سید لبید غزنوی کی ڈائری سے ۔۔

اپنوں کا دکھ اسی وقت محسوس ہوتا ہے جب انہیں اپنا محسوس کیا جائے، جب اپنوں کو جڑ سے کاٹ دیا جائے تو دکھ بھی پرائے ہو جاتے ہیں
 
سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو کچھ میں کرتا آیا ہوں اسمیں کیا صحیح تھا اور کیا غلط؟ صحیح تھا تو الحمد للہ اور اگر غلط تھا تو انکے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، ذہانت اور شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ محاسبہ کیا جائے، ویسے ایک بات ہے بہت تکلیف ہوتی ہے اپنے اعمال کا حساب کرتے وقت، یہ معلوم ہو کہ ہم شیطانی حرکتیں کرتے آئے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے، پھر کچھ لوگ بہت سوچ سمجھ کر ان شیطانی حرکتوں کو جائز قرار دینے کیلئے مضبوط دلائل تلاش کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ سچائی سے تسلیم کر لیتے ہیں کہ ایسی حرکتیں ہو گئی ہیں اب نہیں ہونگی، وہ غلطیوں کا دور تھا، اب تلافیوں کا دور ہو گا، اور تلافی اس طرح بھی تو ہوتی ہے کہ جھک جائیں، معافی مانگ لیں اور وعدہ کر لیں اللہ سے، اب نادانیوں اور غلطیوں کوتاہیوں سے خود کو بچائیں گے، اگر ایسا کچھ ہے تو سوچیں مت کر گزریں، یہ ندامتیں، ملامتیں ظرف والے لوگوں کے حصہ میں آیا کرتی ہیں
 
''اگر تم مجھ سے پوچھو تو میرا دل چاہتا ہے

کہ ہر اس شخص کو روکوں جو اپنے کسی خونی رشتے دار سے ناراض ہے اور کہوں کہ اس کو کال کرلو‘ اس سے تعلق جوڑلو‘ چاہے اس نے آپ کا کتنا بھی دل کیوں نہ دکھایا ہو۔ میری طرح اتنے سال ضائع نہ کروبے کار کی انا میں۔ اگر تعلق نہیں جوڑو گے تو پتہ ہے کیا ہو گا؟ آپ کے بچوں میں انہی بہن بھائیوں کی شکلیں اور عادتیں نظر آنے لگیں گی جن سے آپ بہت دکھی دل کے ساتھ علیحدہ ہوئے تھے۔ ﷲ تعالیٰ کیوں بناتا ہے آپ کی اولاد میں آپ کے رشتوں کی مشابہت؟ اس لئے تاکہ ہم ان کو نہ بھول سکیں ۔ کیونکہ اگر ہم نے جلد صلح نہ کی تو وہ مر جائیں گے‘ کھو جائیں گے‘ یا ہم مر جائیں گے۔ کھو جائیں گے۔
 
