکی ہے غزل
بہت بہت شکریہ
 
Top