شناخت کا بحران، آنکھوں کی زبان سے کانوں کی زبان تک!

جاسمن

لائبریرین
شناخت کا بحران، آنکھوں کی زبان سے کانوں کی زبان تک۔
عالم نقوی​
گوشہ ہند
21 اکتوبر 2017ء
امجد اسلام امجد کا کہنا ہے کہ اردو آج آنکھوں کی زبان کے بجائے محض کانوں کی زبان ہو کر رہ گئی ہے۔ عرب نیوز جدہ میں شائع اپنے ایک انٹرویو میں سراج وہاب کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے با لکل درست کہا کہ خود اردو والے اردو کے خوبصورت رسم ا لخط کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔ خود اردو والوں نے اپنی ا س خوبصورت اور شیریں اردو زبان کو، زبان Languageکے منصب اعلیٰ سے اتار کر اسے بولی Dilect کے ادنیٰ درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اردو کی نام نہاد نئی بستیوں کے حوالے سے اردو کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ چاہیں تو اس پر خوش ہو لیں کہ اردو ایک بولی جانے والی زبان spoken languageکی حیثیت سے تو پھل پھول رہی ہے لیکن پڑھی جانے والی زبان کی حیثیت سے ہم خود اسے بھلاتے جا رہے ہیں۔ اپنی اولین حیثیت میں تو وہ اس وقت دنیا کی تین بڑی زبانوں چینی اور انگریزی کے بعد تیسرے نمبر پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ اگلے دس برسوں میں پہلے نمبرپر پہنچ جائے لیکن اس کا رسم الخط شدید خطرے میں ہے کیونکہ اردو بولنے والی نئی نسل سوشل میڈیا پر اسے رومن(یا دیو ناگری) میں لکھنے اور پڑھنے میں مصروف ہے، اور اسے کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ اس طرح وہ خود اپنی زبان کو قتل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس نے آنکھوں کی زبان کو کانوں کی زبان بنا کر رکھ دیا ہے۔

بھارت اور پاکستان کی نئی نسل ایس ایم ایس، وٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر پر رومن (انگریزی رسم الخط)میں اردو لکھ رہی ہے اور ہمیں اس نقصان کا احساس تک نہیں ہے جو خود اپنے ہی ہاتھوں سے ہم اردو کو پہنچا رہے ہیں۔ جہاں تک اردو کی نام نہاد نئی بستیوں اور اس پر فخر کرنے والوں کا سوال ہے وہ یہ نہیں بتاتے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپ، کناڈا، امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں منعقدہ اردو پروگراموں میں شریک ہونے والوں کی ننانوے فیصد تعداد پچاس سال سے اوپر والوں کی ہوتی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو اردو پڑھائی ہی نہیں !

نتیجہ یہ ہے کہ ساٹھ ستر اور اَسیً سال کا جو اردو والا دنیا سے اٹھتا ہے ا پنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ جاتا ہے جس کو بھرنے کی کوئی فکر اور کوئی شعوری اور عملی کوشش، بھارت اور پاکستان میں بھی کہیں نظر نہیں آتی ! یہ منافق اردو والے، اردو کو اس کی پرانی بستیوں سے نکال کر نئی بستیوں کا شور مچا رہے ہیں اور خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ زبان کوئی بھی ہو وہ صرف زبان نہیں ہوتی وہ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کا دروازہ بھی ہوتی ہے اور اس کی کلید بھی۔ اگر ہم اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اپنی زبان کا تحفظ بھی کرنا ہوگا اور کسی بھی زبان کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس زبان کے لکھنے پڑھنے اور بولنے والے اس کا علم اپنے بچوں تک منتقل نہ کریں۔ زبان بے شک سماعی ہوتی ہے اور سن کر سیکھی جا سکتی ہے لیکن جب تک ہم اس کا لکھنا اور پڑھنا اپنے بچوں کو نہیں سکھائیں گے اُسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ابھی ان نام نہاد نئی بستیوں کے اردو والوں کو احساس نہیں ہے کہ وہ کتنا بڑا جرم کر رہے ہیں۔


بے شک مغرب میں ہمارے بچوں کو حصول علم اور ترقی کے تمام مواقع حاصل ہیں لیکن کیا وہ ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں کہ وہ کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟اور کس تہذیب اور کس ثقافتی ورثے کے امین ہیں ؟ امجد اسلام امجد نے اس محل پر فراق گورکھپوری کا ایک شعر سنا کر دہلا دیا کہ

