غالب کی ایک مشکل غزل

سید عاطف علی

لائبریرین
بجا ارشاد
لیکن یہ فرمائیے کہ اگر مولانا غلام رسول مہر ہم پر احسان نہ فرماتے اور نوائے سروش تحریر نہ فرماتے تو کیا ہم غالب فہمی سے یہ کہہ کر دست بردار ہو جاتے کہ یہ تو محض گنجلک اور مہمل کلام ہے
غالب کا کلام مہمل تو کیا مبتذل بھی ( ہو سکتا) ہے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس سے ہم جیسے غالب کے نام لیواوں کے نزدیک غالب کی عظمت متاثر نہیں ہوتی ۔
 

رضوان راز

محفلین
آپ خیر مکالمے کو اپنی مرضی کا رنگ دے رہے ہیں۔ "مشکل" ہونا تو ایک طرف رہا، آپ اس بات پر غور فرمائیے کہ یہ غزل کسی حادثے کی وجہ سے دیوانِ غالب میں شامل ہونے سے نہیں رہ گئی بلکہ غالب کو خود لگا تھا کہ دیوان میں نہ ہو تو اچھا ہے۔

باقی اگر "مشکل مشکل" کھیلنا ہے تو معذرت کے ساتھ غالب کے موجودہ دیوان میں بھی کئی ایک ایسے اشعار ہیں جو نہ صرف مشکل ہیں بلکہ غزل میں بھی صرف تعداد ہی پوری کرتے ہیں ، آپ کا کیا خیال ہے؟

حضور مشکل مشکل کھیلنا ہرگز مقصود نہیں۔ بندہ تو خود مشکل کا شکار ہے اور مدد کا طلب گار ہے۔
بے شک یہ غزل غالب نے ہی دیوان سے نکال دی۔ یہاں یہ تو بحث ہی نہیں۔ اس غزل کے اہم یا غیر اہم ہونے سے مطلب نہیں۔
یہ غزل نظر سے گزری لاکھ سر کھپایا کیا لیکن کچھ نہ سوجھا۔
مجھ غریب کو تو اس کے مطالب سے غرض ہے۔ یہ اہلِ علم کی محفل ہے سو اس لیے مدعا عرض کیا کہ کوئی دست گیری فرمائے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حضور چار صفحات کا مضمون قبول ہے۔
اب ان دو شرائط کے لیے دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار آپ کی عدیم الفرصتی میں تخفیف فرمائے اور آپ کے ذہن و قلب کو اس جانب منقلب فرمائے۔ آمین

قبلہ وارث صاحب کے مراسلوں کے بعد وہ میرا مجوزہ مضمون اب آدھا ہی رہ گیا ۔ اس مضمون کے اولین دو صفحات میں تو یہی تمہید باندھنا تھی کہ غالب کا انتہائی "فارسی زدہ" ابتدائی کلام نہ صرف یہ کہ اکثر مہمل کی حدوں کو چھوتا ہے بلکہ اکثراشعار کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ہیں ۔ یعنی فارسی ترکیبات سے بوجھل ، تعقیدات سے بھرپور ، غرابتِ لفظی کو جب تحلیل کیا جائے تو کوئی معمولی سی بات نکلتی ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر کے نقطہء نظر سے تو کوئی شعر مہمل نہیں ہوتا ۔ اس نے تو اپنی دانست میں اپنا خیال لفظوں میں رکھ دیا ۔ مہمل اور غیر مہمل کا فیصلہ تو ابلاغ یا عدم ابلاغ کی بنیاد پر پڑھنے والے کرتے ہیں ۔ عدم ابلاغ اسداللہ خان اسد کی شاعری کا خاصہ تھا ۔ وہ بنیادی طور پر فارسی کا شاعر تھا ، اردو شاعری اس لئے کرنا پڑی کہ دہلی میں رہتا تھا ۔ سرکار دربار سے وظیفے بھی لینا تھے ۔ اپنے ہم عصروں کی تلخ تنقید سے تنگ آکر غالب نے مشکل گوئی ترک کی اور اپنا ابتدائی کلام رد کردیا ۔ جو بات وارث صاحب نے کی اس کی تفصیل کے لئے یہ ایک پرانی تحریر دیکھئے۔