رزق

مخلوق کے خالق کا دعوٰی ہے کہ وہ زمین پر چلنے والے ہر جاندار کے رزق کا کفیل ہے ۔ اس میں سب مخلوق شامل ہے ۔ انسان ، حیوان کیڑے مکوڑے ، مرغ و ماہی غرضیکہ ہر ذی جان اور ذی روح ، بغیر کسی استثنا کے ۔
رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو ، بلکہ ہماری ہر صفت رزق ہے اور ہماری ہر استعداد رزق ہے ۔ بینائی رزق ہے ، گویائی رزق ہے ، خیال رزق ہے ، احساس رزق ہے ، سماعت رزق ہے ، وجود کی طاقت اور لطافت رزق ہے ، غم رزق ہے ، خوشی رزق ہے ، علم رزق ہے ، محبت رزق ہے ، حُسن رزق ہے ، ذوقِ جمال رزق ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایمان بھی رزق ہے ۔
اس ہمہ رنگ رزق کے نزول اور حصول کے عمل پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خالق کا دعوٰی کسی اور دلیل کا محتاج نہیں ۔ وہ ایسا رازق ہے کہ بچے کے پیدا ہونے سے پہلے اُس کے رزق کا انتظام کر چکا ہوتا ہے ۔
آسمانوں سے مصفّا اور مطّہر پانی کی بارش کرنے والا خالق رزق کی ترسیل کے وسیع سلسلے رکھتا ہے ۔ انسان سمجھ نہیں سکتا ۔ آج کا انسان جھگڑالو ہو گیا ہے ۔ وہ تسلیم سے حاصل ہونے والی تعلیم سے محروم ہو چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رزق کے وسیع و عظیم پھیلاؤ کو دیکھتا تو ہے ، سمجھتا نہیں ۔
بارش کے ساتھ رزق کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ بارش کو ہی رزق کہہ دیا جاتا ہے ۔ بارش کے ہونے سے رزق کے چشمے بلکہ سر چشمے جاری ہو جاتے ہیں ۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں اُگنے والے ایک معمولی درخت کو دیکھیں ، رزق سے بھر پُورہے ۔ اس کی شاخیں پرندوں کا رین بسیرا ہیں ۔ اس کا سایہ جانداروں کی پناہ گاہ ہے ۔ لکڑی ، طویل سلسلہ ہے رزق کا ۔ جلانے والی ہو تب بھی لکڑی رزق ہے ۔ عمارتی لکڑی تو سُبحان اللہ ۔ رزق ہی رزق ہے ۔ فرنشنگ ہاؤس ، شورُوم ، فرنیچر ، گاڑیاں رزق کمانے والوں اور رزق کھانے والوں کے لیے نعمت ہے ۔ درخت کی لکڑی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے ۔ درخت بارش کی عطا ہے ۔ بارش خالق کا عمل ہے ۔ دعوٰی یہ ہے کہ رزق آسمان سے نازل ہوتا ہے ۔ دلیل یہ کہ بارش میں صفتِ رزّاقی ہے ۔
زمین سے اُگنے والے اناج کو بارش سے جو تعلق ہے ، وہ محتاجِ بیان نہیں ۔ جاندار زمین سے اُگنے والی اجناس پر پلتے ہیں ۔ مویشیوں ہی کو لیجیے ۔ تازہ دودھ کی نہریں ہیں ۔ تازہ گوشت کا نہ ختم ہونے والا سٹور ۔ صحت مند گوشت ، جس پر انسانی صحت کا دار و مدار ہے ۔ مویشیوں کی کھالیں کیا کیا رزق مہیا کرتی ہیں ، کسی ٹیزی سے معلوم کریں ۔ مویشیوں سے لباس ، جُوتے ، باربرداری اور نہ جانے کیا کیا کُچھ حاصل ہوتا ہے ۔ ان کی رزّاقانہ افادیت پر مکمل تبصرہ خارج از امکان ہے ۔
جانور ، جانوروں کا رزق ہیں ، انسانوں کا رزق ہیں ، یہاں تک کہ مرا ہُوا جانور بھی گِدھ کا رزق ہے ۔ گِدھ مُردار پر پَلتا ہے ، شاہین زندہ شکار سے اپنی زندگی برقرار رکھتا ہے ۔ پروردگار کے کام ہیں ۔ شاہین اور شیر کی خوراک کو زندگی دے کر محفوظ کر دیا گیا ہے ۔