میں ، بس، ایک بار، لاجواب ہوا

جب کسی نے کہا، کہ کون ہو تم؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم نام نہاد اردو والے مغرب اور عرب ممالک میں اپنی نئی نسل کے لیے شناخت کا بحران پیدا کر رہے ہیں۔ وہ اپنی صدیوں پرانی تہذیب، اپنے کلچر اور اپنی روایتوں کے امین بن کر اس وقت تک شناخت کے اس بحران سے نہیں نکل سکتے جب تک وہ اپنی مادری زبان نہیں سیکھ لیتے۔ کہتے ہیں کہ دنیا آج ایک ’عالمی گاؤں ‘ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو یہ اصطلاح بھی دھوکہ دینے والی ہے بلکہ غیر فطری اور اللہ جل شا نہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ جب رنگ اور نسل کنبے(شعوب)اور قبائل خود اللہ جل جلا لہ نے بنائے ہیں اورتمام انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کر نے کے باوجو د، اِس لیے یہ تفریق رکھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں (لتعارفوا۔ حجرات۔ 13) تو ہم بھلا گاؤں اور دنیا کے اپنے لغوی معنوں کی موجودگی میں ، پوری دنیا کو لفظاً اور معناً ایک’ عالمی گاؤں ‘global village کیسے بنا سکتے ہیں ؟ تو جب شعوب و قبائل شناخت کا ذریعہ ہیں تو شعوب و قبائل کے مذہب اور زبان سے لاعلمی سے اُن کی شناخت بھلا کیسے قائم رکھ سکتی ہے ؟تو جب شناخت ہی کھو جائے تو کون ہو تم کا سوال لا جواب کرنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتا ہے !
شناخت کا بحران، آنکھوں کی زبان سے کانوں کی زبان تک۔عالم نقوی | مکالمہ
 

زیک

مسافر
تو جب شعوب و قبائل شناخت کا ذریعہ ہیں تو شعوب و قبائل کے مذہب اور زبان سے لاعلمی سے اُن کی شناخت بھلا کیسے قائم رکھ سکتی ہے ؟تو جب شناخت ہی کھو جائے تو کون ہو تم کا سوال لا جواب کرنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتا ہے !
باقی مضمون الگ لیکن یہ خیال خام ہے۔ کوئی قبیلہ یا قوم مستقل نہیں۔ سب وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ زبانیں بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
شناخت کا بحران، آنکھوں کی زبان سے کانوں کی زبان تک۔
عالم نقوی​
گوشہ ہند
21 اکتوبر 2017ء
امجد اسلام امجد کا کہنا ہے کہ اردو آج آنکھوں کی زبان کے بجائے محض کانوں کی زبان ہو کر رہ گئی ہے۔ عرب نیوز جدہ میں شائع اپنے ایک انٹرویو میں سراج وہاب کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے با لکل درست کہا کہ خود اردو والے اردو کے خوبصورت رسم ا لخط کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔ خود اردو والوں نے اپنی ا س خوبصورت اور شیریں اردو زبان کو، زبان Languageکے منصب اعلیٰ سے اتار کر اسے بولی Dilect کے ادنیٰ درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اردو کی نام نہاد نئی بستیوں کے حوالے سے اردو کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ چاہیں تو اس پر خوش ہو لیں کہ اردو ایک بولی جانے والی زبان spoken languageکی حیثیت سے تو پھل پھول رہی ہے لیکن پڑھی جانے والی زبان کی حیثیت سے ہم خود اسے بھلاتے جا رہے ہیں۔ اپنی اولین حیثیت میں تو وہ اس وقت دنیا کی تین بڑی زبانوں چینی اور انگریزی کے بعد تیسرے نمبر پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ اگلے دس برسوں میں پہلے نمبرپر پہنچ جائے لیکن اس کا رسم الخط شدید خطرے میں ہے کیونکہ اردو بولنے والی نئی نسل سوشل میڈیا پر اسے رومن(یا دیو ناگری) میں لکھنے اور پڑھنے میں مصروف ہے، اور اسے کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ اس طرح وہ خود اپنی زبان کو قتل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس نے آنکھوں کی زبان کو کانوں کی زبان بنا کر رکھ دیا ہے۔

بھارت اور پاکستان کی نئی نسل ایس ایم ایس، وٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر پر رومن (انگریزی رسم الخط)میں اردو لکھ رہی ہے اور ہمیں اس نقصان کا احساس تک نہیں ہے جو خود اپنے ہی ہاتھوں سے ہم اردو کو پہنچا رہے ہیں۔ جہاں تک اردو کی نام نہاد نئی بستیوں اور اس پر فخر کرنے والوں کا سوال ہے وہ یہ نہیں بتاتے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپ، کناڈا، امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں منعقدہ اردو پروگراموں میں شریک ہونے والوں کی ننانوے فیصد تعداد پچاس سال سے اوپر والوں کی ہوتی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو اردو پڑھائی ہی نہیں !

