خواب ؟

سیما علی

لائبریرین
خواب کون نہیں دیکھتا۰۰مگریہ خواب ؟
—————————-
سیاہ راتوں میں تنہائی ہو تو دل اداسیوں کے گرداب میں ڈولنے لگتا ہے۔ مگر میری تو اس شخص پہ حیرت نہیں جاتی جو صحرا کی ویرانیوں کے وسط میں خود آ بیٹھا تھا۔ تنہائیوں اور تاریکیوں کے سینے پہ لا اپنا خاندان بسایا تھا۔
اپنے رشتے کس کو پیارے نہیں ہوتے؟
اپنی سانسیں؟ اپنا خون؟ اپنی رگیں؟ اپنا دل؟ اپنا چہرہ؟
عجب تھا وہ!
*فقط ایک تارا دیکھ کر شہر چھوڑ بیٹھا تھا!*
کہتا تھا، سورج، چاند، تاروں کا ایک ہی رب ہے جو کبھی غروب نہیں ہوتا۔ جو کسی بدلی سے شکست نہیں کھاتا۔ رب نور ہے اور نور کو زوال نہیں آتا!
وہ عظیمتوں کا شناور کم سن نوجوان کہتا تھا میں کسی ڈوبنے والے کو اپنا خدا نہیں مانوں گا!
عجیب تھا وہ!
بھلا اپنا کہنا کہتا رہتا، مگر وہ تو زمانے کے ہر جھوٹے خدا کا بیری ہو گیا۔ کلہاڑا پکڑ کر ہر ایک کا سر توڑ آیا۔ نادم تک نہ ہوا۔ پوچھا گیا تو سینہ تان کر کہہ دیا، ان کے بڑے سے پوچھو ناں!! یہ رب ہے خبریں دینے والا!
عجیب تھا وہ!
*اپنے ہی ابا کے کاروبار پہ لات نہیں کلہاڑا مار آیا تھا!‌*
ابا نے گھر سے ہی نہیں نکالا، آگ میں جلانے کو لکڑیاں بھی اکٹھی کیں۔ اور وہ اسے جاتے ہوئے کہتا گیا، سلام ہو آپ پر! آپ سدا میری دعاؤں کا حصہ رہیں گے!
درختوں سے آگ نکلنا قدرت کا دستور ہے مگر وہ، وہ تھا جس کے لیے آگ سے گلستانوں سی سلامتیاں نکلیں۔ گُلوں کی راعنائیاں، صبا کی سرمستیاں نکلیں۔
آج اس قوم کے نوبیاہتا جوڑوں نے زمین کے سبزہ زاروں کی سیر کو جاتے ہوئے اس سرفروش کو کہاں کبھی سوچا ہو گا جو اپنی نوجوان بیوی اور شیرخوار بچے کو لیے ریت کے ڈھیر اس اندھے صحرا کو چل نکلا تھا۔ خونخوار وادی کے عین حلق میں پہنچا تو برہنہ ریت پہ اپنا خاندان چھوڑا اور پلٹ گیا۔ جاتے سمے بیوی کے پوچھنے پہ کہ یہ سب آپ نے اللہ کے حکم سے کیا ہے؟ فقط اتنا کہہ گیا، ہاں۔
عجیب تھا وہ!
ہاں عجیب تھا سنگ دل نہ تھا۔ جب انکی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تو بدستِ دعا ہو گیا، سراپا التجا ہو گیا، "پروردگارا! تُو نے کہا تھا، میں نے کر دیا۔ تو ان کا خیال رکھنا۔ یہ تیرے حوالے ہیں، میری بیوی ہی نہیں، میرا بچہ ہی نہیں، میری نسلیں بھی سنبھال رکھنا!"
خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے۔ مگر جو اس نے اس روز خواب دیکھا! واللہ! زمانہ آج تک اس خواب کی تعبیریں دیتا آیا ہے، مگر آج تک اس کا حق ادا نہ کر سکا۔