اگر آسمانوں سے مینہ نہ برسے ، تو رزق کی داستان ختم سی ہو کر رہ جائے ۔ سائنس کی ترقی کے باوجود رزق کا نظام معیشت و معاشیات ، تقسیم دولت کا سارا نظام بارش کے ختم ہونے سے ختم ہو جائے گا ۔ بارش کے دَم سے سُوتی اور اُونی کپڑے کی مِلیں چل رہی ہیں ۔ بارش نہ ہو تو نہ اون نہ کپاس ، نہ خوراک نہ لباس ۔
بارش کی کمی سے بجلی کا نظام بُحران کا شکار ہوتے دیکھا گیا ہے ۔ رزق کی تقسیم و ترسیل کا نظام آسمان سے برسنے والے پانی پر ہے ۔ پانی کی کمی سے قحط سالی اپنے ظالم جبڑوں میں انسان کو دبوچ لیتی ہے ۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بارش منشائے الہٰی ہے اور یہ عطائے رحمانی بغیر کسی معاوضے کے ہے ۔
انسانی آنکھ کو قدرت نے بینائی کا رزق عطا کیا اور اس بینا آنکھ کے لیے نظاروں کے خزانے موجود ہیں ۔ کائنات کے منوّرمناظر انسان کی ضیافتِ نگاہ کا سامان ہیں ۔ کہساروں سے ریگزاروں تک نظر کا رزق نظاروں کے حُسن میں پھیلا دیا گیا ہے ۔ یہ سب بغیر معاوضے کے ہے ۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مشرق سے طلوع ہونے سورج رزق کے خزانے بکھیرتا ہوا مغرب میں غروب ہوتا ہے اور پھر رات ایک الگ قسم کا رزق راحتِ جاں کے لیے تقسیم کرتی ہے ۔ پُرسکون نیند ایک عظیم دولت ہے ، مفت مِلتی ہے ، اس پر کروڑوں روپے نثار ۔ سُورج پھلوں کو رس عطا کرتا ہے ، چاند مٹھاس بخشتا ہے ۔ ستارے صاحبانِ فکر کو دولتِ افکار سے مالا مال کرتے ہیں ۔ غرضیکہ اس کائنات کا ہر موسم اور ہر لمحہ کسی نہ کسی انداز سے رزق تقسیم کرتا ہی رہتا ہے ۔
انسان کا رزق اس کے اپنے وجود کے کسی حصے میں پنہاں ہوتا ہے ۔ اس صلاحیت کو دریافت کرنا ہی انسان کا فرض ہے ۔ اس کے بعد حصولِ رزق کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے ۔
کچھ لوگوں کا رزق ان کے ذہن میں ہوتا ہے ۔ ان کی ذہنی صلاحیت رزق بنتی ہی چلی جاتی ہے ۔ یہ صاحبانِ فکر و فراست اپنی اور دوسروں کی معیشت کو استوار کرتے ہیں ۔ دنیا کو علم و ادب سے نوازتے ہیں اور رزق ان کے ذہن کو سلام کرنے کے لیے حاضر رہتا ہے ۔
کچھ انسانوں کا رزق ان کے گلے میں ہوتا ہے ۔ سریلا ، رسیلا نغمہ یوں بھی رزق ہے ، اور یوں بھی گلوکار کا گلا سونے کی کان سے کیا کم ہو گا ۔ اس نغمگی سے کتنے اداروں اور کتنے افراد کا رزق وابستہ ہے ۔ صاحبِ آواز کے ساتھ صاحبِ ساز کو بھی نواز دیا جاتا ہے ۔
مزدوروں اور ورکروں کا رزق ان کے بازوؤں میں ہے ۔ جسمانی طاقت ، جو قدرت کی عطا ہے ، ذریعہء رزق بھی ہے ۔ ہاتھ چلتے ہیں اور پیٹ پلتے ہیں ۔ کاسب کا رزق کسب میں ہے ۔ کاسب امیر ہو یا غریب ، وہ اللہ کا دوست ہے ۔
کچھ ممالک میں جنسیات بھی معاشیات کا ایک حصہ ہے ۔ گمراہی ہے ، لیکن رزق سے وابستہ ہے ۔ گناہ تو ہے ، لیکن رزق کا ذریعہ ہے ۔
اس مقام پر مذہب انسان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ مذہب بتاتا ہے کہ حلال کیا ہے ، حرام کیا ہے ۔ جائز کیا ہے ، ناجائز کیا ہے ۔ ثواب کیا ہے ، عذاب کیا ہے ۔ کرم کیا ہے ، ستم کیا ہے ۔ مذہب غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ آخر رزق کی ضرورت کیا ہے ۔ زندگی گزارنے کے لیے رزق چاہیے ۔