بھائی ، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اساتذہ کے لئے عروضی قوانین اور ہیں اور ہم جیسوں کے لئے اور تو یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے بلکہ کسی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ عروضی قوانین سب کے لئے برابر ہیں ۔ بلا استثناء ہر شاعر کی شاعری میں کچھ عیوب پائے جاتے ہیں ۔لسانی و عروضی لحاظ سے بھی اور محاسنِ کلام کے اعتبار سے بھی ۔ یہ عیوب کسی کی شاعری میں بہت کم کسی میں زیادہ اور کسی مین بہت زیادہ ہیں ۔ اور ان اغلاط اور عیوب کا تناسب ہی اچھے اور برے شاعر کو ممیز کرتا ہے ۔ اساتذہ کے کلام میں لسانی اور عروضی عیوب بہت کم ملیں گے اور اانہیں اساتذہ کہنے کی ایک وجہ یہی ہے ۔ لیکن کسی استاد کی غلطی ہمارے لئے حجت اور دلیل کا درجہ نہیں رکھتی ۔ دلیل اور حجت صرف اور صرف وہی اصول ہیں جنہیں بحیثیت مجموعی تمام اساتذہ اورعلمائے فن کی عملی تائید حاصل ہے ۔ اساتذہ کے ہزاروں لاکھوں اشعار میں سے دو چار اشعار میں کسی عیب کا پایا جانا ایک استثناء کو ظاہر کرتا ہے دلیل اور حجت نہیں بن سکتا ۔ ایک اور بات غور کرنے کی یہ بھی ہے کہ یہ اساتذہ پیدائشی طور پر اساتذہ نہیں تھے ۔ یہ بھی ہماری طرح اکتساب اور پختگی کے تمام مراحل سے گزرے ہیں ۔ ہر استاد کا کلام شروع سے آخر تک ایک جیسی پختگی اور کمالِ فن کا حامل نہیں رہا ۔ یہ عام بات ہے کہ اکثر اساتذہ اپنے اولین ادوار کا کلام بعد میں ضائع کردیا کرتے تھے ۔ ( یہ الگ بات کہ اب محققین اس رد کئے ہوئے کلام کو بھی اکثر کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ نکالتے ہیں اور وہ شائع ہوجاتا ہے )۔ اگر اساتذہ کی غلطیوں کو بھی اپنے لئے حجت اور دلیل بنا لیا جائے تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ پھر کسی قسم کا کوئی عروضی یا لسانی مسئلہ باقی ہی نہیں رہے گا ۔ ہر چیز جائز قرار پائے گی ۔ میر و غالب کے ہاں تو رکاکت آمیز اور ابنذال سے بھرپور مضامین بھی مل جائیں گے۔ عطار کے لونڈے اور بھوں پاس آنکھ والے اشعار کو اگر دلیل بنالیا جائے تو شعریت اور جمالیات کی تعریف ہی بدل جائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ۔ حاصلِ کلام یہ کہ اساتذہ کی خطائیں ہمارے لئے حجت اور دلیل کا درجہ نہیں رکھتیں ۔ صرف یہ ثابت کرتی ہیں کہ بے عیب کلام کسی بشر کا نہیں ۔ عیبِ تنافر کس استاد شاعر کے ہاں نہیں ؟ لیکن پھر بھی ہمیں حتی الامکان اس سے بچنا چاہیئے ۔ بحیثیت طالبانِ علم و ادب ہمارا کام یہ ہے کہ ان عیوب سے جتنا ممکن ہوسکے بچا جائے ۔ اگر نہ بچ سکیں تو کوئی تھانہ پولس کی نوبت نہین آجائے گی ۔ کوئی شہر بدر نہین کرے گا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اہلِ علم ان عیوب کی نشاندہی ضرور کریں گے اور اسی سنجیدہ نقد و نظر سے جہاں کلام کی ادبی حیثیت متعین ہوتی ہے وہیں شاعر کے کلام میں بہتری بھی پیدا ہوتی ہے ۔


ان شاء اللہ جلد ہی کوشش کرتا ہوں ۔ جیسے ہی بیٹھنے کا وقت ملا کچھ باتیں اشعار کی شرح پرلکھ ڈالوں گا ۔ اس غزل کے تین اشعار اور بھی ہیں جو مختلف نسخوں میں ملتے ہیں ۔ حسرت موہانی نے اپنی شرح میں درج کئے ہیں ۔ وہ بھی شامل کرلئے جائیں تو اور اچھا ہوگا۔
 

رضوان راز

محفلین
مجھے برسوں پہلے کا فاتح صاحب کا یہ تھریڈ یاد آ گیا۔ :)

سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں

چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں

نور کا عالم پری ہو یا کہ حور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں

ہم نفس کہنا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضہء گھڑیال میں

غالبِ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مشکیں پنجہء خلخال میں

درج بالا لڑی پڑھ چکا۔ اس حوالے سے چند گزارشات عرض کرتا ہوں۔

اول یہ کہ موجودہ لڑی میں زیرِ بحث غزل بناوٹی یا کلامِ غالب کی تلبیس ہرگز نہیں۔ یہ غزل معتبر حوالہ جات کے ساتھ غالب کا تسلیم شدہ کلام ہے۔

دوم یہ کہ یہ مطبوعہ غزل ہے۔

سوم یہ کہ اس غزل کو یہاں پیش کرنے کا مقصد خدانخواستہ کسی کا
مذاق اڑانا،
توہین کرنا
یا
امتحان لینا ہرگز نہیں۔

خاکسار واقعی ہی ان اشعار کا مطالب جاننے کا خواہاں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درج بالا لڑی پڑھ چکا۔ اس حوالے سے چند گزارشات عرض کرتا ہوں۔

اول یہ کہ موجودہ لڑی میں زیرِ بحث غزل بناوٹی یا کلامِ غالب کی تلبیس ہرگز نہیں۔ یہ غزل معتبر حوالہ جات کے ساتھ غالب کا تسلیم شدہ کلام ہے۔

دوم یہ کہ یہ مطبوعہ غزل ہے۔

سوم یہ کہ اس غزل کو یہاں پیش کرنے کا مقصد خدانخواستہ کسی کا
مذاق اڑانا،
توہین کرنا
یا
امتحان لینا ہرگز نہیں۔

خاکسار واقعی ہی ان اشعار کا مطالب جاننے کا خواہاں ہے۔
آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔

جیسا کہ عرض کیا تھا ایک دوست کی بہت پرانی ایک "دوستانہ" حرکت یاد آ گئی جو ظاہر ہے غالب ہی کے حوالے سے تھی تو دوست کو بھی یاد کر لیا اور غالب کو بھی۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب کا کلام مہمل تو کیا مبتذل بھی ( ہو سکتا) ہے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس سے ہم جیسے غالب کے نام لیواوں کے نزدیک غالب کی عظمت متاثر نہیں ہوتی ۔
غالب کی ایسی ہی متضاد اداؤں ہی کی تو ساری دنیا دل و جان سے قتیل ہے:

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی

اور

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
 

الف نظامی

لائبریرین
محمد نثار علی شہرت ، غالب کی ایک ملاقات کا حال لکھتے ہیں:
ایک روز میں مرزا غالب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ کھانا نوش فرما رہے تھے۔ میں مودب ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ آپ نے ایک رنگ ترہ میری طرف پھینکا کہ اس سے شغل کیجیے۔ چوں کہ رمضان کا مہینہ تھا اور مجھے روزہ تھا۔ میں نے اس رنگترہ کو ہاتھ نہیں لگایا ، آپ تاڑ گئے اور فرماتے کیا ہیں:
ہاں ! آپ مولوی آگئے ہیں
میں ہنسا تو آپ بھی مسکرانے لگے ، جب آپ کھانا نوش فرما چکے تو جو قلمی رسالہ آپ کے سامنے رکھا تھا اس میں کچھ بنانے لگے ، غالبا اصلاح دے رہے تھے۔ میں نے گذارش کی
جناب کیا ارقام فرما رہے ہیں؟ تو فرمانے لگے :
اس میں فارسی الفاظ بہت ٹھونس دیے گئے ہیں اس لیے انہیں نکال رہا ہوں اور شستہ الفاظ اس میں ڈال رہا ہوں
میں نے ادب کے ساتھ گذارش کی
آپ کا دیوان بھی تو فارسی سے مالا مال ہے
فرمانے لگے
وہ جوانی کی نازک خیالیاں ہیں ، شہرت بعض شعر تو ایسے ادق میرے قلم سے نکل گئے ہیں کہ میں اب ان کے معنی خود نہیں بیان کر سکتا۔
پھر فرمانے لگے
دہلی والوں کی جو اردو ہے ( جس کو مشک و عنبر کہنا چاہیے ) اس کو ہی اشعار میں لکھنا چاہیے ، آخر عمر میں ہماری تو یہی رائے قائم ہوئی ہے۔

( احوالِ غالب از پروفیسر مختار الدین احمد ، صفحہ 22 )

