غزل براہ اصلاح

سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:
براہ کرم اصلاح فرما دیجئے

افاعیل: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

وہ اس قابل نہیں جو مشکلوں کا حل بتا پائے
کہ دریا میں عصا اسکا کوئی رستہ بنا پائے

تو اپنے درد کی کیوں خود مسیحائی نہیں کرتا
کوئی فرہاد ہے جو دودھ کی نہریں بہا پائے

یہاں جو حق بتائے کفر کے فتوے لگیں اس پر
یہاں جو جھوٹ بولے ، حق چھپائے وہ جزا پائے

بجائے روز بھاشن جھاڑنے کے سامنے آئے
غریبی کو مٹا کر وہ غریبوں کی دعا پائے

دیو! لو سے ملا کر لو ، کرو ایجاد اک سورج
مخالف تیز آندھی بھی نہ جسکو پھر بجھا پائے

یہاں سب سو رہے ہیں گھپ اندھیرے کے سبب عمران
کسی کو جاگنا ہو گا جو باقی کو جگا پائے

شکریہ
 
سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:
براہ کرم اصلاح فرما دیجئے

افاعیل: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

وہ اس قابل نہیں جو مشکلوں کا حل بتا پائے
کہ دریا میں عصا اسکا کوئی رستہ بنا پائے

تو اپنے درد کی کیوں خود مسیحائی نہیں کرتا
کوئی فرہاد ہے جو دودھ کی نہریں بہا پائے

یہاں جو حق بتائے کفر کے فتوے لگیں اس پر
یہاں جو جھوٹ بولے ، حق چھپائے وہ جزا پائے

بجائے روز بھاشن جھاڑنے کے سامنے آئے
غریبی کو مٹا کر وہ غریبوں کی دعا پائے

دیو! لو سے ملا کر لو ، کرو ایجاد اک سورج
مخالف تیز آندھی بھی نہ جسکو پھر بجھا پائے

یہاں سب سو رہے ہیں گھپ اندھیرے کے سبب عمران
کسی کو جاگنا ہو گا جو باقی کو جگا پائے

شکریہ

تو اپنے درد کی کیوں خود مسیحائی نہیں کرتا
کوئی فرہاد ہے جو دودھ کی نہریں بہا پائے

السلام علیکم عمران بھائی پہلے مصرعہ میں تُو کا و حذف کرنا اچھا نہیں لگ ریا اور دوسرے مصرعہ سمجھ نہیں پایا کہ ماضی کے فرہاد کی بات ہے تو آپ کی ردیف کے ساتھ جچ نہیں رہا اور حال میں سوال کِیا گیا ہےجیسے" کوئی فرہاد ہے؟ جو دودھ کی نہریں بہا پائے" تو شعر میں دو لختی آ جاتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے تقریباً، سجاد نے جس شعر کی نشان دہی کی ہے، وہ ضرور واضح نہیں، البتہ تو کی و کا اسقاط قابل قبول ہے۔
البتہ
یہاں جو حق بتائے کفر کے فتوے لگیں اس پر
یہاں جو جھوٹ بولے ، حق چھپائے وہ جزا پائے
حق بتانا محاورہ نہیں
یہاں گر کوئی سچ بولے تو فتوے کفر کے لگ جائیں
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا
 
درست ہے تقریباً، سجاد نے جس شعر کی نشان دہی کی ہے، وہ ضرور واضح نہیں، البتہ تو کی و کا اسقاط قابل قبول ہے۔
البتہ
یہاں جو حق بتائے کفر کے فتوے لگیں اس پر
یہاں جو جھوٹ بولے ، حق چھپائے وہ جزا پائے
حق بتانا محاورہ نہیں
یہاں گر کوئی سچ بولے تو فتوے کفر کے لگ جائیں
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا
بہت شکریہ سر ، اب دیکھیے

وہ اس قابل نہیں جو مشکلوں کا حل بتا پائے
کہ دریا میں عصا اسکا کوئی رستہ بنا پائے

وہ شیریں آج بھی صحرا میں بھوکی اور پیاسی ہے
کوئی فرہاد ہے جو دودھ کی نہریں بہا پائے

یہاں گر کوئی سچ بولے تو فتوے کفر کے لگ جائیں
یہاں جو جھوٹ بولے ، حق چھپائے وہ جزا پائے

بجائے روز بھاشن جھاڑنے کے سامنے آئے
غریبی کو مٹا کر وہ غریبوں کی دعا پائے

دیو! لو سے ملا کر لو ، کرو ایجاد اک سورج
مخالف تیز آندھی بھی نہ جسکو پھر بجھا پائے

یہاں سب سو رہے ہیں گھپ اندھیرے کے سبب عمران
کسی کو جاگنا ہو گا جو باقی کو جگا پائے
 

نور وجدان

لائبریرین
وہ اس قابل نہیں جو مشکلوں کا حل بتا پائے
کہ دریا میں عصا اسکا کوئی رستہ بنا پائے


سمندر میں عصا اسکا کوئی رستہ بنا پائے

اک تجویز ہے، کچھ مصرعہ رواں ہوجائے گا


*بھوکی و پیاسی اک تو لطیف ترکیب نہیں، دوسرا "اور "کی وجہ سے روانی مجروح ہوتی ہے
........
جو شیریں دشتِ تنہائی میں ہے تشنہ دہن پھرتی
کوئی فرہاد تو ہو، دودھ کی نہریں بَہا پائے

اک تجویز ہے


دیو! لو سے ملا کر لو ، کرو ایجاد اک سورج
دیو سے مراد دیا ہے؟ اگر یہ ہے تو اسطرح کا تخاطب عجیب لگ رہا ہے اور اسکے ساتھ شعر تین ٹکروں میں بنٹا ہے جس سے روانی میں کمی ہے

مخالف تیز آندھی بھی نہ جسکو پھر بجھا پائے



یہاں سب سو رہے ہیں گھپ اندھیرے کے سبب عمران
کسی کو جاگنا ہو گا جو باقی کو جگا پائے

باقیوں کا محل ہے،


یہ محض تجاویز ہے جو بحثیت قاری کے میں نے کہہ دیں
 
Top