ماں کی گود سے قبر تک کا سفر ہے ۔ کتنا زادِ راہ چاہیے؟
ہم مال بڑھاتے ہیں اور یہ بھُول جاتے ہیں کہ زندگی کم ہوتی جا رہی ہے ۔ سانس کی آری ہستی کا شجر کاٹ رہی ہے ۔ زندگی برف کی سِل کی طرح پگھلتی ہی چلی جا رہی ہے ۔ یہ پونجی گھٹتی جا رہی ہے ۔ دولت موت سے نہیں بچا سکتی ۔
سانس بند ہو جائے تو رزق کی تمام افادیت ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے ۔ جائز ضروریات کو ناجائز کمائی سے پورا کرنا حماقت بھی ہے اور گناہ بھی ۔ رشوت کے مال پر پلنے والی اولاد لازمی طور باغی ہو گی ، بے ادب ہو گی ، گستاخ ہو گی ۔ دوہرا عذاب ہے ۔ عاقبت بھی برباد اور اولاد بھی برباد ۔
"تکاثرِزر" نے انسان کو اتنا غافل اور اندھا بنا دیا ہے کہ اُس کی آنکھ بند ہونے سے پہلے کُھل ہی نہیں سکتی ۔ انسان دولت کے حصُول کی خواہش میں پاگل سا ہو گیا ہے ۔
دولت زندگی کے لیے ہے ، لیکن آج کی زندگی صرف دولت کے لیے ہے ۔
سوچنا چاہیے کہ صرف پیسہ ہی رزق نہیں ۔ ایک قسم کا رزق حاصل کرنے کے لیے دوسری قسم کا رزق ضائع کرنا کم عقلی ہے ۔ دین کو دے کر دولتِ دنیا حاصل کی ۔ تو بھی کس کام کی؟
وطن چھوڑ کر پیسہ لیا تو کیا لیا؟ جہنّم میں لے جانے والی دولت سے وہ غریبی بہتر ہے جو جنّت کی راہ دکھائے ۔
خیر و شر کا شعور نہ ہو ، تو امیر غریب کی بحث عبث ہے ۔ کائنات میں دولت کی یکساں تقسیم کی خواہش ایک ایسا خواب ہے ، جو اُس وقت تک شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کوّے اور مور کو ایک جیسے پر نہیں ملتے یا شیر اور گیدڑ کو ایک جیسا مزاج نہیں ملتا ۔
اچھا امیر بہت اچھا ہوتا ہے ، بُرا غریب بہت بُرا ۔ اچھا امیر وہ ہے جو اپنے مال سے اپنے محروم بھائی کی خدمت کرے ۔ بُرا غریب وہ ہے جو دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے حاصل کرنا چاہے یعنی چوری ، ڈاکہ ، رشوت کے ذریعہ سے ۔
آزادئ پرواز رزق ہے ۔ سونے کا قفس ملے ، تو بھی قبول نہ کرنا چاہیے ۔
یہ زندگی محدود ایام کے لیے ہے ۔ پاکیزہ رزق کی تلاش کرنی چاہیے ، بلکہ اس کا انتظار کرنا چاہیے ۔ ہمارا رزق ہمیں ضرور ملے گا جیسے ہماری زندگی ملی ہے ، بینائی ملی ہے ، گویائی ملی ہے اور جیسے ایک دن ہمیں موت سے ملنا ہے ۔
جو ہماری جان کا محافظ ہے ، وہی ہمارے رزق کا ضامن ہے ۔ رزق دینا رازق کا عمل ہے ۔ یہ اس کا دعویٰ ہے جس نے سورج ، چاند ، ستاروں کو نورانی رزق عطا کیا ہے ، جس نے پہاڑوں کو استقامت دی ہے ، دریا کو روانی دی ہے ۔ گُلوں میں رنگ بھرے ہیں ، موسموں کو خوئے انقلاب عطا کی ہے ۔ بیج کو مٹی کی تاریکی میں پالنے والا انسان کو کیوں نہ پالے گا؟
صبر و استقامت کا مقام ہے ۔ اپنی غریبی کی توہین نہ کرنی چاہیے ۔ اپنے مال کو عذاب نہ بنایا جائے ۔ حق والے کو حق دیا جائے اور اپنی عاقبت کی فکر کی جائے ۔ عاقبت ، آنے والا لمحہ ہو سکتا ہے ۔