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اس غزل کے تین اشعار اور بھی ہیں جو مختلف نسخوں میں ملتے ہیں ۔ حسرت موہانی نے اپنی شرح میں درج کئے ہیں ۔ وہ بھی شامل کرلئے جائیں تو اور اچھا ہوگا۔[/user]
آپ کا اشارہ شاید ان تین اشعار کی طرف ہے قبلہ ظہیر صاحب:

شمارِ سبحہ،مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا
بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدہِ مشکل پسند آیا
ہوائے سیرِ گل، آئینہِ بے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

اور عام طور پر انہی تین اشعار کے نیچے یہ مقطع بھی درج کر دیا جاتا ہے:

جراحت تحفہ، الماس ارمغان، داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ ، غمخوارِ جانِ درد مند آیا

لیکن میرے خیال میں یہ دو علیحدہ غزلیں ہیں کہ پہلی غزل میں قافیہ "مشکل، دل، بسمل" ہے اور ردیف "پسند آیا" جب کہ تخلص والی اس لڑی کی مذکورہ غزل کا قافیہ "کمند، سپند، گزند، درد مند" وغیرہ اور ردیف "آیا" ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس پر قدرت اللہ شہاب کے ماسٹر منگل سنگھ یاد آگئے:
سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

"سادگی تے اسدے نال پرکاری' بےخودی تے اسدے نال نال ہشیاری۔ حسن نوں تغافل وچ کی پایا؟ شاعر کہندا اے اس نے حسن نوں تغافل وچ جرات آزما پایا۔

لئو اینی جئی گل سی، غالب شعر بناندا بناندا مر گیا، میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مر جانا اے، تہاڈے کوڑھ مغزاں دے پلے ککھ نئی پینا۔ اگے چلو......
:)
اگے چلو تے مٹی پاو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اردو محفل کی مشکل ترین غزل بس دیکھنے کے لیے:) پڑھنے سے تو سر کے اوپر سے گزر گئی۔
لاریب اخلاص بٹیا !
دراصل یہ غزل دراصل سَروں یا سَروں کے اوپر اور دائیں بائیں کے قرب و جوار کے علاقوں کے لیے لکھی ہی نہیں گئی تھی سو اس میں فکر مندی کی کوئی بات نہیں ۔:)
بھئی ہماری توجہ تو ان غزلوں پر ٹھہرتی ہے جو دلوں اور ن کی گہرائیوں کے لیے لکھی جاتی ہیں ۔ بہر حال کیف و ذوق کاا اختیار اپنا اپنا ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کا اشارہ شاید ان تین اشعار کی طرف ہے قبلہ ظہیر صاحب:

شمارِ سبحہ،مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا
بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدہِ مشکل پسند آیا
ہوائے سیرِ گل، آئینہِ بے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

اور عام طور پر انہی تین اشعار کے نیچے یہ مقطع بھی درج کر دیا جاتا ہے:

جراحت تحفہ، الماس ارمغان، داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ ، غمخوارِ جانِ درد مند آیا

لیکن میرے خیال میں یہ دو علیحدہ غزلیں ہیں کہ پہلی غزل میں قافیہ "مشکل، دل، بسمل" ہے اور ردیف "پسند آیا" جب کہ تخلص والی اس لڑی کی مذکورہ غزل کا قافیہ "کمند، سپند، گزند، درد مند" وغیرہ اور ردیف "آیا" ہے۔

