دنیا تبدیل ہونے کو ہے، انقلاب آنے کو ہے!

دنیا تبدیل ہونے کو ہے، انقلاب آنے کو ہے!
عاصم سجاد اختراپ ڈیٹ 10 اپريل 2020

تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ایسے ادوار میں رونما ہو تے ہیں جب حکمرانی کے نظام بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں آکر عوام الناس کی نظروں میں مکمل طور پر ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر انقلابیوں کو زیادہ لمبے اور مشکل فلسفے جھاڑنے نہیں پڑتے بلکہ نظام خود اتنا بے نقاب ہوچکا ہوتا ہے کہ سادہ سی بات بہت بڑے عوامی ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔

مثال کے طور پر پہلی جنگِ عظیم جب آخری مرحلے میں داخل ہوئی اور روس اس جنگ کی تباہ کاریوں سے مکمل بدحالی کا شکار ہوچکا تھا تو لینن نے محض روٹی، امن اور زمین کا نعرہ لگا کر عوام کی ہمدردیاں جیت لیں اور صدیوں پر محیط زار شاہی کا تختہ الٹ دیا۔

ہمارے خطے کی تاریخ میں بھی جنگ سے جنم لینے والے بحران کا بہت بڑا کردار ہے۔ جب 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو دُور دُور تک آثار نہیں تھے کہ برطانوی سامراج کی گرفت ہندوستان سمیت اپنے نو آبادیات پر کمزور پڑے گی، مگر1945ء تک صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی اور انگریز سرکار نے واضح اشارہ دینا شروع کردیا کہ وہ ہندوستان پر اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔ پھر ہندوستانی عوام کے اندر آزادی کے جذبات تیزی سے پھلے اور ٹھیک 2 سال کے اندر برطانوی راج اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا۔

آج انسان بحیثیت مجموعی کورونا وائرس کی شکل میں بہت بڑے بحران سے دوچار ہے۔ فی الوقت یہ کہا بھی نہیں جاسکتا کہ اس بحران کا انجام کیا ہوگا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس کے اثرات دُور رس ہوں گے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں غربت اور افلاس میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔

ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں بھوک کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی جبکہ 50 کروڑ انسان غربت میں دکھیلے جاسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو بڑی اور انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن لازم نہیں کہ بحران کے نتیجے میں عوام دوست تبدیلی ہی آئے، اور نہ ہی آج کی ممکنہ تبدیلی کی شکل وہی ہوگی جو سابقہ صدی میں وقوع پزیر ہوئی۔

فی الحال تو دنیا بھر کی انقلابی قوتیں سوگ منا رہی ہیں۔ گزشتہ روز دنیا کے سب سے نمایاں سوشلسٹ سیاستدان برنی سانڈرز نے امریکی صدارتی مہم کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ ایک عجیب منظر ہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین تضادات کا شکار ہے اور ایسے ہی موقع پر سانڈرز جیسے سوشلسٹ رہنما پسپا ہو رہے ہیں۔ کیا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بنیادی نوعیت کی تبدیلی ہماری موجودہ دنیا میں نا ممکن ہے؟

اوّل تو اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دورِ حاظر میں انقلابیوں کا نظام کو چیلنج کرنا بے حد مشکل ہے۔ ویسے تو یہ ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے مگر ماضی میں حکمرانی کے نظام کی پہنچ وہ نہیں تھی جو آج ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انسان کا مجموعی شعوری سفر ہے جو آج ہمیں ’انقلاب‘ جیسے الفاظ سے خوفزدہ کرتا ہے۔

آج سے 100 سال پہلے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نہ انتخابات ہوتے تھے، نہ ’قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں‘ کی حکمرانی سماج میں پھیلی ہوئی تھی اور نہ ہی ماس میڈیا آج کے دور کی طرح ذہن سازی کیا کرتا تھا۔ چنانچہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کے لیے سیاست کے پیمانے نظام کے بنائے ہوئے حدود کے اندر طے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے حکمرانوں کا تعین ہونا چاہیے، پورے سماج کو قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے اور میڈیا کے تحت ہمیں معلومات تک رسائی ہونی چاہیے۔

یہ سب کچھ ہوتا ضرور ہے اور زیادہ سے زیادہ انسان ’تہذیب‘ کے اس دائرے کے اندر شامل ہوتے بھی جا رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر مہذب سماج میں بھوک، ننگ، ظلم، جبر، جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ اب ماحولیاتی تباہی بھی بڑھتے چلی جارہی ہے۔

