کرشن چندر ايراني پلاؤ ۔۔۔۔ کرشن چندر

ايراني پلاؤ ۔۔۔۔ کرشن چندر

آج رات اپني تھي، کيونکہ جيب ميں پيسے نہيں تھے، جب جيب ميں تھوڑے سے پيسے ھوں رات مجھے اپني نہيں معلوم ھوتي، اس وقت رات ميرين ڈرائيو پر تھرکنے والي گاڑيوں کي معلوم ھوتي ھے، جگماتے ھوئے فليٹوں کي معلوم ھوتي ھے ، ايمبسڈر کي چھت پر ناچنے والوں کي معلوم ھوتي ھے ، ليکن آج رات بالکل اپني تھي، آج رات آسمان کے سارے ستارے اپني تھے اور بمبي کي ساري سڑکيں اپني تھيں، جب جيب ميں تھوڑے سے پيسے ھوں تو سارا شہر اپنے اوپر مسلط ھوتا ھوا معلوم ھوتا ھے، ھر شے گھورتي ھے ڈانٹتي ھے، اپنے آپ سے دور بيٹھنے پر مجبور کرتي اوني پتلون سے لے کر خوش نما ريڈيو پروگرام تک ھر چيز کہتي ھے ، مجھ سے دور ھو، ليکن جب جيب ميں ايک پائي نہ ھوتو سارا شہر اپنا بنا ھوا معلوم ھو تا ھے ، اس کے ھر کھمبے پر گويا لکھا ھوتا تھا تعمير کيا گيا برائے بشن ايک قافہ مست صنف، اس دن نہ حوالات کا کارڈ ھوتا ھے نہ گاڑي کي لپٹ ميں آجانے کا، نہ ھوٹل ميںکہانے کا، ايک ايسي وسيع بےفکري اور بے کنار فاقي مستي کا نشہ آور موڈ ھوتا ھے، جوميلون تک پھيلتا چلاجارھے ، اس رات ميں خود نہيں چلتا ھوں اس رات بمبئي کي سڑکيں مجھے اٹھائے اٹھائے چلتي ھيں اور گليوں کے موڑ پر اور بازاروں کے ٹکڑ اور بڑي بڑي عمارتوں کےتاريک کونے مجھے خود دعوت ديتے ھيں ادھر آؤ ہميں بھي ديکھو ھم سے ملو، دوست تم آٹھ سال سے اس شہر ميں رہتے ھوں ، ليکن پھر بھي اجنبيوں کي طرح کيوں چل رھے ھو، ادھر آؤ ھم سے ہاتھ ملاؤ

آج رات اپني تھي، آج رات کسي کا ڈر نہیں تھا، ڈر اسے ھوتا ھے ، جس کي جيب بھاري ھوتي ھے، اس خالي جيبوں والے ملک ميں بھاري جيب والوں کو ڈر ھونا چاھئيے ، ليکن اپني پاس کيا تھا جسے کوئي چھين سکتا۔
سنا ھے کہ حکومت نے ايک قانون بن رکھا ھے،جس کي رو سے رات کو بارہ بجے کے بعد سڑکوں پر گھومنا منع ھے ، کيوں کيا بات ھے، رات کے بارہ بجے کے بعد بمبئ ميں کيا ھوتا جسے وھ مجھ سے چھپانا چاھتے ھيں، ميں تو ضرور ديکھوں گا، چاھئے کچھ بھي ھوجائے، آج رات تو مجھے کسي کا ڈر نہيں ھے ، نہ کسي وزير کا ، نہ کسي حوالات کا، کچھ بھي ھوجائے آج تو ميں ضرور گھوموں گا اور اپنے دوستوں سے ہاتھ ملاؤں گا۔
يہي سوچ کرگيٹ ري کلے مشين کے سامنے کي سڑک سے گزر کر يونيورسٹي گراؤنڈ ميں گھي گيا، ارادھ تو يہ تھا کہ ميدان کے بيچ سے گزر کر دوسري طرف بڑے تار گھر کےسامنے جانکلوں گا، اور وہاں سے فلورا فاونٹين چلا جاؤ گا، مگر ميدان سے گزرتے ھوئے ميں نے ديکھا کہ ايک کونے مين چند لڑکےدائرہ بنائے بيٹھے ھيں اور تالي بجا بجا کر گارھے ھيں
تيرا مير پيار ھوگيا۔
تيرا ميرا
تيرا ميرا
تيرا،ميرا، پيار ھوگيا۔
وھ تين لڑکے تالي بجاتے تھے، ايک لڑکا منہ سے بانسري کي آواز نکالنے کي کوشش کر رھا تھا، ايک لڑکا سر ھلا تے ھوئے ايک لکڑي کے بکس سے طلبے کے بول نکال رھا تھا، سب خوشي سے جھوم رھے تھے، اور موٹي پتلي اونچي نيچي آوازوں ميں گا رھے تھے، ميں نے قريب جا کر پوچھا
کيو ں بھئي کس سے پيار ھوگيا۔

وھ لوگ گانا بند کرکے ايک لمحےکے لئے مجھے ديکھنے ميں مصروف ھوگئے، پتہ نہیں لوگوں کو ديکھنے ميں کيسا لگتا ھوں ميں، ليکن اتنا مجھے معلوم ھے کہ ايک لمحے کے لئے ديکھنے کے بعد لوگ بہت جلدي مجھ سے گھل مل جاتے ھيں، مجھ سے ايسے مانوس ھو جاتے ھيں کہ زندگي بھر کے سارے راز اور اپني مختصر سي کائنات کي ساري تصويريں اور اپنے دل کے سارے دکہ درد مجھ سے کہنے لگ جاتے ھيں، ميرے چہرے پر کوئي بڑائي نہیں کوئي خاص اجنبيت سي ھے ، کوئي رعب اور دبدبہ نہیں ميرے لباس ميں بھي کوئي خاص شوکت نہیں، وھ طعنہ نہيں جو کالي اچکن اور سرخ گلاب کے پھول ميں ھوتا ھے ، شارک اسکين کے سوٹ ميں ھوتا ھے ، بس پاؤں ميں معمولي چپل ھے، اس کے اوپر لٹھےکا پاجامہ اس کے اوپر لٹھے کي قميض ھے جو اکثر پيٹھ سے ميلي رھتي ھے ،کيونکہ ايک تو مجھے اپنے جھونپڑے ميں زمين پر سونے کي عادت ھے ، دوسرے مجھ ميں يہ بھي بري عادت ھے، جہاں بيٹھتا ھوں ديورا ديوار سے ٹيک لگا کر بيٹھتا ھوں يہ الگ بات ھے کہ ميري زندگي ميں ميلي ديوار زيادھ آتي ھيں اور اجلي ديورايں بہت کم، قميض کم بخت کندھوں سے بہت جلد جاتي ھے اور ہاں اکثر آپ کوٹانکے پھٹے پرانے کپڑے کو جوڑنے کي باربار کوشش کي جاتي ھے ، کيونکہ ھر آدمي کالي اچکن پر اور سرخ گلاب کا پھول نہيں ٹانک سکتا، اس ٹانکے اور ٹانکے ميں اس قدرفرق کيوں؟ يہ سچ ھے کہ وہ انسان ايک جيسے نہيں ھوتے ايک شکل کے و صورت کے نہيں ھوتے ھيں، بمبئي ميں شب و روز مختلف چہرے ، ليکن يہ کي کيا بات ھے کہ ان سب کے کندھوں پر وھي ٹانکے لگے ھوتے ھيں ، لاکھوں ٹانکے پھٹي ھوئي زندگيوں کے کناروں کو ملانے کي ناکام کوشش کرتے ھيں ايک نقاد نے ميرے افسانے پڑھ کر کہا تھا، کہ مجھے ان ميں کسي انسان کا چہرھ نظر نہیں آتا، يہي مجھ ميں مصيبت ھے کہ ميں اپنے کرداروں کے چہرے بيان نہيں کرستا، ان کے کندھے کے ٹانکے ديکھتا ھوں ، ٹانکے مجھے انسان کا اندروني چہرھ دکھاتے ھيں اس کي دن رات کي کشمکش اور اس کي شب و روز کي محنت کاسراغ بتاتے ھيں، جس کے بغير زندگي کا کوئي ناول اور سماج کا کوئي افسانہ مکمل نہيں ھو سکتا اس لئے اس بات کي مجھے خوشي ھے کہ ميرا چہرھ ديکھ کر کوئي مجھے کلرک سمجھتا ھے، کوئي کباڑيا کوئي کنگھي بيچنے والا يا بال کاٹنے والا آج تک کسي نے مجھے وزير يا جيب کاٹنے والا نہيں سمجھا، اس بات کي مجھے خوشي ھے کہ ان ميں لاکھوں کروڑوں آدميوں ميں اسے ايک ھوں جو بہت جلد ايک دوسرے سے بغير کسي رسمي تعارف کے مانوس ھوجاتے ھيں۔يہاں بھي ايک متحاني لمہے کي جھجک کے بعد وھ لوگ ميري طرف ديکھ کر مسکرائے، ايک لڑکے نے مجھ سے کہا، آؤ بھائي تم بھي يہاں بيٹھ جاؤ اور اگر گانا چاھتے ھو تو گاؤ۔
اتنا کہہ کر اس نے دبلے پتلے لڑکے نے اپنےسر کے بال جھٹک کے پيچھے کر لئيے اور اپنا لکڑي کے بکس کا طبلہ بجانے لگا، ھم سب لوگ مل کر پھرگانے لگے۔
تيرا ميرا
ميرا تيرا
پيار ھوگيا
يکايک اس دبلے پتلے لڑکے نے طبلہ بجانا بند کرديا اور اپنےايک ساتھي کو جو اپني گردن دونوں ٹانگوں ميں دبائے اکڑوں بيٹھا تھا، ٹہو کا دے کے کہا، ابے مدھو بالا تو کيوں نہيں گاتے۔
مدھو بالا نے اپنا چہرہ ٹانگوں ميں بڑي وقت سے نکالا، اس کا چہرہ مدھو بال ايکٹرس کي طرح حسين نہيں تھا، ٹھوڑي سے لے کر دائيں ہاتھ کي کہني تک آگ سے جلنے کا ايک بہت بڑا نشان يہاں سے وہاں تک چلا گيا تھا، اس کے چہرے پر کرب کے آثار نماياں تھے، اس کي چھوٹي چھوٹي آنکھوں ميں جو اس کے گول چہرے پر دو کالي درزيں معلوم ھوتي تھيں انتہائي پريشاني جھلک رھي تھي، اس نے اپنے ھونٹ سيکڑ کر طبلے والے سے کہا سالے مجھےرھنے دے ميرے پيٹ ميں درد ھو رھا ھے۔
کيوں درد ھوتا ھے ، سالے تونے آج پھر ايراني پلاؤ کھايا ھوگا؟
مدھو بالانے بڑے دکھ سے سر ہلايا، ہاں وھي کھايا تھا۔
کيوں کھايا تھا سالے
کياکرتا ، آج صرف تين جوتے بنائے تھے
جو عمر ميں ان سب سے بڑا معلوم ھوتا ھے تھا، جس کي ٹھوڑي پر تھوڑي داڑي اگي تھي اور کنپٹيوں کے بال رخساروں کي طرف بڑھ رھے تھے اپني ناک کھجاتے ھوئے کہا، اے مدھو بالا، اٹھ ميدان ميں دوڑلگا ، چل ميں تيرے ساتھ دوڑتا ھوں ، دو چکر لگانے سے پيٹ کا درد ٹھيک ھوجائے گا۔
نہيں بے رھنے دے
نہین بے سالے اٹھ، نہیں تو ايک جھانپڑ دوں گا۔
مدھو بالا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ککو رھنے دو، ميں تيري منت کرتا ھوں، يہ پيٹ کا درد ٹھيک ھوجائےگا۔
اٹھ بے ، کيوں ہماري سنگت خراب کرتا ھے ۔
ککو نے ہاتھ بڑھا کر مدھو بالا کواٹھايا اور وھ دونوں يونيورسٹي کے گراؤنڈ ميں چکر لگانے لگے، پہلے تو تھوڑي دير تک ان دوڑتےھوئے لڑکوں کي طرف ديکھتا رہا، پھر جب ميرے قريب بيٹھے ھوئے لڑکے نے سر کھجا کے کہا، سالي کيا مصيبت ھے ايراني پلاؤ، کھاؤ تو مصيبت اور نہ کھاؤ تو مصيبت ۔
ميں نے کہا بھائي پلاؤ تو بڑے مزے کي چيز ھے، اسے کھانے سے پيٹ درد کيسے ھوسکتا ھے؟ ميري بات سن کر وہ ھنسے، ايک لڑکے ني جس کا نام بعد ميں مجھے کلديب کور معلوم ھوا اور جو اس وقت ايک پٹھي ھوئي پنڈي اور ايک پھٹي نيکر پہنے ھوئے ھے، مجھ سے ھنس کر کہا، معلوم ھوتا ھے تم نے ايراني پلاؤ کبھي نہيں کھايا۔
کلديب کور نے اپني بنڈي کے بٹن کھولتے ھوئے مجھے بتاياکہ ايراني پلاؤ ان لوگوں کي خاص اصطلاح ھے، اسے ايسے لوگ روز روز نہيں کھاسکتے ليکن جس دن لڑکے نے جوتے بہت کم پالش کئے ھوتے ھيں يا جس دن اس کے پاس بہت کم پيسے ھوتے ھيں اس دن اسے ايراني پلاؤ ھي کھانا پڑتا ھے اور يہ پلاؤ سامنے کے ايراني ريستوران سے رات کے بارھ بجے کے بعد ملتا ھے ، جس سب گاھک کھانا کھا کر چلے جاتے ھيں، دن بھر ميں لوگ ڈبل روٹي کے ٹکڑے اپني پليٹيوں ميں چھوڑ جاتے ھيں، ڈبل روٹي کے ٹکڑے گوشت اور ھڈياں چچوڑي ھوئي، چاول کے دانے ،آمليٹ کے ريزے، آلوؤں کے قتلے، يہ سارا جھوٹا کھانا ايک جگہ جمع کرکے ايک ملغوبہ تيار کرليا جاتا ھے اور ملغوبہ دو آنے پليٹ کے حساب سے بکتا ھے، پيچھے کچن کي دروازے پر اسے ايراني پلاؤ کہا جاتا ھے ، اسے عام طور پراس علاقے کے غريب لوگ بھي نہيں کھاتے پھر بھي ھر روز دو تين سو پليٹيںبک جاتي ھيں، خريداروں ميں زيادھ تر جوتے پالش کرنے والے ، فرنيچر ڈہونے والے، گاہکوں کيلئے ٹيکسي لانے والے ھوتےھيں يا آس پاس کے بلڈنگوں ميں کام کرنے والے مزدور بھي ھوتے ھيں۔
ميں کلديب کور سے پوچھا تمہارا نام کلديب کور کيوں ھے؟ کلديب کور نے اپني بنڈي بالکل اتاردياور اب وھ بڑے مزے سے ليٹا ھوا ھے اپنا سياہ پيٹ سہلا رھا تھا، وھ ميرا سوال سن کر وھيں گھاس پر لوٹ پوٹ ھوگيا، پھر ھنس چکنے کےبعد اپنے ايک ساتھي سے کہنے لگا
ذرا ميرا بکسا لانا۔
ساتھي نے کلديب کور کو بکسا ديا، کلديب کور نے بکسا کھولا، اس ميں پالش کا سامان تھا، پالش کي ڈبيوں پر کلديب کور کي تصوير بني ھوئي تھي، پھر اس نے اپنے ايک ساتھي سے کہا، تو بھي اپنا بکسا کھول اس نے بھي اپنا بکسا کھولہ ، اس بکس ميں پالش کي جتني چھوٹي بڑي ڈبياں تھيں ان پر نرگس کي تصويريں تھيں، جو رسالوں اور اخباروں کے صفحوں سےکاٹ کر لگائي گئي تھيں۔
