زکواۃ کا نصاب، ڈھائی فی صد کی کیا دلیل ہے؟

آپ کی توجہ کا شکریہ ۔ ایک ایک کرکے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں -

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم (لوگ) اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں
یہاں أَمْوَالِ کا لفظ معنیٰ خیز ہے۔ یعنی أَمْوَالِ النَّاسِ تو متعین ہے کہ لوگوں کے مال ہیں۔ لیکن اضافہ کس چیز میں ہو متعین نہیں ہے۔ لفظ رِّبًا، لِّيَرْبُوَاْ اور يَرْبُوا تینوں کا معنیٰ اضافہ ہے۔ اسی لیے اس آیت کو مال کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح توحید کی طرف رہنمائی نہیں ہے

کیا ایسا ہے بھائی کہ یہ تینوں الفاظ ایک ہیں؟۔
رِّبًا، : آضافہ، نام ہے
- genitive masculine indefinite noun - اسم مجرور

لِّيَرْبُوَاْ : بڑھانے کے لئے، تیسے بندے کے لئے استعمال ہونے والا فعل ہے،
PRP – prefixed particle of purpose lām
V – 3rd person masculine singular imperfect verb, subjunctive mood - اللام لام التعليل
فعل مضارع منصوب

فَلَا يَرْبُوا : اضافہ نہیں ہوتا ہے ،یہ بھی تیسرے کے لئے فعل ہے،
3rd person masculine singular imperfect verb، فعل مضارع

نوٹ کیجئے کہ لفظی ترجمے میں تم ، تم لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ سبحان اللہ
لوگوں کے مال میں مل کر اضافہ ہوتا رہے، معاملہ مال کا ہی ہے، مال ہے، زمین اور اس کے باشندوں کی پیداوار، چاہے وہ اونٹ ہوں یا گندم ، تیل ہو یا عمارات۔ اموال الناس، یعنی پبلک ویلتھ، ہی وہ اموال ہیں ، جن کو بادشاہوں نے قابو کیا اور اس قبضہ کو اپنا حق سمجھا۔ اور خیال کیا کہ یہ اموال الناس ان کی اپنی ملکیت ہیں اور اس پبلک ویلتھ پر ان کا حق ہے۔ اب اس بلک ویلتھ میں کوئی اپنا مال ملا کر، دو کام کرسکتا ہے، اس ہونے والے اضافے کو اپنے لئے رکھے یا ٹیکس (زکواۃ، صدقات، آتی المال ) سمجھ کر عوام کے لئے جاری رہنے دے۔ لہذا اس آیت کو مال (زمین اور اس کے باشندوں پیداوار) سے وصول ہونے والے مال کے بارے میں ہی گنا جائے گا،

اضافہ کس چیز میں ہو، یہ بہت ہی سادہ طور پر متعین ہے ۔ مال میں
پبلک ویلتھ میں اپنا مال ملا کر، یہ تصور کرنا کہ اس مال کا اضافہ ، اب ہماری ملکیت ہے، مال میں ہی اضافہ ہے، یہ کسی ایک فرد کی نقدی نہیں بلکہ سب کا مال ہے۔

اب تک ربا کی تعریف یہ پیش کی جاتی رہی ہے کہ حد سے بڑھ کر اضافہ جو مجبور لوگوں کو قرض دے کر حاصل کیا جائے۔ صاحب، دولت عوام، پبلک ویلتھ، یعنی اموال الناس، ٹریلنز آف ڈالرز میں ہوتے ہیں۔ یہ کسی مجبور فرد کی بات یقینی طور پر نہیں ہورہی۔ یہ بات ہورہی ہے اس مال کی ج ودولت عوام، پبلک ویلتھ، یعنی اموال الناس، میں شامل کرکے اپنے مال کی بڑھوتری کے لئے یا دولت عوام، پبلک ویلتھ، یعنی اموال الناس، کو غصب کرنے کی غرض سے ہو، جیسا کہ موروثی بادشاہتوں میں ہوتا رہا۔

والسلام
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
کیا آپ اپنا سوال ایک نئے دھاگے میں کرسکتی ہیں؟ نماز کا طریقہ جو آپ درست سمجھتی ہیں، اور کیوں سمجھتی ہیں ، وہاں درج کردیجئے، مجھے ٹیگ کردیجئے، میں وہاں خلوص کے ساتھ جواب دے کر خوشی محسوس کروں گا۔ تاکہ ہم اس دھاگے کو زکواۃ، صدقات، ربا، ٹیکس اور اسلامی معیشیت، اور اسلامی بینکنگ اور اسی قسم کے مالی معاملات تک محدود رکھ سکیں۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ یہ بات پہلے بھی ہو چکی ہے ، آپ اس کے لئے یہ دھاگہ ملاحظہ فرمائیے

اگر کوئی سوال رہ جائے تواس دھاگے میں کرلیجئے تاکہ یہ ایک جگہ ہی رہے۔ میں نے آُ کا سوال اور ایک مختصر جواب مندرجہ بالاء دھاگے میں فراہم کردیا ہے۔

بہت شکریہ،
والسلام
اُس دھاگے میں ارسال کردہ مضمون نظر نواز ہوا۔ معافی کے ساتھ عرض ہے کہ اس میں جو باتیں دلائل کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ اسے دلائل نہیں کہہ سکتے۔ مضمون نگار جنھیں شرعی دلائل سمجھ بیٹھا ہے افسوس کہ وہ شرعی دلائل نہیں ہوسکتے۔ حیرت ہوئی کہ مضمون نگار کو موٹی موٹی چیزوں کا علم نہیں۔ کاش کہ مضمون نگار کو معلوم ہوتا کہ مختصر سی عربی جان کر کوئی قرآن کو سمجھانے نکلے گا۔ یقیناً وہ خود تو ڈوبے گا مگر پتہ نہیں کہ کتنے اور اس کا لقمۂ تر بن جائیں۔

