خط میں نے تیرے نام لکھا

سیما علی

لائبریرین
آجمورخہ 26 مارچ 2007 بروز پیر
بمقام: چندی والا چوک، نزد چھاچھی چائے والا کے ساتھ گلی میں مکان نمبر 4 کی دوسری منزل


مکرمی و محترمی عزیزم نبیل برادرم !

مجھے امید کامل ہے کہ یہ خط آپ کو جان و مال کی سلامتی کی حالت میں ملے گا۔ عرصہ گزرا آپ سے ملاقات ہوئے اور دل نے چاہا کہ آپ کے موجودہ احوال کے بارے میں‌چنداں آگاہی حاصل کروں اس نیت سے آج قلم اٹھایا اور صفحہ قرطاس پر چند حروف پریشاں لکھ ڈالے تاکہ آپ تک یہ نامہ پہنچے اور آپ کو اپنے دوست کی حالت زار بارے آگاہی ہو اور اگر جوابی سندیسہ ملے جو بلادِ مغرب سے آنا ہی اہالیانِ دیہہ کے لئے ایک اچنبھا ہوتا ہے، تو کچھ آپ سے نصف ملاقات کا بھی تکملہ ہو۔

ازیں بس۔۔۔۔چند روز ہوئے اپنے عزیزم چوھدری شاہد سلطان، جسے ہم پیار سے اسکول میں شیدو گوٹی والا کہتے تھے ، نے گاؤں کا چکر لگایا ، ڈیرے پر بیٹھے ، کچھ گپ شپ ہوئی کچھ پرانے قرنوں کی باتیں ہوئیں۔ باتوں میں کچھ زمانہ طالبعلمی کی یادیں بھی چھڑ گئیں۔ جب سے ڈاکخانہ سے ریٹائر ہوئے بس اپنا تو یہی شغل چلتا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ باتوں باتوں میں آپ کا تذکرہ بھی چل پڑا۔ دل کو یک گونہ خوشی ہوئی کہ آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدعازمِ ولایت ہوئے ہیں۔ بخدا اس بات کی خوشی نہیں کہ جب آپ ولایت سے لوٹیں گے تو اپنے دوست کے لئے ولائتی سگار اور پارکر کا قلم لائیں گے، یہ تو وہ خوشی ہے کہ جب مدتوں بعد کسی دیرینہ دوست کو کہیں دیکھ کر یکلخت دل کی شریانوں میں خون کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے۔

اگر آپ کو بھی ولائتی روشنیوں کی چمک دھمک اور دھلی ہوئی سڑکوں اور اجلے اجلے لوگوں کے درمیان کبھی اپنے گاؤں کی دھول اڑاتی گلیوں، تھکے ہوئے گھوڑے بندھے تانگوں اور حقہ پیتے اور کھانستے بڈھوں کی یاد نے ستایا ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اپنے علامہ صاحب نے یہ شعر آپ کے لئے قطعا نہیں لکھا کہ “ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت“ کیونکہ میرے سننے میں آیا ہے کہ آپ دن رات ان موئی مشینوں جو خودبخود چلتی اور کام کرتی ہیں کیا کہتے ہیں ان کو کمبیوتر ، ان کے آگے ہی بیٹھے رہتے ہیں۔

خیر آپ کو یاد تو ہوگا جب ہم دونوں اور ہمارا دوست شیدو گوٹی والا اور بندو ٹلی اسکول کے پچھواڑے جاکر جامن توڑتے تھے اور آپ جامن کھانے کی بجائے صابر حلوائی کی بیٹی جو کسی پہلوان سے کم ہرگز نہیں تھی کو دے دیتے تھے۔ ہمارے شورشرابے پر آپ کی وضاحتیں کہ عشق وشق کا چکر نہیں میں تو مٹھائی کے پیسوں کی ادائیگی جامنوں کی صورت کرتا ہوں۔ یہ الگ بات کہ وہ ایماں دشمن موٹی اور سانولی حسینہ کسی اور کو جامنوں کے بدلے مٹھائی نہیں بیچتی تھی۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آپ کو یاد تو ہوگا گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں وہ آلوبخاروں کے باغ میں اونگھتے ہوئے چوکیدار کے پاس سے دبے پاؤں گزر کر آلوبخارے توڑنا اور پھر نازنینوں میں کھٹے آلوبخارے ایک شانِ خسروانہ سے بانٹنا۔ اور کیا آپ کو بھولا ہوگا مائی مستقیماں کی مرغی کے انڈے چرا کر مٹھو کی ہٹی پر بیچ کر برف کے گولے کھانا۔