کلديب کور نے کہا يہ سالا نرگس پالش مارتا ھے ، وھ نمي کا وھ ثرياکا، ھم ميں جتنا پالش والا ھے، کسي نہ کسي فلم ايکٹريس کي تصويرں کاٹ کر اپنے ڈبوں پر لگاتا ھے اس کا پالش مارتا ھے۔
سالا گاھک انباتوں سے بہت خوش ھوتا ھے، ام اس سے بولتا ھے ، صاحب کون سا پالش لگاؤں ، نرگس کہ ثريا کہ مدھو بالا؟پھر جب گاھک جس فلم کي ايکٹريس کو پسند کرتاھے ، اس کا پالش مانگتا ھے، ھم اس کو اس لڑکے کے حوالے کرديتا ھے جو نرگس کا پالش يا نمي کا يا کسي دوسري فلم ايکڑس کا پالش مارتا ھے ، ھم آٹھ لڑکے ھيں، ادھر سامني چرچ گيٹ پر سے بس اسٹينڈ کے پيچھے بيٹھتے ھيں، جس کے پاس جس ايکڑس کا پالش ھے وھ ھي اس کا نام لے گا، اسي سے ھمارا دھندا بہت اچھا چلتا ھے اور کام ميں مجا آتا ھے۔
ميں نے کہا تم اور بس اسٹينڈ کے نيچے فٹ پاتھ پر ايراني ريستوران کے سامنے بيٹھے ھوں تو پوليس والا کچھ نہیں کہتا؟
کندليب کور اوندھے منہ ليٹا ھوا تھا، اب سيدھا ھوگيا، اس نے اپنے ہاتھ کے انگھوٹے کو ايک انگلي سے دبا کر اسے يکايک ايک جھٹکے سے يوں نچايا جيسے وھ فضا ميں اکني اچھال رھا ھوں، بولا وھ سالا کيا کہے گا؟۔
اسے پيسہ ديتا ھے اور يہاں اس ميدان ميں جو سوتا ھے اس کا بھي پيسہ ديتا ھے، پيسہ؟ اتنا کہہ کر کلديب کور نے پھر انگوٹھے سے ايک خيالي اکني ھوا ميں اچھالي اور فضا ميں ديکہنے لگا، اور پھر دونوں ہاتھ کھول کر ديکھا ، مگر دونوں خالي تھے کلديب کور بڑي مزے دار اور تلخي سے مسکراديا، اس نے کچھ نہيں کيا چپ چاپ اوندھا ليٹ گيا۔
نرگس نے مجھ سے پوچھا تم ادھر داور ميں پالش مارتے ھوں ؟ میں نے تم کو ويزاں ھوٹل کے سامنے ديکھا ھے ۔
مين نے کہا، ہاں مجھ کو بھي ايک پالش والا ھي سمجھو۔
ايک طرح سے کيا؟ کلديب کور اٹھ کر بيٹھ گيا، اس نے ميري طرف گھور کر ديکھا، سالہ سيدہے بات کرونا، تم کيا کام کرتا ھے؟
اس نے کہا ميں بہت خوش ھوا، کوئي اور کہتا تو ميں اسے ايک جڑ ديتا، مگر جب اس لڑکے نے مجھے سالا کہا تو ميں بہت خوش ھوا کيونکہ سالا گالي کا لفظ نہیں تھا ، برادري کالفظ تھا، ان لوگوں نے مجھے اپني برادري ميں شامل کر ليا تھا، اس لئے ميں نے کہا ، بھائي ايک طرح سے ميں بھي پالش والا ھوں، مگر ميں لفظ پالش کرتا ھوں اور کبھي کبھي پرانے ميلے چمڑوں کو کھرچ کے ديکھتا ھوں کہ ان کي بوسيدہ تہوں ميں کيا ھے ۔
نرگس اور نمي ايک دم بول اٹھے، تو سالہ پھر گڑ بڑ گھوٹا لاکرتا ھے، صاف صاف کيوں نہیں بولتا کيا کام کرتا ھے۔
ميں نے کہا۔ميرا نام بش ھے، ميں کہانياں لکھتا ھوں۔
اوہ تو بابو ھے نمي بولا، نمي ايک چھوٹا سا لڑکا تھا ، يہاں دائرے ميں جتنے لڑکے تھے ان سب ميں سب سے چھوٹا ، مگر اس کي آنکھوں ميں ذہانت تيز چمک تھي اور چونکہ وھ اخبار بھي بيچتا تھا، اس لئيے اسے مجھ سے دلچسپي پيدا ھوگئي تھي، اس نے ميرے قريب قريب آرک کيا ، کون سے اخباروں ميں لکھتے ھو؟ پھري ريس ،سنٹل ٹايث، بمبئے کرانيکل، ميں اب اخباروں کو جانتا ھوں۔
وھ بڑھ کر ميرے قريب آگيا۔
ميں نےکہا ميں شاھراہ ميں لکھتا ھوں۔
ساہرھ؟ کون نوز پيپر ھے؟
دہلي سے نلکتا ھے ۔
دلي کے چھاپے خانے سے وھ؟ نمي کي آنکھيں ميرے چہرے پر پھيل گئيں۔
اور اب ادب لطيف ميں لکھتا ھوں، ميں نے رعب ڈالنے کيلئےکہا۔
کلديب کور ھنسنے لگا۔ کيا کہا بدبے خليف ميں لکھتا ھے،سالے يہ تو کسي انگلش فلم ايکٹريس کا نام معلوم ھوتا ھے،بدبے خلطيف آہاآہا آہا، ابے نمي تو اپنا نام بدلکر خلطيف رکھ لے، بڑا اچھا نام مالوم ھوگا،ہاہاہاہا جب سب لڑکے ھنس چکے تو ميں نے بڑي سنجيدگي سے کہا، بدبے خلطيف نہیں، ادب ، ادب، لطيف، لاھور سے نکلتا ھے، بہت اچھا پيپر ھے ۔
نرگس نے بے پرواہي سر ھلا کے کہا، ہاں سالے ھوگاادب لطيف ھي ھو گا ھم کو کيا، ھم اس کو بيچ کے ادھير پيسہ تھوڑي کماتے ھيں۔{
تقريبا اتنا ھي جتنا تمہيں ملتا ھے ، اکثر کچھ بھي نہيں ملتا جب ميں لفظوں پر پالش کرچکتا ھوں تو اخبار والے شکريہ کہہ کر مفت لے جاتے ھين اور اپني رسالے يا اخبار کو چمکاليتے ھيں۔
تو خالي مغز ماري کيوں کرتا ھے۔ھماري طرح پالش کيوں نہیں کرتا، سچ کہتا ھوں تو بھي آجا ہماري برادري ميں ، بس تيري ھي کسر تھي، اور تيرا نام ھم بدبے خلطيف ھي رکہ ديں گے، لاہاتھ ميں نے کلديب کور سے ہاتھ ملايا۔
کلديب کور کہنے لگا، مگر چار آنے روز پوليس والے کو دينےپڑيں گے۔
اور اگر کسي روز چار آنے نہ ھوئے تو؟
تو ھم کو مالوم نہیں، کسي سے مانگ ، چوري کر ڈاکہ ڈال، مگر سنتري کو چار آنے دينے پڑيں گے اور مہينے ميں دو دن حوالات ميں رہنا پڑے گا۔
ارے وھ کيوں؟
يہ ھم نہيں جانتے، سنتري کو ھم ھر روز چار آنے ديتے ھيں ھر ايک پالش والے ديتا ھے، پھر بھي سنتري ھر مھينے ميں دو دفعہ ھم کو پکڑ کے لے جاتا ھے، ايسا اس کا قاعدھ ھے ، وھ بولتا ھے، ام کيا کريں۔
