میرے پسندیدہ اشعار

محمل ابراہیم

لائبریرین
سید طاہر علی رضوی کا یہ شعر محولہ بالا شکل میں درست نہیں ہے، بلکہ صحیح یوں ہے:

مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چُھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے


شکریہ
یہ شعر میں نے محض حافظے کی بنیاد پر لکھا تھا کسی تقریر میں اوچھا سا سنا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سید طاہر علی رضوی کا یہ شعر محولہ بالا شکل میں درست نہیں ہے، بلکہ صحیح یوں ہے:
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چُھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ صحیح شعر یوں ہے اور یہ میر طاہر علی رضوی کا کلام ہے :

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا
(میر طاہر علی رضوی)
 

شمشاد

لائبریرین
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
(حفیظ جالندھری)
 

شمشاد

لائبریرین
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں
(عبد الحمید عدم)
 
جی بالکل آپ نے صحیح شعر لکھا تھا۔

بس شاعر کا نام نہیں لکھا تھا۔
ہر دلعزیز شخصیت جناب محترم شمشاد صاحب
ڈیلی پاکستان ویب سائٹ پر ناصر چوہدری نے اس شعر کی تصحیح ان الفاظ کے ساتھ کی ہے
ممتاز کالم نویس پروفیسر ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے کالم ”بے نیازیاں“ میں ذیلی عنوان ”بڑے شہروں سے دور ایک تعلیمی جنت“ میں کسی کالج یا مکتب کا ذکر کرتے ہوئے ایک مشہور زمانہ شعر مکتب کے حوالے سے بغیر شاعر کے نام کے اس طرح رقم کیا ہے:
|
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اُس کو چُٹھی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں تصحیح کر چُ کا ہوں کہ عموماً مومن سے منسوب کیا جانے والا سید طاہر علی رضوی کا یہ شعر ہرگز مذکورہ بالا شکل میں درست نہیں ہے، بلکہ صحیح یوں ہے:

مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چُھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ کی ویب سائیٹ نیز ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان کی سائیٹس پر دوسرا مصرعہ "اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا" درج ہے۔
 
Top