اب تو زندگی کی مشین اتنی تیز ہوگئی ہے کہ وہ گزرے زمانے بھی بہت زور لگا کر یاد کرنے پڑتے ہیں۔ اب دیکھو ناں وہ اپنا چوھدری شاہد سلطان آپ کا پتہ نہ دیتا تو آپ سے اتنی باتیں کیسے ہوتیں اور ہم اپنے پوتے کو پاس ہونے پر پارکر کا پین دینے کا کیسے وعدہ کرتے۔ آپ اس سے یہ مطلب ہرگز نہ لیں کہ ہم نے یہ خط آپ کو پارکر کاپین اور ولائتی سگار بھیجنے کے لئے لکھا ہے بلکہ یہ تو آپ سے پرانے تعلق کو تازہ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔۔ہاں اس کے ساتھ اگر آپ کچھ تحفہ بھیج دیں تو کوئی مضائقہ نہیں آخر دوستوں مین تحائف کا لین دین تو چلتا ہے ناں۔

خیر سے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور جوابی خط میں لکھئے گا۔ یہاں سرسوں کا ساگ، شلغم اور چارہ بڑی وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ہے خود بھی کھائیں اور اپنے ولائیتی دوستوں کو بھی کھلائیں مجھے امید ہے وہ پاکستان کی سوغات کو بہت پسند کریں گے جس میں ہمارے خلوص کی بھی وافر مقدار شامل ہو گی۔

والسلام

آپ کا دوست
چوھدری منظور گجر عرف منجو
ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر
حال مقیم چک لودھراں
سیفی صاحب!!
بہت زبردست،ایک ایک سطر کمال فون پر پڑھنے میں مزا ادھورا رہا ہے سوچا پرنٹ نکال کے پڑھوں گی اُسکا اپنا لطف ہے ۔۔
بہت ساری دعائیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہاں جی، یہاں اسلام آباد میں تو ہے!
باقی علاقوں کا مجھے علم نہیں مگر "دراز ڈاٹ پی کے" سے تو آلموسٹ سب کچھ مل جاتا اور دور دراز علاقوں میں ڈیلور بھی ہو جاتا!
لیکن مجھے زیادہ علم نہیں۔۔۔
کراچی میں بھی ہے اور اب تو کوڈ کے بعد بہت آسانیاں کر دی گیئں ہیں۔جو بڑے نام کبھی ڈیلور۔ نہیں کرتے تھے وہ میدان میں آگئے ہیں۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
کراچی میں بھی ہے اور اب تو کوڈ کے بعد بہت آسانیاں کر دی گیئں ہیں۔جو بڑے نام کبھی ڈیلور۔ نہیں کرتے تھے وہ میدان میں آگئے ہیں۔
کراچی میں تو ایک سروس تازی سبزیاں پھل اور گوشت بھی ڈیلور کرتے۔۔۔ ان کے ریویوز بھی کافی اچھے ہیں۔۔۔۔ مجھے نام بھول گیا ہے، ایک بار جب پاکستان آئی تھی تب دیکھا تھا کہیں۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان میں آنلائن گروسری شاپنگ کی سہولت موجود ہے کیا؟
لیکن کیا ایسا ہی ہے کہ جو منگوایا گیا ہے وہی ڈیلور بھی ہو رہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ منگوائے تو آم تھے اور دیلور ٹینڈے ہو رہے ہیں۔
شمشاد صاحب بالکل موجود ہے۔ سیالکوٹ جیسے چھوٹے سے شہر میں بھی یہ سہولت موجود ہے اور ایمانداری ہی سے چیزیں بھی ڈیلیور کرتے ہیں۔ گروسری کے علاوہ اسٹیشنری یعنی قلم کاغذ بھی دے جاتے ہیں جس سے خط لکھا جاتا ہے!
 