*تب دنیا نے جانا کہ خواب ہوتا کیا ہے!!!*

لوگ خواب دیکھتے ہیں اپنا گھر بسانے کے۔ اپنے بچوں کو اونچا اٹھانے کے۔ مگر اس نے خواب دیکھا اپنے بچے کو ختم کرنے کا! اپنا پہلا، اپنا اکلوتا، لاڈلا، اپنی بڑھاپے کی اولاد وارنے کا۔ جو نوے برس کی دعاؤں کا حاصل تھا، اسکے گلے پہ چھری پھیرتے اس نے لمحے بھر کو نہ سوچا۔

ہم اللہ کو ایک روپیہ بعد میں دیتے ہیں، سات سو کا مطالبہ پہلے کرتے ہیں۔ مگر وہ عجیب تھا۔ واقعی سوچتا نہ تھا؟ وہ دیے گیا اور بس دیے گیا؟ گھر بار دیا، رشتے، خاندان دیا، شہر، وطن دیا، برسوں جدائیاں جھیلیں اور اب__؟
ہم سے اداس راتوں کی جگر پیستی تنہائیاں برداشت نہیں ہوتیں۔ اس نے سالوں کی جدائیاں ایک لمحے میں بھولتے وقت ایک پل کے لیے پوچھا بھی نہیں، کہ اللہ! میرے پاس تو اور ہے ہی کیا؟
بس___!!
*اللہ نے بھی کب کسی کا ادھار رکھا ہے؟*

دنیا میں بڑے لوگ آئے اور چلے گئے زمانے کو ان کا نام پتہ بھی معلوم نہیں۔ مگر جو وہ شخص آیا!
اس نے خواب جو دیکھ لیا تو آج ایک زمانہ اس کی تعبیریں دیتا ہے۔
اس نے جو چھری پھیری تو آج ایک دنیا میں خون بہتا چلا جاتا ہے۔
اس نے طوافِ کعبہ کے لیے جو پکارا تو آج تک لاکھوں دیوانوں کے لشکر کے لشکر "لبیک! لبیک" پکارے دنیا کے کونے کونے سے امڈے چلے آتے ہیں۔
اس کی اہلیہ نے جو اضطراب میں چکر کاٹے تو آج لاکھوں فرزندانِ اسلام صفا و مروہ کے درمیان دوڑتے پھرتے ہیں۔
اس کے بچے کے لیے نکلا زم زم کا چشمہ آج تلک موج کھاتا چلا آتا ہے۔
اپنا جو بچہ اس نے وارا تھا، وہ نبی ہوا اور اس کی نسلوں کے تسلسل میں خاندانِ نبوت کا وہ سردار آیا جس کا نام دنیا کے ہر اونچے سے اونچا ہے۔


جو اپنی ذات میں انجمن نہیں، امت تھا!
جو چلا تو ویرانے بسا گیا۔
اٹھا تو اپنے قدموں کے نشان کعبہ پہ چھوڑ گیا!
جو آیا تو اللہ کی نگاہ میں نبوت کے لیے اسکے سوا کسی اور کا خاندان جچا ہی نہیں!
*دنیا یاد رکھتی ہے آج بھی بلندیوں کے خوگر کو جس نے دنیا کے جھوٹے خداؤں پہ ضربیں رسید کرتے ہوئےکہا تھا،
کوئی ڈوبنے والا میرا رب نہیں ہو سکتا۔ وہ عجیب آدمی سچ کہتا تھا۔*

آج تک دنیا، اُس کے نقوشِ قدم پہ چلنے کو اُس صحرا کی وسعتیں ناپتی ہے مگر ان ذروں پہ لکھی جرأتوں اور قربانیوں کی داستانیں لامتناہی ہیں، ان گنت ہیں، بےحساب و بے کنارا ہیں!
(منقول)
 