ميں نےکہا، اچھا دو دن حوالات ميں بھي گزار ليں گے۔
اور کلديب کور نے کہا ، تم کو مہينے ميں ايک بار کورٹ بھي جانا پڑے گا، تمہارا چالان ھوگا، کميٹي کے آدمي کي طرف سے ، تم کو کورٹ ميں بھي جانا پڑے گا دو روپے ي اتين روپے وھ بھي تم کو دينا پڑے گا۔
وھ کيوں ؟جب ميں چار آنے سنتري کو ديتا ھوں، پھر ايسا کيوں ھوگا؟
ارے يار سنتري کو بھي تو اپني کار گزاري دکھاني ھے کہ نہيں، تو سمجھتا نہيں ھے سالے بدبے خلطيف؟
ميں نے آنکھ مار کر کلديب کور سے کہا، سالے سمجھتا ھوں، ھم دونوں ھنسنے لگے، اتنے ميں مدھو بالا اور ککو دونوں ميدان کے چکر لگا کر پسينے ميں ڈوبے ھوئے واپس آئے۔
مين نے مدھو بالا پوچھا، تمہارا پيٹ کا درد غائب ھوگيا۔

تو کون تھا؟ کس لئے تو مجھے اس دينا ميں لے ايا اور ان سخت بے رحم رمارتوں کے ٹيکس زدھ فٹ پاتھوں پر دھکے کھانے کے لئے چھوڑ ديا گيا، ايک لمحے کے لئے ان ٹرکوں کے فق فريادي چہرے کسي نا معلوم ڈر سے خوفزدھ ھوگئے اور بڑي سختي سے انہوں نے ايک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئيے، جيسے کہيں سے انہيں آسرانہ ملا، جسيے اس شہر کي ہر بڑي عمارت ھر فٹ پاتھ اور ھر چلنے والے قدم نے انہيں ٹھکراديا، اور انہيں مجبور کرديا کہ وھ رات کي تاريکي ميں ايک دوسرے کا ہاتھ پکڑليں مجھے وھ اس لئيے ھي خوفزدھ اور معصوم معلوم ھورھے تھے، جيسے بھولے بھالے بچے کسي نا معلوم بے کنار جنگل ميں کھو جائيں، اسي لئے کبھي کبھي مجھے ايک شہر نہيں معلوم ھوتا ھے، جس ميں معاشرے کے بے نام اولاد سڑکوں کي بھول بھليوں ميں اپنا راستہ ٹٹولتي ھے اور جب راستہ نہيں ملتا تو آنکھيں بند کرکے ايک درخت کے نيچے بيٹھ جاتي ھے ، پھر ميں سوچتا ھوں ايس انہيں ھے۔
بمبئ ايک جنگل نہيں ھے ، شہر ھے، لوگ کہتے ھيں، اس کي ايک ميونسپل کارپوريشن ھے، اس کي ايک ميونسپل کارپوريشن ھے، اس کي ايک حکومت ھے ايک نظام ھے اس کي گلياں ھيں، بازار ھيں، دکانيں ھيں، راستے ھيں اور گھر ھيں اور يہ سب ايک دوسرے سے ايسے جڑے ھوئے ھيں جيسے ايک مذہب اور متمدن شہر ميں چيزيں ايک دوسرے سے منسلک ھوتي ھيں، يہ سب ميں جانتا ھوں، اس کے راستے اور گھروں کو پہچانتا ھوں، ان کي عزت و احترام کرتا ھوں، ليکن اس عزت اور احترام ، اس محبت کے باوجود ميں کيوں ديکھتا ھوں کہ اس بمبئ شہر ميں کتني ھي گلياں ايسي ھيں جن سے باھر نکلنے کا کوئي راستہ نہيں ھے، کتنے ھي راستے ايسے ھيں جو کسي منزل کو نہيں جاتے، کتنے ھي بچے ايسے جن کيلئے کوئي گھر نہيں ھے، يکايک اس خاموشي کو نمي نے توڑديا، وھ بھاگتا ھوا ہمارے پاس آيا، اس کے ہاتھ ميں ايراني پلاؤ کي تين پليٹيں تھيں، ان سے گرم گرم سوندھا سوندھا دھواں اٹھ رھا تھا، جس اس نے پليٹيں لا کر گھاس پر رکھ ديں ، تو ھم نے ديکھا کہ نمي کي آنکھوں ميں آنسو ھيں۔
کيا ھوا؟
کلديب کور نے پوچھا؟
نمي نے غضب ناک لہجے ميں کہا
باورچي نے بڑے زور سے يہاں کاٹ کھايا
نمي نے اپنا باياں رخسار ہماري طرف کر ديا۔
ھم نے ديکھا بائيں رخسار پر بہت بڑا نشان تھا۔
کلديب کور نے باورچي کو گالي ديتے ھوئے کہا
حرام زادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس کے بعد وھ سب لوگ ايراني پلاؤ پر ٹوٹ پڑے ۔

مدھو بالا درد تو غائب ھوگيا، مگر اب بھوک بڑے زور سے لگي ھے ۔
نرگس نے کہا اور مجھے بھي۔
تو کيا پھر ايراني پلاؤ آئے گا؟ پھر پيٹ ميں درد ھوگا، پھر ميدان کے چکر اور پھر بھوک؟ کلديب کور نے بڑي تلخي سے کہا۔
نمي نے کہا ميں دو پيسے دے سکتا ھوں
ميں نے کہا ايک آنہ ميري طرف سے
سب سےمل کر چار آنے ھوئے، نمي کو ايراني پلاؤ لانے بھيجا گيا کہ سب سے چھوٹا وھي تھا، پھر ايراني ريستوران کا باورچي اسے پسند بھي کرتا تھا، ممکن ھے نمي کو ديکھ کر چار آنے ميں دو پليٹوں کے بجائےتين پليٹں يا کم از کم تين پليٹوں کا مال مل جائے ۔
جب نمي چلا گيا تو ميں نے پوچھا کيا تم لوگ روز يہي سوتے ھوں؟
مد ھو بالا کے سوا سب يہيں سوتے ھيں، ککو نے کہا، مدھو بالا اپنے گھر ميں جاتا ھے ، مگر آج نہيں گيا۔
ميں نے مدھو بالا سے پوچھا تمہارا گھر ھے۔
ہاں ، سائيں ميں ايک جھونپڑا ھے، ماں وہاں رھتي ھے۔
اور باپ؟
مدھو بالا نے کہا باپ؟ کا مجھے کيا پتہ؟ ھو گا سالا سامنےوالي بلڈنگ کا سيٹھ
يکايک وھ سب چپ ھوگئے، جيسے کسي نے ان کے چہرے پر چپت مار دي ھو، لڑکے جو بے آسراتھے، بے گھر تھے، بے نام تھے، جنہوں نے اپني زندگي ميں کبھي نہ آنے والي محبت کو فلمي گانوں سے بھرنے کي کوشش کي تھي۔
تيرا ميرا پيار ھوگيا، کدھر ھے تيرا پيار؟ اے ميرے باپ اے ميري ماں اے ميرے بھائي تو کون ھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ ۔ لوگ کرشن چندر جیسے افسانہ نگار کو بھولنے لگے تھے۔ آپ نے کچھ اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ايراني پلاؤ ۔۔۔۔ کرشن چندر