خیر! آپ کو کیا بتائیں۔ قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کے سب سے بڑے مصدر کے آپ کلیۃً منکر ہیں۔ اس کی سمجھ کے بغیر قرآن کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ جس طرح قرآن سمجھنے کیلئے عربی دانی ضروری ہے۔ اسی طرح علوم شرعیہ سے واقفیت بھی۔ جس میں سب سے اہم حدیث شریف ہے۔
لیکن ہم جسے آسمان سمجھتے ہیں آپ اسے زمین گردانتے ہیں۔ بلکہ سرے سے اس کی حیثیت کے منکر ہیں۔ اس لئے ہمیں معاف رکھیں۔ بلکہ فورم کو بھی معاف رکھیں تو بہتر ہے۔ اپنے ذاتی خیالات کی تشہیر سے پرہیز کریں۔
اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه
 
مدیر کی آخری تدوین:
اُس دھاگے میں ارسال کردہ مضمون نظر نواز ہوا۔ معافی کے ساتھ عرض ہے کہ اس میں جو باتیں دلائل کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ اسے دلائل نہیں کہہ سکتے۔ مضمون نگار جنھیں شرعی دلائل سمجھ بیٹھا ہے افسوس کہ وہ شرعی دلائل نہیں ہوسکتے۔ حیرت ہوئی کہ مضمون نگار کو موٹی موٹی چیزوں کا علم نہیں۔ کاش کہ مضمون نگار کو معلوم ہوتا کہ مختصر سی عربی جان کر کوئی قرآن کو سمجھانے نکلے گا۔ یقیناً وہ خود تو ڈوبے گا مگر پتہ نہیں کہ کتنے اور اس کا لقمۂ تر بن جائیں۔

خیر! آپ کو کیا بتائیں۔ قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کے سب سے بڑے مصدر کے آپ کلیۃً منکر ہیں۔ اس کی سمجھ کے بغیر قرآن کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ جس طرح قرآن سمجھنے کیلئے عربی دانی ضروری ہے۔ اسی طرح علوم شرعیہ سے واقفیت بھی۔ جس میں سب سے اہم حدیث شریف ہے۔
لیکن ہم جسے آسمان سمجھتے ہیں آپ اسے زمین گردانتے ہیں۔ بلکہ سرے سے اس کی حیثیت کے منکر ہیں۔ اس لئے ہمیں معاف رکھیں۔ بلکہ فورم کو بھی معاف رکھیں تو بہتر ہے۔ اپنے ذاتی خیالات کی تشہیر سے پرہیز کریں۔
اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه

آپ کا نوٹ ذاتی نوعیت کا ہے، اس لئے ایسے ہی جواب دے رہا ہوں۔
یہان قرآںی آیات کے مستند ترجمے پیش کئے ، جن کو عام طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ لہذا عربی دانی تو ہوئی مترجمین کی، لہذا یہ فہم مترجمین نے ہی اخذ کیا۔ حدیث ، روایات کا مجموعہ ہے، ان میں صرف وہی روایات، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا احادیث رسول اکرم قرار پاتی ہیں ، جو قرآن حکیم سے ثابت کی جاسکیں، ورنہ رسول اکرم صلعم کا قول ہے کہ اس کو اللہ تعالی کے فرمان، قرآن حکیم پر پرکھا جائے۔ اگر قرآن حکیم سے مصدر موجود نہیں تو یہ کسی کی رائے تو ہوسکتی ہے لیکن مستند سنت رسول اکرم کس طرح ہو سکتی ہے۔ کس نے حکم دیا کہ قرآن حکیم کے بعد آنے والے نبیوں اور ان کی کتب کو الہامی درجہ دیا جائے؟

عموماً احادیث پرست لوگ، احادیث نبوی سے قرآن حکیم کو غلط ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس لئے کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ زیادہ تر روایات کی تشہیر صرف اس لئے کی گئی کہ رسول اکرم سے دشمنی بہت تھی اور کسی بھی قسم کا ٹیکس اموی حکومتیں ، ابتدائی ریاست مدینہ کو ادا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیا یہ میرے خیالات ہیں؟ِ بالکل نہیں، قتل امام حسین رضٰ اللہ تعالی عنہہ اور مزید بارہ اماموں کا قتل ، تاریخی حقیقت ہے اور اس کے پیچھے ، جناب امام حسن رضی اللہ تعالی عنہہ کا وہ معاہدہ ہے جس میں قرار پایا تھا کہ اموی خلفاء ، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم کا ٹیکس جو کہ کسی بھی شے سے بڑھوتری کا خمس ہے ،اس کا نظام قائم کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکس کے اس نظام کو حذف کردیا گیا۔ اس کے معانی بدل دیے گئے اور طرح طرح کی غیر منطقی اختراعات تخلیق کی گئیں۔

میرے اور آپ کے لئے اللہ تعالی کا یہ پیغام ہے ۔
18:29 وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا
اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی

آج یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ احادیث پرست فرقے ، ان قوموں کا مقابلہ بالکل ہی نہیں کرپاتے جن قوموں نے قرآں کا معاشی نظام قائم کیا، ربا (منافع پر واجب الادا ٹیکس ) کھاجانے کو جرم قرار دیا، ربا کی درست تعریف کی کہ یہ پبلک ویلتھ (اموال الناس کا حصہ) ،ٹیکس (زکواۃ، صدقات ، اتی المال) کو وصولنے پر زور دیا اور اللہ کے حکم کے مطابق، اپنی معیشیتوں کو بہتر تر بنایا۔

آپ کو حق ہے کہ اس سے انکار کردیجئے اور یہ سب کچھ نا پڑھا کیجئے۔ آپ ایک اکیلی نہیں ہیں۔ ان آیات کو انکار کرنے پر تو قبیلے کے قبیلے اور فرقوں پر فرقے بہت زمانے سے لگے ہوئے ہیں۔ افسوس ر یہ ہے کہ، آیات میں فراہم کردہ مضامین پر غور کرنے کی فرصت نہییں ملی ۔۔