درست کہا ۔ یہ دو مختلف غزلیں ہیں ۔ رضوان راز صاحب نے جو غزل یہاں تشریح کے لئے پوسٹ کی ہے اس میں دو چار اغلاط ہیں ۔ میں چاہتا تھا کہ اسے نسخۂ حمیدیہ کی اصل سے ملالوں ۔ اسی کی تلاش میں جلدی جلدی کچھ برقی کتابیں جھانک رہا تھا ۔ اکثر جگہوں پر مذکورہ بالا چاروں اشعار ایک ہی چوکھٹے میں لکھے ملے اور پہلی نظر میں یوں لگا کہ ایک ہی غزل کے اشعار ہیں ۔ مراسلہ لکھنے کے بعد شام کو اشعار نقل کرنے بیٹھا تو احساس ہوا کہ یہ تو الگ الگ غزلیں ہیں کہ جن کے اشعار ملا کر ایک ہی چوکھٹے میں لکھ دیئے گئے ۔ خیر ۔
اچھا یہ ہوا کہ کچھ تلاش کے بعد نسخۂ حمیدیہ کا عکسی ایڈیشن مل گیا اور مجھے غزلوں کا تقابل کرنے کا موقع مل گیا ۔ وہ عکس یہاں پوسٹ کررہا ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
light.jpg
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حضور چار صفحات کا مضمون قبول ہے۔
اب ان دو شرائط کے لیے دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار آپ کی عدیم الفرصتی میں تخفیف فرمائے اور آپ کے ذہن و قلب کو اس جانب منقلب فرمائے۔ آمین
غالب کے ابتدائی دور کی شاعری پر (کہ جب اسد تخلص کیا کرتے تھے) تو کئی مراسلوں میں بات ہوچکی۔ سو اس پر مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ مختصراً یہ کہ غالب کی رفعتِ خیال اور نزاکتِ مضمون اگرچہ مثالی ہیں لیکن انہیں خود کہنا پڑا :
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اورچاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے
اردو ان کی پیچیدہ خیالی کی متحمل نہ ہوسکی۔ سو دوستوں اور بہی خواہوں کے کہنے پر وہ کلام رد کرنا پڑا ۔ اس کلام کی تشریح کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔ ابتدائی دور کا کلام اتنا گنجلک اور فارسیت زدہ تھا کہ اکثر معاصرین تک بھی ابلاغ نہ ہوسکا ۔ اور ان معاصرین کی سخن فہمی اور علمی و ادبی قابلیت کا معیار یقیناً اِس گئے گزرے زمانے سے کہیں زیادہ تھا ۔

نسخۂ حمیدیہ کا منفرد کلام اکثر و بیشتر اس قدر تعقیدات سے بھرپور ہے کہ شارحین کو شعر میں علاماتِ وقف لگانا پڑتی ہیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کاتب نے کسرۂ اضافت کا اہتمام نہیں رکھا ۔ خیر اس مسئلے کو تو اکثر صورتوں میں تقطیع کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ تیسرا یہ کہ لفظ کے آخر میں آنے والی یائے معروف اور یائے مجہول کی کتابت اس زمانے کے رواج کے مطابق ایک ہی طرح سے کی ہے ۔ بعض اشعار میں دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور معنی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ میں نے نسخۂ حمیدیہ کے عکسی نسخے سے اس غزل کا تقابل کیا اور دو تین جگہوں پر تصحیح کی ہے ۔ آپ کے حسبِ فرمائش ذیل میں اس غزل کے اشعار کی تفہیم بصورت شرح لکھتا ہوں ۔ یہ میرے ناقص فہم پر مبنی ادنیٰ سی کوشش ہے ۔

اس غزل کی کچھ اشعار کی تفہیم میں مشکل یہ ہے کہ پہلی نظر میں ردیف " آیا" کا فاعل دریافت نہیں ہوتا ۔ مدد اس بات سے ملتی ہے کہ آیا کا فاعل مذکر ہی ہوسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جنوں گرم انتظار، و نالہ بیتابی کمند آیا
سُویدا تا بلب زنجیریِ دُودِ سپند آیا

فرہنگ:
گرم انتظار: یہ دراصل گرمِ انتظار ہے اور اس میں فکِّ اضافت سے کام لیا گیا ہے ۔ گرمِ انتظار کا مطلب ہے مصروفِ انتظار ( جیسے گرمِ سخن ، گرمِ فغاں وغیرہ) ۔
نالہ بیتابی : بیتاب نالہ ۔ نالۂ بیتاب
کمند آنا : گلے میں کسی کمند کا آنا ، کمند کا پڑنا
سویدا: دل کا مرکز ۔ نقطۂ سیاہ جو دل پر ہوتا ہے ۔
تا بلب: تا بہ لب ۔ لب تک
زنجیری: قیدی ، زنجیر میں جکڑا ہوا
سِپند (اِسپَند کا مخفف) : ایک قسم کا بیج یا کالا دانہ جسے دفعِ نظرِ بد یا دفعِ بلا کے لئے جلا کر اس کے دھویں کی دھونی دی جاتی ہے ۔
دودِ سپند: جلتے ہوئے سپند سے اُٹھنے والا دھواں