ہم میں سے بہت سے ’معتبر‘ لوگ ان حقیقتوں سے عام حالات میں نظر چُرا لیتے ہیں اور اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم براہِ راست کسی دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ تھوڑا بہت انسان دوست بھی ہیں۔ مگر کورونا بحران نے واضح کردیا ہے کہ حکمرانی کا نظام اپنے تمام تر دعوؤں کے برعکس نہ تو انسان دوست ہے اور نہ ’تہذیب یافتہ‘، بلکہ منافع کے گرد گھومتا ہے جس کی وجہ سے جب ایک وبا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو ہم اس خوفناک حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ توپ اور بم کی مالک ریاستوں کے پاس مریضوں کو بچانے والے وینٹیلیٹر اور ڈاکٹروں کو محفوظ رکھنے والے منہ کے ماسک تک نہیں ہیں۔

اس حوالے سے میڈیا کے کردار پر سنجیدہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سانڈرز کو بار بار ’غیر منتخب شدہ‘ کہا گیا۔ دراصل سانڈرز ان تمام طاقتور کمپنیوں اور خود امریکی ریاستی اسٹیبشلمنٹ کو للکار رہا تھا جو سیاست میں عوام کی ضروریات کی بجائے سرمائے کے تسلط کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ بڑی سرمایہ دارانہ کمپنیوں میں میڈیا کی کمپنیاں بھی شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا مجموعی کردار سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع سے متعلق رہا ہے۔

اس تناظر میں سانڈرز کو ’خطرناک‘ امیدوار کے طور پر پیش کرنا اور یہ رٹ بار بار دہرانا سمجھ میں آتا ہے۔ دسمبر 2019ء کے برطانوی عام انتخابات میں بھی لیبر پارٹی کے قائد اور اعلانیہ سوشلسٹ جیریمی کاربن کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

یعنی کہ مین اسٹریم کی سیاست میں حقیقی متبادل کا منظرِ عام پر آنا اور پھر پیسے کے بل پر چلنے والے انتخابی نظام میں کامیاب ہونا خود انقلاب سے کم نہیں۔ تو کیا سانڈرز اور کاربن جیسے امیدواروں کی حتمی شکست سے ہمیں مایوس ہوکر ہمیشہ کے لیے ہار مان لینی چاہیے؟

اس سوال کے جواب کی تلاش میں اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے سابقہ صدی میں روس اور ہندوستان کی طرف لوٹیں تو حوصلہ افزائی ہوگی۔ ماضی کے یہ تجربات سکھاتے ہیں کہ بحران ایک واقعہ نہیں بلکہ طویل عمل ہوتا ہے جس کے وقت کے ساتھ تمام تر پہلو واضح اور بعد ازاں نئی سیاسی صف بندیاں طے ہوتی ہیں۔

روس میں انقلاب1917ء میں برپا ہوا جب جنگ چوتھے سال میں داخل ہوچکی تھی۔ شروع میں روس کے عوام خود بھی ریاست کے جنگی جنون کا حصہ بنیں، لیکن کروڑوں اموات اور سماج کی مکمل تباہی نے حکمرانوں کے نظریاتی دعوؤں کو بے نقاب کردیا اور عوام انقلابی سیاست کی جانب مائل ہوگئے۔

اسی طرح ہندوستان کے عوام کی اکثریت 200 سال تک اس بات کو قبول کرتی رہی کہ گورے کی غلامی ان کا مقدر تھا، مگر دوسری جنگِ عظیم نے سامراج کے نو آبادیاتی یلغار کو کھوکھلا کردیا اور عوام نے سمجھا کہ انگریزوں کے ’تہذیب یافتہ‘ ہونے کے دعوے محض اپنی طاقت کو برقرار رکھنا اور ہندوستان کے وسائل کو لوٹنے کے بہانے تھے۔

آج سے 10 سال پہلے یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں تھا کہ برطانیہ اور امریکا میں وزارتِ اعظمیٰ اور صدارت کے لیے 2 ایسے امیدوار منظرِعام پر آئیں گے جو اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ کاربن اور سانڈرز نے اپنے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ دارانہ کمپنیوں سے متعلق اور حتیٰ کہ برطانیہ اور امریکا کے دنیا میں سامراجی کردار کے بارے میں کھل کر عوام کو شعور دیا۔

وہ آخری مرحلے پر ناکام ضرور ہوئے مگر انہوں نے بڑے پیمانے پر نوجوان نسل کے اندر مقبولیت حاصل کی۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو آنے والے کل کی سیاست کا رخ طے کریں گے۔

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پزید ممالک میں نوجوان بھاری اکثریت میں ہیں۔ ہمارے ہاں کورونا وبا سے جنم لینے والے معاشی بحران کی وجہ سے ان نوجوانوں کا مستقبل، جو پہلے سے مشکل نظر آرہا تھا، اب کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہوگیا ہے۔ کم از کم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں بہتری کی گنجائش کا کوئی امکان نہیں۔