بات اس نکتے پر ختم کرتا ہوں
2:256 لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے

میری عرض یہ ہے کہ آپ خود اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم کو پڑھئے اور اس پر غور کیجئے اور پھر ہم سب کو یہ بتائیے کہ اس کتاب کی ان آٰات میں کیا لکھا ہے، تاکہ ہم تک بھی آپ کے علم کی روشنی پہنچے۔
اور اگر آپ کو یہ مراسلات پسند نہیں تو نا پڑھئے، آپ پر کوئی زبردستی تھوڑی ہے۔


والسلام
 
مدیر کی آخری تدوین:
فاروق صاحب کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا منشا یہ ہے کہ اسلام کو قرآن کے متن تک محدود کر دیا جائے اور پھر اس متن کی اپنی منشا کے مطابق تشریح کی جائے۔
 
فاروق صاحب کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا منشا یہ ہے کہ اسلام کو قرآن کے متن تک محدود کر دیا جائے اور پھر اس متن کی اپنی منشا کے مطابق تشریح کی جائے۔
آپ درست سمجھے، اسلام صرف قرآن حکیم تک ہی محدود ہے، مستند احادیث نبوی، اسی ہدایت کی تشریح کرتی ہیں۔
منشاء کے مطابق تشریح کرنے کی ضرورت ہی نہیں جب کہ مستند مترجمین کے تراجم موجود ہیں۔
پھر اللہ تعالی کا یہ فرامین ملاحظہ فرمائیے اور اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا آپ اللہ تعالی کی کس کس آیت سے انکار کرتے ہیں؟

اس کی پیروی کیجئے جو نازل کیا گیا اللہ کی طرف سے ناکہ جو دوسرے کہتے ہیں؟
7:3 اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ
(لوگو!) پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اپنے رب کو چھوڑ کر (دوسرے) سر پرستوں کی۔ (مگر) کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو تم۔


چودھری مصطفی صاحب ، آپ اللہ تعلی کے اس دعوے سے انکار کررہے ہیں کیا؟ کیا اس دعوے سے انکار کئے بغیر ، دوسری کتب پر ایمان کوئی رکھ سکتا ہے؟
7:52 وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے

کیا ایک مفصل ، آسانی سے سمجھنے والی کتاب کے بعد بھی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے؟
کیا وجہ ہے کہ جب بھی قرآن پیش کیا جاتا ہے ، بہت سے لوگ، اللہ کی اس کتاب سے انکار کرنے کے لئے ، اپنی روایات پیش کرتے ہیں؟
 

سید رافع

محفلین
فاروق صاحب کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا منشا یہ ہے کہ اسلام کو قرآن کے متن تک محدود کر دیا جائے اور پھر اس متن کی اپنی منشا کے مطابق تشریح کی جائے۔

قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کے سب سے بڑے مصدر کے آپ کلیۃً منکر ہیں۔

جس میں سب سے اہم حدیث شریف ہے۔

سنی کتب روایات نے مکمل طور پر قرآن حکیم کے ٹیکس، ربا، زکواۃ، وغیرہ کے بارے میں حکامات کو ختم کردیا ہے۔

اپنی مرضی کی روایات کو فروغ دیا

زیادہ تر روایات کی تشہیر صرف اس لئے کی گئی کہ رسول اکرم سے دشمنی بہت تھی

آج یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ احادیث پرست فرقے ، ان قوموں کا مقابلہ بالکل ہی نہیں کرپاتے جن قوموں نے قرآں کا معاشی نظام قائم کیا،

میری رائے (تفسیر بالرائے) میں بنیادی معیشیت کو بہتر بنانے کے لئے ان تصورات کو بہتر سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ربا (منافع پر واجب الادا ٹیکس ) کھاجانے کو جرم قرار دیا، ربا کی درست تعریف کی کہ یہ پبلک ویلتھ (اموال الناس کا حصہ) ،ٹیکس (زکواۃ، صدقات ، اتی المال) کو وصولنے پر زور دیا

ہم بحث کو آگے بڑھانے کے لیے قرآن کے ان مقامات پر جہاں ربا کا تذکرہ ہے وہاں منافع پر واجب الادا ٹیکس کیے دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ کتاب ہدایت کیا بولتی ہے۔


2:275 جو لوگ منافع پر واجب الادا ٹیکسکھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو منافع پر واجب الادا ٹیکس کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور منافع پر واجب الادا ٹیکس کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (منافع پر واجب الادا ٹیکسسے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی (منافع پر واجب الادا ٹیکس ) لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

2:276 اور اﷲ منافع پر واجب الادا ٹیکس کو مٹاتا ہے (یعنی منافع پر واجب الادا ٹیکس مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا


2:278 اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی منافع پر واجب الادا ٹیکسمیں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو۔


3:130 اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے منافع پر واجب الادا ٹیکسمت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ


4:161 اور ان کے منافع پر واجب الادا ٹیکس لینے کے سبب سے، حالانکہ وہ اس سے روکے گئے تھے، اور ان کے لوگوں کا ناحق مال کھانے کی وجہ سے (بھی انہیں سزا ملی) اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہےo


