زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم صاحبان و اساتذہ۔ رمضان کی مبارکباد قبول فرمائیے۔ اللہ ہم سب کو اس کی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک تازہ غزل پیش ہے۔ برائے مہربانی اپنی رائے سے نوازیں۔ پہلا شعر رمضان کی آمد پر ہی کہا ہے۔
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف محمد احسن سمیع راحل

حُسن ہوتا رہا مائل برسوں
عشق بیٹھا رہا غافل برسوں

اِس کو کیوں زندگی کہہ دے کوئی
بس دھڑکتا ہی گیا دل برسوں

اِتنا ناقِص رہا قصّہ اپنا
ہو نہ پایا کوئی قائل برسوں

جان کر بھی کہ ہے پیکر خاکی
خود کو گنتے رہے کامل برسوں

کھوج میں کل کی یہ دیکھا ہی نہیں
آج ہوتا رہا حاصل برسوں

فرصتیں صرفِ تمنّا ہو کر
مجھ کو کرتی رہیں زائل برسوں

چہرے پڑھتے رہے آسانی سے
سو تعلق رہے مشکل برسوں

عرصہءِ وصل ہی تو عمر ہے بس
باقی کرتے رہو شامل برسوں

والسلام۔
 
جناب زبیر صاحب، آداب!
ماشاءاللہ اچھے اشعار ہیں، مگر چھوٹی بحر کی وجہ سے کچھ مقامات پر اسقاط حروف زبان پر کھٹک رہا، جبکہ اسی باعث کچھ جگہوں پر تنافر کی واضح کیفیت بھی پیدا ہورہی ہے. مثلا

اِس کو کیوں زندگی کہہ دے کوئی
بس دھڑکتا ہی گیا دل برسوں
پہلے مصرعے میں کو کی واو گر رہی ہے، جو ویسے تو جائز ہے مگر یہاں چونکہ "کیوں" اس سے متصل ہے، اس لئے تنافر بہت واضح محسوس ہوتا ہے. علاوہ ازیں، اسی مصرعے میں زندگی کی ی بھی گر رہی ہے، جو کہ بہتر نہیں.

اِتنا ناقِص رہا قصّہ اپنا
ہو نہ پایا کوئی قائل برسوں
یہاں بھی اتنا اور ناقص میں تنافر کی وہی کیفیت ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے. ویسے قصے کا ناقص ہونا بھی کوئی اتنا خاص تاثر نہیں چھوڑ رہا. کسی اور انداز سے یہی خیال بیان کرکے دیکھیں.

جان کر بھی کہ ہے پیکر خاکی
خود کو گنتے رہے کامل برسوں
پہلے مصرعے میں ہے کی بجائے ہیں کا محل ہے، غالبا کتابت کی غلطی رہ گئی ہے. اگر تو مراد یہ ہے کہ ہم جانتے تھے کہ ہمارا پیکر خاکی ہے، تب بھی بات تشنہ الفاظ رہ جاتی ہے.

کھوج میں کل کی یہ دیکھا ہی نہیں
آج ہوتا رہا حاصل برسوں
زائل آپ اس سے اگلے شعر میں لائے ہیں، میرے خیال میں اگر اس شعر میں ہوتا تو زیادہ مناسب رہتا! ویسے اگلا شعر بھی بہت خوب ہے.

آخری شعر کا دوسرا مصرعہ نجانے کیوں مجھے کھٹک رہا ہے. یہاں ردیف نبھتی محسوس نہیں ہوتی، کیونکہ جن معنی میں آپ اسے یہاں برت رہے ہیں، برسوں کا استعمال سمجھ نہیں آرہا. اگر یہی بات نثر میں کہی جائے تو یوں کہا جائے گا کہ "کتنے ہی برس شامل کرلو، اصل عمر تو بس وہی عرصہ ہے جو وصال میں گزرا". گویا اس سیاق میں برس کہ جمع بھی برس ہی ہونی چاہیئے. ویسے یہ صرف میری ذہنی الجھن ہے، ممکن ہے میں ہی غلط سوچ رہا ہوں.

آخر میں سب سے اہم بات، یا اساتذہ سے سوال کہہ لیجئے.
برس کی ر مفتوح ہوتی ہے، کیا اس کی جمع غیر ندائی بناتے ہوئے اس کی ر ساکت ہوجاتی ہے، یا پھر ر کے سکوت کے ساتھ معروف تلفظ محض غلط العوام ہے؟ اگر جمع غیرندائی میں بھی ر مفتوح رہتی ہے تو پھر ردیف کا وزن محل نظر ہوگا.

دعاگو،
راحل.
 