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کی تنقیدی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے ان کو شاہ دولا کا چوہا بنانا ہی ہمارے تعلیمی نظام اور میڈیا کا مقصد رہا ہے۔ مگر کورونا وائرس کے بحران نے بہت کچھ بہت تیزی سے کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔

لینن کا قول ہے کہ ’کئی دہائیوں میں کچھ نہیں ہوتا اور پھر کئی ہفتوں میں دہائیاں گزر جاتی ہیں‘۔

سانڈرز اور کاربن نہ صرف مغربی ممالک میں بلکہ ساری دنیا میں ابھرنے والی انقلابی سوچ کی اکاسی کرتے ہیں۔ ہاں فرسودہ انتخابی نظام اور میڈیا کے مجموعی کردار میں زیادہ تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ نوجوان نسل کے نظریاتی رجحانات بنیادی تبدیلی کے حق میں ہوں گے۔ ایک طرف انسان اور ماحول کی سرمائے کی بالادستی کے ہاتھ بربادی ہے تو دوسری طرف امن، انصاف، برابری اور ماحول کے ساتھ توازن کا خواب ہے۔ حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔


1

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

 

فرقان احمد

محفلین
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پزید ممالک میں نوجوان بھاری اکثریت میں ہیں۔ ہمارے ہاں کورونا وبا سے جنم لینے والے معاشی بحران کی وجہ سے ان نوجوانوں کا مستقبل، جو پہلے سے مشکل نظر آرہا تھا، اب کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہوگیا ہے۔ کم از کم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں بہتری کی گنجائش کا کوئی امکان نہیں۔
آج کل اکثر معاشی ماہرین اسی نکتے پر فوکس کر رہے ہیں۔ متبادل کیا ہو گا! یقینی طور پر بہت اکھاڑ پچھاڑ ہو گی۔ سرمایہ داروں نے جیسے تیسے اس نظام میں لچک کی گنجائش رکھ کر اسے دھکا سٹارٹ تو بنایا ہوا تھا مگر کیا اب وہ مزید لچک دینے پر آمادہ ہوں گے یا اس پوزیشن میں بھی ہوں گے کہ سب کو ساتھ لے کر چل سکیں! بہت سے سوال ہیں جن کے جواب آنے باقی ہیں۔ متبادل نظام کے خدوخال نمایاں نہ ہیں اور کچھ نظام بری طرح پٹ چکے۔ ویسے بھی دنیا میں مکسڈ اکانومی چل رہی ہے تو شاید اسی میں ہی کچھ تبدیلیاں لا کر گیم کو چالو رکھا جائے۔ کوئی انقلاب یا بڑی تبدیلی دستک تو دے رہی ہے تاہم اس جوہری تبدیلی کی صورت کیا ہو گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
جیت بہرحال سرمایہ دارانہ نظام کی ہی ہو گی۔ اس کی بنیادی وجہ 7 ارب کی آبادی تک کھانا، پانی اور عام ضرورت کی اشیاء پہچانے کا کوئی متبادل نظام نہیں ہے۔ البتہ غربت برق سے بھی زیادہ رفتار سے بڑھے گی جس کے نتیجے میں حکومتیں کمزور ہوں گی، قتل بڑھے گا اور غذا اور پانی تک رسائی مشکل ہو گی۔ دوسری طرف صنعتیں سکڑ کر الیکڑونک ہو جائیں گی یہاں تک کہ بینک کا نظام تک ختم ہو جائے گا۔ یہ سب دس سے پندرہ سال کے عرصے میں ظہور پذیر ہو جائے گا۔
 