نتیجہ یہ ہے کہ ساٹھ ستر اور اَسیً سال کا جو اردو والا دنیا سے اٹھتا ہے ا پنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ جاتا ہے جس کو بھرنے کی کوئی فکر اور کوئی شعوری اور عملی کوشش، بھارت اور پاکستان میں بھی کہیں نظر نہیں آتی ! یہ منافق اردو والے، اردو کو اس کی پرانی بستیوں سے نکال کر نئی بستیوں کا شور مچا رہے ہیں اور خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ زبان کوئی بھی ہو وہ صرف زبان نہیں ہوتی وہ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کا دروازہ بھی ہوتی ہے اور اس کی کلید بھی۔ اگر ہم اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اپنی زبان کا تحفظ بھی کرنا ہوگا اور کسی بھی زبان کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس زبان کے لکھنے پڑھنے اور بولنے والے اس کا علم اپنے بچوں تک منتقل نہ کریں۔ زبان بے شک سماعی ہوتی ہے اور سن کر سیکھی جا سکتی ہے لیکن جب تک ہم اس کا لکھنا اور پڑھنا اپنے بچوں کو نہیں سکھائیں گے اُسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ابھی ان نام نہاد نئی بستیوں کے اردو والوں کو احساس نہیں ہے کہ وہ کتنا بڑا جرم کر رہے ہیں۔


بے شک مغرب میں ہمارے بچوں کو حصول علم اور ترقی کے تمام مواقع حاصل ہیں لیکن کیا وہ ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں کہ وہ کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟اور کس تہذیب اور کس ثقافتی ورثے کے امین ہیں ؟ امجد اسلام امجد نے اس محل پر فراق گورکھپوری کا ایک شعر سنا کر دہلا دیا کہ

میں ، بس، ایک بار، لاجواب ہوا

جب کسی نے کہا، کہ کون ہو تم؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم نام نہاد اردو والے مغرب اور عرب ممالک میں اپنی نئی نسل کے لیے شناخت کا بحران پیدا کر رہے ہیں۔ وہ اپنی صدیوں پرانی تہذیب، اپنے کلچر اور اپنی روایتوں کے امین بن کر اس وقت تک شناخت کے اس بحران سے نہیں نکل سکتے جب تک وہ اپنی مادری زبان نہیں سیکھ لیتے۔ کہتے ہیں کہ دنیا آج ایک ’عالمی گاؤں ‘ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو یہ اصطلاح بھی دھوکہ دینے والی ہے بلکہ غیر فطری اور اللہ جل شا نہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ جب رنگ اور نسل کنبے(شعوب)اور قبائل خود اللہ جل جلا لہ نے بنائے ہیں اورتمام انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کر نے کے باوجو د، اِس لیے یہ تفریق رکھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں (لتعارفوا۔ حجرات۔ 13) تو ہم بھلا گاؤں اور دنیا کے اپنے لغوی معنوں کی موجودگی میں ، پوری دنیا کو لفظاً اور معناً ایک’ عالمی گاؤں ‘global village کیسے بنا سکتے ہیں ؟ تو جب شعوب و قبائل شناخت کا ذریعہ ہیں تو شعوب و قبائل کے مذہب اور زبان سے لاعلمی سے اُن کی شناخت بھلا کیسے قائم رکھ سکتی ہے ؟تو جب شناخت ہی کھو جائے تو کون ہو تم کا سوال لا جواب کرنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتا ہے !
شناخت کا بحران، آنکھوں کی زبان سے کانوں کی زبان تک۔عالم نقوی | مکالمہ
جاسمن میری بہن۔۔۔۔۔
بہت زبردست تحریر۔۔۔۔۔۔
ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
باقی مضمون الگ لیکن یہ خیال خام ہے۔ کوئی قبیلہ یا قوم مستقل نہیں۔ سب وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ زبانیں بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہیں۔
شکریہ۔ لیکن ان میں سے کوئی تحریر میری نہیں۔ :)
آپ تو ہماری ہیں:redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
 

سیما علی

لائبریرین
باقی مضمون الگ لیکن یہ خیال خام ہے۔ کوئی قبیلہ یا قوم مستقل نہیں۔ سب وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ زبانیں بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہیں۔
شکریہ۔ لیکن ان میں سے کوئی تحریر میری نہیں۔ :)
عالم نقوی ہمارے نہی پر
آپ تو ہماری ہیں:redheart:
 
Top