نور وجدان

لائبریرین
ایسے نازک ، پیارے ، دلکش احساسات ۔۔ ان کو چھوؤں تو کہیں میلے نہ ہو جائیں نگاہ سے ۔ پر دیکھا ہے کہ چارہ نہیں ماسوا اسکے پڑھ لوں ذرا ٹھہر ٹھہر کے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایسے نازک ، پیارے ، دلکش احساسات ۔۔ ان کو چھوؤں تو کہیں میلے نہ ہو جائیں نگاہ سے ۔ پر دیکھا ہے کہ چارہ نہیں ماسوا اسکے پڑھ لوں ذرا ٹھہر ٹھہر کے ۔
جزاک اللہ ۔جب جب پڑھتی ہوں آنکھیں بھر آتیں ہیں۔اللہ اللہ اس اطاعت پر ہماری جانیں قربان ہزار بار۔۔۔۔۔
 
*اپنے ہی ابا کے کاروبار پہ لات نہیں کلہاڑا مار آیا تھا!‌*
ابا نے گھر سے ہی نہیں نکالا، آگ میں جلانے کو لکڑیاں بھی اکٹھی کیں۔ اور وہ اسے جاتے ہوئے کہتا گیا، سلام ہو آپ پر! آپ سدا میری دعاؤں کا حصہ رہیں گے!
بے شمار جگہوں پر پڑھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ’آذر‘ حضرت ابراہیم علیہ سلام کا والد نہیں بلکہ چچا تھا۔ محفلین میں سے کوئی اس کی وضاحت کر سکتا ہے تو پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔ آمین
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایسے نازک ، پیارے ، دلکش احساسات ۔۔ ان کو چھوؤں تو کہیں میلے نہ ہو جائیں نگاہ سے ۔ پر دیکھا ہے کہ چارہ نہیں ماسوا اسکے پڑھ لوں ذرا ٹھہر ٹھہر کے ۔
سچ کہا آپ نے ۔ ۔ ایسے نازک ، پیارے ، دلکش احساسات ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی الفاظ کتنے کم پڑ جاتے ہیں ۔ ۔
 

سیما علی

لائبریرین
بے شمار جگہوں پر پڑھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ’آذر‘ حضرت ابراہیم علیہ سلام کا والد نہیں بلکہ چچا تھا۔ محفلین میں سے کوئی اس کی وضاحت کر سکتا ہے تو پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔ آمین
Was Azar the Father of Prophet Abraham?

بِسْمِ اللَّ۔هِ الرَّحْمَ۔ٰنِ الرَّحِيمِ

And when Ibrahim said to his sire, Azar: Do you take idle for gods ? Surely I see you and your people in manifest error. (Qur’an: Surah Al Anaam, Verse 74)

And Ibrahim asking forgiveness for his sire was only owing to a promise that he made to him; but when it became clear to him that he was an enemy of Allah, he declared himself to be clear of him; most surely Ibrahim was very tenderhearted and forbearing. (Qur’an: Surah Al Tauba, Verse 114)

In the above verses, the word ‘ Ab ‘ has been used for Azar. However, ‘Ab’ has different meanings and does not necessarily mean ‘Walid’ (biological father).

The Holy Prophet (S) has said that the essence of his existence had been transmitted and ultimately conveyed to his immediate parents through a pure, a holy and sanctified progeny.

Now the word ‘ Ab ‘ in Arabic language may mean father as well as ancestor or even uncle as Ishmael (Ismail) the uncle of Jacob (Yaqoub) has been addressed as ‘ Ab ‘ in the following Qur’anic verse
Nay! were you witnesses when death visited Yaqoub, when he said to his sons: What will youserve after me ? They said: Well will serve your God and the God of your fathers, Ibrahim andIsmail and Ishaq, one God only, and to Him do we submit. (Qur’an 2:113)

Since Ishmael was not the father of Jacob, and yet Qur’an uses the word ‘Ab’ for him as uncle, then the usage of this word for other than biological father is established...