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
 

جاسم محمد

محفلین
آج کل اکثر معاشی ماہرین اسی نکتے پر فوکس کر رہے ہیں۔ متبادل کیا ہو گا! یقینی طور پر بہت اکھاڑ پچھاڑ ہو گی۔ سرمایہ داروں نے جیسے تیسے اس نظام میں لچک کی گنجائش رکھ کر اسے دھکا سٹارٹ تو بنایا ہوا تھا مگر کیا اب وہ مزید لچک دینے پر آمادہ ہوں گے یا اس پوزیشن میں بھی ہوں گے کہ سب کو ساتھ لے کر چل سکیں! بہت سے سوال ہیں جن کے جواب آنے باقی ہیں۔ متبادل نظام کے خدوخال نمایاں نہ ہیں اور کچھ نظام بری طرح پٹ چکے۔ ویسے بھی دنیا میں مکسڈ اکانومی چل رہی ہے تو شاید اسی میں ہی کچھ تبدیلیاں لا کر گیم کو چالو رکھا جائے۔ کوئی انقلاب یا بڑی تبدیلی دستک تو دے رہی ہے تاہم اس جوہری تبدیلی کی صورت کیا ہو گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔
فی الحال کوئی متبادل معاشی نظام زیر غور نہیں ہے۔ رسد اور طلب کا کائناتی اصول ہی مارکیٹ بناتا ہے، جس میں سرمایہ کار سرمایہ لگا کر مزید سرمایہ کماتا ہے۔ اور یوں معیشت کا پہیہ گھومتا ہے۔
اس وقت کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے آدھی دنیا گھروں میں قید ہے۔ جس کے بعد عالمی مارکیٹ میں طلب انتہائی شدید حد تک کم ہو گئی البتہ رسد جوں کی توں موجود ہے۔ یوں آنے والا وقت عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی لانے کا موجب بنے گا۔
 
فی الحال کوئی متبادل معاشی نظام زیر غور نہیں ہے
صاحب! تبدیلی کبھی زیرِ غور نہیں ہوتی، بس آجاتی ہے۔ فتحِ مکہ سے ایک دن پہلے، پہلی جنگِ عظیم سے پہلے، دوسری جنگِ عظیم سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ دنیا ایک عظیم تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
صاحب! تبدیلی کبھی زیرِ غور نہیں ہوتی، بس آجاتی ہے۔ فتحِ مکہ سے ایک دن پہلے، پہلی جنگِ عظیم سے پہلے، دوسری جنگِ عظیم سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ دنیا ایک عظیم تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
انقلاب عموما تب ہی آتے ہیں جب ایک بہت بڑی آبادی کو ان کی حکومتیں دیوار سے لگا دیں۔ فی الحال ایسا کچھ نہیں ہو رہا اور دنیا کی ہر حکومت کورونا وائرس وبا سے لڑنے کیلئے اپنی طرف سے بہترین اقدامات کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
صاحب! تبدیلی کبھی زیرِ غور نہیں ہوتی، بس آجاتی ہے۔ فتحِ مکہ سے ایک دن پہلے، پہلی جنگِ عظیم سے پہلے، دوسری جنگِ عظیم سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ دنیا ایک عظیم تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

ایک تبدیلی کی نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کیونکہ جدید ہتھیاروں کوئی ملک بھی بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے بیسک انکم کا "ٹریپ" تیار ہے۔ اس کے تحت ہر ایک کو کچھ نہ کچھ رقم ہر ماہ مل جائے گی۔ شروع میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو اچھا یا عجیب سا لگے گا کہ کچھ تو مل ہی جائے گا لیکن یہ تیاری ہے لائف اسٹائل کو نیچے لانے کی۔ اس رقم کی تقسیم بینک کے ذریعے ہو گی جو سود کی تلوار یعنی بے حیائی اور بزدلی کو عام کرے گی۔ لوگ بزدلی سے ایک دوسرے کو معمولی باتوں پر قتل کریں گے۔ جب اکانومی ہی نہیں ہو گی تو لوگ نکاح کو اس حد تک ترک کریں گے جیسے کہ نکاح کرنا جانتے ہی نہ ہوں۔

پسماندہ ممالک میں چھ ماہ یا سال بھر حکومت کچھ نہ کچھ دیتی رہے گی یا پھر معاشرے کے امیر افراد کو دولت باٹنے پر مجبور کرے گی۔ لیکن پھر یہ بھی بند ہو جائے گا۔ اس مشکل کا فطری نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ کمیونٹی سسٹم یا قبیلے کی صورت میں رہنا شروع کر دیں گے۔

اس پورے بینکنگ کے سودی نظام کو چلانے کے لیے بٹ کوائن جیسی برقی کرنسی، کوانٹم کمپیوٹنگ اور مشین لرننگ کا سہارا لیا جائے گا۔ کھانے بنانے سے لے کر کپڑے بنانے کا عمل آٹومیشن کے ذریعے بغیر انسانوں کے سر انجام پائے گا۔ خریدنے بیچنے کا عمل برقی ہو گا یعنی چیز خیرید کر مل جائے گی اور رقم آر ایف ٹیکنالوجی،فرد کی آنکھ کی بائیومیٹرک سے منتقل ہو جائے گی۔ کچھ ہی شہر بچیں گے جہاں صفائی ستھرائی اور ان تمام آٹومیٹڈ چیزوں کا انتظام ہو گا۔ جیسے سعودیہ میں صرف نیوم ہی ایسا شہر ہو جہاں ان سب چیزوں کا انتطام ہو گا۔ باقی سب شہر جھاڑ جھنکار کا منظر دیتے ہوں گے۔