علماء آج تک ربا کا ترجمہ سود یا اضافہ کرتے آئے ہیں۔ خالص عربی لغت کا سوال یہ بن سکتا ہے کہ آج یا قدیم دور کی کونسی لغت یا عربی قوم ہے جو ربا کا ترجمہ اضافہ کے بجائے منافع پر واجب الادا ٹیکس کرتا ہے؟ ہمیں پہلے اوپر دی گئی آیات کا صحیح لفظی ترجمہ کرنا ہو گا تاکہ بحث آگے بڑھے۔ یہی وہ سات آیات ہیں جہاں قرآن میں لفظ ربا آیا ہے۔ جب لفظی ترجمہ ہو گا تو اس سے ہدایت حاصل کرنا آسان ہو گا۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
کیا ایسا ہے بھائی کہ یہ تینوں الفاظ ایک ہیں؟۔
آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ ایک اسم ہے دو فعل ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب تھا کہ تینوں کے معنی اضافہ کے قبیل کے ہیں۔ اسم اور فعل بامعنی الفاظ ہوتے ہیں۔ اسم میں کوئی زمانہ موجود نہیں ہوتا جبکہ فعل میں زمانہ موجود ہوتا ہے۔ معنیٰ کے لحاظ سے کوئی بھی مال میں اضافے کا معنی نہیں دیتا۔ البتہ مال کا اضافہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ صرف اضافہ لینے سے معنی میں وسعت آ جاتی ہے۔ مثلاً

اموال الناس میں اپنا کچھ مال ملایا گیا اور واپسی کے وقت یہ شرط رکھی کہ اصل مال کے ساتھ اضافی طور پر چند سو ایکٹر زمین دی جائے۔

اموال الناس میں اپنا کچھ مال ملایا گیا اور واپسی کے وقت یہ شرط رکھی کہ اصل مال کے ساتھ اضافی طور پر سلطنت کا عہدہ دیا جائے۔

اموال الناس میں اپنا کچھ مال ملایا گیا اور واپسی کے وقت یہ شرط رکھی کہ اصل مال کے ساتھ اضافی طور پر اپنی بیٹی نکاح میں دی جائے۔

آپ نے سب سے سادے معاملے پر نظر رکھی ہے جو کہ یہ ہے:

اموال الناس میں اپنا کچھ مال ملایا گیا اور واپسی کے وقت یہ شرط رکھی کہ اصل مال کے ساتھ اضافی طور پر کچھ مال دیا جائے۔


معاملہ مال کا ہی ہے

آپ خود ہی انصاف کر لیں کہ قریب از عدل کون سا لفظی ترجمہ ہے:

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم (لوگ) اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم (لوگ) مال اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں

اضافہ کس چیز میں ہو، یہ بہت ہی سادہ طور پر متعین ہے ۔ مال میں
آپ سے پھر لفظ ربا میں مال کی اضافت شامل کرنے پر عدل کی درخواست ہے۔ لفظ ربا کے ٹھیک ٹھیک معنی بتانے کی درخواست ہے جو کہ مندرجہ ذیل آیات کی تشریح کو ایک قرینہ عطا کرے۔

2:275 جو لوگ رباکھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو ربا کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (ربااگری) کو حلال فرمایا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (رباسے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی (ربا ) لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

2:276 اور اﷲ ربا کو مٹاتا ہے (یعنی ربا مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا


2:278 اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی ربامیں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو۔


3:130 اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے ربامت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ


4:161 اور ان کے ربا لینے کے سبب سے، حالانکہ وہ اس سے روکے گئے تھے، اور ان کے لوگوں کا ناحق مال کھانے کی وجہ سے (بھی انہیں سزا ملی) اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہےo

یہ بات ہورہی ہے اس مال کی ج ودولت عوام، پبلک ویلتھ، یعنی اموال الناس
یہ دولت عوام یا پبلک ویلتھ بھی آپکو غلط فہمی لگی ہے۔ اگر معاشرے میں 5 افراد ہوں جو 15 افراد کو مال میں اضافے کے ساتھ واپسی کی شرط پر مال دینے کا کاروبار کرتے ہوں تو ان 15 لوگوں کے مال اموال الناس کہلائیں گے جن کو قرض دیا گیا۔ ظاہر ہے جب آپ تجارت کرتے ہیں تو بہت سارے لوگوں کو سودی قرض دیتے ہیں۔ اللہ نے اسی بہت سارے لوگوں کے مال میں اپنا مال اضافے کی شرط پر ملا دینے کو اموال الناس میں مل کراضافہ کرنا کہا ہے۔

یہ بات اور بھی ظاہر و باہر ہوجاتی ہے جب کہ آپ ایسا کاروبار کرنے والوں کا قول دیکھیں۔ وہ کہتے ہیں:

2:275 ۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو ربا کی مانند ہے۔۔۔

یعنی ربا کا فعل سرانجام دینے والوں کو وہ ایک تجارت جیسی چیز ہی لگتی ہے۔ حالانکہ تجارت میں سامان تجارت بیچ کر منافع کمایا جاتا ہے جبکہ تجارت ربا میں محض مدت بیچی جا رہی ہوتی۔ اسی باریک فرق کو واضح کرنے کے لیے اللہ دو ٹوک انداز میں فرماتا ہے کہ:

2:275 ۔۔۔ اﷲ نے تجارت (ربااگری) کو حلال فرمایا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے۔۔۔

یعنی اموال الناس، کو غصب کرنے کی غرض سے ہو، جیسا کہ موروثی بادشاہتوں میں ہوتا رہا۔
یہاں غصب کرنے یا چھین لینے کی بات نہیں ہو رہی۔ قرآن واضح طور پر ایک باہمی رضامندی کی تجارت کی بات کر رہا ہے جس میں نفع کی امید یہ ہے کہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم (لوگ) اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں

پھر تجارت جیسی رضا مندی کی کیفیت جو کہ بادشاہوں کے ظلم میں نہیں ہوتی، اللہ ربا کو مذید واضح کرتا ہے:

2:275 ۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو ربا کی مانند ہے۔۔۔

اور مذید
2:275 ۔۔۔ اﷲ نے تجارت (ربااگری) کو حلال فرمایا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
اسلامی ملکوں کے تباہ شدہ معیشیت کی واحد وجہ زکواۃ کی آرگنائزڈ ادائیگی کی کمی ہے۔

ویسے شیعہ و سنی علماء میں زکوۃ نہ دینے والے کی گردن مارنے پر اجماع ہے۔ شیعہ کتاب حدیث اصول الکافی جوکہ بخاری شریف کی طرح معتبر ہے۔ اس میں کتاب الزکوۃ میں لکھا ہے کہ:

حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ ادا کرنے والا مستحق مدح نہیں ہوتا کیونکہ اسکی وجہ سے تو وہ قتل سے بچ جاتا ہے اور مسلمان کہا جاتا ہے۔ اگر ادا نہ کرے گا تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ تمہارے اوپر تمہارے مالوں میں زکوۃ کے علاوہ بھی ہے۔ (اصول الکافی جلد سوئم کتاب الزکوۃ صفحہ 23)

ٹیکس نہ دینے پر سزا میں یورپ ابھی بہت پیچھے ہے۔ اوپر دیا گیا معیار ٹیکس نہ دینے پر سزا کا اصلی معیار ہے۔
 
آپ درست سمجھے، اسلام صرف قرآن حکیم تک ہی محدود ہے، مستند احادیث نبوی، اسی ہدایت کی تشریح کرتی ہیں۔
منشاء کے مطابق تشریح کرنے کی ضرورت ہی نہیں جب کہ مستند مترجمین کے تراجم موجود ہیں۔
پھر اللہ تعالی کا یہ فرامین ملاحظہ فرمائیے اور اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا آپ اللہ تعالی کی کس کس آیت سے انکار کرتے ہیں؟

اس کی پیروی کیجئے جو نازل کیا گیا اللہ کی طرف سے ناکہ جو دوسرے کہتے ہیں؟
7:3 اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ
(لوگو!) پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اپنے رب کو چھوڑ کر (دوسرے) سر پرستوں کی۔ (مگر) کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو تم۔


چودھری مصطفی صاحب ، آپ اللہ تعلی کے اس دعوے سے انکار کررہے ہیں کیا؟ کیا اس دعوے سے انکار کئے بغیر ، دوسری کتب پر ایمان کوئی رکھ سکتا ہے؟
7:52 وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے

کیا ایک مفصل ، آسانی سے سمجھنے والی کتاب کے بعد بھی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے؟
کیا وجہ ہے کہ جب بھی قرآن پیش کیا جاتا ہے ، بہت سے لوگ، اللہ کی اس کتاب سے انکار کرنے کے لئے ، اپنی روایات پیش کرتے ہیں؟
آپ اس کیلئے ایک علحدہ دھاگہ کھولیں تو بہتر ہو گا تاکہ دوںوں بحثوں میں اختلاط نہ ہو۔
اسلام صرف قرآن کے متن تک محدود کرنے سے ایک ایسی موم کی ناک بن جاتا ہے جسے جو چاہے اپنی مرضی کے مطابق موڑ لے۔
 

بافقیہ

محفلین
آپ درست سمجھے، اسلام صرف قرآن حکیم تک ہی محدود ہے،
خان صاحب! آپ کو کیا لگتا ہے؟ حضور ﷺ کا دنیا میں صرف یہ کام تھا کہ اللہ نے آپ پر قرآن اتارا تاکہ امت تک پہنچادیں۔
آپ کی کتنی چھوٹی سوچ ہے ؟ آپ کا کتنا چھوٹا دل ہے؟ اللہ نے آپﷺ کو تمام عالم کی رہبری کیلئے بھیجا۔ آپ کی ذات کو معیار کمالات بنایا۔ آپ قرآن کی اپنی پیش کی ہوئی تفسیر کو ایسے مانتے ہیں جیسے اللہ نے ابھی ابھی اتارا ہو! مگر حضور ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر کی، اس کے جو معانی و مطالب بتائے اسکے منکر ہیں۔ اس کے بعد آنے والے صحابہؓ جنھوں نے حضور کی زندگی دیکھی، قرآن کا اترنا دیکھا، قرآن کے معانی و مفاہیم کو بالمشافہ حضور سے سمجھا۔ آپ سمجھتے ہیں آپ کے علم کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں!
اگر کسی شمار میں کوئی حیثیت تسلیم کی جائے تو محض تاریخی حیثیت۔ کمال ہے جناب کمال ہے!
مجھے معاف کریں! قرآن مجید کے تقدس کے بعد ہم حضورﷺ کے قول و فعل کو منتہائے تقدس سمجھتے ہیں۔
آپ کی بات سمجھنے والا تو فورم پر کوئی نہیں۔ اگر ہے بھی تو آپ ہی کی جماعت کے ہیں۔ یا وہ جن کی کوئی جماعت ہی نہیں ہے۔
 
مگر حضور ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر کی، اس کے جو معانی و مطالب بتائے اسکے منکر ہیں۔

ہم یہاں بات کررہے ہیں، حوالات ، ماخذ اور ریفرنس کے ساتھ درج ذیل موضوعات پر۔
1۔ ربا ، 2۔ اموال الناس، 3۔ زکواۃ، 4- غنمتم، 5۔ خمس، 6۔ رباء کا ماخذ، 7۔ غنمتم کا ماخذ، 8۔ صدقات، 9۔ صدقات کا ماخذ، آتی المال، 10۔ آتی المال کا ماخذ، 11۔ زکواۃ ، صدقات اور آتی المال کے مستحق کون ہیں۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کے ان موضوعات پر قرآن حکیم کے علاوہ بھی کچھ کتب سے تفاسیر، ماخذ اور ریفرنسز موجود ہیں ۔ تو آپ سے دست بدستہ استدعا ہے کہ آپ یہ معلومات ، احادیث یا روایات سامنے لائیے۔ تاکہ سب کو فائیدہ ہو۔ اور اس تفسیر کے بارے میں علم ہو جو رسول اکرم صلعم نے کی ، جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے لیکن ہم سب کو محروم رکھ رہی ہیں۔