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
(دل دریا سمندر)
 
بعض لوگ دوسروں کی خوشیاں چھین کر انہیں ازیت دے کر تسکین حاصل کرنا چاہتے ہیں دراصل ایسا ہوتا نہیں ہے خوشیاں ایسے نہیں ملا کرتیں، یہ لوگ انہیں ازیت پہنچانے کے، تکلیف دینے کے نت نئے طریقے سوچنے میں وقت، صلاحیتیں اور وسائل خرچ کرتے ہیں، یوں انکا اپنا سکون لٹ جاتا ہے، دوسروں کی خوشیاں چھین کر انہیں ازیتوں میں مبتلا کرنے سے بھلا کب کسی کو سکون ملا ہے، سکون ملتا ہے آسانیاں پیدا کرنے سے، تکلیفوں اور ازیتوں کو ختم کرنے سے، خوشیاں ملتی ہیں دلوں میں بھرے غم و غصے، نفرت و کدورت، بغض و حسد، عداوت و کینہ کے جذبات کو کچل کر محبت، مودّت، الفت، شفقت، مروّت، خدمت، احساس، احسان، درگزر جیسی صفات کو دل میں جگہ دینے سے، خوشیاں ملتی ہیں رشتے جوڑنے سے رشتوں کو توڑ کر کبھی خوشیاں نہیں ملتیں، نظر و فکر کے زاویے درست کریں
 

نکتہ ور

محفلین
تمام مراسلے ایک ہی دفعہ بھیجنے سے بہتر ہے کہ روزانہ ایک یا دو مراسلے بھیجیں۔
اس سے پڑھنے والے اچھی طرح سے سمجھ پائیں گے اور آپ کو مختلف مراسلوں پر محفلین کی رائے بھی ملتی رہے گی۔
:)
 
اگر کبھی زندگی میں کسی بری عادت، کسی نہ مل سکنے والی محبت یا کسی جنون کا شکار ہو جاؤ تو یاد رکھنا ۔۔۔ جتنا زبردستی چیخ چیخ کے اس کو خود سے نو چ کے پھینکنے می کوشش کرو گے۔۔۔ وہ اتنا تمہارے اوپر سوار ہو گا۔۔۔ وہ اتنا تمہیں ڈرائے گا۔۔ کسی خوفناک درندے کی طرح وہ چیز ہمیں ڈراتی رہے گے۔
ان چیزوں کا مقابلہ بھی ایسے ہی کیا جاتا ہے جیسے کسی بڑے خوفناک درندے کا کیا جاتا ہے پتہ ہے کیسے؟ پر سکون ہو کر۔ خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ مزاحمت چھوڑ دو۔ ڈرنا چھوڑ دو۔ اپنی خواہش، جنون، پاگل پن سے جب ہم ڈرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ فیز گزر جاتا ہے۔۔۔ تم پر سکون ہو کے اس کے گزر جانے کا انتظار کرو۔۔۔ ریلیکس کرو۔۔ یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک تم پر سکون ہو۔۔
بہادری اسکو کمزور کرے گی تمہارا خوف اسکو مضبوط کرے گا۔