آج رات اپني تھي، کيونکہ جيب ميں پيسے نہيں تھے، جب جيب ميں تھوڑے سے پيسے ھوں رات مجھے اپني نہيں معلوم ھوتي، اس وقت رات ميرين ڈرائيو پر تھرکنے والي گاڑيوں کي معلوم ھوتي ھے، جگماتے ھوئے فليٹوں کي معلوم ھوتي ھے ، ايمبسڈر کي چھت پر ناچنے والوں کي معلوم ھوتي ھے ، ليکن آج رات بالکل اپني تھي، آج رات آسمان کے سارے ستارے اپني تھے اور بمبي کي ساري سڑکيں اپني تھيں، جب جيب ميں تھوڑے سے پيسے ھوں تو سارا شہر اپنے اوپر مسلط ھوتا ھوا معلوم ھوتا ھے، ھر شے گھورتي ھے ڈانٹتي ھے، اپنے آپ سے دور بيٹھنے پر مجبور کرتي اوني پتلون سے لے کر خوش نما ريڈيو پروگرام تک ھر چيز کہتي ھے ، مجھ سے دور ھو، ليکن جب جيب ميں ايک پائي نہ ھوتو سارا شہر اپنا بنا ھوا معلوم ھو تا ھے ، اس کے ھر کھمبے پر گويا لکھا ھوتا تھا تعمير کيا گيا برائے بشن ايک قافہ مست صنف، اس دن نہ حوالات کا کارڈ ھوتا ھے نہ گاڑي کي لپٹ ميں آجانے کا، نہ ھوٹل ميںکہانے کا، ايک ايسي وسيع بےفکري اور بے کنار فاقي مستي کا نشہ آور موڈ ھوتا ھے، جوميلون تک پھيلتا چلاجارھے ، اس رات ميں خود نہيں چلتا ھوں اس رات بمبئي کي سڑکيں مجھے اٹھائے اٹھائے چلتي ھيں اور گليوں کے موڑ پر اور بازاروں کے ٹکڑ اور بڑي بڑي عمارتوں کےتاريک کونے مجھے خود دعوت ديتے ھيں ادھر آؤ ہميں بھي ديکھو ھم سے ملو، دوست تم آٹھ سال سے اس شہر ميں رہتے ھوں ، ليکن پھر بھي اجنبيوں کي طرح کيوں چل رھے ھو، ادھر آؤ ھم سے ہاتھ ملاؤ

آج رات اپني تھي، آج رات کسي کا ڈر نہیں تھا، ڈر اسے ھوتا ھے ، جس کي جيب بھاري ھوتي ھے، اس خالي جيبوں والے ملک ميں بھاري جيب والوں کو ڈر ھونا چاھئيے ، ليکن اپني پاس کيا تھا جسے کوئي چھين سکتا۔
سنا ھے کہ حکومت نے ايک قانون بن رکھا ھے،جس کي رو سے رات کو بارہ بجے کے بعد سڑکوں پر گھومنا منع ھے ، کيوں کيا بات ھے، رات کے بارہ بجے کے بعد بمبئ ميں کيا ھوتا جسے وھ مجھ سے چھپانا چاھتے ھيں، ميں تو ضرور ديکھوں گا، چاھئے کچھ بھي ھوجائے، آج رات تو مجھے کسي کا ڈر نہيں ھے ، نہ کسي وزير کا ، نہ کسي حوالات کا، کچھ بھي ھوجائے آج تو ميں ضرور گھوموں گا اور اپنے دوستوں سے ہاتھ ملاؤں گا۔
يہي سوچ کرگيٹ ري کلے مشين کے سامنے کي سڑک سے گزر کر يونيورسٹي گراؤنڈ ميں گھي گيا، ارادھ تو يہ تھا کہ ميدان کے بيچ سے گزر کر دوسري طرف بڑے تار گھر کےسامنے جانکلوں گا، اور وہاں سے فلورا فاونٹين چلا جاؤ گا، مگر ميدان سے گزرتے ھوئے ميں نے ديکھا کہ ايک کونے مين چند لڑکےدائرہ بنائے بيٹھے ھيں اور تالي بجا بجا کر گارھے ھيں
تيرا مير پيار ھوگيا۔
تيرا ميرا
تيرا ميرا
تيرا،ميرا، پيار ھوگيا۔
وھ تين لڑکے تالي بجاتے تھے، ايک لڑکا منہ سے بانسري کي آواز نکالنے کي کوشش کر رھا تھا، ايک لڑکا سر ھلا تے ھوئے ايک لکڑي کے بکس سے طلبے کے بول نکال رھا تھا، سب خوشي سے جھوم رھے تھے، اور موٹي پتلي اونچي نيچي آوازوں ميں گا رھے تھے، ميں نے قريب جا کر پوچھا
کيو ں بھئي کس سے پيار ھوگيا۔

وھ لوگ گانا بند کرکے ايک لمحےکے لئے مجھے ديکھنے ميں مصروف ھوگئے، پتہ نہیں لوگوں کو ديکھنے ميں کيسا لگتا ھوں ميں، ليکن اتنا مجھے معلوم ھے کہ ايک لمحے کے لئے ديکھنے کے بعد لوگ بہت جلدي مجھ سے گھل مل جاتے ھيں، مجھ سے ايسے مانوس ھو جاتے ھيں کہ زندگي بھر کے سارے راز اور اپني مختصر سي کائنات کي ساري تصويريں اور اپنے دل کے سارے دکہ درد مجھ سے کہنے لگ جاتے ھيں، ميرے چہرے پر کوئي بڑائي نہیں کوئي خاص اجنبيت سي ھے ، کوئي رعب اور دبدبہ نہیں ميرے لباس ميں بھي کوئي خاص شوکت نہیں، وھ طعنہ نہيں جو کالي اچکن اور سرخ گلاب کے پھول ميں ھوتا ھے ، شارک اسکين کے سوٹ ميں ھوتا ھے ، بس پاؤں ميں معمولي چپل ھے، اس کے اوپر لٹھےکا پاجامہ اس کے اوپر لٹھے کي قميض ھے جو اکثر پيٹھ سے ميلي رھتي ھے ،کيونکہ ايک تو مجھے اپنے جھونپڑے ميں زمين پر سونے کي عادت ھے ، دوسرے مجھ ميں يہ بھي بري عادت ھے، جہاں بيٹھتا ھوں ديورا ديوار سے ٹيک لگا کر بيٹھتا ھوں يہ الگ بات ھے کہ ميري زندگي ميں ميلي ديوار زيادھ آتي ھيں اور اجلي ديورايں بہت کم، قميض کم بخت کندھوں سے بہت جلد جاتي ھے اور ہاں اکثر آپ کوٹانکے پھٹے پرانے کپڑے کو جوڑنے کي باربار کوشش کي جاتي ھے ، کيونکہ ھر آدمي کالي اچکن پر اور سرخ گلاب کا پھول نہيں ٹانک سکتا، اس ٹانکے اور ٹانکے ميں اس قدرفرق کيوں؟ يہ سچ ھے کہ وہ انسان ايک جيسے نہيں ھوتے ايک شکل کے و صورت کے نہيں ھوتے ھيں، بمبئي ميں شب و روز مختلف چہرے ، ليکن يہ کي کيا بات ھے کہ ان سب کے کندھوں پر وھي ٹانکے لگے ھوتے ھيں ، لاکھوں ٹانکے پھٹي ھوئي زندگيوں کے کناروں کو ملانے کي ناکام کوشش کرتے ھيں ايک نقاد نے ميرے افسانے پڑھ کر کہا تھا، کہ مجھے ان ميں کسي انسان کا چہرھ نظر نہیں آتا، يہي مجھ ميں مصيبت ھے کہ ميں اپنے کرداروں کے چہرے بيان نہيں کرستا، ان کے کندھے کے ٹانکے ديکھتا ھوں ، ٹانکے مجھے انسان کا اندروني چہرھ دکھاتے ھيں اس کي دن رات کي کشمکش اور اس کي شب و روز کي محنت کاسراغ بتاتے ھيں، جس کے بغير زندگي کا کوئي ناول اور سماج کا کوئي افسانہ مکمل نہيں ھو سکتا اس لئے اس بات کي مجھے خوشي ھے کہ ميرا چہرھ ديکھ کر کوئي مجھے کلرک سمجھتا ھے، کوئي کباڑيا کوئي کنگھي بيچنے والا يا بال کاٹنے والا آج تک کسي نے مجھے وزير يا جيب کاٹنے والا نہيں سمجھا، اس بات کي مجھے خوشي ھے کہ ان ميں لاکھوں کروڑوں آدميوں ميں اسے ايک ھوں جو بہت جلد ايک دوسرے سے بغير کسي رسمي تعارف کے مانوس ھوجاتے ھيں۔يہاں بھي ايک متحاني لمہے کي جھجک کے بعد وھ لوگ ميري طرف ديکھ کر مسکرائے، ايک لڑکے نے مجھ سے کہا، آؤ بھائي تم بھي يہاں بيٹھ جاؤ اور اگر گانا چاھتے ھو تو گاؤ۔