ایسے میں مشرق وسطی میں ایک جنگ ملحمۃ العظمیٰ یا آرمیگڈون اسی غلامی کے خلاف ہو گی جس پر ہر ہر عالم اور ریسرچر طویل گفتگو کر ہی چکا ہے۔
 
کورونا کے بعد بنتا نیا عالمی نظام: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
ہما یوسف20 مئ 2020

عالمی وبا تو تھمنے کا نام نہیں لے رہی مگر ہم تو ٹھہرے بے صبرے سو وبا کے بعد کا مستقبل جاننے کی تڑپ نے بے چین کیا ہوا ہے۔ جس ایک سوال نے بے چین کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس مستقبل کے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے والا ہے؟ اگر ہاں تو وہ نیا عالمی نظام کیسا ہوگا۔

جواب جو بھی ہو لیکن ایک بات واضح نظر آرہی ہے کہ پاکستان اس نئے عالمی نظام کے لیے تیار تصور نہیں ہورہا اور اس وقت تک یہ تیار نہیں ہوگا جب تک پاکستان اپنی فرسودہ خارجہ پالیسی سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

جغرافیائی سیاست سے متعلق جنم لینے والا سوال دراصل چین اور امریکا کے درمیان تناؤ کا شاخسانہ ہے۔ وبائی حالات سے قبل ٹیرف اور تجارت پر جاری تکرار اب پروپیگنڈا جنگوں کی صورت میں شدت اختیار کرچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں سپر پاور ایک دوسرے پر وائرس کے پھیلاؤ کا الزام دھرتے نظر آتے ہیں۔

امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بار بار کورونا وائرس کو 'چینی وائرس' پکارے جانے پر حسبِ منشا اثرات مرتب ہوئے، جس کا اندازہ PEW کے سروے سے لگایا جاسکتا ہے۔ مارچ میں کرائے گئے سروے میں 66 فیصد امریکیوں نے چین مخالف رائے کا اظہار کیا، واضح رہے کہ PEW نے امریکیوں سے سوال پوچھنے کا سلسلہ 2005ء میں شروع کیا تھا، لیکن اس سے پہلے چین مخالف امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔
دوسری طرف چین نے عالمی حکمرانی پر قابض ہونے کے لیے اپنی صلاحیت اور طاقت کو ثابت کرنے کی خاطر وبا سے لڑنے کے لیے امریکی کمزوریوں اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی حکمت عملی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ہے۔

جہاں امریکا اور برطانیہ کو کورونا وائرس ٹیسٹنگ کے سلسلے کو وسعت دینے میں مشکلات کا سامنا ہے وہیں چین نے ووہان کے ہر ایک شہری کا ٹیسٹ کرنے کا پلان پیش کردیا ہے۔ چینی اخبارات روزانہ ان خبروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں کہ وائرس پر ضابطہ لانے کے لیے ان کی حکومت کے اختیار کردہ طریقے کو کس طرح پوری دنیا میں اختیار کیا گیا ہے۔

اور ایک طرف جہاں مغربی ممالک نے ایک دوسرے کو طبّی سامان کی ترسیل بند کردی ہے وہیں چین عالمی سورمہ بن کر ابھرا ہے اور چہرے کے ماسک، سانس لینے والے آلات اور وینٹی لیٹر کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے اور انہیں پوری دنیا میں کھلے دل کے ساتھ تقسیم کرتا جا رہا ہے۔

سربیا کے صدر نے چین کے بدلتے تاثر کو اس وقت ثابت کردیا جب انہوں نے یورپی اتحاد کو 'پریوں کی کہانی' پکارتے ہوئے مسترد کردیا اور چین کو وہ واحد ملک قرار دیا جو ان کے ملک کی عوام کی معتبر انداز میں مدد کرسکتا ہے۔

تو کیا ایک نئی سرد جنگ ہونے کو ہے؟ آئندہ ایک عرصے تک تو اس کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ دراصل امریکا اور چین اقتصادی اعتبار سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ کسی فوری بحران کا واقع ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ برآمدات کے اعتبار سے چین امریکا کی تیسری سب سے بڑی اور تیزی سے پھلتی پھولتی منزل ہے جبکہ سب سے زیادہ امریکی خزانے کی سیکیورٹیز بھی چین کے پاس ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں تجارتی خسارے کو کم کرنے پر اتفاق ہوا ہے، جس کے تحت چین نے امریکا سے اضافی 200 ارب ڈالر کی مصنوعات خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔

امریکا عالمی وبا سے متعلق سپورٹ پیکجوں اور بیل آؤٹ کے لیے جس بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کر رہا ہے ایسے میں واشنگٹن چینی مطالبے کو نظر انداز کرنے کی حالت میں نہیں ہوگا۔ (ستم ظریفی تو دیکھیے کہ امریکا بھی جلد اہم طبّی سامان خریدنے کے لیے چین کا رخ کرے گا کیونکہ اس وقت امریکا میں عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ ماسک کی تعداد کے مقابلے میں صرف ایک فیصد ماسک دستیاب ہیں اور سانس لینے والے آلات کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے، جبکہ مطلوبہ وینٹی لیٹروں کے مقابلے میں صرف 10 فیصد وینٹی لیٹر دستیاب ہیں)

دوسری طرف چین کے لیے بھی سب اچھا نہیں ہے بلکہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں چونکہ برآمدات کا حصہ 20 فیصد ہے اور عالمی وبا سے پہلے ہی اقتصادی پیداوار تنزلی کا شکار ہو رہی تھی، اس لیے وہ کبھی بھی غیر ملکی طلب کے سب سے بڑھ کر ذریعے کو گنوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پھر امریکی ٹیکنالوجی اور جدت، ڈالر منڈیوں اور عالمی سپلائی چین، جس میں امریکا بھی شامل ہے، چین وہاں تک رسائی کا سلسلہ بحال رکھنا چاہتے ہے۔

مگر عالمی وبا نے دنیا کی تمام ریاستوں کے سامنے ان کے وجود سے متعلق چند بنیادی سوال رکھ دیے ہیں جس کے جوابات ممکن ہے کہ دو قطبی امریکا بمقابلہ چین عالمی فریم ورک کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

جمہوریت یا آمریت؟ تحفظِ تجارت یا آمریت؟ سرکاری یا نجی شعبہ؟ مرکزیت پسندی یا علاقائی سوچ؟ جب ممالک یہ فیصلہ کریں گے کہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے انہیں کون سا راستہ چننا ہے تو اس طرح وہ قدرتی طور پر کسی ایک سپرپاور کی صف کی طرف بڑھتے پائیں گے۔

چند ایسے بھی متحرک عناصر ہیں جو ابھرتے ہوئے عالمی نظام کی اس قسم کی تقسیم کو متاثر یا مؤخر کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ (یا اس کی ذیلی عالمی ادارہ صحت) جیسے بین المملکتی اداروں کے کردار اور اہمیت آئندہ کچھ عرصے میں بحال ہوسکتی ہے کیونکہ ہم سب عالمی وبا سے نجات پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔


متوسط حیثیت کے ملکوں کے درمیان، مسئلے کی بنیاد پر عارضی اتحاد قائم کرنے کی ایک نئی ریت بھی وجود میں آسکتی ہے۔ ایسے کئی ملکوں کی مثالیں سامنے آئی ہیں جو امریکا اور چین دونوں کے طرزِ عمل میں خود کو تنہا پا رہے ہیں اور مسائل کے حل کے لیے نئے اتحاد کی بنیاد ڈالی۔

مثلاً، ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد جب امریکا ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ سے الگ ہوا تو آسٹریلیا اور جاپان مشترکہ طور پر ٹی پی پی-11 تجارتی اتحاد کا قیام عمل میں لائے۔ دیگر وہ مسائل جن کی بنا پر آئندہ دہائیوں کے دوران امریکا اور چین کے اثر و رسوخ سے آزاد بین المملکتی اتحاد قائم ہوسکتے ہیں ان میں موسمیاتی تبدیلی، منظم علاقائی سپلائی چین، کارپوریٹ شفافیت اور ٹیکس چھوٹ، ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر اور سائبر نگرانی شامل ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ بدلتی جغرافیائی سیاست کے طوفان میں اپنی کشتی پار لگا سکے۔ ایک ایسی دنیا میں بھارت مخالف روش ہمارے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی جہاں ملکوں کے درمیان اتحاد ایک ایک مسئلے کی بنیاد پر جڑتے اور ٹوٹتے ہوں۔ ہم چین کی سیٹلائٹ ریاست بن کر بھی آرام سے نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ اس طرح پھر ہمارے اوپر ایسے غیر معمولی مسائل (آئی ایم ایف قرضہ، افغانستان) کی تلوار لٹکتی رہے گی جن پر امریکا کا اثر و رسوخ غالب ہے۔