''حالم''
 
ہماری بری عادتوں میں سے ایک بری عادت ہے کہ اپنے مطلب کی بات دماغ میں بٹھا کر دماغ کو تالا لگا کر چابی نگل لیتے ہیں اور کچھ بھی سمجھنے سے عاری ہو جاتے ہیں پھر چاہے وہ سمجھنا ہمارے لیے کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو ہم نہیں سمجھتے کہ کہیں کسی کی بات مان لینے سے ہماری انا کی شکت نہ ہو جائے کیونکہ بعض اوقات ہماری انا ہمارے ایمان سے بھی اوپر چلی جاتی ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

کیوں نہ تماشہ ہو
جب انا بے تحاشہ ہو.

ہمارے ڈیپریشن کی وجہ ہماری میں ہے. جس سے نکلنے کے لیے ایمان کی تازگی کی ضرورت ہے
''خوف'' اگر کبھی زندگی میں کسی بری عادت، کسی نہ مل سکنے والی محبت یا کسی جنون کا شکار ہو جاؤ تو یاد رکھنا، جتنا زبردستی چیخ چیخ کے اس کو خود سے نو چ کر پھینکنے کی کوشش کرو گے، وہ اتنا تمہارے اوپر سوار ہو گا، کسی خوفناک درندے کی طرح وہ چیز ہمیں ڈراتی رہے گی، ان چیزوں کا مقابلہ بھی ایسے ہی کیا جاتا ہے جیسے کسی بڑے خوفناک درندے کا کیا جاتا ہے پتہ ہے کیسے؟ پر سکون ہو کر، خاموشی سے بیٹھ جاؤ، مزاحمت چھوڑ دو، ڈرنا چھوڑ دو، اپنی خواہش، جنون، پاگل پن سے جب ہم ڈرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ فیز گزر جاتا ہے، تم پر سکون ہو کے اس کے گزر جانے کا انتظار کرو، ریلیکس کرو، یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک تم پر سکون ہو، بہادری اسکو کمزور کرے گی تمہارا خوف اسکو مضبوط کرے گا.. اور پھر وہ فیز گزر ہی گیا الحمد للہ


 

محبت کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے جو آپ کے چہرے پر مسکان سجائے رکھتا ہے آپ سے کوئی پیار کرے نہ کرے آپ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی آپ کو اس بات سے بھی کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کیا سوچتا ہے آپ کے بارے میں آپ بس اتنا جانتے ہیں کہ آپ کو پیار ہے یہ احساس آپ کے من میں رہتا ہے اورآپ کو چپ چاپ اسے چاہتے رہنا ہی اچھا لگتا ہے آپ بنا کسی مطلب کے خامشی سے اس کے ساتھ ایسے چلتے چلے جاتے ہیں جیسے اک ندیا کے دو کنارے ساتھ ساتھ بہتے ہیں پر کبھی مل نہیں سکتے مگر پھر بھی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چپ چاپ سے بہتے ہیں
 
پتا ہے کبھی کبھی تو خود مجھے یقین نہیں آتا۔۔
کہ میں اُس کے ساتھ نہیں ہوں جس کے ساتھ میں نے اگلے ساٹھ سال کی پلاننگ تک کر رکھی تھی،
لیکن ان چند باتوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ
میں اپنی خواہشات کو دل میں ہی مار لوں،
اپنے گزرے ہوئے سالوں کو یاد کر کے ہنسوں، اپنی محبت کو ہر روز اپنے وجود میں دم توڑتے اور نئے سرے سے پیدا ہوتے دیکھوں، شاید یہی میرے جرم کی سزا ہے "
 