سید عمران

محفلین
شمشاد صاحب بالکل موجود ہے۔ سیالکوٹ جیسے چھوٹے سے شہر میں بھی یہ سہولت موجود ہے اور ایمانداری ہی سے چیزیں بھی ڈیلیور کرتے ہیں۔ گروسری کے علاوہ اسٹیشنری یعنی قلم کاغذ بھی دے جاتے ہیں جس سے خط لکھا جاتا ہے!
خط کے علاوہ کچھ اور تو نہ لکھا جاتا ہوگا!!!
 

سیما علی

لائبریرین
کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔
بے حد کمال علوی صاحب بار بار پڑھا۔ہر سطر بہترین :):)
 

سیما علی

لائبریرین
پُتر ظفری

خوش رہو۔ کافی دن ہو گئے نیں تمہارا کوئی خط نہیں آیا۔ میں پرانے محلے وی گیا سی پتہ کرن لئی۔

پتر اے خط میں تمہیں بہت ہولی ہولی لکھ ریا واں کیونکہ مینوں پتہ ہے تون تیز تیز نئیں پڑھ سکدا۔ اور ہاں توں ہلے جہیڑا وی خط لکھیں گا او اپنے تائے رجوان دے پتے تے پاویں۔ ایسی نواں گھر خریدا اے۔ پر ایدا اجے پتہ نہیں ہے۔ کیونکہ پرانے مالک ایدا پتہ اپنے نال ای لے گئے ہیں۔

پچھلے ہفتے تمہارا محب چاچا وی ولائتوں آیا تھا۔ پر حرام اے جے ہمارے گھر آیا ہووے کہ کتے کوئی تحفہ شحفہ ای نہ دینا پڑ جائے۔ اور اپنے تائے رجوان کا تو تمہں پتہ ای ہے کہ اس نے تے کدی آنا ہی نہیں۔ آہو جی وڈے لوک ہو گئے نے۔ اسلام آباد کوٹھی جو بنا لئی ہے۔

اور ہاں ہم نے تمہارے لئی اک رشتہ وی پسند کیتا اے۔ تم کہیں آتے ہوئے اپنے ساتھ کوئی میم نہ لے آنا۔ ہم نے جو لڑکی تمارے واسطے پسند کی ہے۔ وہ بہت اچھی ہے۔ جب کبھی وہ ہماری گلی سے سر پر ٹوکرا اٹھا کر گزرتی ہے تو بالکل ایسے لگتا ہے جیسے سر پر بڑا سا تاج پہنا ہوا ہے۔ ملکہ لگتی ہے ملکہ۔ کیا ہوا جو اس کی عمر تھوڑی زیادہ ہے۔ ہے تو برسر روزگار۔ چنگا کما لیتی ہے۔

اچھا پتر ہلے بس ایناں ای۔

تیرے نال جو حوریں ہیں اوندا کی حال اے؟

ٕتمہاری بھرجائی وی تمہیں دعائیں لکھوا رہی ہے۔
دعا گو
تیرا وڈا بھائی
کیا بات ہے آپ کی
پچھلے ہفتے تمہارا محب چاچا وی ولائتوں آیا تھا۔ پر حرام اے جے ہمارے گھر آیا ہووے کہ کتے کوئی تحفہ شحفہ ای نہ دینا پڑ جائے۔ گریٹ بہت گریٹ
تسی گریٹ :in-love::in-love:
 
Top