عالمی وبا نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اتحادوں، منڈیوں، سپلائی چین، اور قومی اقدار کو زیرِ غور لاتے ہوئے ابھرتے عالمی نظام کے لیے خود کو تیار کریں۔ ہمیں یہ موقع ضائع کرنے کے بجائے اپنے سفارتی حلقوں اور پالیسیوں کے معیار میں بہتری لانی چاہیے تاکہ پاکستان ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری طرف چین نے عالمی حکمرانی پر قابض ہونے کے لیے اپنی صلاحیت اور طاقت کو ثابت کرنے کی خاطر وبا سے لڑنے کے لیے امریکی کمزوریوں اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی حکمت عملی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ہے۔
یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے باوجود چین اپنی کرنسی کو جان بوجھ کر آزاد نہیں چھوڑ رہا۔ اس کی بجائے وہ امریکی ڈالر خرید خرید کر اپنی قومی کرنسی کو مسلسل مصنوعی انداز میں مستحکم رکھے ہوئے ہے۔ معروف اشتہاری سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی یہ کھلواڑ پاکستانی کرنسی کے ساتھ 4 سال لگاتار کرتے رہے ہیں۔ یعنی وہ مارکیٹ میں قومی خزانہ سے ڈالر پھینک کر پاکستانی روپے کو خرید رہے تھے ۔ تاکہ اس کی قدر مصنوعی طور پر مستحکم رہے۔ جبکہ چین یہی کام اپنی برآمداد سے موصول ہونے والی آمدن جو کہ ڈالرز میں ہوتی ہے کا بے دریغ استعمال کرکے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین پچھلی کئی دہائیوں سے اس پالیسی پر چلتے ہوئے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا مگر عالمی زر مبادلہ کے ذخائر میں اس کی کرنسی کا حصص محض 2 فیصد ہے۔ اس کے برعکس امریکہ جو آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے کی کرنسی کے عالمی زرمبادلہ کے ذخائر میں حصص 62 فیصد سے زائد ہیں:
WB-PPPs.fw.png

Global-Reserve-Currencies-share-2018-q2.png


یوں چین نے اپنی قومی کرنسی کی قدر کے ساتھ خرد برد کرکے معاشی ترقی تو حاصل کر لی ہے۔ مگر دنیا پر حکمرانی کا خواب ایک خواب ہی رہے گا جب تک وہ اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر کے مقابلہ میں بطور متبادل متعارف نہیں کرواتا۔
 
چین، امریکا کے زیر قیادت عالمی نظام کے خاتمے کی علامت بن چکا ہے، سفارتکار
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 25 مئ 2020



5ecbf20ea4c1c.jpg

چین اور امریکا کے درمیان کوروبا وائرس کو لے کر لفظی جنگ بھی جاری ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
یورپی یونین کے امور خارجہ کے سربراہ جوزف بوریل نے چین اور امریکا کے مابین راستہ بنائے جانے کے معاملے اور یورپ میں بڑھتی ہوئی بحث و مباحثے کے دوران کہا ہے کہ ایشیائی صدی، امریکا کے زیر قیادت عالمی نظام کے خاتمے کی علامت بن چکی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’دی گارجین‘ کی

رپورٹ کے مطابق جرمن سفارتکاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’تجزیہ کار طویل عرصے سے امریکی کے زیر قیادت نظام کے خاتمے اور ایشیائی صدی کی آمد کے بارے میں بات کررہے ہیں، یہ بات اب ہماری نظروں کے سامنے ہورہی ہے‘۔

جوزف بوریل نے کورونا وائرس کی وبا کو ایک اہم موڑ قرار دیا اور کہا کہ ’دونوں اطراف (امریکا یا چین) میں سے کسی ایک کے انتخاب کرنے کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے‘۔


انہوں نے کہا کہ 27 ممالک کے یورپی یونین کو ’اپنے مفادات اور اقدار پر عمل کرنا چاہیے اور ایک یا دوسرے کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے۔

جوزف بوریل نے مزید کہا کہ ہمیں چین کے لیے مزید مضبوط حکمت عملی سمیت دیگر جمہوری ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بھی ضرورت ہے۔

یورپی یونین امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کے خلاف تضادم پر مبنی مؤقف کی حمایت کرنے سے گریزاں ہے۔


بوریل نے کہا کہ یورپی یونین چین کے معاملے میں محتاط تھا لیکن اب اس کا خاتمہ ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس ماہ متعدد یورپی اخباروں میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں چین کے حوالے سے مزید اجتماعی نظم و ضبط پر زور دیا گیا ہے۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات سے متعلق تھنک ٹینک کے ایسوسی ایٹ سینئر پالیسی کے ساتھی اینڈریو سمال نے کہا کہ بیجنگ کچھ عرصہ پہلے تک روس کے یورپی یونین کے شکوک و شبہات کو چھپانے میں کامیاب رہا۔