افسناک پہلو یہ ہے کہ جنابہ اب تک صرف کردار کشی اور طعنہ زنی میں مصروف رہی ہیں ، کوئی ماخذ، کوئی ریفرنس، ابھی تک پیش نہیں کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں، اس پر موصوفہ کا اصرار ہے کہ ہم اس "کچھ بھی نہیں " کے سامنے ریفرنس کے ساتھ ہونے والی قرآن حکیم کے دلائیل ، چھوڑ دیں؟

چونکہ یہ دھاگہ ماڈریٹڈ ہے، مدیران سے ایک بار پھرالتماس ہے کہ کردار کشی ، طعنہ زنی والے مراسلات ، حذف کردیجئے کیوں کہ اس کا کوئی فائیدہ کسی کو بھی نہیں پہنچتا اور وہ مراسلات جن میں قرآن اور سنت رسول سے ماخذ، اور ریفرنسیز پیش کئے جائیں ، ان کو ہی باقی رکھئے تاکہ موضوع کی سنجیدگی متاثر نا ہو۔
 
آخری تدوین:
بجناب سید رافع صاحب،

سب سے پہلے تو آپ کے سب سوالات کے جوابات مجھ پر ادھار ہیں۔
میں نے آپ کے مراسلات بہت ہی غور سے پڑھے، میں آپ سے مخلصانہ عرض کروں گا کہ آپ درج ذیل الفاظ کی تعریف ، قرآن کریم یا سنت رسول یا احادیث رسول کے ریفرنس کے ساتھ فراہم کیجئے، تاکہ ہم ان آیات کے کے ایک یکساں اور مناسب معانی استعمال کرسکیں اور پھر اس پر بہتر طریقے سے بات کرسکیں

آپ کی آسانی کے لئے جو تعاریف میں نے اخذ کی ہیں وہ لکھ رہا ہوں، آپ ان میں درستگی کردیجئے ، تاکہ ہمارا بنیادی اصطلاحات پر اتفاق ہو سکے اگر مجھے کسی تعریف میں آپ کی تبدیلی مناسب نہیں لگی تو "قرآن حکیم اور سنت رسول" سے ریفرنس کے ساتھ آپ کے سامنے لے آؤں گا۔ تاکہ ہم یکساں معانی کے ساتھ بات کرسکیں۔

التماس ہے کہ درج ذیل الفاظ کی تعاریف پر نظرثانی فرمائیے۔ اور ریفرنس کے ساتھ درستگی فرمائیے۔ بات ان تعاریف پر متفق ہوجانے کے بعد کریں گے۔ میں آپ سے اصطلاحات پر اتفاق چاہتا ہوں۔ دیگر افراد، مصطفی صاحب اور ہافقیہ بھی ان الفاظ کی تعاریف میں "قرآن اور سنت کی روشنی میں " درستگی فرما سکتے ہیں۔

انفال۔ مال جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت ، ٹینک، تلوار، بندوق توپ ، کوئی بھی ساز و سامان جس کی اہمیت ہو۔ اس پر 100 فی صد اللہ تعالی کا حق ہے (8:1)
2- مَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ : کسی بھی شے سے تم لوگوں کو جو بھی بڑھوتری یا اضافہ ہوا (8:41)
فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ - نمبر 2 سے ہونے والے بڑھوتری یا اضافہ کا پانچواں حصہ،(ب1)اللہ کے لئے ہے۔ (8:41)
4۔ اور (2ب)رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (ب3) قرابت داروں کے لئے اور(ب4) یتیموں اور (ب5)محتاجوں اور (6ب)مسافروں کے لئے ہے۔ (8:41)

5۔ صدقات : صدقات (زکوٰۃ) محض (1ج) غریبوں اور (2ج) محتاجوں اور (3ج) ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور(4ج) ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (5ج) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور (6ج) قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور(7ج) اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور (8ج) مسافروں پر (9:60 اور 2:177)

6: آتی المال : ﷲ کی محبت میں (اپنا) (1د) مال قرابت داروں پر اور (2د) یتیموں پر اور(3د) محتاجوں پر اور(4د) مسافروں پر اور (5د)مانگنے والوں پر اور (6د) (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے

7: زکواۃ : اس کی تعریف آپ فراہم کیجئے، اس کا ماخذ کیا ہے اور یہ کس کس کس پر خرچ کی جائیگی؟؟
8: ربا: وہ اضافہ جس کو اللہ تعالی مٹاتا ہے، جو کہ برعکس ہے اس صدقہ (2:276) یا زکواۃ (30:39) جس کو اللہ تعالی بڑھاتا ہے (2:276 اور 30:39)
9۔ اموال الناس: ایک سے زائید افراد کے اموال، چھوٹے پیمانے پر دو یا زائید لینے والوں اور دو یا زائید دینے والے ، بڑے پیمانے پر ، قوم کی دولت یا پبلک ویلتھ

1۔ ربا ، 2۔ اموال الناس، 3۔ زکواۃ، 4- غنمتم، 5۔ خمس، 6۔ رباء کا ماخذ، 7۔ غنمتم کا ماخذ، 8۔ صدقات، 9۔ صدقات کا ماخذ، 10۔ آتی المال، 11۔ آتی المال کا ماخذ، 12۔ زکواۃ ، صدقات اور آتی المال کے مستحق کون ہیں یعنی کس کس ڈیپارٹمنٹ میں خرچ کئے جائیں گے۔

کوشش کیجئے کہ ان الفاظ کی تعریف، مختصر اور ایک لائین کی ہو تاکہ ہم ان کو ایک لفظ کی اصطلاح دے سکیں تاکہ بات کرنے میں آسانی رہے۔ آپ کی فراہم کردہ تعریف، میں آپ بعد میں بھی کسی مناسب ریفرنس کے باّث تبدیلی کرسکتے ہیں۔ ایک کام اور کیجئے کہ آپ ان تعریفوں کے ایک یا دو الفاظ کی مدد سے کوئی اصطلاح بھی دے دیجئے، چاہے وہ انگریزی کی ہو یا اردو کی لیکن عربی کی نا ہو تو بہتر ہے کیوں کہ پھر اس سے کنفیوژن ممکن ہے۔