آخری تدوین:

زبیر صدیقی

محفلین
جناب محمد احسن سمیع راحل ؛ آپ کا بہت شکریہ۔ میں پھر سے واضح غلطیاں کر گیا۔ پہلی دو نشاندہیوں پر میں ان شااللہ دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔

پہلے مصرعے میں ہے کی بجائے ہیں کا محل ہے، غالبا کتابت کی غلطی رہ گئی ہے. اگر تو مراد یہ ہے کہ ہم جانتے تھے کہ ہمارا پیکر خاکی ہے، تب بھی بات تشنہ الفاظ رہ جاتی ہے
نہیں - میں نے "ہے" ہی لکھا تھا۔ چونکہ خود کو کامل سمجھنا میرا اپنا مسئلہ تھا۔ میں نے تو بہت سے عظیم لوگ دیکھے ہیں - سو میں سب کو کیسے اس میں شامل کر لیتا۔ ویسے، میں نے دوبارہ دیکھا ہے، الفاظ کی کمی دیکھ نہیں پاتا، ذرا اشارہ دے دیں تو اس کو بھی دیکھ لوں گا۔

آخر میں سب سے اہم بات، یا اساتذہ سے سوال کہہ لیجئے.
برس کی ر مفتوح ہوتی ہے، کیا اس کی جمع غیر ندائی بناتے ہوئے اس کی ر ساکت ہوجاتی ہے، یا پھر ر کے سکوت کے ساتھ معروف تلفظ محض غلط العوام ہے؟ اگر جمع غیرندائی میں بھی ر مفتوح رہتی ہے تو پھر ردیف کا وزن محل نظر ہوگا.
یہ بہت ہی اچھا نکتہ لائے۔ میرا ذہن نہیں گیا تھا۔ مگر ابھی میں نے لغت کو رجوع کیا تو تلفظ ر ساکن کے ساتھ ہی ہے۔ اگر آپ اور اساتذہ اجازت دیتے ہیں تو میں استعمال کر لوں گا۔ آپ کے آخری دو نکات پر اساتذہ کی رائے کا انتظار کر لیتے ہیں۔

والسلام
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
برسوں ردیف پر بلکہ برسوں کےر ساکن والے تلفظ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اساتذہ نے بھی اسی طرح برتا ہے
تنافر اور اسقاط کے سلسلے میں مَیں بھی راحل سے متفق ہوں
 

زبیر صدیقی

محفلین
برسوں ردیف پر بلکہ برسوں کےر ساکن والے تلفظ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اساتذہ نے بھی اسی طرح برتا ہے
تنافر اور اسقاط کے سلسلے میں مَیں بھی راحل سے متفق ہوں
مکرمی جناب - جی شکریہ۔ تنافر اور اسقاط والے مصرعے تبدیل کر دیے ہیں۔ ذرا دیکھ لیجئے۔ محمد احسن سمیع راحل


حُسن ہوتا رہا مائل برسوں
عشق بیٹھا رہا غافل برسوں

کوئی کیوں زندگی کہہ دے اس کو
بس دھڑکتا ہی گیا دل برسوں
یا
زندگی کیوں اسے کوئی کہہ دے
بس دھڑکتا ہی گیا دل برسوں

اپنا قصّہ رہا ناقص اتنا
ہو نہ پایا کوئی قائل برسوں

جان کر بھی کہ ہے پیکر خاکی
خود کو گنتے رہے کامل برسوں

کھوج میں کل کی یہ دیکھا ہی نہیں
آج ہوتا رہا حاصل برسوں

فرصتیں صرفِ تمنّا ہو کر
مجھ کو کرتی رہیں زائل برسوں

چہرے پڑھتے رہے آسانی سے
سو تعلق رہے مشکل برسوں

عرصہءِ وصل ہی تو عمر ہے بس
باقی کرتے رہو شامل برسوں

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
زندگی کیوں اسے کوئی کہہ دے
یا
زندگی کیوں اسے کہہ دے کوئی
بہتر ہیں
قصی ناقص نہیں ہوتا، اس کا بیان ناقص ہو سکتا ہے۔ راحل نے بھی اس پر بجا اعتراض کیا تھا، اسے اور دیکھ لو
باقی درست ہے غزل
 

زبیر صدیقی

محفلین
زندگی کیوں اسے کوئی کہہ دے
یا
زندگی کیوں اسے کہہ دے کوئی
بہتر ہیں
قصی ناقص نہیں ہوتا، اس کا بیان ناقص ہو سکتا ہے۔ راحل نے بھی اس پر بجا اعتراض کیا تھا، اسے اور دیکھ لو
باقی درست ہے غزل
جی - بہت شکریہ۔ اب سمجھ آیا کہ کیا مسئلہ تھا (بقول جون ایلیا "نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا")۔ اب میں نے اسے تبدیل کر دیا ہے۔ ذرا دیکھ لیجئے۔ محمد احسن سمیع راحل

حُسن ہوتا رہا مائل برسوں
عشق بیٹھا رہا غافل برسوں

زندگی کیوں اسے کہہ دے کوئی
بس دھڑکتا ہی گیا دل برسوں

بے اثر ہی رہا قصّہ اپنا
ہو نہ پایا کوئی قائل برسوں

جان کر بھی کہ ہے پیکر خاکی
خود کو گنتے رہے کامل برسوں

کھوج میں کل کی یہ دیکھا ہی نہیں
آج ہوتا رہا حاصل برسوں

فرصتیں صرفِ تمنّا ہو کر
مجھ کو کرتی رہیں زائل برسوں

چہرے پڑھتے رہے آسانی سے
سو تعلق رہے مشکل برسوں

عرصہءِ وصل ہی تو عمر ہے بس
باقی کرتے رہو شامل برسوں

والسلام
 
Top