اتنا کہہ کر اس نے دبلے پتلے لڑکے نے اپنےسر کے بال جھٹک کے پيچھے کر لئيے اور اپنا لکڑي کے بکس کا طبلہ بجانے لگا، ھم سب لوگ مل کر پھرگانے لگے۔
تيرا ميرا
ميرا تيرا
پيار ھوگيا
يکايک اس دبلے پتلے لڑکے نے طبلہ بجانا بند کرديا اور اپنےايک ساتھي کو جو اپني گردن دونوں ٹانگوں ميں دبائے اکڑوں بيٹھا تھا، ٹہو کا دے کے کہا، ابے مدھو بالا تو کيوں نہيں گاتے۔
مدھو بالا نے اپنا چہرہ ٹانگوں ميں بڑي وقت سے نکالا، اس کا چہرہ مدھو بال ايکٹرس کي طرح حسين نہيں تھا، ٹھوڑي سے لے کر دائيں ہاتھ کي کہني تک آگ سے جلنے کا ايک بہت بڑا نشان يہاں سے وہاں تک چلا گيا تھا، اس کے چہرے پر کرب کے آثار نماياں تھے، اس کي چھوٹي چھوٹي آنکھوں ميں جو اس کے گول چہرے پر دو کالي درزيں معلوم ھوتي تھيں انتہائي پريشاني جھلک رھي تھي، اس نے اپنے ھونٹ سيکڑ کر طبلے والے سے کہا سالے مجھےرھنے دے ميرے پيٹ ميں درد ھو رھا ھے۔
کيوں درد ھوتا ھے ، سالے تونے آج پھر ايراني پلاؤ کھايا ھوگا؟
مدھو بالانے بڑے دکھ سے سر ہلايا، ہاں وھي کھايا تھا۔
کيوں کھايا تھا سالے
کياکرتا ، آج صرف تين جوتے بنائے تھے
جو عمر ميں ان سب سے بڑا معلوم ھوتا ھے تھا، جس کي ٹھوڑي پر تھوڑي داڑي اگي تھي اور کنپٹيوں کے بال رخساروں کي طرف بڑھ رھے تھے اپني ناک کھجاتے ھوئے کہا، اے مدھو بالا، اٹھ ميدان ميں دوڑلگا ، چل ميں تيرے ساتھ دوڑتا ھوں ، دو چکر لگانے سے پيٹ کا درد ٹھيک ھوجائے گا۔
نہيں بے رھنے دے
نہین بے سالے اٹھ، نہیں تو ايک جھانپڑ دوں گا۔
مدھو بالا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ککو رھنے دو، ميں تيري منت کرتا ھوں، يہ پيٹ کا درد ٹھيک ھوجائےگا۔
اٹھ بے ، کيوں ہماري سنگت خراب کرتا ھے ۔
ککو نے ہاتھ بڑھا کر مدھو بالا کواٹھايا اور وھ دونوں يونيورسٹي کے گراؤنڈ ميں چکر لگانے لگے، پہلے تو تھوڑي دير تک ان دوڑتےھوئے لڑکوں کي طرف ديکھتا رہا، پھر جب ميرے قريب بيٹھے ھوئے لڑکے نے سر کھجا کے کہا، سالي کيا مصيبت ھے ايراني پلاؤ، کھاؤ تو مصيبت اور نہ کھاؤ تو مصيبت ۔
ميں نے کہا بھائي پلاؤ تو بڑے مزے کي چيز ھے، اسے کھانے سے پيٹ درد کيسے ھوسکتا ھے؟ ميري بات سن کر وہ ھنسے، ايک لڑکے ني جس کا نام بعد ميں مجھے کلديب کور معلوم ھوا اور جو اس وقت ايک پٹھي ھوئي پنڈي اور ايک پھٹي نيکر پہنے ھوئے ھے، مجھ سے ھنس کر کہا، معلوم ھوتا ھے تم نے ايراني پلاؤ کبھي نہيں کھايا۔
کلديب کور نے اپني بنڈي کے بٹن کھولتے ھوئے مجھے بتاياکہ ايراني پلاؤ ان لوگوں کي خاص اصطلاح ھے، اسے ايسے لوگ روز روز نہيں کھاسکتے ليکن جس دن لڑکے نے جوتے بہت کم پالش کئے ھوتے ھيں يا جس دن اس کے پاس بہت کم پيسے ھوتے ھيں اس دن اسے ايراني پلاؤ ھي کھانا پڑتا ھے اور يہ پلاؤ سامنے کے ايراني ريستوران سے رات کے بارھ بجے کے بعد ملتا ھے ، جس سب گاھک کھانا کھا کر چلے جاتے ھيں، دن بھر ميں لوگ ڈبل روٹي کے ٹکڑے اپني پليٹيوں ميں چھوڑ جاتے ھيں، ڈبل روٹي کے ٹکڑے گوشت اور ھڈياں چچوڑي ھوئي، چاول کے دانے ،آمليٹ کے ريزے، آلوؤں کے قتلے، يہ سارا جھوٹا کھانا ايک جگہ جمع کرکے ايک ملغوبہ تيار کرليا جاتا ھے اور ملغوبہ دو آنے پليٹ کے حساب سے بکتا ھے، پيچھے کچن کي دروازے پر اسے ايراني پلاؤ کہا جاتا ھے ، اسے عام طور پراس علاقے کے غريب لوگ بھي نہيں کھاتے پھر بھي ھر روز دو تين سو پليٹيںبک جاتي ھيں، خريداروں ميں زيادھ تر جوتے پالش کرنے والے ، فرنيچر ڈہونے والے، گاہکوں کيلئے ٹيکسي لانے والے ھوتےھيں يا آس پاس کے بلڈنگوں ميں کام کرنے والے مزدور بھي ھوتے ھيں۔
ميں کلديب کور سے پوچھا تمہارا نام کلديب کور کيوں ھے؟ کلديب کور نے اپني بنڈي بالکل اتاردياور اب وھ بڑے مزے سے ليٹا ھوا ھے اپنا سياہ پيٹ سہلا رھا تھا، وھ ميرا سوال سن کر وھيں گھاس پر لوٹ پوٹ ھوگيا، پھر ھنس چکنے کےبعد اپنے ايک ساتھي سے کہنے لگا
ذرا ميرا بکسا لانا۔
ساتھي نے کلديب کور کو بکسا ديا، کلديب کور نے بکسا کھولا، اس ميں پالش کا سامان تھا، پالش کي ڈبيوں پر کلديب کور کي تصوير بني ھوئي تھي، پھر اس نے اپنے ايک ساتھي سے کہا، تو بھي اپنا بکسا کھول اس نے بھي اپنا بکسا کھولہ ، اس بکس ميں پالش کي جتني چھوٹي بڑي ڈبياں تھيں ان پر نرگس کي تصويريں تھيں، جو رسالوں اور اخباروں کے صفحوں سےکاٹ کر لگائي گئي تھيں۔