ان اصطلاحات کا تعین ہوجانے کے بعد ہم آپ کے معروضات اور اعتراضات پر ایک ایک کرکے صبر کے ساتھ بات کریں گے۔ میرا مقصد آپ کو یا کسی کو بھی کنونس کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تعین کرنا ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم آیات کی روشنی میں ان موضوعات کے بارے میں کیا ہے۔
 
آخری تدوین:
آپ اس کیلئے ایک علحدہ دھاگہ کھولیں تو بہتر ہو گا تاکہ دوںوں بحثوں میں اختلاط نہ ہو۔
اسلام صرف قرآن کے متن تک محدود کرنے سے ایک ایسی موم کی ناک بن جاتا ہے جسے جو چاہے اپنی مرضی کے مطابق موڑ لے۔

برادر محترم،
قرآن و سنت ، روایت کی روشنی کا موضوع ایک الگ دھاگے کا مستحق ہے، بہت ہی شکریہ۔

درج ذیل موضوعات کے بارے میں تفاسیر، روایات، احادیث رسول اکرم اور سنت رسول اکرم سے اپنی فہم کے ریفرنس فراہم کیجئے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ہم کس معلومات سے محروم ہیں ، تاکہ قرآن حکیم موم کی ناک (نعوذ باللہ) نا بن سکے۔

1۔ ربا ، 2۔ اموال الناس، 3۔ زکواۃ، 4- غنمتم، 5۔ خمس، 6۔ رباء کا ماخذ، 7۔ غنمتم کا ماخذ، 8۔ صدقات، 9۔ صدقات کا ماخذ، 10۔ آتی المال، 11۔ آتی المال کا ماخذ، 12۔ زکواۃ ، صدقات اور آتی المال کے مستحق کون ہیں یعنی کس کس ڈیپارٹمنٹ میں خرچ کئے جائیں گے۔
ایک بار پھر بہت ہی شکریہ۔
 
آخری تدوین:
برادر محترم،
قرآن و سنت ، روایت کی روشنی کا موضوع ایک الگ دھاگے کا مستحق ہے، بہت ہی شکریہ۔

درج ذیل موضوعات کے بارے میں تفاسیر، روایات، احادیث رسول اکرم اور سنت رسول اکرم سے اپنی فہم کے ریفرنس فراہم کیجئے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ہم کس معلومات سے محروم ہیں ، تاکہ قرآن حکیم موم کی ناک (نعوذ باللہ) نا بن سکے۔

1۔ ربا ، 2۔ اموال الناس، 3۔ زکواۃ، 4- غنمتم، 5۔ خمس، 6۔ رباء کا ماخذ، 7۔ غنمتم کا ماخذ، 8۔ صدقات، 9۔ صدقات کا ماخذ، 10۔ آتی المال، 11۔ آتی المال کا ماخذ، 12۔ زکواۃ ، صدقات اور آتی المال کے مستحق کون ہیں یعنی کس کس ڈیپارٹمنٹ میں خرچ کئے جائیں گے۔
ایک بار پھر بہت ہی شکریہ۔
حضور گزارش ہے کہ الفاظ کا مطلب اور مفہوم وقت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ اگر لسانیات کا مطالعہ کریں تو یہ واضح ہے کہ لفظ اور اس سے جڑے معنی کا تعین انسان خود کرتا ہے۔ اگر قرآن کو معاشرتی ہدایت کیلئے لینا ہے تو ایک پوائنٹ آف ریفرینس ہونا چاہئے۔ سنت ہمارے لئے وہی ریفرینس ہے۔ کہ قرآن کے الفاظ کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے کیسے لیا اور دوسروں کو کیسے سمجھایا اور اس سمجھ کے مطابق لوگوں نے کیسے زندگی گزاری۔
موصوف یہ چاہتے ہیں کہ اس سارے علم کو پس پشت ڈال کر آپ کی فہم کو مان لیا جائے۔ تو گزارش یہ ہے کہ میرے لئے آپ کی رائے کہ اہمیت ہی نہیں، میں اس پہ کیوں وقت ضائع کروں۔
 

سین خے

محفلین
افسناک پہلو یہ ہے کہ جنابہ اب تک صرف کردار کشی اور طعنہ زنی میں مصروف رہی ہیں ، کوئی ماخذ، کوئی ریفرنس، ابھی تک پیش نہیں کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں، اس پر موصوفہ کا اصرار ہے کہ ہم اس "کچھ بھی نہیں " کے سامنے ریفرنس کے ساتھ ہونے والی قرآن حکیم کے دلائیل ، چھوڑ دیں؟
۔

دخل اندازی کے لئے معذرت- یہ موصوف ہیں :)
 
حضور گزارش ہے کہ الفاظ کا مطلب اور مفہوم وقت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ اگر لسانیات کا مطالعہ کریں تو یہ واضح ہے کہ لفظ اور اس سے جڑے معنی کا تعین انسان خود کرتا ہے۔ اگر قرآن کو معاشرتی ہدایت کیلئے لینا ہے تو ایک پوائنٹ آف ریفرینس ہونا چاہئے۔ سنت ہمارے لئے وہی ریفرینس ہے۔ کہ قرآن کے الفاظ کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے کیسے لیا اور دوسروں کو کیسے سمجھایا اور اس سمجھ کے مطابق لوگوں نے کیسے زندگی گزاری۔
موصوف یہ چاہتے ہیں کہ اس سارے علم کو پس پشت ڈال کر آپ کی فہم کو مان لیا جائے۔ تو گزارش یہ ہے کہ میرے لئے آپ کی رائے کہ اہمیت ہی نہیں، میں اس پہ کیوں وقت ضائع کروں۔
برادر محترم، سب کے فائیدے کے لئے ہی عرض کررہا ہوں کہ آپ اس بارے میں، کتب روایات اور احادیث رسول اکرم اور سنت رسول اکرم سے جو کچھ وثوق سے اور بہتر جانتے ہیں ، ہم سب کے سامنے لائیے۔ چھپانے کی ضرورت کیوں ؟
 