Besides Prophet Abraham prays for his biological father (Walid) along with the other believers, which clearly indicates that his biological father was not a polytheist. This is evident from the following Qur’anic verse ...

O our Lord! grant me protection and my parents (Walidayn) and the believers on the day when the reckoning shall come to pass. (Qur’an 14:41)

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

But what is surprising, that knowing for fact Ibrahim’s (as) father was ‘Tarakh’ and not ‘Azar’ as stipulated by some Sunni historians, which is in total conformity with the opinion of Shi’a. Ibn Katheer in his work on history writes:

Ibrahim (as) was the son of Tarakh. When Tarakh was 75 years of age, Ibrahim (as) was born to him.

Sunni reference: al-Bidaya wan Nahaya, by Ibn Katheer, v 1 p 139

This is also confirmed by Tabari, as he gives the lineage of Ibrahim’s (as) family in his history collection, but then also in his Commentary of the Qur’an he states that ‘Azar’ was NOT the father of Ibrahim (as).

Sunni references:

- History of al-Tabari, v 1 p 119
- Tafsir Tabari, by Ibn Jarir al-Tabari, v 7 p 158
 
Was Azar the Father of Prophet Abraham?

بِسْمِ اللَّ۔هِ الرَّحْمَ۔ٰنِ الرَّحِيمِ

And when Ibrahim said to his sire, Azar: Do you take idle for gods ? Surely I see you and your people in manifest error. (Qur’an: Surah Al Anaam, Verse 74)

And Ibrahim asking forgiveness for his sire was only owing to a promise that he made to him; but when it became clear to him that he was an enemy of Allah, he declared himself to be clear of him; most surely Ibrahim was very tenderhearted and forbearing. (Qur’an: Surah Al Tauba, Verse 114)

In the above verses, the word ‘ Ab ‘ has been used for Azar. However, ‘Ab’ has different meanings and does not necessarily mean ‘Walid’ (biological father).

The Holy Prophet (S) has said that the essence of his existence had been transmitted and ultimately conveyed to his immediate parents through a pure, a holy and sanctified progeny.

Now the word ‘ Ab ‘ in Arabic language may mean father as well as ancestor or even uncle as Ishmael (Ismail) the uncle of Jacob (Yaqoub) has been addressed as ‘ Ab ‘ in the following Qur’anic verse
Nay! were you witnesses when death visited Yaqoub, when he said to his sons: What will youserve after me ? They said: Well will serve your God and the God of your fathers, Ibrahim andIsmail and Ishaq, one God only, and to Him do we submit. (Qur’an 2:113)

Since Ishmael was not the father of Jacob, and yet Qur’an uses the word ‘Ab’ for him as uncle, then the usage of this word for other than biological father is established...

Besides Prophet Abraham prays for his biological father (Walid) along with the other believers, which clearly indicates that his biological father was not a polytheist. This is evident from the following Qur’anic verse ...

O our Lord! grant me protection and my parents (Walidayn) and the believers on the day when the reckoning shall come to pass. (Qur’an 14:41)

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

But what is surprising, that knowing for fact Ibrahim’s (as) father was ‘Tarakh’ and not ‘Azar’ as stipulated by some Sunni historians, which is in total conformity with the opinion of Shi’a. Ibn Katheer in his work on history writes:

Ibrahim (as) was the son of Tarakh. When Tarakh was 75 years of age, Ibrahim (as) was born to him.

Sunni reference: al-Bidaya wan Nahaya, by Ibn Katheer, v 1 p 139

This is also confirmed by Tabari, as he gives the lineage of Ibrahim’s (as) family in his history collection, but then also in his Commentary of the Qur’an he states that ‘Azar’ was NOT the father of Ibrahim (as).