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے، غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے، ہم نہ مجنوں ہیں، نہ فرہاد کے کچھ لگتے ہیں، ہم کسی دشت تماشے میں نہیں آئیں گے، مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی، درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے، اُس کی کچھ خیر خبر ہو تو بتاوْ یارو، ہم کسی اور دلاسے میں نہیں آئیں گے، جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے، صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے
 
بستر مرگ پے پڑے اک، اپنوں کے دیے زخموں سے چور چور شخص کو ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ اُسکے ساتھ نہیں ہے، جسکے ساتھ اس نے زندگی کے اگلے ساٹھ سالوں کی پلاننگ کر رکھی تھی، کیسی عجیب اور غضب کی چال چلی ہے کچھ اجنبی نما اپنوں نے اس بے چارے کے ساتھ، اپنوں کی بےحسی، بے رخی، دو رنگی، ناقدری، ازیّت، تکلیف، دکھ اور مشکلات نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اپنی خواہشات کو دل میں مار لے، اپنے گزرے ہوئے اٹھارہ سال کو یاد کر کے ہنسے اور اپنی محبت کو اپنے وجود میں تڑپتے، سسکتے، روتے، بلکتے، ایڑیاں رگڑتے، دم توڑتے دیکھے اور پھر نئے سرے پیدا ہوتے اور پھر مرتے دیکھے شاید یہی اسکے ناکردہ گناہوں کی سزا ہے، کچھ تو ایسا ضرور ہوا ہے جس کی پردہ داریاں ہیں، چکر بازوں اور چکر بازیوں سے جو ذات واقف ہے اسکی ایک صفت عدل بھی ہے
 
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے اور ہاتھ چھڑوا لینے والے کی اپنی کہانی ہے

مگر اس عمل میں محبّت یتیم ہو جاتی ہے، اور پتہ ہے جب لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ہم ناکام ہو جاتے ہیں اور غم کی کیفیت ہمیں چُور چُور کر دیتی ہے، تب یہ بے چین نگاہیں ربﷻ کو ڈھونڈنے لگتی ہیں، کیونکہ دل جانتا ہے کہ مرہم اُسی سے ملی گی، تب ہم بہت بے بس ہوتے ہیں، اپنی بے بسی لے کر اللہﷻ کی بارگاہ میں جاتے ہیں، شرمندگی اور غم کا یہ عالم ہوتا ہے کہ الفاظ منہ سے نہیں نکل پاتے، مگر وہ پھر بھی سب سمجھ جاتا ہے، اور جہاں صبر کی آخری سانس ٹوٹتی ہے وہیں پہ وہ فرما دیتا ہے، "کُن فیکون"ہو جا، پس ہو جاتا ہے
 
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در، یہ وھی دیار ھے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر، میں بھٹکتا پھرتا ھوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر، کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ھم سفر، جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا، جو گراں تھے سینۂ چاک پر وھی بن کے بیٹھے ھیں معتبر، مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو، تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ھے میں اسی درخت کا ھوں ثمر، یہ بجا ھے آج اندھیرا ھے ذرا رُت بدلنے کی دیر ھے، جو خزاں کے خوف سے خشک ھے وھی شاخ لائے گی برگ وبر

انتخاب
 
کچھ راز صرف الله اور بندے کے بیچ میں ہوتے ہیں ،ہماری کچھ غلطیوں کو صرف الله ہی جانتا ہے،الله سے چپکے چپکے کہتے رہیں کہ آپ اس پر شرمندہ ہیں...وہ کرم کر دے گا،الله تو وہ بھی جانتا ہے جو انسان نہیں جانتا......!!!!
 