برادر محترم، سب کے فائیدے کے لئے ہی عرض کررہا ہوں کہ آپ اس بارے میں، کتب روایات اور احادیث رسول اکرم اور سنت رسول اکرم سے جو کچھ وثوق سے اور بہتر جانتے ہیں ، ہم سب کے سامنے لائیے۔ چھپانے کی ضرورت کیوں ؟
جناب آپ کے سامنے کیا لائیں جب سنت آپ کے نزدیک حوالہ ہی نہیں۔
 
جناب آپ کے سامنے کیا لائیں جب سنت آپ کے نزدیک حوالہ ہی نہیں۔
چودھری مصطفی صاحب،

میرا خیال ہے کہ آپ نے تجویز کیا تھا کہ کیا سب روایات ، سنت رسول اکرم کا سوال ایک الگ دھاگے میں لے جائی جائیں۔ آپ باقی سب کو کیوں محروم رکھ رہے ہیں، ان سب کے بارے میں بھی آپ کا یہ مفروضہ ہے کہ وہ بھی سنت رسول پر ایمان نہیں رکھتے۔ پلیز اس بحث کو یہاں نا شروع کیجئے، سنت رسول اکرم سے ریفرنس نا فراہم کرنا اور اس کو چھپا کر رکھنا ایک گھناؤنا جرم اور حد درجے کی بے ایمانی ہے۔ آپ پر یہ ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ آپ اپنے دعوے کے مطابق سب کے سامنے یہ شواہد لائیں تاکہ سب اس سے بہرہ ور ہوں، ورنہ تو یہ ایک محض بہانہ ہوا۔

میرے بارے میں۔
آپ کا میرے بارے میں خیال درست نہیں۔ آپ روایات فراہم کیجئے اور ان روایات سے سنت رسول سے حوالے فراہم کیجئے، اگر میں انکار کروں تو قرآن حکیم سے ریفرنس فراہم کیجئے کہ پیش کردہ روایت، یقینی طور پر سنت رسول ہے۔ آیا کہ کوئی کوئی روایت، کیا نماز میں قرآن حکیم کی آیت کی جگہ پڑھی جاسکتی ہے؟ اگر نہیں، تو جتنا میں منکر روایات ہوں، آپ بھی اتنے ہی منکر روایات ہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان، قرآن حکیم ، بہترین بنیادی اصول فراہم کرتا ہے، سنت رسول اکرم، ان اصولوں کے مطابق ہے۔ جو سنت رسول اکرم آپ نے یہاں پیش ہی نہیں کی تو کس طرح میں اس کا انکار کرسکتا ہوں؟۔ جب ہم بنیادی اصطلاحات طے کرلیں گے اور قرآن حکیم کے فراہم کردہ اصولوں کو سمجھ لیں گےتو انشاء اللہ تعالی ، آپ دیکھیں گے کہ ہم سب کو بہت سی روایات میں سنت رسول صاف نظر آئے گی ، دوسرے الفاظ میں ، یہاں پیش کردہ بیشتر روایات کو، ہم سب، قرآن کے ان اصولوں کے مطابق، سنت رسول، انشاء اللہ تعالی ثابت دیکھیں گے۔ لہذا آپ اپنا یہ واہمہ دل سے نکال دیجئے کہ میں سنت رسول پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی روایت، رسول اکرم کے حکم کے مطابق، قرآن حکیم پر پرکھ کر ہی سنت رسول قرار پا سکتی ہے۔


اگر آپ یا کوئی دوسرا محفلین، یہ سمجھتے ہیں کہ میری آپ سے یا کسی بھی دوسرے سے کوئی ناراضگی ہے تو یہ بھی درست نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ہی بات جب مختلف لوگوں کے سامنے رکھی جاتی ہے تو کوئی تو اس کو سابقہ لوگوں کے قصے سمجھتا ہے اور کوئی اسی واقعے سے اپنی اپنی کلاس کے لحاظ سے سبق حاصل کرتا ہے ، اور کوئی ماہر قانون دان یہی واقعات والفاظ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ قانون یا اصول کی وضاحت ایسی زبردست قانونی زبان میں کہ جس کا ہر جملہ آپس میں بہترین طریقے سے فٹ بیٹھتا ہے۔

یہ ذہن میں رکھئے کہ آپ کو میری بات تو ماننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کی جگہ پیش کردہ آیات الہی پر اور ان سے متعلقہ آیات غور فرمائیے ، اور اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا کیجئے، ساتھ ساتھ دیکھئے کہ سنت رسول اس بارے میں کیا ہے اور ان صاف و واضح اصولوں پر پرکھ کر اس سنت رسول کو اپنائیے۔

میں امید کرتا ہوں کہ آپ سنت رسول سے ماخذ اور ریفرنس کے ساتھ، اپنے نکات پیش کریں گے۔ تاک ہم سب کے لئے مشعل راہ ہوں۔ اور جو پہلو ، ہم سب دیکھ نا سکے ہوں، وہ دیکھ سکیں۔

کیا قرآنی آیات اور صحیح سنت رسول ، کیا ایک دوسرے کے مخالف ہو سکتی ہیں؟ بالکل نہیں ، تو آپ کیوں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ قرآن حکیم اور سنت رسول کو ایک دوسرے کے مخالف ثابت کیا جائے۔ کیا یہ ایک شیطانی عمل نہیں ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم پڑھا جارہا ہو، وہاں بہانے بہانے سے خلل ڈالا جائے؟

التماس ہے اس مراسلے کا یہاں جواب نا دیجئے، اگر آپ اس بارے مین اپنی بات جاری رکھنا چاہتے ہیں تو الگ دھاگہ کھول لیجئے۔ یہاں صرف اور صرف موضوع کے مطابق بات کیجئے۔
 
آخری تدوین:
Top