کلديب کور نے کہا يہ سالا نرگس پالش مارتا ھے ، وھ نمي کا وھ ثرياکا، ھم ميں جتنا پالش والا ھے، کسي نہ کسي فلم ايکٹريس کي تصويرں کاٹ کر اپنے ڈبوں پر لگاتا ھے اس کا پالش مارتا ھے۔
سالا گاھک انباتوں سے بہت خوش ھوتا ھے، ام اس سے بولتا ھے ، صاحب کون سا پالش لگاؤں ، نرگس کہ ثريا کہ مدھو بالا؟پھر جب گاھک جس فلم کي ايکٹريس کو پسند کرتاھے ، اس کا پالش مانگتا ھے، ھم اس کو اس لڑکے کے حوالے کرديتا ھے جو نرگس کا پالش يا نمي کا يا کسي دوسري فلم ايکڑس کا پالش مارتا ھے ، ھم آٹھ لڑکے ھيں، ادھر سامني چرچ گيٹ پر سے بس اسٹينڈ کے پيچھے بيٹھتے ھيں، جس کے پاس جس ايکڑس کا پالش ھے وھ ھي اس کا نام لے گا، اسي سے ھمارا دھندا بہت اچھا چلتا ھے اور کام ميں مجا آتا ھے۔
ميں نے کہا تم اور بس اسٹينڈ کے نيچے فٹ پاتھ پر ايراني ريستوران کے سامنے بيٹھے ھوں تو پوليس والا کچھ نہیں کہتا؟
کندليب کور اوندھے منہ ليٹا ھوا تھا، اب سيدھا ھوگيا، اس نے اپنے ہاتھ کے انگھوٹے کو ايک انگلي سے دبا کر اسے يکايک ايک جھٹکے سے يوں نچايا جيسے وھ فضا ميں اکني اچھال رھا ھوں، بولا وھ سالا کيا کہے گا؟۔
اسے پيسہ ديتا ھے اور يہاں اس ميدان ميں جو سوتا ھے اس کا بھي پيسہ ديتا ھے، پيسہ؟ اتنا کہہ کر کلديب کور نے پھر انگوٹھے سے ايک خيالي اکني ھوا ميں اچھالي اور فضا ميں ديکہنے لگا، اور پھر دونوں ہاتھ کھول کر ديکھا ، مگر دونوں خالي تھے کلديب کور بڑي مزے دار اور تلخي سے مسکراديا، اس نے کچھ نہيں کيا چپ چاپ اوندھا ليٹ گيا۔
نرگس نے مجھ سے پوچھا تم ادھر داور ميں پالش مارتے ھوں ؟ میں نے تم کو ويزاں ھوٹل کے سامنے ديکھا ھے ۔
مين نے کہا، ہاں مجھ کو بھي ايک پالش والا ھي سمجھو۔
ايک طرح سے کيا؟ کلديب کور اٹھ کر بيٹھ گيا، اس نے ميري طرف گھور کر ديکھا، سالہ سيدہے بات کرونا، تم کيا کام کرتا ھے؟
اس نے کہا ميں بہت خوش ھوا، کوئي اور کہتا تو ميں اسے ايک جڑ ديتا، مگر جب اس لڑکے نے مجھے سالا کہا تو ميں بہت خوش ھوا کيونکہ سالا گالي کا لفظ نہیں تھا ، برادري کالفظ تھا، ان لوگوں نے مجھے اپني برادري ميں شامل کر ليا تھا، اس لئے ميں نے کہا ، بھائي ايک طرح سے ميں بھي پالش والا ھوں، مگر ميں لفظ پالش کرتا ھوں اور کبھي کبھي پرانے ميلے چمڑوں کو کھرچ کے ديکھتا ھوں کہ ان کي بوسيدہ تہوں ميں کيا ھے ۔
نرگس اور نمي ايک دم بول اٹھے، تو سالہ پھر گڑ بڑ گھوٹا لاکرتا ھے، صاف صاف کيوں نہیں بولتا کيا کام کرتا ھے۔
ميں نے کہا۔ميرا نام بش ھے، ميں کہانياں لکھتا ھوں۔
اوہ تو بابو ھے نمي بولا، نمي ايک چھوٹا سا لڑکا تھا ، يہاں دائرے ميں جتنے لڑکے تھے ان سب ميں سب سے چھوٹا ، مگر اس کي آنکھوں ميں ذہانت تيز چمک تھي اور چونکہ وھ اخبار بھي بيچتا تھا، اس لئيے اسے مجھ سے دلچسپي پيدا ھوگئي تھي، اس نے ميرے قريب قريب آرک کيا ، کون سے اخباروں ميں لکھتے ھو؟ پھري ريس ،سنٹل ٹايث، بمبئے کرانيکل، ميں اب اخباروں کو جانتا ھوں۔
وھ بڑھ کر ميرے قريب آگيا۔
ميں نےکہا ميں شاھراہ ميں لکھتا ھوں۔
ساہرھ؟ کون نوز پيپر ھے؟
دہلي سے نلکتا ھے ۔
دلي کے چھاپے خانے سے وھ؟ نمي کي آنکھيں ميرے چہرے پر پھيل گئيں۔
اور اب ادب لطيف ميں لکھتا ھوں، ميں نے رعب ڈالنے کيلئےکہا۔
کلديب کور ھنسنے لگا۔ کيا کہا بدبے خليف ميں لکھتا ھے،سالے يہ تو کسي انگلش فلم ايکٹريس کا نام معلوم ھوتا ھے،بدبے خلطيف آہاآہا آہا، ابے نمي تو اپنا نام بدلکر خلطيف رکھ لے، بڑا اچھا نام مالوم ھوگا،ہاہاہاہا جب سب لڑکے ھنس چکے تو ميں نے بڑي سنجيدگي سے کہا، بدبے خلطيف نہیں، ادب ، ادب، لطيف، لاھور سے نکلتا ھے، بہت اچھا پيپر ھے ۔
نرگس نے بے پرواہي سر ھلا کے کہا، ہاں سالے ھوگاادب لطيف ھي ھو گا ھم کو کيا، ھم اس کو بيچ کے ادھير پيسہ تھوڑي کماتے ھيں۔{
تقريبا اتنا ھي جتنا تمہيں ملتا ھے ، اکثر کچھ بھي نہيں ملتا جب ميں لفظوں پر پالش کرچکتا ھوں تو اخبار والے شکريہ کہہ کر مفت لے جاتے ھين اور اپني رسالے يا اخبار کو چمکاليتے ھيں۔
تو خالي مغز ماري کيوں کرتا ھے۔ھماري طرح پالش کيوں نہیں کرتا، سچ کہتا ھوں تو بھي آجا ہماري برادري ميں ، بس تيري ھي کسر تھي، اور تيرا نام ھم بدبے خلطيف ھي رکہ ديں گے، لاہاتھ ميں نے کلديب کور سے ہاتھ ملايا۔
کلديب کور کہنے لگا، مگر چار آنے روز پوليس والے کو دينےپڑيں گے۔
اور اگر کسي روز چار آنے نہ ھوئے تو؟
تو ھم کو مالوم نہیں، کسي سے مانگ ، چوري کر ڈاکہ ڈال، مگر سنتري کو چار آنے دينے پڑيں گے اور مہينے ميں دو دن حوالات ميں رہنا پڑے گا۔
ارے وھ کيوں؟
يہ ھم نہيں جانتے، سنتري کو ھم ھر روز چار آنے ديتے ھيں ھر ايک پالش والے ديتا ھے، پھر بھي سنتري ھر مھينے ميں دو دفعہ ھم کو پکڑ کے لے جاتا ھے، ايسا اس کا قاعدھ ھے ، وھ بولتا ھے، ام کيا کريں۔
ميں نےکہا، اچھا دو دن حوالات ميں بھي گزار ليں گے۔