انہوں نے کہا کہ چین نے 8-2007 میں یورپ کی معاشی بحالی میں قرضوں سے متعلق اہم فیصلے لے کر مدد کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کا چین پر سخت مؤقف تھا لیکن اگر یورپ نے چین کو یکسر طور پر مسترد کر دیا تو اس کے پاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں مرکزی ساتھی بچے گا۔

واضح رہے کہ امریکا نے چین اور روس پر کورونا وائرس وبا کے بارے میں غلط بیانیہ پھیلانے کے لیے تعاون بڑھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیجنگ، ماسکو کی بنائی گئی تکنیک کو اپنا رہا ہے۔

خارجی پروپیگنڈا پر نظر رکھنے والے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے گلوبل انگیجمنٹ سینٹر کی کوآرڈینیٹر لیا گیبریل نے کہا تھا کہ ’کورونا وائرس بحران سے پہلے ہی ہم نے پروپیگنڈا کے میدان میں روس اور چین کے درمیان ایک خاص سطح کی ہم آہنگی دیکھی تھی‘۔

واضح رہے کہ امریکا اور چین کے مابین ٹیرف میں اضافے پر کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے مابین صورتحال مزید تشویش ناک ہوگئی جب امریکا نے الزام لگایا کہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ چین ہے، اس نے ووہان کی لیبارٹری میں وائرس تیار۔

بیجنگ نے امریکا کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وائرس امریکی فوجی اہلکار چین لے کر آئی اور امریکا، چین کے ساتھ تعلقات کو سرد جنگ کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

کورونا وائرس کے معاملے پر چین اور امریکا کے درمیان ایک عرصے سے لفظی جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری جانب اگر بات کی جائے امریکا میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا تو وہاں 16 لاکھ سے زائد افراد وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی مخالفت کی ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
محترم خلیل الرحمان صاحب

آداب

آپ کا مضمون تمام تر دلائل اور مباحثوں کو زیر بحث لا کر تجزیہ کا شاندار اظہار ہے ۔ ۔ خوشی ہو ئ کہ میری سوچ اور آپ کے خیالات میں کتنی مماثلت ہے ۔ ۔ ۔کاش کہ یہ صاحب اقتدار اور صاحب اختیا ر حلقوں کی نظر سے جلد گذرے اور ملک کا بھلا ہو۔ ۔ آمین ۔ ۔

مجھ نا چیز نے بھی ان معاملات کا اظہار ایک نظم کی صورت میں 22 اپریل، 2020 کو کیا ۔ ۔ گذارش بس یہ ہے کہ شاعری کی محض ابتدا تھی تو اغلاط سے صرف نظر کیجیئے گا اور خیا لات کو ہی قابل توجہ سمجھیئے گا ۔ ۔

مغرب کی ترقی کو ہے اوقات د کھا دی

ایمان کی دولت کی ضرورت بھی بتا دی


اس چھوٹے سے کیڑے نے محض چارہی دن میں

"ورلڈ آرڈر" کی ہے اینٹ سے ہی اینٹ بجا دی


کل ٹوٹے گا یا آج، مگر ٹوٹ رہے گا

نظام معیشت کو جو ہے دھول چٹا دی


ہو گا یہ زمیں بوس تلے بوجھ کے اپنے

قدرت نے جڑوں سے ہے جو اک اینٹ ہٹا دی


کل تک کہ جو رہتے تھے بد مست ، برے حال

ان کو بھی طہارت کی ہے تقریر رٹا دی


چھٹ جائیں گے اک روز سبھی ظلم کے بادل

اس سینہء مسلم میں ھے اک جوت جگا دی


اب چین، پاک و ترک کی منشا کے تحت ہی

وقت کا دھارا بہے گا یہ حقیقت بھی بتا دی
 

جاسم محمد

محفلین
خارجی پروپیگنڈا پر نظر رکھنے والے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے گلوبل انگیجمنٹ سینٹر کی کوآرڈینیٹر لیا گیبریل نے کہا تھا کہ ’کورونا وائرس بحران سے پہلے ہی ہم نے پروپیگنڈا کے میدان میں روس اور چین کے درمیان ایک خاص سطح کی ہم آہنگی دیکھی تھی‘۔
ایک جانب امریکہ چین کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے تو دوسری طرف چین امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ یوں یہ تجارتی جنگ یا سرد جنگ یا اسے آپ جونسا بھی نام دینا چاہیں بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔
Chinas-top-10-trading-partners.jpg

20334.jpeg

چین آخر کیوں امریکہ سے جنگ چھیڑ کر اپنی برآمداد پر قائم معیشت کو تباہ کرے گا؟ اور امریکہ کیوں اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے دوسرے بڑے ملک کے ساتھ کوئی پنگا لینا چاہے گا؟
 
Top