جنوں تو مصروفِ انتظار تھا (وصال یا دید کا انتظار) لیکن ایک بیتاب و بے قرار نالہ کمند کی طرح کر گلے میں آگیا ۔ یہ نالہ ایک دھواں تھا کہ مرکزِ دل سے لے کر لب تک اٹھا ۔ گویا نالہ مرکزِ دل سے لب تک زنجیر میں جکڑے اُس دھویں کی صورت اُٹھ آیا جو جلتے ہوئے سپند سے اُٹھتا ہے ۔ نالے کو زنجیری کہنا ظاہر کرتا ہے کہ نالہ بھی دبا دبا ہے ۔ کھل کر آہ و فغاں بھی ممکن نہیں ۔ اسی لئے اسے گلے میں کمند بھی کہا ۔
یہ شعر لفظی اور معنوی رعایات سے پُر ہے ۔ سویدا (سیاہ نقطہ) اور سپند (سیاہ دانہ) ۔ جلے ہوئے دل سے اٹھتا نالہ اور جلتے ہوئے دانے سے اٹھتا دھواں۔ نیز یہ کہ مصرع اول میں لفظ گرم کی بھی رعایت ہے ۔ انہی تلازمات کے ساتھ کم و بیش اسی قسم کا مضمون غالب نے اپنے اس شعر میں بھی باندھا ہے :

آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمندِ شکارِ اثر ہے آج
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے
تماشا کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا
( میری رائے میں پہلا مصرع یوں پڑھیں تو زیادہ بامعنی ہے: مہِ اختر فشاں کے بہرِ استقبال ، آنکھوں سے)

فرہنگ:
آئینہ بند : آئینہ بندی کرنے والا
آئینہ بندی: جھاڑ فانوس یا بلوریں قمقموں اور شیشوں وغیرہ سے مکان کو سجانا ۔( گھر یا محل کی آئینہ بندی عموماً کسی کی آمد پر کی جاتی ہے ۔)
اختر فشاں: ستارے لُٹانے والا ، ستارے چھڑکنے والا
مہِ اختر فشاں : ایسا چاند جس سے ستارے پھوٹ رہے ہوں
ماہِ اختر فشاں سے مجازاً محبوب مراد ہے ۔ محبوب کے چہرے کو چاند اور اس سے نکلنے والی ضو اور چمک دمک کو ستارے کہا گیا ہے۔
کشور: سلطنت ، ملک ۔ سو کشورِ آئینہ سے مراد وہ سارا مکان یا مقام جو دیکھنے والے کو آئینے کے اندر نظر اتا ہے ۔
کسی کے بہرِ استقبال: کسی کے استقبال کے لئے

مہِ اختر فشاں محبوب جب آئینے میں اپنے حسن کا تماشا دیکھنے کے لئے روبہ آئینہ ہوا تو بجائے یہ کہ تماشا آئینے سے نکل کر دیکھنے والی آنکھوں میں داخل ہوتا ، تماشے نے خود حسنِ محبوب کے استقبال کے لئے آنکھوں سے نکل کر کشورِ آئینہ کو قمقموں اور فانوس سے سجادیا ۔ حسنِ محبوب کو بیان کرنے کے لئے یہ خیال بندی نازک خیالی کی انتہا ہے ۔
سطحی مطلب یہ کہ کشورِ آئینہ جو اس قدر سجا ہوا ہے تو اس کا باعث دیکھنے والے کا اپنا حسن ہے یا یہ کہ خوبصورتی منظر میں نہیں بلکہ دیکھنے والی آنکھ میں ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تغافل، بدگمانی، بلکہ میری سخت جانی سے
نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا

فرہنگ:
بیم آنا: خوف یا اندیشہ ہونا
گزند: ایذا ، دکھ ، تکلیف ، صدمہ

عشقیہ غزل کی روایت میں محبوب کی نگاہ کو قاتل اور ستمگر سمجھا گیا ہے اور عاشق کو اس نگاہِ ناز کا شہید اور مقتول ۔ لیکن یہاں صورتحال کچھ ایسی بنی کہ عاشق تو شہید نہیں ہوا اُلٹا نگاہِ ناز کو اندیشۂ ضرر لاحق ہو گیا ۔اس صورتحال کا ذمہ دار شاعر اپنی سخت جانی کو ٹھہرا رہا ہے ۔ یعنی نگاہِ بے حجابِ ناز سے عاشق کے قتل نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ محبوب اس سے تغافل برت رہا ہے یا اُسے عاشق سے (عدم عشق و الفت کی) بدگمانی ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ عاشق انتہائی سخت جان ہے ۔ اور سخت جان بھی اتنا کہ نگاہِ ناز اپنی بےحجاب بجلیاں گرا گرا کر تھک گئی اور ستم کرکر کے خود اُسی کو بیمِ گزند لاحق ہوگیا ۔
 
Top