Sunni references:

- History of al-Tabari, v 1 p 119
- Tafsir Tabari, by Ibn Jarir al-Tabari, v 7 p 158
اس سے ملتے جلتے بہت سے ریفرنس پڑھ چکا ہوں اور اس موضوع پر مختلف مسالک کے علمائے کرام کے بیانات بھی سن رکھے ہیں۔

میرا اقتباس لیکر سوال کرنے یا نمایاں کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ طے ہوچکا کہ لفظ ابی سے دادا، چچا، سرپرست وغیرہ کا مطلب بھی ہو سکتا ہے تو کیوں نا قصہ، کہانی بیان کرتے ہوئے بھی آذر کا ذکر ابو الانبیاء کے چچا کے طور پر کیا جائے۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
اس سے ملتے جلتے بہت سے ریفرنس پڑھ چکا ہوں اور اس موضوع پر مختلف مسالک کے علمائے کرام کے بیانات بھی سن رکھے ہیں۔

میرا اقتباس لیکر سوال کرنے یا نمایاں کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ طے ہوچکا کہ لفظ ابی سے دادا، چچا، سرپرست وغیرہ کا مطلب بھی ہو سکتا ہے تو کیوں نا قصہ، کہانی بیان کرتے ہوئے بھی آذر کا ذکر ابو الانبیاء کے چچا کے طور پر کیا جائے۔ :)
صحیح کہا آپ نے :):)
 

سیما علی

لائبریرین
سچ کہا آپ نے ۔ ۔ ایسے نازک ، پیارے ، دلکش احساسات ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی الفاظ کتنے کم پڑ جاتے ہیں ۔ ۔
اے ایمان والوں!!!!
اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ ،جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں''۔
یہ آگ ملتِ ختمِ رسل کے پیرہن تک بھی آن پہنچی ہے، تاہم علامہ اقبال رح اس آگ کے بجھنے ؛
بلکہ سلامتی والی بن جانے کی امید دلاتے ہیں اور اس کے لیے طریقہ بھی بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختم رسلؐ شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ عصر حاضر کی دھکائی ہوئی آگ سے کوئی چیز امان میں نہیں ؛لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر ابراہیم نے جو گھر ساری انسانیت کے لیے بنایا، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
''اس میں واضح نشانیاں ہیں، جن میں سے ایک مقام ابراہیم ہے اور جو کوئی اس کے اندر پہنچ جائے، وہ امن میں ہے''۔
گویا ابراہیم کا راستہ انسان کے لیے امن و سکون کا راستہ ہے اور ابراہیم کے راستے پر چل کر آگ بھی اندازِ گلستاں پیدا کر لیتی ہے۔
اقبال رح کہتے ہیں:

بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم ؑ پدر، اور پسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے
یاد رہے کہ قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم کو مسلمانوں کا باپ قرار دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ حضرت ابراہیم ہی نے ہمیں مسلمان کا نام دیا،
ایک اور مقام پر اقبال رح نے اسی بات کو ایک اور پیرایے میں یوں بیان کیا ہے:
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
یہاں ایک اور بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ اقبال کے نزدیک دراصل عصرِ حاضر کا آزر مغربی تہذیب کا ترجمان اور بت گر ہے، وہ تہذیب ،جو کائنات کو فقط مادی نظر سے دیکھتی ہے اورروحانی آنکھ سے محرو م ہے اورمسلمانوں نے اسی تہذیب کو اپنا حرم بنا لیا ہے،
بظاہر تو مسلمان خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اس کا حج کرنے جاتے ہیں ؛لیکن عملی زندگی میں ان کا حرم مغربی تہذیب بن چکی ہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ماشااللہ، کیا فصاحت اور بلاغت ہے ۔ ۔ کیا روانئِ اظہار ہے ۔ ۔ :)
جزاک اللہ
صابرہ سب آپکی محبت ہے۔ ادنیٰ سی کوشش :redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
سناتے ہیں انہیں افسانہ قیس
بہانے ہیں یہ عرض مدعا کے

اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا!!!!

(معراجؔ فیض آباد
 
آخری تدوین:
Top