اور کلديب کور نے کہا ، تم کو مہينے ميں ايک بار کورٹ بھي جانا پڑے گا، تمہارا چالان ھوگا، کميٹي کے آدمي کي طرف سے ، تم کو کورٹ ميں بھي جانا پڑے گا دو روپے ي اتين روپے وھ بھي تم کو دينا پڑے گا۔
وھ کيوں ؟جب ميں چار آنے سنتري کو ديتا ھوں، پھر ايسا کيوں ھوگا؟
ارے يار سنتري کو بھي تو اپني کار گزاري دکھاني ھے کہ نہيں، تو سمجھتا نہيں ھے سالے بدبے خلطيف؟
ميں نے آنکھ مار کر کلديب کور سے کہا، سالے سمجھتا ھوں، ھم دونوں ھنسنے لگے، اتنے ميں مدھو بالا اور ککو دونوں ميدان کے چکر لگا کر پسينے ميں ڈوبے ھوئے واپس آئے۔
مين نے مدھو بالا پوچھا، تمہارا پيٹ کا درد غائب ھوگيا۔

تو کون تھا؟ کس لئے تو مجھے اس دينا ميں لے ايا اور ان سخت بے رحم رمارتوں کے ٹيکس زدھ فٹ پاتھوں پر دھکے کھانے کے لئے چھوڑ ديا گيا، ايک لمحے کے لئے ان ٹرکوں کے فق فريادي چہرے کسي نا معلوم ڈر سے خوفزدھ ھوگئے اور بڑي سختي سے انہوں نے ايک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئيے، جيسے کہيں سے انہيں آسرانہ ملا، جسيے اس شہر کي ہر بڑي عمارت ھر فٹ پاتھ اور ھر چلنے والے قدم نے انہيں ٹھکراديا، اور انہيں مجبور کرديا کہ وھ رات کي تاريکي ميں ايک دوسرے کا ہاتھ پکڑليں مجھے وھ اس لئيے ھي خوفزدھ اور معصوم معلوم ھورھے تھے، جيسے بھولے بھالے بچے کسي نا معلوم بے کنار جنگل ميں کھو جائيں، اسي لئے کبھي کبھي مجھے ايک شہر نہيں معلوم ھوتا ھے، جس ميں معاشرے کے بے نام اولاد سڑکوں کي بھول بھليوں ميں اپنا راستہ ٹٹولتي ھے اور جب راستہ نہيں ملتا تو آنکھيں بند کرکے ايک درخت کے نيچے بيٹھ جاتي ھے ، پھر ميں سوچتا ھوں ايس انہيں ھے۔
بمبئ ايک جنگل نہيں ھے ، شہر ھے، لوگ کہتے ھيں، اس کي ايک ميونسپل کارپوريشن ھے، اس کي ايک ميونسپل کارپوريشن ھے، اس کي ايک حکومت ھے ايک نظام ھے اس کي گلياں ھيں، بازار ھيں، دکانيں ھيں، راستے ھيں اور گھر ھيں اور يہ سب ايک دوسرے سے ايسے جڑے ھوئے ھيں جيسے ايک مذہب اور متمدن شہر ميں چيزيں ايک دوسرے سے منسلک ھوتي ھيں، يہ سب ميں جانتا ھوں، اس کے راستے اور گھروں کو پہچانتا ھوں، ان کي عزت و احترام کرتا ھوں، ليکن اس عزت اور احترام ، اس محبت کے باوجود ميں کيوں ديکھتا ھوں کہ اس بمبئ شہر ميں کتني ھي گلياں ايسي ھيں جن سے باھر نکلنے کا کوئي راستہ نہيں ھے، کتنے ھي راستے ايسے ھيں جو کسي منزل کو نہيں جاتے، کتنے ھي بچے ايسے جن کيلئے کوئي گھر نہيں ھے، يکايک اس خاموشي کو نمي نے توڑديا، وھ بھاگتا ھوا ہمارے پاس آيا، اس کے ہاتھ ميں ايراني پلاؤ کي تين پليٹيں تھيں، ان سے گرم گرم سوندھا سوندھا دھواں اٹھ رھا تھا، جس اس نے پليٹيں لا کر گھاس پر رکھ ديں ، تو ھم نے ديکھا کہ نمي کي آنکھوں ميں آنسو ھيں۔
کيا ھوا؟
کلديب کور نے پوچھا؟
نمي نے غضب ناک لہجے ميں کہا
باورچي نے بڑے زور سے يہاں کاٹ کھايا
نمي نے اپنا باياں رخسار ہماري طرف کر ديا۔
ھم نے ديکھا بائيں رخسار پر بہت بڑا نشان تھا۔
کلديب کور نے باورچي کو گالي ديتے ھوئے کہا
حرام زادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس کے بعد وھ سب لوگ ايراني پلاؤ پر ٹوٹ پڑے ۔

مدھو بالا درد تو غائب ھوگيا، مگر اب بھوک بڑے زور سے لگي ھے ۔
نرگس نے کہا اور مجھے بھي۔
تو کيا پھر ايراني پلاؤ آئے گا؟ پھر پيٹ ميں درد ھوگا، پھر ميدان کے چکر اور پھر بھوک؟ کلديب کور نے بڑي تلخي سے کہا۔
نمي نے کہا ميں دو پيسے دے سکتا ھوں
ميں نے کہا ايک آنہ ميري طرف سے
سب سےمل کر چار آنے ھوئے، نمي کو ايراني پلاؤ لانے بھيجا گيا کہ سب سے چھوٹا وھي تھا، پھر ايراني ريستوران کا باورچي اسے پسند بھي کرتا تھا، ممکن ھے نمي کو ديکھ کر چار آنے ميں دو پليٹوں کے بجائےتين پليٹں يا کم از کم تين پليٹوں کا مال مل جائے ۔
جب نمي چلا گيا تو ميں نے پوچھا کيا تم لوگ روز يہي سوتے ھوں؟
مد ھو بالا کے سوا سب يہيں سوتے ھيں، ککو نے کہا، مدھو بالا اپنے گھر ميں جاتا ھے ، مگر آج نہيں گيا۔
ميں نے مدھو بالا سے پوچھا تمہارا گھر ھے۔
ہاں ، سائيں ميں ايک جھونپڑا ھے، ماں وہاں رھتي ھے۔
اور باپ؟
مدھو بالا نے کہا باپ؟ کا مجھے کيا پتہ؟ ھو گا سالا سامنےوالي بلڈنگ کا سيٹھ
يکايک وھ سب چپ ھوگئے، جيسے کسي نے ان کے چہرے پر چپت مار دي ھو، لڑکے جو بے آسراتھے، بے گھر تھے، بے نام تھے، جنہوں نے اپني زندگي ميں کبھي نہ آنے والي محبت کو فلمي گانوں سے بھرنے کي کوشش کي تھي۔
تيرا ميرا پيار ھوگيا، کدھر ھے تيرا پيار؟ اے ميرے باپ اے ميري ماں اے ميرے بھائي تو کون ھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عرصے کے بعد کرشن چندر کو پڑھا بہت اچھا لگا بے حد شکریہ:):)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس نام سے تو مجھے صدر کراچی میں ایرانی ہوٹل "چلو کباب سبحانی" یاد آگیا ۔
اپنے انجینئرنگ کے ایرانی کلاس فیلو دوست کے ساتھ کبھی جانا ہوا کرتا تھا ۔ 1993-1997 کی بات ہے ۔ آہ ۔

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
اے عمر رفتہ ! چھوڑ گئی تو کہاں مجھے
 
Top