غزل

جب سمندر کی اُس نے خواہش کی
میری آنکھوں نے خوب بارش کی۔۔

آپ ہیں کس لیے پشیماں سے۔۔۔۔۔
میں نے زخموں کی کب نمائش کی

ایک اک حرف پر دھری انگلی۔۔۔۔
کیا مری آپ نے ستائش کی۔۔۔۔

اک مکاں وہ جسے نہ دیکھا تھا
عمر بھر اُس میں ہی رہائش کی

کیسے مردہ ضمیر لوگوں میں
زندہ رہنے کی ہم نے کوشش کی

ہم نے تو کچھ نہیں کِیا لیکن
کیا کِیا آپ نے جو سازش کی

خود کو جب چاک پر دھرا اقرار
پھر زمانوں کے گرد گردش کی۔۔
اقرار مصطفی
 
Top