محبت کریں پاگل نہ بنیں

بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص میری محبت ہے اور وہ شخص انکے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہے کہ انکے دل و دماغ کے ہی نہیں روح کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں وہ اسی شخص کو اپنا مقصد حیات سمجھ کر باقی سب کچھ فراموش کر بیٹھتے ہیں، کیا بس یہی مقصد ہے؟ ایک مٹی کے بنے شخص کے لیے مٹی ہو جانا، اور جس کے لیے آپکا برا حال ہوا اسے کچھ پرواہ نہیں آپ جییں یا مر جائیں،حوادث نے یہ سکھایا ہے، انسان کو ایک مقصد میں ناکامی کے بعد اس سے بھی اچھا مقصد ڈھونڈ لینا چاہیے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ناکامی کے بعد اس سے بھی بڑی کامیابی آپ کی دہلیز پہ ہو اور آپ پہلی ناکامی کے غم میں ڈوبے ہوں اور وہ دہلیز پہ آئی کامیابی بھی وہاں سے رخصت ہو جائے
 
انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان کا اپنا دل و دماغ ہے وہ ایسے لمحات کھینچ کھینچ کر لاتا ہے۔ جو اذیت دیتے ہیں، لیکن ایک بات ہے اللہ کے دین کے لیے خود کو وقف کر دیں تو وہ کریم رب اذیتوں کے کنویں سے نکال کر خوشیوں کی مسند پر بٹھا کر کہتا ہے، تو نے صبر کیا، میں نے تجھے دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہترین بدلہ دوں گا، میرے مالک تیری عطاؤں پر، کرم نوازیوں پر، ہم تیرا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے، کیونکہ تو ہی تو بے بسوں کا سہارا ہے تو ہی ڈوب جانے والی کشتیوں کو پھر سے کنارے لگانے والا ہے، اپنے دین کی خدمت کا موقع پھر سے عطاء کرنے پر میرے کریم اور رحیم رب دل و دماغ کی گہرائیوں سے شکریہ
 
مسکراہٹ بهی کیا عجیب شے ہے:

اگر دوست کیلئے اپنے ہونٹوں پر سجا لو تو وہ راحت محسوس کرے، اگر دشمن کیلئے سجا لو تو وہ ندامت محسوس کرے، اور اگر کسی ناواقف کیلئے سجا لو تو یہ صدقہ بن جائے.
 
چھوڑنا آسان نہیں ہوتا، چاہے کوئی عادت ہو کوئی گناہ یا پھر انسان، آپ گرتے ہیں ٹوٹتے ہیں سنبھلتے ہیں پھر ٹوٹتے ہیں اور یہ وقت ایسا وقت ہوتا ہے کہ نہ تو آپ چیخ سکتے ہیں نہ کسی کے گلے لگ کے آنسو بہا سکتے ہیں، ماضی آپ کے سامنے ایک ریل کی طرح بھاگتا ہے ہر اسٹیشن پر مختلف لوگ، ایک وقت آتا ہےآپ جن لوگوں کو اپنے ساتھ سمجھتے ہیں وہ تو ساتھ ہوتے ہی نہیں ہیں کسی ویرانے میں کڑی دھوپ میں آپ بے آسرا اور بنا سائبان کے رہ جاتے ہیں اس وقت آپ کے ساتھ بس وہ ذات ہوتی ہے، انسان رہ سکتا ہے محبت کے بغیر لوگوں کے رشتوں کے بغیر ہر شے کے بغیر مگر "اللہ" کے بغیر نہیں رہ سکتا، اسلیے، خوش رہو اچھے لوگو
 
بعض اوقات ہم ایک ہی وقت میں کسی کیلئے بہت اچھے اور کسی کے لئے بہت برے ہوتے ہیں۔ آپ کبھی بھی ہر کسی کی نظروں میں بہت اچھے نہیں ہو سکتے، بعض اوقات ہمیں بہت اچھا بننے کی کوششیں بھی دوسروں کی نظر میں بُرا بنا دیتی ہیں!

اس لئے میرے خیال میں اس حوالے سے لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ سو خود مثبت رہیں، آپنے کام میں لگیں رہیں، اور اپنی خامیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور باقی سب کچھ اللہ پہ چھوڑ دیں!!


 
Top